دیگر بچوں کی سی تیز طراری اس میں نہیں تھی۔۔۔اس کی بیرونی رسائی کا دائرہ نہایت محدود تھا۔
وہ امی سے اکثر پوچھتا کہ وہ کب اسکول جائے گا؟ امی اسے کہتیں کہ جب وہ پانچ سال کا ہوگا تب اسے اسکول میں داخل کروایا جائے گا۔ بہن بھائیوں کے علاوہ گھر کے سامنے سے گزرتی سڑک پر اسکول جانے والے بچے بچیوں کے قافلے اس کے ننھے منے ذہن میں اسکول جانے کی خواہش ابھارتے رہتے۔
جلد ہی وہ پانچ سال کاہو گیا۔
کلاس میں پہلی بار حاضری کے لیے اس کا نام پکارا گیا تو مسرت اس کے رگ و پے میں قلانچیں بھرنے لگی۔
پہلی بار نام پکارے جانے کے ساتھ ہی اس کے محلے سے تعلق رکھتے ماسٹر جی نے جو اضافی جملے ادا کیے انھوں نے قلانچیں بھرتی مسرت کودبوچ کر یکدم مفلوج بھی کر دیا۔
پہلے پہل کے وہ ہتک آمیز جملے اس کے معصوم لیکن حساس ذہن کے لیے پہلا دھچکا تھے۔کلاس میں موجود دیگر بچوں کی ہنسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
گھر جا کر اس نے امی سے پوچھا “امی ہم کون ہیں؟؟”
“ہم۔۔۔؟؟”
اس کی امی کچھ کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
“اچھا مجھے وہ سبق سناؤ ذرا۔۔۔بتاؤ ہمارا رب کون ہے؟”
اس کی امی سوال دہرانے لگی اور وہ میکانکی انداز میں امی کے ہر سوال کا جواب دیتا گیا۔
“ہم سب کیا ہیں؟؟”
“بھائی بھائی!”
اس نے امی کے آخری سوال کا جواب دیا۔۔۔دہرائی پورا ہونے پر امی نے اسے ایک روپیہ دیا تھا اور دوڑتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا۔
وہ مڈل سیکشن کی دہلیز پر کھڑا تھا۔۔۔ وہ ہر روز گٹر میں ڈبویا جاتا۔۔۔ ایک جملہ ایک ڈبکی۔۔۔ ایک اور جملہ۔۔۔ایک اور ڈبکی۔۔۔۔
وہ سر جھکاتا تو قمیض پر بٹنوں کی جگہ اسے لال بیگ دکھائی دیتے۔ ۔۔
وہ سر جھکاتا تو قمیض پر بٹنوں کی جگہ اسے لال بیگ دکھائی دیتے۔ ۔۔
کراہت کا وہ احساس اس کے حساس ذہن کے لیے ناقابلِ بیان اذیت کا باعث بنتا۔قمیض کے کالر پر اس کی مضبوط گرفت کی تاب نہ لاکر کوئی لال بیگ اس کی گود میں بھی جا گرتا۔ گود میں جب لال بیگ بھی اسے ہنستا ہوادکھائی دیتا تو وہ آنکھیں بند کر لیتا۔۔۔
سورج بنا رکے مصروف و مگن رہ کر اسے گیارہویں سال میں لے آیا تھا۔۔۔
ایک شام وہ ہانپتا کانپتا گھر میں داخل ہوا۔۔۔امی ابو کو ساری داستان سنائی۔۔۔اس کے قریبی دوست نے کچھ مقدس ہستیوں کے بارے میں ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کیے تھے جنھیں سن کر اس کا بھڑک اٹھنا یقینی تھا۔
امی ابو نے وہ سب کچھ سننے کے بعدایک نیا انکشاف کیا تھا۔۔۔ایک نئی شناخت۔۔۔اگرچہ وہ نئی شناخت جوش و خروش کے ساتھ تفاخر کی پلیٹ میں سجا کر پیش کی گئی تھی لیکن اس کے کے باوجود اسے اپنے کپڑوں کے اندر جسم پر ہزاروں لال بیگ رینگتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔۔۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امی، ابو اور دوست بھی اسے ماسٹر جی لگنے لگے۔۔۔اس کا دل چاہتاکہ اس کی امی اس سے پھر وہی سبق سنیں جو اسکول جانے سے پہلے پڑھایا کرتی تھیں۔۔۔اس کے دماغ میں سینکڑوں سوالات کلبلاتے۔۔۔ لیکن امی ابو تو ماسٹر جی بن چکے تھے۔۔۔ وہ پوچھتا تو کس سے۔۔۔
دن رات کا ادل بدل جاری تھا۔۔۔
بظاہر وہ ہزاروں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح طے شدہ راستے پر چلا جا رہا تھا۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر اور اس کے ارد گرد لوگوں پر کوئی نہ کوئی نیا لیبل چسپاں ہوتا رہا۔۔۔
امی کا یاد کروایا پہلا سبق ایک کڑی کسوٹی بن کر اس کے دل و دماغ کے دروازے پر مضبوط چٹان کی طرح گڑا ہوا تھا۔۔۔
ہر نیا سبق اس کے دل و دماغ کی دہلیز پار کرنے سے پہلے ہی اس چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا۔۔۔
لیکن ارد گرد کے ٹھوس حقائق سے آنکھیں چرانا بھی اسکے بس میں نہیں تھا۔۔۔وہ سبق بھی اپنی اہمیت کھو رہا تھا۔۔۔
چٹان اپنی جگہ چھوڑ رہی تھی۔۔۔
اتنی کراہت۔۔۔اس قدر اذیت۔۔۔بلا کا اضطراب۔۔۔
یہ کیسی شناختیں تھیں جو اسے بے شناختی کی طرف لیے جا رہی تھیں۔۔۔
اس کے اندر جاری ٹوٹ پھوٹ کے لیے شدت کا لفظ اپنی تمام تر صورتوں سمیت بہت ہی چھوٹا تھا۔۔۔
اسے منزل کی جگہ کبھی آگ دکھائی دیتی اور کبھی دلکش اور حیات افروز وادیاں۔۔۔
اس کے آس پاس ایک دوسرے کو آگ میں دھکیل کر خوشیاں مناتے لوگ تھے۔۔۔
اپنی اپنی حرکات و سکنات کی بنا پیندے کی صراحی میں شرابِ طہور کے نظارے لینے والے لوگ۔۔۔
کشمکش، اضطراب اورتشکیک کا خوفناک بگولہ بِن رکے اسے گھمائے اور اٹھائے چلا جا رہا تھا۔۔۔
اس کے قدم کب کے وہ زمین چھوڑ چکے تھے جس پر اس نے آنکھ کھولی تھی۔۔۔
اور جب بگولے نے اسے پٹخا تو اس نے خود کو ایک ایسے راستے کے کنارے پر کھڑاپایا جس پر کروڑوں کی بھیڑ ناک کی سیدھ میں بڑھی چلی جا رہی تھی۔۔۔اس بھیڑ میں اس کے امی،ابو اور بہن بھائی دوست حتیٰ کہ اس کے استاد بھی شامل تھے۔۔۔
چھوٹے بڑے کی تفریق اور تخصیص کے بغیر ہر فرد جو بھیڑ کا حصہ تھا اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی سے لا علم تھا۔۔۔یا شاید وہ نادیدہ پٹی صرف اسے ہی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
اس نے امی ابو کو پکارا۔۔۔
اپنے بہن بھائیوں کو۔۔ اپنے دوستوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔
لیکن سب نے اُسے ایسے دیکھا جیسے کسی بھٹکے ہوئے یاگمراہ کو دیکھا جاتا ہے۔۔۔
دور کہیں بہت دوراُس مرکزی راستے کا آغاز اُسے صاف دکھائی دے رہا تھا۔۔۔اُس رستے کا آغاز جس پر سب کے سب اندھا دھند ناک کی سیدھ میں بڑھے چلے جا رہے تھے۔۔۔نادیدہ پٹیاں بانٹی جا رہی تھی۔۔۔گروہ در گروہ۔۔۔طبقہ در طبقہ۔۔۔
بانٹنے والوں کے مخصوص حلیے اس کی آنکھوں کی ریٹیناپر جیسے جم سے گئے تھے۔۔۔
اس نے راستے کے اختتام کی طرف دیکھا اور بے انتہا تپش سے اس کی غیر مرئی نگاہیں تک بھاپ میں تبدیل ہو گئیں۔۔۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
اسے اپنی گردن کے پیچھے کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔شایدکوئی لال بیگ ابھی باقی تھا۔۔۔
آخری لال بیگ نے اس کے بائیں کندھے پر کچھ دیر ٹھہر کر اسے جانی پہچانی لیکن بری نظروں سے دیکھا۔۔ اور اپنے معدے میں خود ساختہ فاضل جکڑ بندیوں کی باقیات چھپائے ایک اڑان بھر کر سامنے راستے پر والدین کی انگلی تھامے ایک بچے کے سر پر جا بیٹھا۔۔۔