بچے اب درختوں پہ اگیں گے
جنم لینے سے انکار سمے
بچے نے ڈائری لکھی
جس میں
بم دھماکوں سے
بہرے اور اندھے ھونے والے بچوں کی آپ بیتیاں تھیں
ماؤوں کی خوفزدہ سانسوں میں
بسی کہانیوں میں
درد زہ کی چیخیں تھیں۔
زمیں بوس عمارتوں کے ملبے سے
خون آلود لاشیں
ظلم کے خلاف نعرے لگاتی بر آمد ہوئیں۔
حاملہ عورتیں جو بمباری کے زہریلے دھوئیں میں
مرنے کے قریب ہیں
دسویں مہینے میں بھی
بچوں نے جنم لینے سے انکار کر دیا
انھوں نے آپریشن تھیٹر جانے سے پہلے بتایا
داستانوں کی ڈائری کے لکھاری میں
گل مکئی لکھا جائے
تو شاید
انسانی لاشوں سے
ایسا تخم اگے
جو زمیں کی پیشانی کو سیندور سے بچا سکے۔
ورنہ بچوں کو
درختوں پہ اگنا پڑے گا۔
درخت یہ سن کر تھر تھر کانپ رہے ہیں۔
انھوں نے لاشوں کے ڈھیر دیکھ کر
خود کو بانجھ کر لیا ہے۔
کوئی انکی مددکو نہیں پہنچا
ابھی تک
آگ لگانے والے مفرور ہیں۔
Leave a Reply