Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

طویل افسانے کی نظری اساس

test-ghori

test-ghori

27 نومبر, 2018

صنف کی شناخت،ادبی صنف کاتعین،ادبی صنف کے امتیازی نشانات،ہیئت ومواد کی سطح پر صنف کے فاصلاتی وشناختی خصائص کی نشاندہی،یہ صنفیاتی مطالعے کے اہم موضوعات ہیں جو کسی صنف کی وجودیات پرمکالمہ قائم کرتے وقت زیر بحث آتے ہیں۔جدیدفکشن کی تاریخ میں ناول،ناولٹ،طویل افسانہ اور مختصر افسانے کی مختلف شکلیں ہم رشتہ تصور کی جاتی ہیں۔اس وقت ہمارے زیر بحث طویل افسانے کی وجودیات ہیں۔ان خطوط کی تلاش جو طویل افسانے کو مختصر افسانے سے مختلف بناتے ہیں،ہمارا عین مدعا ہے۔

صنف فقط ہیئتی تجربے کانام نہیں ہے۔تجربے کاتسلسل واستحکام بھی صنفی شناخت کالازمہ ہیں بلکہ یہ کہہ لیجیے کہ ادبی روایت میں بہ تکرار کسی تجرباتی شناخت کا ورودتجربے کوصنف کی صورت دینے میں اہم رول اداکرتاہے۔اردو کی ادبی روایت میں ہیئت اور مواد دونوں ہی صنف کی تشکیل اور شناخت میں اہم رہے ہیں۔ہمارے یہاں ایسی کئی اصناف ہیں جو صرف موضوع کے اختلاف کی وجہ سے صنفی شناخت کی حامل ہیں۔غزل قصیدے کی ہیئت میں لکھی جاتی ہے بلکہ وہ تو اس کے بطن سے پیداہوئی اورقصیدے کے ایک جزء نے صنف کی صورت لے لی(بعض ناقدین اس خیال کو غیر تاریخی اور غیر منطقی خیال کرتے ہیں۔)۔اس ہم رشتگی کے باوجود غزل کے ہر شعر کی خود مکتفی حیثیت اس کی شناخت کااہم پہلو ہے۔غزل اور قصیدے میں خیال کی سطح پر پائی جانے والی دوئیاں بھی اہم ہیں۔قصیدہ اپنے اجزائے ترکیبی میں جس نظم وضبط،تسلسل وارتقااور موضوعاتی دائرہ کاپابند ہے،غزل ہرگز نہیں ہے۔حمد اورنعت ہیئت میںغزل سے مشابہت رکھتی ہیں،اس کے باوجود موضوع کااختصاص انھیں صنفی شناخت عطاکرتاہے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ صنف کو شناخت کرنے کاکوئی لگابندھااصول نہیں ہے اور نہ ہی صنف کے خودساختہ اورکسی صنف سے ہم رشتہ نہ ہونے کاتصور قائم کیاجاناہی ممکن ہے۔صنف موجود متن سے برآمد ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک نئی زبان دوسری موجود زبان سے۔

صنفی شناخت اور اس کے ایسے امتیازی اوصاف کاتعین جوصرف اسی صنف کے ساتھ خاص ہوں،آسان کام نہیں ہے۔صنف شناسی کے کاوشیں صنفی شناخت کالگابندھااصول دریافت کرنے،ہیئت ومواد کی سطح پر انفرادیت،ندرت،دیگر اصناف سے کلی اختلاف کو قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔صنفیات کے باب میں یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ادبی متون سے اکتساب ومماثلت کے باوصف کسی بھی نومولود صنف کی اپنی علاحدہ شان قائم ہوتی ہے یانہیں۔ایسے امتیازی نشانات جو صنف کی ناگزیریت کو باور کراتے ہوں،کاپایاجاناہی صنفی شناخت اوراستحکام کے لئے کافی ہے۔بس تجربے کے تسلسل،مقبولیت اور روایت کاحصہ بننے میں اس کی کامیابی لازمی ہے۔قاضی افضال حسین نے صنفی نشانیات کی اہمیت متن کی تشکیل میں اس کے کردار پر معنی خیز گفتگو کی ہے اگر چہ ان کی گفتگو نظمیہ اصناف کے ذکر پر مبنی ہے لیکن تخلیقی عمل میں صنف کے تشکیلی اجزاء کی کارفرمائی کو سمجھنے میں معاون ہیں۔وہ لکھتے ہیں :

’’اصناف کی امتیازی صفات،صرف صنف کی شناخت کا فریضہ انجام نہیں دیتی بلکہ متن کی تخلیق کے عمل (Process)میں اس کے تشکیلی اجزاء کے تفاعل یعنی Function بھی متعین کرتی ہیں۔یعنی ہر صنف میں متن مرتب کرنے کے اصول اس کی صنفی شناخت کے پا بند ہوتے ہیں۔غزل میں الفاظ کے ارتباط کی نوعیت اور اس ارتباط سے برآمد ہو نے والے معنی یا ان کی تعبیرات،قصیدہ،مثنوی یا جدید نظموں میں الفاظ کے باہم ارتباط سے برآمد ہو نے والے معنی سے بالکل مختلف طور پر نمو کرتی ہیں۔‘‘(۳۷صنف کی تشکیل،امتیازات اور اردو کی اصناف سخن،مرتب افضال)

نظم کے مقابلے میں نثر کامعاملہ مختلف ہے بالخصوص ایسی نثر جو واقعہ اساس ہو۔اب واقعہ اساس نثر میں بھی افسانوی نثر اور غیرافسانوی نثر کے مابین حدفاصل موجود ہے۔ناول، ناولٹ، طویل افسانہ اور مختصر افسانہ واقعہ اساس ہیں۔خاکہ،سوانح اوررپورتاژ بھی واقعہ اساس ہیں لیکن ان مابین فرق یہ ہے کہ ان میں ایک کے واقعہ کی صداقت،تاریخیت،واقعیت اورصحت ناگزیر ہے اوردوسرااس سے بے نیاز ہے۔وہاں توبس واقعہ کااس کی امکانی صورت میں ہوناہی کافی ہے،چاہے وہ واقع ہوا ہویانہ ہوا ہو۔ناول،افسانہ میں واقعہ کاحجم اورجہت،پیشکش کاطریقۂ کار حد فاصل قائم کرتے ہیں۔یہاں جو بات تمام جدیدافسانوی اصناف میں مشترک ہے وہ یہ کہ یہاں واقعہ میں سبب اور نتیجے کانسبت کاہونالازمی ہے۔واقعہ کی امکانی صورت منطق سے جس قدر قریب ہوگی،اس کے مختلف پہلواور جہتیں اسی قدر مربوط،منظم،چست اور درست ہوگیں۔

ناول سے پہلے ہمارے یہاں شافی وکافی نثری افسانوی بیانیہ داستان ہے۔داستان اورناول کے مابین رشتہ ہے،زبان کا،واقعہ کا،کردارکا،منظر کشی کا،عمل وردعمل کا لیکن ان کے مابین واقعہ کی منطقی امکانی صورت کی شرط حد فاصل کوقائم اور مستحکم کر دیتی ہے۔مزید زمانی عرصہ کی صراحت ناول کی صنفی شناخت کومزیداجالتی ہے۔کرداروں کی باہمی کشمکش،وقوعات کاتصادم،تطابق وتخالف اور اس سے متشکل ہوتے منطقی زمانی ومکانی بیانیے سے وسط وانجام کی طرف بڑھتاقصہ ناول کی تکمیل کرتاہے۔ناول کے برخلاف داستان میں ہم منطقیت کی شرط کو لازم خیال نہیں کرتے۔داستان ایسی تہذیبی وتمدنی معاشرت کی زائیدہ ہے جہاں اسطوراورمافوق الفطرت عناصر کی کارفرمائی بہت سی مشکلات حل کردیتی ہے۔اسی طرح زمان ومکان کی تبدیلی بھی وہاں اس منطق کی پابند نہیں ہوتی جوکہ ناول کاخاصہ ہے۔داستان کی اپنی جداگانہ منطق ہے۔موضوع کی سطح پر ناول خیر وشر کی ایسی آماجگاہ نہیں بنتاجیسی کہ داستان۔ناول کے کرداربشری جون میں اچھابراسب کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔داستان کی صنفی خصوصیات پر گفتگو کرتے ہوئے افضال حسین نے لکھاہے:

ــ’’۔۔۔۔داستان میں واقعہ اور اس کے کردار جس مخصوص فکری اور تہذیبی بنیادوں پر تشکیل دئیے گئے ہیں اس میں سبب اور نتیجے والی منطق کہیں بھی استعمال نہیں ہوئی ہے۔گھنے اندھیرے جنگل میں،زمین کے نیچے محل کیسے نکل آتا ہے یا کٹی ہوئی گردن سے ٹپکنے والا خون دریا میں گرتے ہی کیسے لعل بن جاتا ہے داستان کا قاری،اپنے متن سے یہ سوال نہیں کرتا۔جس تہذیبی اور فکری ماحول میں داستانیں لکھی گئیں ان میں رچا بسا قاری اس پر یقین رکھتا ہے کہ قدرت کا کارخانہ ایک قادر مطلق کی منشا کا ظہور ہے۔اس لئے اس میں جو وہ چاہے وہ بلا اسباب ہونا ممکن ہے کہ اس نے جو کہا وہ ہو گیا۔ اس لئے داستان کے کرداروں نے ماحول معاشرت یا زمانے کی تبدیلی کے سبب کوئی تغیر / ارتقا بھی نہیں ہوتا۔‘‘۳۹،۴۰ایضا
ناول اورافسانے کی اساس بھی جیسا کہ پہلے ذکرآیامنطقی واقعہ ہے۔دونوں جگہوں پر سبب اورنتیجے کی کارفرمائی ناگزیر ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ناول میں کردار کاارتقاہوتاہواور افسانے میں نہ ہوتاہو۔البتہ تطابق وتخالف کی جوصورت ناول میں ہوتی ہے افسانے میں نہیں ہوتی۔کرداروں کاتفاعل عمل کے تسلسل اورتکرار کی جوصورتیں پیدا کرتاہے،اس سے ناول کی واقعاتی اساس افسانے سے علاحدہ ہوکر قائم ہوتی ہے۔اس نکتہ کوواضح کرتے ہوئے افضال حسین نے لکھاہے:

’’ناول کے کرداروں میں ارتقاکے تصور کے ساتھ ہی ان کے اعمال میںتکرار کی صفت لازماً موجود ہوتی ہے یعنی مختلف situationsمیں کردار ایک خاص طرح عمل کرتے ہیں۔مختلف صورت حال میں عمل کے اس تکرار کے سبب قاری ان کی فطرت یا صفات کے متعلق قیاس یا فیصلہ کر سکتا ہے۔ افسانہ میں عمل یا Behaviourکے تکرار کی فضا نہیںہوتی یا متعدد واقعات کے باہم عمل اور رد عمل کا کوئی سلسلہ قائم ہو سکتا ہے (صرف ان افسانوں کے علاوہ جو کسی کردار کی صفات کے متعلق لکھے گئے ہوں )،اس لئے افسانے میں واقعہ بیشتر کشمکش کے بیان سے شروع ہو کر سبب اور نتیجے کے منطقی انجام پر ختم ہوتا ہے۔اس لئے خود واقعہ کی تعریف میں اشتراک کے باوجود افسانہ ناول سے الگ صنف کی حیثیت سے قائم ہو گیا ہے۔ ۴۰،۴۱ایضا‘‘
ناول اور ناولٹ کا مسئلہ اس وقت زیر بحث آیا جب شہاب کی سرگزشت،ایک شاعر کا انجام،شاما،ایک چادر میلی سی،مجو بھیا،سیتا ہرن،دلربا،ہائوسنگ سوسائٹی،چراغ تہ داماں جیسی تخلیقات ادبی دنیا میں نمودار ہوئیں۔جو اپنے فارم کے اعتبار سے اور ساخت اور اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے تو ناولیں ہی تھیں لیکن ان میں وہ گیرائی و گہرائی اور وہ وسعت نہیں تھی جو عموما ناولوں میں ہوتی ہے۔اس لئے تخلیق کار خود بھی ایسی تخلیق کے سلسلے میں مخمصے میں رہے اور ساتھ ہی نقاد بھی اس تخلیق کے حوالہ سے کسی ایک رائے پر اتفاق نہیں کر پائے۔

اولا ًناولٹیں اس احساس و شعور کے ساتھ نہیں لکھی گئیں کہ وہ ناولٹ ہیں ان کے ٹائٹل پر ناول ہی لکھا ہوتا تھا۔اور آج بھی اس بحث کو کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچایا جا سکا ہے کیونکہ ایک شاعر کا انجام،شہاب کی سرگزشت ان کو کوئی ناولٹ کہتا ہے تو کوئی طویل افسانہ۔مرزا حامد بیگ انہیں طویل افسانہ ہی مانتے ہیں اور احسن فاروقی کے بقول :

ــ’’حقیقت یہ ہے کہ نثر اور نظم اور معلومات میں جس قدر ان کا مذاق اعلیٰ ہے ناول کے سلسلے میں اتنا ہی ناقابل اطمینان ہے ان کی کم ازکم دو تصنیفیں ناول ضرور کہلاتی ہیں،ایک شہاب کی سرگزشت اور دوسری ’’شاعر کا انجام ‘‘یہ اتنی مختصر ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ ناول کہا جا سکتا ہے۔‘‘۱

اسی طرح ضبط کی دیوار،ہائوسنگ سوسائٹی کے بارے میں بھی اختلافات ہیں۔
آگے اسی کتاب میں صفحہ ۲۰۶پر ناولٹوں کا اردو ادب میں وجود کس طرح ہوا اس کے بارے میں احسن فاروقی لکھتے ہیں :
’’َ۔۔۔۔۔۔۔۔ناول کے نام کا رواج بہت ہوا اور اس میں عام دلچسپی بھی بہت بڑھی۔مگر ایسی ایسی چیزیں ناول کے نام سے مشہور ہو گئیں جنہیں ناول سے محض سطحی ہی تعلق تھا ان ناول نما اصناف میں دو فارم خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ایک ناولٹوں کا اور دوسرے خاکوں کے مجموعوں کا۔ان فارموں کے عاملین یہی سمجھتے رہے کہ وہ ناولیں لکھ رہے ہیں اور ان کے پڑھنے والے انہیں ناولیں سمجھ کر پڑھتے رہے۔ان کو ناول کے مناسب مگر اس سے مختلف ضرور سمجھا جانا چاہئے۔‘‘۲

جیسا کہ احسن فاروقی کا کہنا ہے کہ ان فارموں کے عاملین یہی سمجھتے رہے کہ وہ ناول لکھ رہے ہیں،تو کیا اس بیان سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اردو ادب میں ناولٹ کا وجود ناقص ناول نگارے کے سبب ہوا۔کیوں کہ انہیں ناول کہا جائے تو ان کا نقص عیاں ہے کہ یہ ناول نگاری کے فن پر پورا نہیں اترتیں۔گہرائی و گیرائی،حقیقت بیانی،کرداری ارتقاء،زندگی کا ایک وسیع منظر نامہ ان سارے لوازمات سے عاری ہیں۔

ان جیسی تخلیقوں کے سبب جو ناول کے مماثل تو تھیں لیکن جنہیں ناول کہنے میں تردد بھی تھا،ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔اور ناول اور ناولٹ دو صنفوں کے اصول متعین کرنے میں نقاد کافی شش و پنج میں مبتلا رہے۔ان میں کچھ مماثلتیں بھی تھیں تو افتراق کی بھی صورتیں تھیں۔یہیں سے ناول اور ناولٹ میں نظریاتی و اصولی ٹکرائو کی صورتوں نے جنم لیا اور کچھ سوالات پیدا ہوئے۔

اصناف ادب کے تعین میں طوالت کا دلیل بنانا عجیب بات ہے۔افسانوی اصناف پر نظر ڈالیں تو داستانیں عموماًطویل ہوتی ہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ اگر وہ ناول سے ضخامت میں کم ہوں تو ہم اسے ناول کے زمرے میں شامل کر لیں گے ؟قطعی نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو باغ و بہار،فسانۂ عجائب،طوطا کہانی،نو طرز مرصع وغیرہ ناولیں تسلیم کی جانے لگتیں اور لہو کے پھول،آگ کا دریا،کئی چاند تھے سر آسماں داستانیں بن جاتیں۔کسی تخلیق کے سلسلے میں طوالت کا جواز کسی نئی صنف کی علاحدہ شناخت کی حیثیت میں ادھوری اور نا کافی ہے۔

حالانکہ Edger ellen .poeنے ناول اور افسانہ میں فرق طوالت کی بنیاد پر کیا ہے۔لیکن آج افسانے کے ساتھ ساتھ ناولٹ اور طویل افسانے کا صنفی مسئلہ میں درپیش ہے تو افتراق کا یہ پیمانہ کیا قابل قبول ہے ؟

قاضی افضال صاحب اپنی کتاب صنفیات میں صفحہ ۱۹۳پر لکھتے ہیں :

’’متن کی طوالت کو امتیاز کی بنیاد۔شرط قرار دینا ایک غیر تنقیدی رویہ ہے۔فکشن کی تشکیل کی شرائط اور ان کے اجزاء کے درمیان یکسانیت کے باوجود صرف صفحات۔الفاظ کی تعداد یا قرأت کے دورانیہ کی بنیاد پر کوئی متن ایک نئی صنف کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا ‘‘گویا کہ صرف صفحات کی بنا پر ہم کسی تخلیق کو نئی صنف کا درجہ نہیں دے سکتے۔

ڈاکٹر صبا عارف لکھتی ہیں :

’’صرف صفحات کی تعداد کے اعتبار سے ناول اور ناولٹ میں امتیاز کرنا تو صحیح نہیں معلوم ہوتا۔دونوں کے درمیان خط فاصل کھینچنے کے لئے کچھ واضح اصول کرنا ہی مناسب ہو گا۔‘‘ڈاکٹر صبا عارف واضح اصول بنانے کا مشورہ تو دیتی ہیں اور ساتھ ہی اسے ایک الگ صنف بھی تسلیم کرتی ہیں لیکن اس کے اصول متعین کر نے سے قا صر ہیں۔وضع اصول کو مستقبل پر ٹا ل دیتی ہیں۔ملاحظہ ہو :

ــ’’ہمارے یہاں ہی نہیں مغرب کی زبانوں میں بھی معیاری ناولٹوں کے مقابلے میں کم تر درجے کی ناولٹوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔قبول عام اسی درجیکے ناولٹوں کو حاصل ہو تا ہے مگر صرف عوام کی پسند ادب کا معیار نہیں ہو سکتی۔معیاری ناولٹوں کی تعداد جیسے جیسے بڑھتی جائے گی اس صنف کے اصول اور میزان کا تعین بھی آسان ہوتا جائے گا۔‘‘

عبدالمغنی ناولٹ کے حوالے سے رقم طراز ہیں :’’افسانہ جب بہت طویل ہو جاتا ہے پھر بھی ناول کے حجم تک نہیں پہنچتاتو اسے ناولٹ کہہ دیا جاتا ہے یعنی یہ ایک مختصر ناول ہے ‘‘گویا ان کے نزدیک افسانہ اور ناولٹ اور ناول میں وجہ امتیاز محض طوالت ہے۔یہ ایک ناقابل فہم بیان ہے۔صنفی شناخت محض طوالت کے سبب متعین نہیں کی جاسکتی۔اگر ایسا ہوتا تو قصیدہ،مثنوی اور مرثیہ کی شناخت کس طرح عمل میں آتی،داستانوں کو ناولوں سے کس طرح متمائز کرتے،یہ ایک انتہائی بھونڈی بات ہے۔

ان ناقدین کے علاوہ جب ہم انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں ناولٹ کے متعلق تحقیق کرتے ہیں تو وہاں ناولٹ کو کچھ یوں Discribe کیا جاتا ہے۔’’When any piece of fiction is long enough to book ,than it may be said to have achived novel hood .But this state admits of its own quantitative categories ,so that a relatively brief novel may be termed a novella(or if the substantiality of the content matches its brevity ,a novellet ),and a very long novel may overflow the banks of a single volume a roman fleuve or river novel
آرنلڈ کیٹل ناولٹ کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے An entroduction to the english novel میں لکھتا ہے
[The question of lenth i leave ,deliberately ,vague.}
ابرامس ناولٹ کے بارے میں یوں خیال ظاہر کرتے ہیں :

{As an extended narrative ,the novel is distinguished from the short story and from the works of middle lenth called the novellet }
ان تمام بیانات سے کہیں بھی یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ ہم ناولٹ کی شناخت کیسے کریں۔

اگر ہم بحالت مجبوری طوالت کو صنفی شناخت کے طور پر تسلیم بھی کر لیں تو نئی دقتیں سامنے آجائیں گی اور افسانہ طویل افسانہ اور ناولٹ کے ساتھ ناول یہ سب خلط ملط ہو جائیں گے اور ہم کوئی واضح شناخت متعین نہیں کر سکیں گے۔ان کے درمیان اجزائے ترکیبی مشترک ہیں،لیکن ان کے ہر ایک قصے کے حدود میں تفاوت ہے اس لئے ان میں حد فاصل قائم کرنے کی صورت ان کا طرز تعمیر ہی ہو سکتا ہے۔

فکشن کی اولین شرط واقعہ ہے۔اور واقعہ ایسا جو حقیقت تو نہ ہو لیکن حقیقت سے بعید بھی نہ ہو۔جو حقیقی زندگی سے نہ لیا گیا ہو بلکہ اسے با تکلف گڑھا گیا ہو۔ناول ناولٹ اور افسانہ میں تخلیقی متن کی تعمیر میں بروئے کار آنے والے وسائل یکساں ہیں مثلا قصہ،پلاٹ،کردار،مکالمہ،منظر نگاری وغیرہ لیکن ان میں واقعہ کی نوعیتیں مختلف ہو تی ہیں اور واقعہ کی مختلف نوعیت ہی کے سبب ان کا طرز تعمیر بھی تشکیل پاتا ہے۔واقعہ ہی کے بدولت ان اصناف میں بکار آنے والے وسائل اپنی تعمیری و تشکیلی صلاحیتوں کی نشو ونما کرتے ہیں۔فکشن کے ان اجزائے ترکیبی کا دائرہ کار واقعہکی نوعیتوں کے اعتبار سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔واقعہ کی بناء پر الگ الگ صنفی شناخت متعین کی جا سکتی ہے اس کی تصدیق قاضی افضال حسین اپنی کتاب صنفیات میں صفحہ ۱۷۹پر یوں کرتے ہیں :

’’افسانوی متون میں واقعہ کے تخلیقی۔۔تشکیلی کردار کے بنیادی اشتراک کے باوجود ان اصناف میں واقعہ کی ’’نوعیت‘‘ایک دوسرے سے مختلف ہو گی۔’واقعہ ‘کی نوعیت میں اسی اختلاف کے سبب افسانوی متون کی الگ الگ صنفی شناخت متعین ہوتی ہے۔‘‘

اس کے باوجود قاضی صاحب ناولٹ،اور طویل افسانہ کو الگ صنف تصور نہیںکرتے۔قاضی صاحب کے نزدیک کسی ادب میں کسی علحٰدہ صنفی شناخت کے لئے کم از کم دو واضح شناختی عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ان کے انھیںدونوں بیانات سے ہم ناولٹ کے لئے علاحدہ صنف ہونے کا جواز تلاش کر سکتے ہیں۔۔کیوں کہ ناولٹ میں ناول سے مختلف واقعہ بھی ہے اور اس سے علحٰدہ ٹریٹمنٹ بھی۔

ناولٹ کے ضمن میں احسن فاروقی کی رائے معقول معلوم ہوتی ہے کہ :

’’سوال محض طوالت کا نہیں ہے۔دس صفحے تک کے قصے کو افسانہ بیس سے سو تک کے قصے کو ناولٹ اور سو سے چار سو تک یا زیادہ کے قصے کو ناول کہہ دینا محض سطحیت ہے۔یہ ایسا ہی ہوا کہ ایک خاص اونچان کے ہر جانور کو کتا کہا جائے اس سے اونچے کو گدھا اور اس سے اونچے کو گھوڑا۔نہیں صاحب تینوں جانوروں کے تصور میں فرق ہے،اسی طرح تینوں اصناف کے ڈھانچے الگ الگ ہیں۔جن سے ساخت اور شکل میں نمایاں فرق ہو جاتا ہے حالاں کہ سب میں جان مشترک ہوتی ہے اور زندہ رہنے کے ذرائع بھی ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں۔غرض سارا معاملہ تعمیر یا طرز تعمیر کا ہے۔‘‘

اسی طرح بعض ناولیں ضخامت میں ناولٹوں کے دائرے میںآتی ہیں لیکن وہ ناولیں ہیں مثلا بازدید کی ضخامت تقریبا ۲۴۰ صفحات ہے اور وہیں ’’رہ و رسم آشنائی ‘‘بھی ۲۴۰ صفحات کی ہے۔حالاں کہ ’’رہ و رسم آشنائی ‘‘اپنے دائرہ عمل اور واقعاتی خصوصیات کی بنا پر ناولٹ ہے اور بازدید میں علامتی پیرائے میں ہم اس کے موضوع کو وسیع منظر نامے میں دیکھتے ہیں۔اسی طرح چراغ تہ داماں تقریبا ۲۵۰ صفحات پر محیط ہے لیکن اس کا کینوس اور واقعہ اسے ناول کی حدود میں داخل ہونے نہیں دیتا،غرض جس طرح ناولیں طویل اور مختصر ہو سکتی ہیں اسی طرح ناولٹیں بھی طویل اور مختصر ہو سکتی ہیں۔
ناولٹ چونکہ ناول کی تصغیر ہے اس لئے ناقدین اس وجہ سے بھی ناولٹ کو علاحدہ صنف ماننے میں پس و پیش میں رہتے ہیں۔ناولٹ کو مختصر نا ول کے نام سے بھی پکارا جا تا ہے۔سلیم اختر اس پر یو ںروشنی ڈالتے ہیں :

’’گرائمر کی رو سے نا ولٹ ناول کی تصغیر سہی لیکن اسے مرد کی مشا بہت پر بچہ نہیں سمجھا جا سکتا۔اس حقیقت کا اس لئے ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ اس میں جو منظقی مغالطہ پایا جا تا ہے اسی باعث اکثر لوگ مختصرناول کو ناولٹ سمجھ لیتے ہیں۔لیکن ’’ریڈر ڈائجسٹ ‘‘کی مانند ناول کا خلاصہ کر دینے سے وہ ناولٹ نہیں بنے گا بلکہ بلحاظ ناول بیشتر فنی محاسن بھی گم کر دینے کا امکان ہے

{War and peace,Brothers kramanzoy ,,Idiot ,,Possessed..Gone with the wind ,,and ,,Quiet flows the dawn,,

وغیرہ طویل ترین ناولوں میں سے ہیں لیکن اگر انہیں ڈیڑھ سو صفحات تک سکیڑ دیا جائے تو نتیجہ ظاہر ہے۔یہ تلواروں کی آبداری نشتر میں بھرنے والی بات نہ ہو گی کیوں کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔‘‘

غرض ناولٹ ایک علاحدہ صنف ہے کسی ناول کی اگر تلخیص کر دی جائے اور اسے ناولٹ کا نام دیا جائے تو اسے ناول کا خلاصہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن ناولٹ کا نام نہیں دے سکتے کیوں کہ ناولٹ خلاصہ کا نام نہیں اسکے اپنے لوازمات اور فنی حیثیت ہے۔یہ تو طے ہوا کہ ناول اور ناولٹ میں وجہ امتیاز طوالت کی بناء پر نہیں ہے۔لیکن سوال ابھی ہنوز وہیں ہے کہ آخر پھر حد امتیاز کیا ہے ؟آئیے ہم احسن فاروقی کے اس بیان کی طرف واپس چلتے ہیں کہ :

’’دس صفحے تک کے قصے کو افسانہ بیس سے سو تک کے قصے کو ناولٹ اور سو سے چار سو تک یا زیادہ کے قصے کو ناول کہہ دینا محض سطحیت ہے۔یہ ایسا ہی ہوا کہ ایک خاص اونچان کے ہر جانور کو کتا کہا جائے اس سے اونچے کو گدھا اور اس سے اونچے کو گھوڑا۔نہیں صاحب تینوں جانوروں کے تصور میں فرق ہے اسی طرح تینوں اصناف کے ڈھانچے الگ الگ ہیں جن سے ساخت اور شکل میں نمایاں فرق ہو جا تا ہے حالاں کہ سب میں جان مشترک ہوتی ہے اور زندہ رہنے کے ذرائع بھی ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں،غرض سارا معاملہ تعمیر یا طرز تعمیر کا ہے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ جب معاملہ صرف طرز تعمیر کا ہے لیکن قصہ میں بروئے کار آنے والے وسائل یکساں ہیں تو طرز تعمیر میں اختلاف کیوں ؟جب کہ اس طرز تعمیر کے سبب نتائج کی نوعیت مختلف ہو جارہی ہے۔دراصل ناول اور ناولٹ کے واقعاتی نوعیت میں فرق ہے۔یہی سبب ہے کہ جب کہانی کا دائرہ کار ناول کے جیسا وسیع نہیں تو اس میں بروئے کار آنے والے وسائل کی تعمیری خصوصیات میں تغیر واقع ہوتا ہے اور نتیجہ کے طور پر ناولٹ کا ڈھانچہ اور اس کی ساخت ناول سے مختلف ہو جاتی ہے۔مثلا کہا جاتا ہے کہ ناول کے مقابلے میں ناولٹ میں کرداروں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ایسا اس وجہ سے کہ ناولٹ کا کینوس اتنا وسیع نہیں۔ناول کے دائرہ کار میں بہت سے کردار سما سکتے ہیں لیکن ناولٹ میں وہی کردار آتے ہیں جو کہانی کے ارتقاء میں معاون ہوں۔اس کے علاوہ ناول اور ناولٹ کے کرداروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ناولٹ کے شاہ کردار اور اس کے مرکزی فکر کی معاونت میں جو کردار آتے ہیں ان کے بس وہی پہلو سامنے لائے جاتے ہیں جو قصے کو بڑھاے میں معاون ہوں۔ناولٹ کے شاہ کردار کے علاوہ کسی اور کردار کی مکمل نشو ونما نہیں ہوتی۔احسن فاروقی نے اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’پوری فطرت ہر کردار کی ناول میں ہی واضح ہو سکتی ہے۔مختصر افسانے میں محض ایک صفت ہی کو دکھانے کی گنجائش ہوتی ہے،ناولٹ میں ایک ہی صفت پر سب سے زیادہ زور ہوتا ہے اور دوسری صفات محض اشاروں ہی سے لائی جاتی ہیں ان کا مقصد بھی مخصوص صفت ہی کو واضح کرنا ہوتا ہے۔‘‘
ناولٹ میں مر کزی کرداروں کی بھی نشو ونما ناول کے مرکزی کرداروں جیسی نہیں ہوتی۔مثلا چراغ تہ داماں کی مرکزی کردار اور ٹیڑھی لکیر کے شمن کے کردار میں یوں فرق ہے کہ آخر الذکر کا کردار کا ارتقاء اس کے بچپن بلکہ جب دنیا میں آئی بھی نہیں اس وقت سے اس کا ذکر ناول میں ہونے لگتا ہے۔پھر بچپن سے لے کر جوانی تک ہم اس کو بڑھتے پھیلتے دیکھتے ہیں اس کی ہر حر کت و عمل سے ہم واقف ہیں۔کردار کے کسی ڈائمنشن یا صفت کی وضاحت کسی پس منظری تکنیک سے نہیں کی گئی ہے۔اس کی فکر اور اس کا عمل اس کردار کی نشو ونما کرتا ہے۔اور مکمل کردار کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔اس کے بر عکس چراغ تہ داماں میں قصہ درمیان سے شروع ہوتاہے،ٹھیک ہے ناول میںبھی یہ ممکن ہے کہ قصہ کی ابتداء درمیان سے ہو لیکن ناول میںایک مقام پر پیچھے پلٹتے ہیں اور کردار کے سارے ابعاد پر ناول نگار روشنی ڈالتا ہے۔اور صرف کردار نہیں اس سے متعلق دیگر واقعات اور پس منظر کو تمام تفصیلات کے ساتھ سامنے لاتا ہے جس سے ناول بتدریج اپنے مقصود تک پہنچتا ہے۔اس کے برعکس چراغ تہ داماں میں کردار کی اپنی ایک شناخت پہلے سے متعین ہے جو شناخت قائم ہوئی اس تک پہنچنے کے تمام مراحل کو صرف چند جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔اسی طرح ایک چادر میلی سی میںبھی مرکزی کردار رانو کی ایک شناخت متعین کر دی جاتی ہے کہ وہ تلوکا کی بیوی ہے جسے کہ اس کے غریب ماں باپ نے کھانے کپڑے کے عوض تلوکا کو سونپ دیتے ہیں۔اس سے زیادہ رانو کی پچھلی زندگی کے بارے میں ناولٹ نگار کوئی اطلاع نہیں دیتا۔اس کے آگے ناولٹ نگار رانو پر گزرنے والے واقعات کے ذریعہ کردار کی وضاحت کرتا ہے۔اور واقعات کا تانا بانا اسی حد تک گڑھتا ہے جو رانو کے کردار پر مکمل روشنی ڈال سکے۔ضمنی کردار کی وہی خصوصیات ناول نگار سامنے لاتا ہے جو اس کہانی کے مرکزی خیال کے ارتقاء میں معاون ہیں۔کوئی کردار اپنی علاحدہ شناخت مکمل طور سے نہیں بنا پاتا۔اسی وجہ سے شاہ کردار کے علاوہ ضمنی کردار ہمارے ذہن سے جلد محو ہونے لگتے ہیں۔انفرادی شناخت کا کردار ناولٹ میں ممکن نہیں جیسے کہ ناولوںمیں شاہ کردار کے علاوہ دیگر کردار بھی مکمل شخصیت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ان کی خوبیاں خامیاں سب پر روشنی پڑتی ہے۔محمد اشرف کا نمبردار کا نیلا ہو یا قاضی عبد الستار کا مجو بھیا،بیدی کا ایک چادر میلی سی ہو یا اقبال متین کا چراغ تہ داماں یا احسن فاروقی کا رہ و رسم آشنائی،ان تمام ناولٹوں میں ضمنی کرداروں کی وہی صورتحال ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔

قاضی عبدلستار کے ناولٹ میں ’’مجو بھیا ‘‘مرکزی کردار ہے۔اس کی نشو ونما اوپر مذکور دونوں ناولٹوں سے اس طرح مختلف ہے کہ اس کی جڑیں مضبوطی سے زمین میں گڑی ہیں۔اس کی ا ٹھان کا گراف نیچے سے بتدریج اوپر کی طرف بڑھتا ہے۔لیکن یہاں بھی کردار کی نشو ونما ایک خاص نکتہ کو لے کر ہی آگے بڑھتا ہے۔زمیندارانہ ماحول کا پروردہ ایک کردار جسکا اطراف اور اس کے ارد گرد کے لوگوں کے حرکت و عمل سے اس کا کردار مکمل ہوتا ہے۔ایک نظر میں اس میں ناول سی گہما گہمی عمل اور رد عمل کے سبب واقعا ت کا رونما ہونا ناول سا معلوم ہونے لگتا ہے۔لیکن ذرا دیر ٹھہر کر دیکھیں تو رد عمل کی تمام صورتوں میں مخالف کرداروں کی زندگی کا خاتمہ شاہ کردار مجو بھیا کے ہی کردار کی اکمالیت کا پتہ دیتے ہیں۔ناولٹ میں تراب اور للی کا کردار ایسا ہے کہ اگر انہیں زندگی ملتی اور وہ مخالف کردار کی مکمل نشوو نما کی فضا پاتے تو ممکن تھا کہ یہ ناولٹ،ناول کے زمرے میں داخل ہو جاتا۔تراب کے کردار کی جھلک ہمیں یوں نظر آتی ہے۔

’’وہ واحد آدمی تھا جو ان کے دروازے کے سامنے سے سانڈ کی طرجھومتا ہوا نکل جاتا۔کبھی دو انگلی اٹھا کر سلام کا بھی روادار نہ ہوتا۔پھر تراب کی بھینس اکثر ان کے بار میں دندناتی ہوئی گھس پڑتیں۔بظاہر تو وہ کوئی خاص توجہ نہ دیتے لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ حرکتیں ان کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو مجروح کرنے کے لئے سوچ سمجھ کر کی جاتی ہیں۔پھر ہولی والے دن تو تراب نے کھل کر نوکروں سے کہہ دیا تھا کہ بڑے شیخ کے بیٹے ہوں تو ہانک دیں آکر تراب کی بھینسیں۔‘‘

تراب کے یہ تیور بتاتے ہیں کہ اس کا کردار جی دار بن سکتا تھا۔لیکن قاضی عبدالستار نے مجو بھیا کے ذریعہ سازشی واقعہ کی بنت کر کے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔اور اس سے یہ واضح ہو گیا کہ ناولٹ نگار کا مقصد زندگی کے رزمیے کی عکاسی نہیں ایک مخصوص کردار کے اطراف اور اس کی بنت میں شامل دیگر کرداروں کے ذریعے اس کی نمائندگی اور ایک خاص طبقہ یا نکتۂ نظر کی عکاسی مقصود ہے۔

صبا عارف اس ناولٹ کے بارے میں یو رقم طراز ہیں :’’اس ناولٹ میں دیہاتی معاشرے کی منھ بولتی تصویریں ہیں۔یہ تصویریں دیہات کے ہر پہلو اور ہر طبقہ کی مکمل نمائندگی نہیں کرتیں کیوں کہ یہ کام ناول کا ہے مگر چند مسائل،چند کردار اور ان کے گرد گھومتے ہوئے تھوڑے سے واقعات قاری کو بہت کچھ بتا دیتے ہیں۔۔‘‘

کرداری نوعیت کا ہی ایک فرق یہ بھی ہے کہ ناول کے کردار عموما جسم و جان دماغ اور جسم کے تمام اعضاء جب مل کر ایک انسان کی شناخت پاتے ہیں اسی طرح ناول کے کردار ہیں جس طرح اعضاء جسم کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ علاحدہ علاحدہ شناخت بھی رکھتے ہیں،اسی طرح ناول کے کردار ایک جان و جسم ہوتے ہوئے بھی اپنی علاحدہ پہچان بھی بناتے ہیں۔عقل کا دعویدار دماغ ہوتا ہے اس کے باوجود ہاتھ کا لمس پاکر کچھ مختلف حاصل کرتا ہے۔ناول کے کردار بھی عموما سوچ کے مختلف زاوئیے دے جاتے ہیں۔غرض جس طرح جسم میں جان و روح کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کے بعد بھی جسم میں سرایت کرتی ہیں تو دوسروں کی زندگیاں بھی جی اٹھتی ہیں اسی طرح ناول کے کردار بھی حسیت و احساس کے علاحدہ علاحدہ ذرائع ہیں۔یہ خصوصیت آپ کو ناولٹ میں نظر نہیں آئے گی۔

اس کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ناول کی مثال۔۔۔۔۔کی مانند ہے جس کی جڑوں کی شاخیں اندرون میں کافی پھیلی ہوتی ہیں،اور انہیں شاخوں سے نئے پودھے جڑوں سے متصل سطح زمین پر نمودار ہوتے ہیں جو زمین کے اندرون میں تو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں لیکن سطح زمین پر نئے پودھے ایک دوسرے پودھے کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔جو انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔اور ناولٹ کی مثال۔۔۔۔۔کی ہے۔اس کی جڑیں زیر زمیں بہت پھیلائو نہیں رکھتیں۔کچھ شاخیں ادھر ادھر ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ نئے پودھے کو پنپنے دیتی ہیں۔

قاضی افضال نے ناول اور افسانے کے متعلق ایک سوال اٹھایا تھا جو ناولٹ کو سمجھنے میںممد ہو سکتا ہے کہ متن کی خارجی تشکیل کی سطح پر ناول اور افسانے میں کیا فرق ہے ؟اس کی وضاحت کے لئے قاضی صاحب کے ایک اقتباس پر غور کرتے ہیں۔افسانہ اور ناول میں فرق کرتے ہوئے قاضی صاحب لکھتے ہیں :

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تخلیق کی قواعد اور شناخت کی یکساں نشانیوں کے باوجود متن کے آغاز و انجام،خواہش و مقصود یا تحریک اور تحصیل کے درمیان کا فاصلہ ناول کے مقابلے میں کم واقعات سے مکمل/پر کیا جاتا ہے۔لیکن کتنے کم واقعات ؟اس کی کوئی حد /تعداد متعین نہیں کی جاسکتی۔بعض مرتبہ تو تعداد کا یہ خط فاصل اتنا موہوم ہو جاتا ہے کہ ان دونو ںمیں کوئی فرق معلوم ہی نہیں ہوتا۔مثلا عبد اللہ حسین کے افسانے ’’ندی ‘‘اور ’’نشیب ‘‘ان کے افسانوی مجموعے ’’سات رنگ ‘‘میں شامل ہیں اور ہندوستان کے کسی ناشر نے انہیں ناولٹ کے عنوان سے بھی شائع کیا ہے۔‘‘

گویا ناول اور ناولٹ ایک ہی صنف ہیں۔اس نکتہ کو تقویت قاضی صاحب کے اگلے اقتباس سے ملتی ہے۔’’یہاں ناولٹ کا ذکر آگیا ہے تو ضمنا ًیہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ناول کے مقابلے میں افسانے کے لئے دو اور نام ’مختصر افسانہ‘اور ’طویل افسانہ‘(یا بالکل نا مناسب طور پر ’طویل مختصر افسانہ ‘)بھی چلن میں ہیں۔تنقیدی شعور یہ بات قبول نہیں کرتا کہ کسی متن کی صفحات کی تعداد سے اس کی صنف کا تعین کیا جائے۔‘‘قاضی افضال ناولٹ اور طویل افسانہ میں طوالت کے بجز ان میں کوئی مختلف امتیاز ی خصوصیت نہیں دیکھتے اور انہیں طوالت کی بناء پر جو علاحدہ شناخت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے یا ناشروں نے طوالت کے سبب جو ان کا ٹائٹل بدلا ہے اسے رد کرتے ہیں۔

یہ بات معقول ہے کہ طوالت کوئی سبب نہیں کسی تخلیق کو علاحدہ صنفی حیثیت دینے کا،لیکن جب خود قاضی افضال یہ کہتے ہیں ’’تخلیق کی قواعد اور شناخت کی یکساں نشانیوں کے باوجود متن کے آغاز و انجام،خواہش و مقصود یا تحریک اور تحصیل کے درمیان کا فاصلہ ناول کے مقابلے میں کم واقعات سے مکمل۔۔پر کیا جاتا ہے ‘‘ناول اور افسانہ میں اگر یہ دلیل وجہ امتیاز بن سکتی ہے تو ناولٹ پر بھی اس نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالی جا سکتی ہے۔کیوں کہ ناول ناولٹ،افسانہ تینوں کی تخلیقی قواعد ایک جیسی ہیں اور تینوں میں متن کی خارجی تشکیل کی سطح پر فرق واقع ہوتا ہے۔اور اگر ناول اور افسانہ میں فاصلہ واقع ہوتا ہے اور واقعات میں کمی بیشی ہے تو ناول اور ناولٹ کے ما بین بھی واقعاتی فاصلہ واقع ہوتا ہے۔دراصل قاضی افضال نے پہلے ہی یہ بات متعین کر لی ہے کہ ناولٹ ناول کی تصغیر ہے۔حالاں کہ تصغیری نوعیت ماننے پر بھی ناولٹ پر تنقیدی زاوئیے سے نظر کی جائے تو تقریبا ایسے ہی اور اتنے ہی افتراق کے نکات سامنے آئیں گے جتنی کہ ناول اور افسانہ میں افتراق کی صورتیں ہیں۔

قاضی افضال آگے لکھتے ہیں کہ :
’’یہ زیادہ تنقیدی طریقۂ کار ہوگا کہ ناول اور افسانے کے درمیان فرق کی نشاندہی کے لئے واقعہ کی صفات و کردار کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ناول اور افسانے میں واقعہ کی ترتیب کا طریقہ اور اس کے ارتقاء کی جہت بالکل یکساں نہیں ہے۔یعنی ’’واقعہ سازی ‘‘ کا طریقہ کار تو ناول اور افسانہ میں یکساں ہے لیکن جہاں ناول کی اساسی ساخت میں مرکزی موضوع کے آغاز و انجام(خواہش و مقصود )کے درمیان ارتباط کی جہت تو یک سمتی ہوتی ہے۔یعنی آغاز اپنے انجام کی طرف ہی بڑھتا ہے لیکن اس بنیادی وضع سے واقعات کا وہ سلسلہ بھی پھوٹتا رہتا ہے جسے ہم اساسی وضع کے لئے تائیدی واقعات کہہ سکتے ہیں۔‘‘

یہاں تک کا بیان ناول اور ناولٹ میں یکسانیت کا ظاہر کرتا ہے۔اور افسانے سے ان دونوں کو متمائز کرتا ہے۔لیکن جب ’’تائیدی واقعات ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی افضال یہ کہتے ہیں کہ ’’ناول کی اس اساسی ’وضع ‘میں تائیدی واقعات کی شمولیت سے ناول میں بیانیہ کا تحرک کثیرالجہات ہو جاتا ہے (مثال ؛خدا کی بستی از :شوکت صدیقی )ناول میں بیانیہ کا یہ کثیر الجہتی تحرک،افسانے میں ممکن نہیں۔‘‘

تو یہ بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ ناولٹ میں بھی کثیر الجہات بیانیہ نہیں پایا جاتا۔اگرچہ کہ تائیدی واقعات ہوتے ہیں جو ناولٹ کے مرکزی مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لئے لائے جاتے ہیں لیکن ان کی نوعیت علاحدہ بیانیہ کی نہیں ہوتی۔یہاں ’’تائیدی واقعات ‘‘کی دو قسمیں سامنے آتی ہیں۔ایک وہ جن سے ایک دوسرے بیانیہ کی تعمیر ہوتی ہے۔اور ایک وہ جو صرف بنیادی نکتہ میں معاون تو ہوتے ہیں لیکن وہ علاحدہ بیانیہ وضع نہیں کرتے۔ناول میں علاحدہ بیانیہ وضع کرنے کے سلسلے میں قاضی صاحب نے ’’امرائو جان ادا ‘‘کے دو کردار کی مثال پیش کی ہے۔ایک مرکزی کردار امیرن کی اور اس کی ایک معاون کردار رام دئی عرف بسم اللہ جان کی۔بسم اللہ جان کے واقعات کی ترتیب سے ایک ضمنی پلاٹ تعمیر ہو جاتا ہے۔غرض ناول میں قصہ مرکزی واقعہ کے ساتھ ساتھ ضمنی قصوں۔پلاٹوں کو بھی تشکیل دیتا ہے اور اپنے اندر پلاٹ در پلاٹ،پیچیدہ اور مرکب پلاٹوں کی خصوصیات رکھتا ہے۔جبکہ ناولٹ دو پلاٹ ایک ساتھ لے کر چلنے سے قاصر ہے۔

ناول اور ناولٹ کے مابین مذکورہ امتیازات کے بعد ہم افسانہ اور طویل افسانہ کی طرف آتے ہیں۔طویل افسانہ افسانے سے علاحدہ کوئی صنف ہے یا مختصر افسانہ ہی کو طوالت کے سبب طویل افسانہ کہا جاتا ہے ؟یہ ایک بڑا اور پیچیدہ سوال ہے۔افسانہ کی روایت پر نظر ڈالیں تو راشد الخیری اردو کے اولین افسانہ نگار شمار کئے جاتے ہیں۔جنہوں نے ’’نصیر و خدیجہ ‘‘خط کی تکنیک میں لکھ کر افسانہ کا بیج بویا۔۔انہوں نے ہی کئی طویل افسانے بھی لکھے۔اس طرح یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ افسانہ کی ابتداء و ارتقاء کے ساتھ ہی ساتھ طویل افسانہ کا وجود بھی ملنا شروع ہو گیا تھا۔لیکن اس تاریخی بات سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ طویل افسانہ کیا ہے ؟اس کے لوازمات کیا ہیں ؟اس کی خصوصیات کیا ہیں ؟کس بناء پر ہم کسی افسانے کو طویل افسانہ کے ذیل میں رکھیں ؟کیا طویل افسانہ کو علاحدہ صنف کی حیثیت دی جا سکتی ہے ؟

طویل افسانہ کے فن پر نقادوں نے کم ہی توجہ کی ہے۔اور جن نقادوں نے اس پر تنقیدی نظر ڈالی بھی ہے ان کی آراء باہم متنوع و متحارب قسم کی ہیں،جو کبھی ایک دوسرے کی ضد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں تو کبھی مماثل ہو جاتی ہیں۔خورشید احمد طویل افسانہ کو افسانے کی ہی ایک قسم مانتے ہیں۔

’’افسانے کو جب طول کے لحاظ سے منقسم کرتے ہیں تو اردو افسانے کے آغاز سے لے کر آج تک تین طرح کے افسا نے ملتے ہیں۔۱۔مختصر افسانہ ۲۔طویل افسانہ ۳۔ افسانچہ ‘‘

ان اقسام کی نشاندہی کے ساتھ ہی ان کی تحدید الفاظ کی تعداد سے کرتے ہیں۔

’’مختصر افسانہ میں پانچ سو سے لے پندرہ ہزار تک الفاظ ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طویل افسانے پندرہ بیس ہزار الفاظ کا احاطہ کرتے ہیں ‘‘
The science fiction and fantasy writers of america,نامی ادارہ نے ,,Nabula award for science fiction ,,میں کہانی کی تحدید ۷۵۰۰ الفاظ میں کی ہے۔ارچنا ورما ’’ہنس ‘‘کے ’’لمبی کہانی نمبر ‘‘کے مقدمہ میں لکھتی ہیں کہ مختصر افسانہ سے ایسی تخلیق مراد لی جاتی ہے جو کم سے کم ۱۰۰۰لفاظ سے لے کر ۲۰۰۰۰پر مشتمل ہو۔ہزار صفحے سے کم کی تخلیق کو فلیش فکشن یا شارٹ سٹوری کہا جاتا ہے۔

طوالت کے ذیل میں مذکورہ بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔الفاظ کی تعداد کا تعین کر کے افسانہ،طویل افسانہ اور افسانچہ کو تعددی چوکھٹے میں مقید کرنا بہت مشکل امر ہے۔کیوں کہ ہر قاری اپنے حساب سے بھی طویل اور مختصر افسانہ کو طوالت کی بناء پر ایک دوسرے سے متمائز کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ تمام قارئین علاحدہ علاحدہ نتیجہ پر پہنچیں۔ایسے میں یہ کہنا کہ اتنے الفاظ کسی تخلیق میں ہیں تو وہ افسانہ اور اتنے تو وہ طویل افسانہ ہے،سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اولاً جو چیز پہلی نگاہ میں دونوں میں فرق کی صورتیں پیدا کرتی ہیں وہ طوالت ہے۔ایسا کہنا کہ طوالت ہی ایک واحد افتراق کی وجہ ہے نزاعی بحث کو جنم دینے والی بات ہوگی۔

وکی پیڈیا آن لائن پر جولیا کیمرون نے مختصر افسانے کی جو تعریف درج کی ہے اس میں بھی طویل مختصر افسانہ کا ذکر ملتا ہے۔اس کی تعریف کا ماحصل یہ ہے کہ مختصر افسانہ نثری تحریر کی بیانیہ صنف ہے جسکے اوصاف ان الفاظ کی تعداد سے ہوتا ہے جن پر وہ مشتمل ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ:
مختصر افسانہ کی طوالت کا تعین پر پیچ مسئلہ ہے۔مختصر افسانے کے طوالت کی جو کلاسیکی تعریف کی جاتی ہے،وہ یہ کہ اس ایک نشست میں پڑھا جا سکے لیکن ہم عصر عہد میں اس نقطہ کا اطلاق ایسے افسانوی ٹکڑے پر ہوتا ہے جو بیس ہزار الفاظ پر مبنی ہو۔حالاں کہ مختصر افسانے کی طوالت کا تعین میں اختلاف مقام اشاعت کے اعتبار سے ہوا ہے۔مثلا ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مختصر افسانہ دس ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے (اور اسے طویل مختصر افسانہ کہا جاتا ہے )برطانیہ میں مختصر افسانے بالعموم پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔آسٹریلیا میں مختصر افسانہ بمشکل۔۔۔سو الفاظ سے زیادہ ہوتا ہے۔باوجود یکہ چندمختصر افسانے کچھ الفاظ پر مشتمل ہو سکتے ہیں (مائیکرو بیانیہ کہا جاتا ہے )ہم عصر قارئین کی توقع کے مطابق مختصر افسانہ کم از کم طوالت میںایک ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔بیشتر مختصر کہانیاں افسانوی تحریر کے زمرے میں آتی ہیں۔نیز شائع ہونے والی مختصر کہانیاں افسانوی صنف سائنس فکشن،ہارر فکشن اور جاسوسی فکشن پر مشتمل ہوتی ہیں۔مختصر کہانی نے غیر افسانوی اصناف مثلا سفر نامہ،نثری شاعری اور مابعد جدیدیت کے تغیرات کو ہم حلقہ کر لیا ہے۔افسانوی مختصر کہانیاں جو مختصر افسانہ حتی کہ طویل مختصر افسانے کی طوالت سے متجاوز ہوتی ہیں ناولا کہلاتی ہیں۔کوئی ایسی طویل افسانوی تخلیق جو چالیس ہزار یا اس سے زائد الفاظ پر مشتمل ہو ناول کہلاتی ہے۔

اس تعریف سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عام تصور افسانہ اور طویل افسانہ کا الگ الگ نہیں ہے اور طوالت ہی ان کی شناخت کو قائم کرتی ہے۔یہاں منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم طوالت کو اصناف کا شناختی کارڈ تسلیم کر سکتے ہیں یا نہیں ؟اگر تعداد الفاظ ہی صنف کے تعین کے لئے کافی قرار پائیں تو دیگر فنی خصوصیات اور تکنیکی امورکی بظاہر کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ہم اس تعریف کے سلسلے میں اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ ناول کے الفاظ کی تعداد بالعموم یہ ہوتی ہے اور ناولٹ اور افسانہ کی یہ،یہ ضخامت کے ایک عمومی فرق کو واضح کرنے والی تعریف ہے۔اس کا تعلق فنی امور سے نہیں ہے۔بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ اصناف کو سمجھنے کی یہ عامیانہ حد بندی /تعین ہے تو بے جا نہ ہوگا۔اردو میں فکشن کے ناقدین نے الفاظ کی تعداد کو مد نظر رکھ کر قائم کی جانے والی صنفی شناخت کو بہت اچھی نظروں سے نہیں دیکھا ہے۔اس بارے میں ہم قاضی افضال اور احسن فاروقی کی رائیں پیش کر چکے ہیں۔طویل افسانے کی وجودیات کوسمجھنے اوراسے پہچاننے کے کے صرف اس قدر کاوش کافی نہیں ہے۔ہمیں عملی ونظری سطح پر اس تلاش کومزید سرگرم سفر رکھنا ہو گا۔

مختصر افسانے کی خصوصیت اختصار جامعیت اور کفایت شعاری ہے۔یہاں بے جا تفصیل،لفظوں کے استعمال میںفضول خرچی،واقعات کے انتخاب و ترتیب میں امکانی صورتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے۔جا و بے جا وقوعات کا استعمال مختصر افسانے کے حسن کو غارت کر دیتا ہے۔اس تساہل اور سقم کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ مختصر افسانے کا ظاہری حجم طویل افسانے کے حجم سے بھی متجاوز ہو جائے لیکن ان اقسام کے سبب اس کی فنی ساکھ کامیاب افسانہ میں بدلنے سے رہ جائے گی۔جب یہ ظاہر ہو گیا کہ کھینچ تان کر کی جانے والی حجم کی توسیع اور بے جا طوالت اس کی فنی حیثیت کو مجروح کرتی ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے اسے طویل افسانے کے زمرے میں شمار کیا جائے۔جیسا کہ ممتاز شیریں نے لکھا ہے :

’’طویل مختصر افسانے کی ہیئت اور فنی لوازمات کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی طوالت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ درکار ہے۔محض طوالت ہی شرط ہوتی تو کسی بھی افسانے کو کھینچ تان کر طویل مختصر افسانہ بنانا آسان بات ہوتی۔‘‘

یہاں پر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ پھر وہ کیسی طوالت ہے جو مختصر افسانے کے بجائے افسانے کے نام میں طویل کا سابقہ لگا کر اسے طویل مختصر افسانہ کہنے پر مجبور کرتی ہے۔افسانے کی مروجہ ہیئتوں اور اس کی حرکیات کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کچھ موضوعات،کردار وقوعات جو محاکاتی۔۔۔دونوں سطحوں پر اپنا رنگ اختصار میں نہ ظاہر کرتے ہوں۔ان کے رنگ کے کھلنے اور چہرے کے کھلنے کے لئے بیان میں وسعت چاہتے ہوں۔تنگنائے مختصر افسانہ ان کے لئے کافی نہ ہو۔اور بے جا اختصار اور کفایت شعاری کا اہتمام کیا جائے تو ممکن ہے کہ افسانے کی حرکیات کو اظہار کے پورے امکانات میسر نہ ہوں۔افسانے کی ساخت بتائے کہ اظہار کے لئے مطلوب پیرائے سے انحراف /تغافل نے کہانی یا کردار اور اس کے ارتقاء کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے۔یہی وہ امکان ہے جو طویل مختصر افسانے کے وجود کو ضروری اور لا بدی بناتا ہے اس صورت میں افسانے کے حرکیاتی نظام میں سارے امکانات طبعی نظام کے تحت وجود پاتے ہیں تو افسانہ مختصر افسانے کے دائرے سے قدم باہر نکال کر طویل افسانے کی سرحد میں داخل ہوتا ہے اور افسانے کی ذیلی قسم رہتے ہوئے اپنا تشخص مستحکم کرتا ہے۔ایسے افسانوں کا حجم فطری انداز میں مختصر افسانوں کے حجم سے بڑھ جاتا ہے اور اس طرح صوری اور معنوی طور پر طویل افسانہ کہلانے کا بجا طور پر مستحق قرار پاتا ہے۔جلیل کریر نے طویل افسانے کے جواز اور اس کی نا گزیریت پر کارآمد اور مفید مطلب باتیں کہی ہیں۔انہوں نے مختصر افسانے کے وسیع امکانات کا اقرار کرنے کے بعد طویل افسانے کے امکان پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے،اور اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جہاں فنکار کو ہلکے خطوط و نقوش کو اجاگر کرنے کے لئے فنی ضرورت لاحق ہوتی ہے وہاں وہ مختصر افسانے کا انتخاب کرتا ہے۔اور جہاں لمبے خطوط اور تفصیل طلب نقوش ہوتے ہیں وہاں طویل افسانے کو کام میں لاتا ہے۔(طویل مختصر افسانہ نمبر،ادب لطیف )

کیا طویل افسانے کے لئے لازم ہے کہ اس کا حجم مختصر افسانے سے بڑا ہو ؟اگر ایسا ہے تو الفاظ کی تعداد سے صنفی شناخت کو قائم کرنے کے تصور کو تقویت پہنچے گی اور طویل و ضخیم ناولوں اور کم سے کم صفحات پر مشتمل ناولوں پر بھی سوالیہ نشان قائم ہو گا۔آج کے ناولوں کو ہم ناول کیوں کہیں ان کی ضخامت تو ناولٹ کے برابر ہو رہی ہے۔اگر ایک بڑے موضوع اور طویل زمان اور وسیع مکان کو کفایت شعاری سے لفظوں کے آئینہ میں اتارنے کی کامیاب کوشش سو سوا سو صفحات کے ناول کو ممکن کر سکتی ہے تو افسانے کے حدود میں صنفی دائرے کی پابندی کرتے ہوئے ایسے افسانے کا لکھا جانا ممکن ہے جو ضخامت میں مختصر افسانے سے کم ہو لیکن اپنے معنیاتی اور منظریاتی جہان میں طویل افسانے کو سموئے ہو۔معنیاتی و منظریاتی جہان کی وسعت کے لئے بھی ہمیں ایک حد مقرر کرنا ہو گی۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی افسانہ،افسانچہ کے حجم کی کہانی اپنے لازمانی انسلاکات اور اشارات کی وجہ سے بڑے معنی رکھتی ہو اور ہم اسے طویل افسانہ کہیں بلکہ اس کے افسانے کے بطون سے ہی زمان و مکان اور کردار کے عمل وردعمل سے اس کابڑاہوناظاہر ہوتاہو۔طویل افسانے کی یہ ایک امکانی صورت ہے۔طویل افسانے کی نظری اساس کوسمجھنے کے بعد اس کی عملی صورتوں کودیکھنابھی ضروری ہے۔ایساممکن ہے کہ ایک مرکزی کردار سے متعلق مختلف انسانی رویوں اور متصادم تہذیبی اقدار کی رونمائی کا عمل جب افسانے میں انجام پایے تو اس کی جہت ایک نہ ہو کر متعدد ہو جا ئے جیسے کہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے۔۔۔۔‘‘میں ہوا ہے۔پادری کی بیٹی کی آمد کی خبر پر ایک رد عمل قدامت پرستانہ ہے۔ جس میں پردہ داری اور عورت کے روایتی مثالی کردار بالمقابل پادری کی بیٹی کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ نئی تہذیبی کثافتوں کی سبیل بن کر گھروں میں تہذیبی و معاشرتی کدورت کا گدلا پانی پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک ردعمل محظوظانہ ہے۔جس میں مختلف پیشہ کے لوگ اپنے سفلہ پن اور غیر صحتمند جنسی نفسیات کے اظہار کو لفظوں کا روپ دیتے،پادری کی بیٹی سے متعلق اپنے تجسس کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پادری کا گھر اور اس کی بیوی ایک الگ دنیا کی تصویر ہیں۔ایک الگ سمت رکھتے ہیں۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایسی صورت میں افسانہ کا حجم بڑا نہ ہو اور ضخامت کے خوف سے کتر بیونت کی جائے تو کہانی کی روح بری طرح مجروح ہو گی اور افسانہ انکشاف بننے کے بجائے تشنہ گھونٹ بن جائے گا۔یا پھر کہانی کا ستیاناس ہوگا کہ وہ پوری طرح کھل کر سامنے نہ آئے گی۔جن جن پہلوؤں کا تجزیہ مصنف کے ذریعہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر کے کرداروں کے زبانی اس افسانے میں ہوا ہے اگر ہم اس تجزیے کی طوالت کو اختصار میں بدلنے کی کوشش کریں گے تو کیا ہوگا،یہی کہ اک سادہ بیان، کفایت شعارانہ راست بیانیہ ان پہلوؤں کو معروضیت سے پیش کر دے گا۔مگر افسانے کا حسن،بولتی صورت حال اور محاضراتی اسلوب سب چوپٹ ہو جائیں گے۔زبان و بیان کے اسالیب کی مدد سے جو لسانی تنوع افسانہ کا حصہ بن کر الگ جہات و ابعاد کا اس قدر خوبصورت اظہار کر رہا وہ اظہار بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔اس سے پتہ یہ چلا کہ طوالت فقط طوالت نہیں ہے بلکہ وہ طویل افسانہ کی ناگزیر اور لا بدی ضرورت بھی بنتی ہے۔زاویہ،رتبہ اور طبقہ کے بدلتے ہی گلیڈس کی حیثیت بدل جا تی ہے۔ایک افسانے کے مکتوباتی حصہ میں خط اور روزنامچہ سے جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ فکرو نظر اور اقدار کی سطحیں بھی کسی قدر طبقاتی اور درجہ بند ہیں۔ایک فضا میں جینے والے اور ایک دوسرے سے کتنے الگ۔افسانے روزنامچے اور مکتوب گلیڈس کے دل میں اٹھنے والے جذبات کے انکشاف کو قاری پر تو کھولتا ہے لیکن وہ ان دو کرداروں سے ڈھکا چھپا ہی رہتا ہے۔یہ ہے وہ کثیر جہتی پہلو جسے طویل افسانے میں ہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

’’چائے کی پیالی ‘‘ طویل افسانہ ہے۔اس افسانہ میں نہ تو جہتیں زیادہ ہیں اور نہ وقوعات اس قدر ہیں کہ وہ طوالت کو نا گزیر کریں۔لیکن اس امکان کی معدومیت کے باوجود مصنف نے بڑی چابکدستی سے اس افسانے کو فقط کیفیت اور کردار کی نفسیاتی حالت و خود کلامی کی مدد سے نہایت ہوشیاری سے بنا ہے۔ جو تلازمات اس افسانے میں لائے گئے ہیں،ڈولی کا کردار ان تلازموں کے بغیر پوری طرح کھل کر نہیں آتا۔یہ افسانہ اپنے دورانیہ کے اعتبار سے حد درجہ مختصر ہے کہ اس کا دورانیہ بمشکل دن بھر کا ہے۔لیکن اس قلیل وقت میں دوران سفر جو خیالات،کیفیات اور خود کلامیاں اس افسانہ کی شہ کردار’’مس ڈولی روبنسن ‘‘کے ذہن کا تلازمہ بنتے ہیں،اور جس ڈھنگ سے اس کی شخصیت نگاری اور شبیہ سازی کا کام انجام دیتے ہیں اس سے یہ افسانہ ایک بھر پور شخصیت کا آئینہ بن کر اپنی طوالت کا جواز پیدا کر لیتا ہے۔’’کرسچین گرلز انسٹی ٹیوٹ ‘‘کی طالب علم کی یہ کہانی تمدن کاری کے اثرات اور انسانی جبلت کے اظہارات کا مرکب ہے۔کالج کی چہار دیواری کے قریب سے گزرنے والے لڑکے کے متعلق مس ڈولی کے جذبات فطری ہیں کہ اس عمر میں یہ امکان سے باہر نہیں کہ یہ باہمی کشش جبلی فطرت کا نتیجہ ہے۔وہی دوسری طرف نوکرانی سے اس کی انگلش بولنے کی خواہش اور نئے نئے نام اور چیزیں بتا کر پریشان کر نے کی تمنا نو آبادیاتی فضا میں تربیت پانے والے ذہن کی غمازہیں کہ حکمراں کے طور طریق مرعوبانہ ذہن سے سیکھ کر اپنے دست نگروں پر انہیں کے ذریعہ دھونس جما کر ایسا تسلط و تفوق قائم کرنا۔

دوران سفر اپنی سہیلی برنس سے اختلاط کی گزشتہ رات کا یاد آنا اور اس تفصیل سے یاد آنا،مس ڈولی کی شخصیت کے ایک الگ پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ہم جنسوں کے بیچ اس کشش کی اس ہلکی اور حقیقی جھلک سے رو برو کرتا ہے جسے ہم جنس کشش کہہ سکتے ہیں،کہ مخالف صنف سے اختلاط کا خلا بھی ہم جنس اختلاط کی وجہ بنتا ہے۔جس انداز سے افسانہ نگار نے برنس کی کہانی بیان کر نے کے بعد پیار کرنے کی التجا کو ظاہر کیا ہے،اس سے یہی معلوم ہو تا ہے۔

ہم درسوں کے مابین رشک اور چپقلش کی جو صورتیں ہو تی ہیں ان میں سے ایک صورت کا افسانہ نگار نے ذکر کیا ہے۔یہ رشک ڈولی کو ایمی سے ہے۔جو حسد کی نفسیات کا زائیدہ ہے اور عہد شباب سے پہلے کی منزل میں تو یہ خوب خوب ہوتا ہے۔اب ہم یہاں یہ دیکھتے ہیں کہ افسانہ نگار نے اپنے قلم کا رخ شہ کردار کے ذہن کی طرف کیا ہو اہے۔گویا شہ کردار کا ذہن ہی افسانہ نگار کے قلم کی سیاہی ہے جس سے وہ موضوع کو نچوڑ رہا ہے۔اس افسانے کی بنت یہ بتاتی ہے کہ ناگزیر جزیات نگاری اور آزاد تلازموں کے استعمال سے کم کم دورانیہ میں بھی طویل افسانہ کو خلق کیا جا نا ممکن ہے،بس شرط یہ کہ کوئی پہلو غیر فطری یا ٹھونسا ہوا معلوم نہ ہو۔کہانی کو بنانے اور بتانے کا موڈ واقعی اور امکانی ہو۔

طویل افسانے کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نفس موضوع کا دورانیہ فقط سالوں پر نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہو۔کسی ایک معروض یا مسئلہ کی تفہیم اور اس متعلق مختلف عہد اور زمانوں میں بدلتے انسانی رویے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہو۔عزیز احمد کا افسانہ مدن سینا اور صدیاں‘‘اسی نوع کا افسانہ ہے جس میں مرد عورت کے رشتے کی زمانی تقسیم ہے۔وقت کے ساتھ جو ں جوں معاشیات نے اور حصول معاش کے لئے بپا کی جانے والی اقتداری۔۔۔۔نے اپنا چولا بدلا ڈھنگ اور رنگ کے اعتبار سے عورت اور مرد کے رشتہ کا ڈولا بھی بدلا ہے۔اس افسانہ میں قدیم عہد کی کہانی بھی ہے،نوآبادیاتی عہد کا رویہ بھی اور اشتراکی معاشرت کا نظریہ بھی۔فی الواقع ہر عہد کی عورت کہانی رکھتی ہے۔ہر کہانی میں ایک عاشق ایک شوہر اور ایک۔۔۔ضرور ہے۔اور پھر ا ن میں سے ایثار کس کے حصہ میں آتا ہے۔۔۔۔۔۔وی کے سوال و جواب سے مل جاتا ہے۔اس افسانہ میں مدن سینا،عورت کا روپ ہے۔ یہ عورت عہد اور زمانے عبور کرتی جاتی ہے تو مردوں کے عورت کے تئیں رویے میں کس قدر تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔یہ منسوب کسی سے ہے اور اس عاشق کوئی اور ہے۔عاشق تنہائی میں ملتا ہے اور اس کی حالت زار دیکھ کر یہ اس سے وصل ازدواجی سے پہلے ملنے کا وعدہ کرتی ہے۔شادی کی رات سارا قصہ شوہر سے کہہ کر اس سے ملنے کی اجازت چاہتی ہے۔شوہر اجازت دے دیتا ہے۔یہ اپنے معشوق کی طرف چلنے لگتی ہے کہ راستے میں ڈاکوؤں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ اس کے تن من کے زیور کو لوٹنے پر آمادہ ہوتا ہے۔یہ اپنا قصہ کہہ کر عاشق س ملنے کے بعد ان کے پاس واپس آنے کا وعدہ کرتی ہے۔عاشق کے گھر پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے ’’تم نے اپنا بچن پورا کیا لیکن تم جو کسی دوسرے کی پتنی ہو میرے کس کام کی جس طرح تم آئی ہو ویسے ہی چلی جائو کوئی تمہیں دیکھنے نہ پائے۔ایک آنکھ سے ہنستی اور دوسری سے روتی مدن سینا اسی راستے واپس ہوتی ‘‘ڈاکوؤں سے مدن سینا کو ایفائے عہد کرنا تھا سو وہاں پہنچتی تو ڈاکو نے قصہ سنا واپسی کا تو اس نے کہا،تیری سچائی سے خوش ہو کر میں بھی تجھے چھوڑتا ہوں۔جا اپنے سونے چاندی اور عزت کے زیوروں سمیت اپنے گھر جا ‘‘اس قصہ کے خاتمہ پر ویتال نے مہاراج تری وکرم سینا سے اس قصہ میں سب سے فراخ دل شخص کی نشاندھی چاہی۔انہوں نے ڈاکو کو فراخ دل بتایا ’’لیکن ڈاکو،وہ بے اصول،بدمعاش،اندھیارے کا باسی،وہ سچ مچ فیاض اور فراخ دل تھا۔اس نے ایسی خوبصورت عورت کو جواہرات سمیت چلے جانے دیا۔‘‘

یہ طویل افسانہ اس تصور کی طرف بھی رخ کرتا ہے کہ عشق آزادی کا آئینہ ہے۔وہاں جذبہ عمل،قول کا تبادلہ آزادانہ ہوتا ہے۔کسی معاہدے کے جبر سے آزاد کسی اخلاقی معاشرتی رعایت سے عاری۔واضح رہے کہ عمل میں ہر نوع کا جبلی عمل بھی شامل جو کسی انسانی جوڑے کے لئے ضروری ہے۔اور یہ تصور ملکہ شامینیںکے فیصلہ کی صورت افسانے میں داخل ہوتا ہے۔’’ہم اعلان کرتے ہیں اور ہم اسے امر طے شدہ سمجھتے ہیں کہ عشق ایسے دو افراد کے درمیان اپنی طاقتوں کا اثر نہیں ڈال سکتا جو ایک دوسرے سے منکوح ہوں۔کیوں کہ عشاق ایک دوسرے کو ہر چیز آزادی سے دیتے ہیں،کسی جبر یا مجبوری سے نہیں۔لیکن شادی شدہ جوڑے میں فریقین مجبور ہیں کہ بطور فرض ایک دوسرے کی خواہشیں پوری کریں۔اور ایک دوسرے سے اس امر میں انکار نہ کریں۔‘‘اس تصور عشق میں سپردگی یا دو طرفہ احتظاظ اور معاونت کی جو صورت ہے،وہ صورت ایک خاص ماحول اور عہد کی زائیدہ ہے۔وقت بدلتا ہے طرز زندگانی ایک ڈھرے پر جا پڑتی ہے تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔مارکس،اینگلز کے ذریعہ افسانہ نگار اس قصہ پر نظر ثانی کرواتا ہے۔’’ہمارے بورژوا اپنی مزدوروںکی بیویوں اور بیٹیوں پر ہی اکتفاء نہیں کرتے،رنڈیوں کا تو ذکر ہی کیا انہیں ایک دوسرے کی بیویوں کو پھسلانے میں انتہائی لطف آتا ہے۔‘‘؎؎؎؎؎؎؎افسانہ مثالیت پسندی اور انسانی جبلت کی اور فطری معصومیت کے عہد سے نکل کر اور اقتصادیات کی تعبیر کی وجہ سے وقت کی انارکی اور ابتذال کا آئینہ بننے لگتا ہے۔قرون وسطیٰ کے ایک قصہ سے پھر مدن سینا کے مثل ایک قصہ یورپ کے پس منظر میں افسانے کے بیانیہ کا حصہ بنتا ہے اور اس کا انجام بھی تقریبا وہی ہے۔

چوتھے قصہ میں افسانہ نو آبادیاتی عہدمیں آگھستا ہے اور یہاں کے بورژوا طبقہ کی معاشرت کی آئینہ گری کرتا ہے۔اس حصہ میں پس منظر ہندوستان ہے۔تفریحی جلسہ یا پارتی کے جلومیں عورت مرد کے رشتوںکے روپ جگمگاتے ہیں اور کثافتیں اپنا رنگ چوکھا کرتی ہیں۔رقص و سرود اور لذت جام و کام و دہن اس کثافت کی تصویر بنتے ہیں۔انجام صمدر کی کم عمر بیوی کے اس ازدواجی حدود سے پرے اس جنسی تعلق اور صمدر کے درگزر پر ہوتا ہے کہ اس سے احساس ہمدردی کی ایک معقول وجہ اس کے پاس یہ ہوتی ہے کہ عمر کا تفاوت ان کے ما بین وہی ہے جو باپ بیٹی کے درمیان ہو سکتا ہے۔اس پر صمدر کا رد عمل ملاحظہ کیجئے۔

’’کپڑے بدلتے ہوئے وہ سوچنے لگے۔ہم سب میں زیادہ فیاض کون ہے ؟۔۔۔میں جو مالک ہوں اور اپنی ملکیت پر جبر نہیں کرتا ؟یا۔۔۔جس نے اپنا پیار بیچا ؟یا میری چندرا جس نے اپنے ریشمی آرام و آسائش کے لئے اپنے والدین کو اپنا جسم میرے ہاتھوں میں لینے دیا۔وہ۔۔۔۔۔۔راج میں کون فیاض ہے ؟کون فیاض رہ سکتا ہے ؟یہاں تو ہر طرف لین دین ہی لین دین ہے۔یہاں شکر و شکایت اور گلہ شکوہ کیا ؟‘‘

افسانے کے آکری حصے میں صغیراور ناہید جہاں اشتراکی میاں بیوی کا قصہ شروع ہوتا ہے۔یہاں سہولت پسند بورژوا اشتراکیت جو آسائش و آرائش کے ساتھ اشتراک کو بناہنے والے گروہ کا ذکر کرنے کے بعد تخلیق کار اس جوڑے کا ذکر کرتا ہے جو عملا اشتراکیت پسند ہے۔دونوں میاں بیوی اپنی اپنی اپنی اپنی جدو جہد اور تحریکی سر گرمیوں میں مصروف ہوتے ہوئے پر سکون زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک دن ناہید مقبول کے ساتھ سنیما چلی جاتی ہے اور اسے واپس لوٹنے میں دیر ہو جاتی ہے۔اس دوران صغیر کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور یہ وسوسے رشتہ مناکحت کی فلسفیانہ تفہیم کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔تخلیق کار کردار صغیر کے ذریعہ مناکحت کی تمدنی صورتوں پر غورو فکر کرتا ہے۔

’’اس نے سگریٹ سلگایا اور ٹہلنے لگا۔سوچنے لگا کہ مجھے شک اور کسی قسم کے صدمے کاحق ہی کیا ہے۔ناہید اور اس کا جسم میری ملکیت تو ہے نہیں۔کیا اس مہاجنی تمدن سے پہلے بر بریت کے سنہری دور میں تمام عورتیں تمام مردوں اور تمام مرد تمام عورتوں کی ملکیت نہیں ہوتے تھے۔ممکن ہو یہی قانون فطرت ہو۔ممکن ہے ’’جوڑے دار ‘‘شادیاں قانون فطرت کی خلاف ورزی ہوں۔تمدن کی صبح کاذب کے ساتھ ساتھ یہ شادیاں وجود میں آئی ہیں۔پہلے مائیں بہنیں حرام ہوئیں،پھر قبیلے کی عورتیں حرام ہوئیں۔پھر ایک مرد اور ایک عورت کی جوڑے دار شادیاں ہونے لگیں۔‘‘

افسانے کے بطن اور متن میں سماجی فلسفہ کھپانے کا یہ سلیقہ بھی خوب ہے کہ اشتراکی فلسفہ کی رو سے کی جانے والی معاشرتی نظام کی تعبیر کو نئے عہد کی مدن سینا کی تفہیم میں حسن و خوبی سے استعمال کیا ہے۔صغیر کی خود کلامی اور فکر کی رو سے جو مکالمہ قائم ہوتا ہے وہ ایک متمدن اور تعلیم یافتہ انسان کا مکالمہ معلوم ہوتا ہے جو اپنے عہد میں رائج تصورات سے ذہنی کشمکش کر رہا ہے کہ کیوں کر عصمت صرف عورت پر واجب ہے۔اور اگر عشق کے ذریعہ یہی کچھ واجب ہو تو دونوں پر واجب ہو۔ادھر اس کی بیوی ناہید مقبول کے دلکش جمالیات بدن میں محو ہے کہ دونوں کی آنکھوں نے ہی بس بے معلوم عشقیہ خاموش سرگوشیاں کی ہیں۔نگاہوں کے رابطے جنسی کشش تو لے آئے لیکن جذب مطلق کی صورت نہ ہوئی۔صغیر کے دل میں کوئی شک نہ ابھرے یہ اندیشہ لئے گھر کے زینے چڑھنے شروع کئے اور اپنی سوچ پر حیرت زدہ ہو کر اس نتیجہ پر پہنچی کہ اسے اپنی برأت کی کیا حاجت،وہ صغیر کی ملکیت تو نہیں ؟اور ایک گرم بوسے پر تخلیق کار کے اس مثالی جوڑے کی کہانی تمام ہوتی ہے۔اس مقام پر ویتال نے مہاراج سے وہی سوال کیا کہ بتائیے سب سے زیادہ فیاض کون تھا ؟تخلیق کار کے ذہن میں اشتراکیت کی مثالیت پسند کوندے لپک رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سماجی فلسفہ کے ذہن کی دسترس آنے کے بعد انسانی فطرت کی کوئی کل ٹیڑھی ہو جائے،یہ کہاں ممکن ہے۔اب تو سب مبنی بر حق ہی ہوتا ہے تو مبنی بر حق ہی ہوا۔ہر فرد یہاں اس قدر کا ذمہ دار ہے اور دوسرے کے حق کی تمیز رکھتا ہے۔مہاراج کی زبانی ہی سنئیے ’’اور ایسا واقعہ جیسا تو بیان کرتا ہے،پیش آئے تو میں یہ کہوں گا کہ صغیر ناہید اور مقبول برابر فیاض تھے۔یا یہ کہ ان میں سے کوئی خاص طور پر فیاض اور فراخ دل نہ تھا۔ہر ایک اپنا اور دوسرے کا حق جانتا تھا۔اور دل اور جسم کی محبت میں امتیاز کر سکتا تھا۔ان دونوں کے فرق کو سمجھتا تھا۔‘‘

میں یہ کہنے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں ہوں کہ یہ طویل افسانہ حد درجہ کامیاب افسانہ ہے۔یہاں تو انسانی جبلت خط مستقیم پر چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اس میں کوئی کجی کوئی ٹیڑھ سب کثیف ماحول میں ہی پیدا ہوتی ہے۔صمدر اور اس کی بیوی کو چھوڑ کر ہر جگہ مثالیت پسندی حاوی ہے۔قدیم عہد کی مدن سینا اور عہد وسطیٰ کا۔۔۔۔۔قابل اعتبار اس لئے معلوم ہوتے ہیں کہ اس عہد کے پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس عہد تک تمدن نے آدمی پر اس قدر خول نہیں چڑھائے کہ انسان کا خول آدمی کو اس کی جیون سے باہر نہ آنے دے۔لیکن بعد کی صورتیں قابل غور ہیں۔اگر چہ امکانی صورت صمدر بھی ہے اور صغیر و ناہید بھی۔ان کی فلسفیانہ سرگوشیاں اور خود کلامیاں بھی لیکن محل نظر بات اس افسانہ کا انجام ہے۔جو بتاتا ہے یہاں انسانی رویوں کو ترازو پر تول کر استعمال میں لایا گیا ہے جو فطری معلوم نہیں ہوتا ہے۔اشتراکیت لاکھ تیز سہی لیکن اتنی بھی نہیں کہ روح کا تزکیہ کرے،وہ تو ذہن کی غذا بھر ہے۔

اس طویل تجزیہ سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ طویل افسانے میں کسی موضوع کو برتنے کا امکان کس حد تک ہے اور یہ کام مختصر افسانے سے کیوں کر ممکن نہیں ہے۔عورت کو تاریخی تناظر میں دیکھنے اور تہذیبی تسلسل کے سیاق میں دیکھنے کی یہ کوشش طویل افسانے میں ہی ممکن تھی۔مختصر افسانہ اسے سہار سکنے کا اہل نہیں ہو سکتا تھا۔اس طرح کے بہتیرے موضوعات طویل افسانے میں بہتر ڈھنگ سے اظہار پا سکتے ہیں۔

کو ئی بھی مستقل صنف اپنے خالق سے نام نہیں پاتی،نہ ہی قاری سے بلکہ اس صنف کا ساختیاتی نظام اس میں کارفرما تشکیلی طریقہ کار ان خطوط کی طرف لے جانے میں مدد کرتے ہیں جو ایسی اختصاصی شناختوں کو اجا گر کرتے ہیں جن کی بنیاد پر صنف کا مستقل وجود قائم ہو تا ہے۔صرف فکرو خیال کو صنفی شناخت کی بنیاد قرار دینا ممکن نہیں ہے۔خارجی ہیئت اور طریقہ اظہار ہی کسی امتیازی اظہار کی صنفی صورت گری کر تے ہیں۔صرف ایک واحد تجربہ صنف کو مستحکم اور قائم کرنے کا اہل نہیں،بلکہ تخلیقی عمل کے تسلسل میں اس کی وافر شہادتیں بھی ضروری ہیں جو صنفی خصوصیات کی عملی شہادتیں مہیا۔ کرتی ہیں۔کوئی ایک تجربہ فقط شذوذ کے دائرہ میں ہی رکھا جاسکتا ہے۔قاضی افضال رقم طراز ہیں کہ :

’’صنف کے قائم ہونے کے لئے متون میں کم سے کم دو صفات کا مشترک ہونا ضروری ہے۔اور ایک مثالی صنف میں کم سے کم ایک صفت ہیئت اور ایک صفت موضوع یا بیان کی لازما مشترک ہونی چاہئے (مثلا رباعی )یا موضوع میں خود موضوع کیدو تخصیصی صفات ہونی چاہئے تاکہ وہ صنف کہی جا سکے۔کسی ایک صفت کی بنیاد پر اردو میں کوئی صنف قائم نہیں ہوتی۔ایک صفت کی بنیاد پر کسی صنف کی کوئی قسم قائم ہو سکتی ہے،صنف نہیں۔
’’صنف کے قیام کی ایک بنیادی شرط،مشترک صفات کا متون میں تواتر ہے۔تجربہ پسندی کے شوق میں یا ’’موجد صنف ‘‘ کہلانے کے شوق میں کوئی تخلیق کار کسی صنف کی مشترک صفات کی شکل بگاڑ کر کوء صنف ’’ایجاد‘‘ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے (مثلا آزاد غزل )اور اپنے دعوے کے ثبوت میں خود اپنے کلام کے علاوہ بمشکل اپنے گروہ کے کسی دوست،شاگرد یا مؤید کا کلام ہی پیش کر سکتا ہے،تو وہ صنف نہیں ایجاد کر رہا،اپنی عجب کی تسکین کا سامان کر رہا ہوتا ہے۔‘‘

طویل افسانہ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو متون کا ایسا وافر ذخیرہ ملتا ہے جو متون میںمشترک صفات کی موجودگی کی شہادت دیتا ہے۔ہیئت کی سطح پر ہم طویل افسانے کو مختصر افسانے سے ان معنوں میں مختلف پاتے ہیں کہ اس کا بیانیہ اختصار کے بجائے تفصیل طلب ہو تا ہے۔اس میں جزئیات کی نہ صرف گنجائش ہوتی ہے بلکہ کردار کے بھر پور اظہار کے لئے بسا اوقات جزئیات نگاری لازم ہو جاتی ہے۔طویل افسانے کا حسیاتی و منظریاتی جہان بھی مختصر افسانے سے قدرے وسیع اور بھر پور ہوتا ہے۔اگر ہم مختصر افسانے اور طویل افسانے کے ما بین یہ خطوط فاصل پاتے ہیں تو کیا ان کی بنیاد پر طویل افسانہ کو علاحدہ صنف کا درجہ دے سکتے ہیں ؟جلیل کریر طویل افسانے کے وجود کو معرض سوال میں لاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ جب مختصر افسانے میں ہم صنعتی زندگی اور انقلابی تبدیلیوں کا عکس اتار سکتے ہیں تو طویل افسانہ کیوں کر لازم ہوا۔اس کی ضرورت اور وجود کا جواز کیا ہے ؟وہ لکھتے ہیں:

’’اگر مختصر افسانے میں صنعتی زندگی کی لال چری کو اپنے شیشے میں اتار سکتے تھے تو خواہ مخواہ طویل افسانہ کیوں آزمایا گیا ؟اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’طویل مختصر افسانہ‘کوئی بالکل علاحدہ صنف ادب نہیں۔دوسرے یہ کہ افسانوی فارم تمام تر مواد اور موضوع پر مبنی ہوتی ہے۔فن کار سب سے پہلے اپنے موضوع کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے حسب حال خام مواد اکٹھا کرتا ہے۔یہی اسے فارم کے انتخاب میں ممد ہوتا ہے۔کئی جگہ اشاراتی انداز کی ضرورت ہوتی ہے اور کہیں پھیلائو اور وضاحت کی۔اگر فنکار سمجھتا ہے کہ وہ کہنے کی بات کو چند ہلکے ہلکے خطوں میں اجاگر کر سکتا ہے تو وہ یقینا مختصر افسانے کا انتخاب کرے گا۔اگر تصویر کو ابھارنے میں لمبے اور واضح خطوں کی ضرورت ہے تو وہ قدرتی طور پر طویل مختصر افسانے کی صنف کا استعمال کرے گا۔‘‘

کیا طویل افسانے کے موضوع اور مواد میں ایسی تخصیصی صفات ہیں جو اسی کے ساتھ خاص ہوں تو اس باب میں ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ تخصیصی صفت اجمال کے مقابلے تفصیل کی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ا س کے ساتھ کوئی موضوع خاص ہو کہ وہ موضوع طویل افسانے میں بیان ہو سکتا ہے اور کہیں نہیں۔تکنیک کی سطح پر جو تغیر اور طویل افسانے کی طوالت طلبی اور کثیر جہتی اور ابعادی تنوع کو کیا ہم اس کی ایسی صفات قرار دے سکتے ہیں جو بطور صنف اس کی تشکیل کرتی ہوں۔طویل افسانہ موضوع اور مواد سے جوسلوک کرتا ہے اور جس طرح اپنے حجم کے حجرے میں مسند نشین کرتا ہے اس سے ابو بکر عباد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ایک جداگانہ صنف ہے۔لکھتے ہیں :

’’طویل مختصر افسانہ ناول اور مختصر افسانے سے جدا صنف اور انتہائی محتاط فن ہے۔جس میں نہ تو مختصر افسانے کا سا اختصار ہے نہ ہی ناول کا سا پھیلائو بلکہ مختصر افسانہ جن چیزوں کا متحمل نہیں ہو سکتا طویل مختصر افسانے میں وہ چیزیں بڑی خوبی سے جگہ پاسکتی ہیں۔اور ناول میں بھی ہمارے بعض ماہرین سے بھی جو بے اعتدالیاں ہو تی ہیں اس کی گنجائش بھی اس صنف میں بہت کم رہ جاتی ہے۔‘‘

قاضی افضال نے طوالت کے باعث طویل افسانہ کو صنف ماننے سے احتراز کیا ہے۔۱

میں اس بحث میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ فقط طوالت طویل افسانہ کا وصف نہیں بلکہ موضوع و مواد کو برتنے اور بیانیہ کو قائم کرنے کا اس کا اپنا طریقہ مختصر افسانے سے مختلف ہے۔اگر با ضابطہ طویل افسانے کے لوازم کو مد نظر رکھ کر یہ سوال قائم کیا جاتا اور اس سوال کا تسلسل نہ ٹوٹتا تو اب تک یہ بات واضح ہو گئی ہوتی کہ طویل افسانہ کے شناختی امتیازات اور علامات اس نوع کے ہیں کہ اسے علاحدہ صنف کا درجہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ناقدین کے پس و پیش کی جو وجہ معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اب تک ہمارے یہاں الگ زاویے سے طویل افسانے کو دیکھنے کی کوششیں کم ہوئیں ہیں۔آج سے نصف صدی پہلے جو کوششیں جلیل کریر،مظفر سید اور ممتاز شیریں نے اس باب میں کی ہیں، اس پر مستقل مکالمہ قائم ہوا ہوتا تو مختصر افسانے اور طویل افسانے کا فرق واضح ہو گیا ہوتا۔