میں ادب کا طالب علم ہوں، لیکن کبھی اس بات پہ افسوس نہیں کرتا، ادب اور غیر ادب اس کی تقسیم ہی مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک موٹی تقسیم سے اگر ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ کسے ادب کہا جائے اور کسے نہیں تو آسانی کے لیے یہ ٹھیک ہی ہے۔ مگر میں خود کو کبھی ادب کی سرحدوں میں قید نہیں رہنے دیتا یا یوں کہیے کہ میں رہ ہی نہیں سکتا۔ میرے لیے تاریخ، مذہب اور زندگی سے متعلق ہر علم اہم ہے۔ روز کی شام کی چائے یا رات کے کھانے کے بعد کی چہل قدمی کے دوران میں مختلف مضامین پہ غور کرتا ہوں، اپنے ناقص مطالعے کی روشنی میں اس الجھی ہوئی کائنات کی گتھیوں کو سلجھانے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ اس کے متعلق کیا تصور کرتے ہیں مگر میرے لیے یہ کائنات جو تقریباً میرے آس پاس بستی ہے، جسے میں دیکھ، چھو اور محسوس کر پاتا ہوں، ہزاروں، لاکھوں قسم کی حیرانیوں کا بند ڈبہ ہے، میں اس ڈبے کو کھول کر اسے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کسی ایک واقعے کو کسی ایک بات کو۔ میں جانتا ہوں کہ ابدی یا ازلی حقیقت کچھ نہیں، نتائج کی تلاش بھی بے سود ہے، لیکن اس کے باوجود میں کسی کھوج میں ہوں۔ ایسی تسکین کی جو مجھے یہ محسوس کرائے کہ میں نے اپنے حصے کی کائنات کو جاننے کی کوشش کی۔
میں نے سوال قائم کیے، اسے سمجھنے کے لیے کتابوں اور اپنے آس پاس موجود عالموں کے خیالات کو کھنگالا اور جو بھی جانا سمجھا اس سے علم کے وجود کی ا ہمیت کو اثبات عطا کیا۔ میں غور کرتا ہوں۔ وقت پہ، اشیا کی ماہئیت پہ، قدیم واقعات کی رونمائی کے اثبات پہ، انسانی رویوں پہ اور فکر کی آخری چھور پہ کھڑی سچائی پہ۔ کئی مرتبہ اس غور کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوتا، مگر کئی بار انہیں میں سے مجھے نئے خیالات ملتے ہیں، ایسے جن سے میں خوش ہوتا ہوں،پر سکون ہوتا ہوں۔ اپنے فکر ی بہاو میں ایک قدم آگے بڑھنے پہ خود کو مبارک باد دیتا ہوں۔
ادب کے وجود پہ میرا غور اکثر چوطرفہ ہوتا ہے۔ یعنی میں ادب کی ماہئیت پہ غور کرتے ہوئے کائنات کے راستے پہ نکل جاتا ہوں اور کبھی اشیائے کائنات پہ غور کرتے ہوئے اس میں ادب کی جھلک دیکھنے لگتا ہوں۔ آپ کو یہ سب عجیب لگے گا، مگر میں اس فکری نہج پہ بہت سی چیزوں کے جواز پا لیتا ہوں۔ مثلاً کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم کسی بھی قسم کے بیان کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں؟ کوئی شاعر، کوئی مورخ، کوئی ادیب یا افسانہ نگار بس ایک بات ہی تو کہتا ہے۔ جسے ہم کبھی سمجھتے ہیں اور کبھی نہیں بھی سمجھتے۔ تو کیا یہ اتنی اہم چیز ہے کہ اسے سر آنکھوں پہ رکھا جائے۔ اسے اہمیت دینے والے لوگ اہمیت دیتے ہیں، لیکن جو نہیں دیتے وہ کیوں نہیں دیتے؟ یا آپ اس طرح سے سوچنے کے قائل ہیں کہ کتابیں آخر کیا کرتی ہیں یا کسی بھی طرح کا علم جس پہ انسانیت ناز کرتی ہے اس کی اہمیت ہی کیا ہے؟ میں نے اس پہ غور کیا ہے۔ گھنٹوں، دنوں اور مہینوں۔
انسان کچھ لکھتا ہے۔ کچھ کہنا چاہتا ہے اور اپنے حصے کا جو کچھ اسے محسوس ہو تا ہے وہ کہتا بھی ہے۔ پھر وہ ایک وقت کے بعد خاموش ہو جاتا ہے اور اس دنیا سے رخصت بھی۔ اس کا کہا، لکھا، باقی رہتا ہے اور وہ نہیں ہوتا۔ ہم اسے پڑھتے، سنتے اور جانتے ہیں، اسے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کہ خیالات کتنے مختلف ہیں۔ ان کے تجربات جسے انہوں نے زندگی سے جو کچھ اچھا برا سیکھا، جو جانا یا جو دیکھا اس شکل میں بیان کیا۔ اس سے ہم آشنا ہوتے ہیں۔ اس نظر سے چیزوں کے دیکھتے ہیں جو نظریں ہمارے پاس نہیں ہیں، اس سے کبھی اکتاتے ہیں اور کبھی محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرتے وقت ہم کتابوں اور لکھی ہوئی عبارتوں، سوچی ہوئی باتوں کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ یہ جان کہ آپ کو کیسا لگے گا کہ وہ کائنات جسے کسی بھی ایک شخص نے نہایت فرصت سے تعمیر کیا ہے، جسے اس نے اپنے رنگوں سے بنایا ہے وہ بالکل آپ جیسی ہے۔ ہم اپنی جیسی کائنات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یقیناً یہ کوئی خوشی کی بات نہیں۔ لیکن ہمیں لوگوں کے خیالات میں ایسی رنگین کائنات نظر آتی ہے، لیکن یہ اس وقت اور دلچسپ ہو جاتا ہے جب ہم اسی کائنات میں مزید مختلف رنگوں سے سجی ہوئی دنیا دیکھتے ہیں۔اس کی حیرانیوں میں کھو جا تے ہیں اور ایک نئے احساس سے دو چار ہوتے ہیں۔ میں اس احساس کو ایک نعمت سمجھتا ہوں، جو مجھے کسی بھی وجہ سے ایک نئے پن کا تازگی بخشتا ہے۔ ضروری نہیں کے آپ بھی اسی طرح سوچیں، لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ تصویروں، کتابوں اور نغموں سے میں ایسی بے شمار نئی تازگیوں سے دوچار ہوتا رہا ہوں۔
آج ہی شام کی بات لے لیجیےکہ آج میں نے کائنات کو سمجھنے دیکھنے اور جاننے کا ایک نیا رخ پایا۔ میں جو کل تک نہیں جانتا تھا، یا جن باتوں سے جان کر بھی انجان تھا، وہ آج کے غور و فکر سے مجھ پہ روشن ہوئیں۔ایک سادہ سی شام میں، جہاں میں اپنے روز کے دو دوستوں کے ساتھ چائے پینے گیا۔ پھر ٹہلتا ہوا ایک سنسان پتھریلے راستے پہ ایک چٹان پہ بیٹھ گیا۔ ڈوبتے سورج کو دیکھتا رہا، دوستوں کو اپنے لمحہ موجود ہ میں امنڈنے والے جذباتوں اور سوالوں سے پریشان کرتا رہا اور ایک خیال کی گہرائی میں کھو گیا کہ اشیا کی ماہئیت کا راز کس طرح وا ہو سکتا ہے۔ ادب اس معاملے میں کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا تو فزکس کی راہ سے اسے جاننے کی کوشش کی۔ جہاں تک اپنی معلومات نے ساتھ دیا وہاں تک خود غور کیا اور پھر اپنے ماموں جو فزکس کے پرو فیسر ہیں انہیں فون ملا دیا۔ آدھے گھنٹے تک اس موضوع پہ ان سے لیکچر سنا اور اس کے بعد اس چٹان سے اٹھ کر دوبارہ اپنے کمرے پہ آ گیا۔ یہ سب بہت عام سا معمول تھا، مگر اس معمول کے دوران مجھ میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ میں نے اشیا کی ماہئیت پہ غور کرتے ہوئے، چیزوں کو جاننے اور اس پہ نظر یں مرکوز کرتے ہوئے جس خیال کو اپنے وجود میں پاوں پھیلاتا ہوا محسوس کیا وہ اس معمول میں ایک نئی بات تھی۔ کیا ہو اگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اشیا کی ماہئیت پہ غور کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
میرے ماموں جنہوں نے مجھے یہ بتایا کہ ہم ایک بنیادی حقیقت سے اشیا کو سمجھتے ہیں جو خود ہماری طے کی ہوئی ہے۔ جس کی موجودگی ایک آفاقی اصول کے تحت سچ ثابت کی جا سکتی ہے، جسے آلوں سے ناپا اور جانچا جا سکتا ہے۔ ایک ٹھوس حقیقت جو ہمیں اصل سے دور کر کے ایک اصل عطا کرتی ہے۔ میں نے سمجھا کہ یہ کوئی دہری اصل نہیں، دراصل فزکس ہمیں کائنات کے جن اصولوں سے آگاہ کرتی ہے اس میں جس تحرک کا عمل دخل ہے وہ ادب کے قاعدوں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ بات اسی سےواضح ہو جاتی ہے کہ میں خود یہ محسوس کر پا رہا ہوں کہ خیال کی حقیقت زاویوں کی موجودگی سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے فزکس بھر پور نہیں پڑھی، بس اس کے چند قاعدوں کو سمجھا ہے، لیکن ادب کی دنیا میں داخل ہوتے ہی یہ قاعدے بہت عجیب و غریب انداز میں دلچسپ محسوس ہونے لگتے ہیں، انہیں دلچسپ قاعدوں کی بنیاد پہ لگتا ہے کہ کسی بھی فعل کو بیان کرنا اتنا بھی غیر اہم نہیں جتنا وہ ادب کی حد میں رہتے رہتے معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہ بحث اس بات کی نہیں کہ آپ کچھ کامیابی سے بیان کر پا رہے ہیں یا نہیں، بلکہ اس بات کی ہے کہ بیان کی اہمیت انسانی زندگی میں کتنی زیادہ ہے۔ میں نے فزکس کے قاعدوں سے یہ ادراک حاصل کیا کہ اشیا میں مجموعی طور پر ایک لہر پائی جاتی ہے، یعنی ایک نوع کی مجموعی تحریک ہے جو کائنات کو وجود میں لا رہی ہے اور اسے مزید بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ اس تھیوری پہ لاکھ مباحث سہی لیکن ذرا اسے اس نظر سے دیکھنے کی کوشش کیجیے کہ اشیا کی مجموعی حالت جب تقسیم ہو کر مختلف خانوں میں بٹ جاتی ہے اور زندگی اسی کے در میان اپنے پاوں پھیلانا شروع کرتی ہے تو لہر کے اندرکتنی مختلف نوعیتوں کی لہریں وجود میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً کائنات کے وجود میں آنے کا سبب خواہ کچھ بھی ہو، انسان، حیوان، نباتات اور جمادات خواہ کسی وجہ سے صفحہ ہستی پہ ابھرے ہوں، لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کے وہ ایک مجموعی حالت میں ہوتے ہوئے، ایک انفرادی کائنات کو مرتب کرنے کے مجاز ہیں۔ زندگی کی تحریک کائنات کے پھیلاو کی تحریک سے جدا صحیح لیکن اس کا ہونا ایک سچ ہے، مثلاً اگر کائنات کے پھیلاو سے کوئی مادہ ایسا وجود میں آیا ہے جس میں زندگی مفقود ہے تو وہ اس تقسیم کو اجاگر کرتی ہے کہ زندگی کا موجود ہونا کسی انعام سے کم نہیں۔ اس پہ مزید یہ کہ زندگی کا وجود ہمیں ایک ایسی تحریک بخشے جس میں ہم دیکھنے، محسوس کرنے اور اس کے بعد بیان کرنے پہ بھی قادر ہوں تو یہ اس سے بھی بڑا انعام ہے۔
آپ تصور کیجیے کہ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس بہتی ہوئی کائنات میں آپ ایک مٹی کا ڈھیلا، درخت کا تنا، شیر کا پنجہ یاچیزوں کا سایا بن کے بھی وجود میں آ سکتے تھے۔ کچھ ایسا بھی بن سکتے تھے جس سے آپ کے ہونے کا احساس انفرادی تو ہو، لیکن یہ اثبات کبھی مجموعی نہ ہو پائے، خواہ وہ کتنے ہی تنگ دائرے میں ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کسی کے پاوں کی دھول بھی ہو سکتے تھے یا پانی کی ایک گدلی بوند بھی۔ مگر یہ خیال کتنا تقویت بخش ہے کہ ہم اور آپ ایک انسان ہیں۔ وہ جو نہ صرف دیکھ، چھو اور محسوس کر سکتا ہے بلکہ بول بھی سکتا ہے۔ اب اس انعام کے حوالے سے انسانی وجود میں آنے والی آوازوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں کتنی مختلف کائنات نظر آتی ہے، جس میں ہم ایک ایسے متحرک وجود کے ساتھ پائے جاتے ہیں جہاں ہم کسی ایک زاویے سے نہیں بلکہ اپنے اطراف کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں اور وہ بھی کائنات کی ہر شے کے انفراد کے ساتھ۔ سب کچھ آپ کے آس پاس ہے، مگر وہ سب آپ کے ہونے سے جڑا ہوا ہے۔ آپ اگر شمال سے جنوب کی طرف دیکھیں تو ایک دنیا دکھے اور جنوب سے شمال کی جانب دیکھیں تو دوسری۔ کائنات کا ایسا اثبات کسی فسوں سے کم نہیں اور پھر آپ اسے بیان میں لاتے ہیں تو اس کی اہمیت وقت کے بہتے ہوئے دھارے میں آکر مزید معنی خیز ہو جاتی ہے۔ میں ان تمام باتوں کو ادب کی ناگزیر حالت کے ذیل میں رکھتا ہوں۔ جس سے مجھے اس کے مطالعے یا علم کے وجود میں آتے چلے جانے کا جواز ملتا ہے۔ آپ اس سے مختلف انداز میں سوچ سکتے ہیں۔ اس سے کائنات میں کوئی تبدیلی تو نہیں آتی، بس ہم پہ کچھ باتیں اجاگر ہو جاتی ہیں کہ کچھ بھی کہنا جو آپ محسوس کر رہے ہیں وہ کتنا ضروری ہے اور علم کا بڑھتے چلے جانا بھی کس قدر ضروری ہے، اس احساس کے باوجود کے آپ کبھی کسی انتہائی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
Image: Duy Huynh