Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

پی ایس ایل؛ پاکستان کرکٹ کا روشن مستقبل

test-ghori

test-ghori

04 مارچ, 2016
2007 کا ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ نہ صرف پاکستان کے لئے ایک ڈراؤنہ خواب ثابت ہوا بلکہ اسے ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بُرا ٹورنامنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ ورلڈ کپ کے نویں میچ میں پاکستان کو آئرلینڈ کے ہاتھوں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان ورلڈ کپ کے پانچویں دن ہی ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا۔ پاکستانی ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پائے تھے کہ اگلے ہی دن پاکستان ٹیم کے کوچ باب وولمر کے مرنے کی خبر نے کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ویسٹ انڈیز میں کھیلا گیا یہ ورلڈ کپ ہر لحاظ سے برا ثابت ہوا۔ گراؤنڈ میں تماشائی نہ ہونے کے برابر تھے اور 45 دنوں پر مبنی اس طویل ٹورنامنٹ کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو اس سے پہلے کھیلے گئے ورلڈ کپ کو ملی تھی۔ ورلڈ کپ کا فائنل بھی امپائرز کی نا اہلی کی وجہ سے تنازعہ کا شکار ہوا اور آئی سی سی کے سربراہ (چیف ایکزیگٹیو) میلکم سپیڈ کو تمام شائقین سے معافی مانگنی پڑی۔ آئی سی سی کو اپنے اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لئے کسی اچھے اقدام کی ضرورت تھی اور انہوں نے اسی سال ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کرانا کا فیصلہ کر دیا (گو اس سے ایک سال پہلے اس معاملہ پر کافی بحث ہوچکی تھی)۔

اگر اگلے سال بھی لیگ ملک سے باہر کھیلی جاتی ہے تو کم از کم ایک یا دو میچز خصوصاً فائنل کا انعقاد پاکستان میں ہونا چاہیئے
پہلے ورلڈ ٹی ٹوینٹی کپ کو بہت سے ممالک سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے جن میں آسٹریلیا، پاکستان اور انڈیا سرِ فہرست تھے۔ انڈیا نے تو پہلے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا لیکن اس وقت کے آئی سی سی صدر احسان مانی اور چیف ایکزیگٹیو میلکم سپیڈ کی کوششوں سے تمام ٹیمیں اس ٹورنامنٹ کو کھیلنے کے لئے راضی ہوئیں۔ ٹورنامنٹ کا آغاز کرس گیل کے دھماکے دار بیٹنگ سے ہوا جنہوں نے پہلے ہی میچ میں 10 چھکوں کی مدد سے ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل کی پہلی سینچری سکور کی اور ویسٹ انڈیز نے 20 اوورز میں 205 زنز بنائے۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز نے جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 55 گیندوں پر 90 رنز بنائے اور اپنی ٹیم کو فتح دلادی۔ ٹورنامنٹ کے پہلے ہی میچ سے ٹی ٹونٹی کے بارے میں لوگوں کے خیالات میں تبدیلی آئی اور ٹی ٹونٹی کو کرکٹ کا مستقبل قرار دیا جانے لگا۔ ٹورنامنٹ کے فائنل میں انڈیا اور پاکستان کا کانٹے دار مقابلہ ہوا اور بدقسمتی سے پاکستان کو 5 رنز سے ہارنا پڑا۔ اس ٹورنامنٹ سے آئی سی سی کو اپنی ساکھ بحال کرنے میں کافی مدد ملی اور اس ٹورنامنٹ کی کامیابی کو دورِ جدید کے کرکٹ کا انقلاب کہا جانے لگا جس کے بعد آئی پی ایل، بیگ بیش، کیریبیئن لیگ، چیمپیئنز لیگ اور باقی کرکٹ لیگوں کا آغاز ہوا۔

یوں تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی 2007 کے ورلڈ ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کے بعد ہی ایک لیگ شروع کرنا کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن بورڈ کی اقتصادی زبوں حالی اور ملکی حالات کی وجہ سے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے پاکستان کو آٹھ سال انتظار کرنا پڑا۔ بالآخر 4 فروری 2016 کو پاکستان سوپر لیگ کا آغاز ہوا اور اسی مہینے کی 23 تاریخ کو دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں پی ایس ایل کا شاندار فائنل کھیلا گیا۔ جس طرح 2007 کے پہلے ورلڈ ٹی ٹونٹی کی کامیابی کے بعد دنیائے کرکٹ میں بہت سی خوشگوار تبدیلیوں کا آغاز ہوا اسی طرح امید کی جارہی ہے کہ پی ایس ایل کی کامیابی سے پاکستان کرکٹ میں بھی اچھی خاصی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس سال یہ لیگ ملک سے باہر کھیلی گئی لیکن امید کی جارہی ہے کہ جلد ہی پاکستان سوپر لیگ پاکستان میں کھیلی جائے گی لیکن اس کا دارومدار ملک میں امن و امان کی بحالی پر ہے۔ اگر اگلے سال بھی لیگ ملک سے باہر کھیلی جاتی ہے تو کم از کم ایک یا دو میچز خصوصاً فائنل کا انعقاد پاکستان میں ہونا چاہیئے تاکہ شائقین کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو کھیلتے دیکھنے کا موقع مل سکے۔
اس لیگ کے انعقاد سے پہلے بھی اور لیگ کے دوران بھی بہت سے لوگ اس لیگ کا مقابلہ آئی پی ایل اور بگ بیش جیسی لیگوں سے کرنے لگے جو میرے خیال میں سراسر ناانصافی ہے جن کے وجوہات کا ذکر آگے چل کر آئے گا لیکن اس سے پہلے اس لیگ میں کھلاڑیوں اور ٹیموں کی کارکردگی پر کچھ باتیں ضروری ہیں۔

بہترین ٹیم

میرے خیال میں سب سے بہترین کھلاڑی کہلانے کے حقدار کوئٹہ ٹیم کے محمد نواز ہیں جنہوں نے بلے بازی اور گیند بازی دونوں شعبوں میں متاثر کن کارکردگی دکھائی اور ہمیشہ اپنی ٹیم کو مشکل حالات سے نکلنے میں مدد دی۔
لیگ میں سب سے زیادہ فتوحات کوئٹہ کے نام رہیں لیکن بہترین ٹیم کی حقدار اسلام آباد یونائٹیڈ کی ٹیم ہے کیونکہ انہوں نے نہ صرف لیگ کو اپنے نام کیا بلکہ صحیح وقت پر صحیح کھیل کا مظاہرہ کیا۔ مصباح الحق کی قیادت میں اسلام آباد نے آخری پانچ میچوں میں ناقابلِ شکست کارکردگی دکھائی اور پشاور اور کوئٹہ جیسے بہترین ٹیموں کو آسانی سے زیر کر لیا۔

بہترین میچ

لیگ کا بہترین میچ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلا گیا جس میں کوئٹہ کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 133 رنز سکور کئے جو بظاہر بہت آسان ہدف تھا۔ وہاب ریاض نے بہترین باؤلنگ کرتے ہوئے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ جواب میں پشاور کی ٹیم محمد نواز، ایلیٹ اور اعزاز چیمہ کی تباہ کن باؤلنگ کی وجہ سے صرف 132 رنز بنا سکی اور اس طرح کوئٹہ کی ٹیم نے یہ میچ صرف 1 رن سے جیت کر فائنل میں جگہ بنالی۔

بہترین لمحہ

پی ایس ایل میں جتنا جوش و جذبہ باؤنڈری لائن کے اندر دیکھنے کو ملتا تھا اتنا ہی باؤنڈری لائن کے باہر بھی دیکھنے کو ملا۔ کوئٹہ ٹیم کی بہترین کارکردگی کا سہرا سر ویوین رچرڈز کے سر جاتا ہے جنہوں نے کوئٹہ ٹیم کے ہر کھلاڑی کی جی جان سے رہنمائی کی اور ہر میچ کے جیتنے پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ویسٹ انڈیز کو دو ورلڈ کپ جتوانے والا شخص اس طرح سے جونیئر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ میرے خیال میں پی ایس ایل کا سب سے بہترین لمحہ باؤنڈری کے اندر نہیں بلکہ باؤنڈری کے باہر کھیلا گیا تھا۔ فائنل میں جب کوئٹہ کی ٹیم کے جیتنے کے تمام مواقع ختم ہو چکے تھے تو کیون پیٹرسن نے اردو میں ٹویٹ کرتے ہوئے کوئٹہ ٹیم کے مداحوں سے معذرت کرتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہار کیا اور اگلے سال بہتر کھیل دکھانے کا وعدہ کیا۔ کرکٹ کے ایک مداح کے طور پر اس سے بہتر لمحات شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملے ہوں۔

بہترین کھلاڑی

اس لیگ میں بہتر کارکردگی دکھانے والوں میں زیادہ تر تجربہ کار کھلاڑی شامل تھے جنہیں بین الاقوامی کرکٹ کا اچھا خاصہ تجربہ حاصل تھا لیکن میرے خیال میں سب سے بہترین کھلاڑی کہلانے کے حقدار کوئٹہ ٹیم کے محمد نواز ہیں جنہوں نے بلے بازی اور گیند بازی دونوں شعبوں میں متاثر کن کارکردگی دکھائی اور ہمیشہ اپنی ٹیم کو مشکل حالات سے نکلنے میں مدد دی۔ پشاور زلمی کے خلاف پہلے پلے آف میں جب انہوں نے دو مسلسل گیندوں پر محمد حفیظ اور بریڈ ہوج کو بولڈ کیا تو 1992 کے ورلڈ کپ فائنل کے وہ لمحات یاد آئے جب وسیم اکرم نے ایلن لیمب اور کرس لیوس کو مسلسل دوگیندوں پر آوٹ کیا تھا۔ اس کارکردگی کی بنا پر محمد نواز کو اب ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹونٹی کپ کے لئے ٹیم کا حصہ بنادیا گیا ہے۔

پی ایس ایل اور دیگر لیگز کا موازنہ

پہلے ہی سال میں اس لیگ کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ اپنے آغاز کے پہلے ہی سال اسے وہ کامیابیاں ملی ہیں جس کی شاید لوگ توقع نہیں کر رہے تھے۔
پاکستان سوپر لیگ کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کیا یہ دیگر کرکٹ لیگز جیسے انڈین پریمیئر لیگ، بگ بیش لیگ، کیریبئین پریمیئر لیگ حتیٰ کہ بنگلہ دیش پریمئر لیگ سے مقابلہ کر پائے گی۔ اس موازنے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ پاکستان سوپر لیگ کا پہلا سال تھا جبکہ باقی لیگز کو کافی عرصہ ہوچکا ہے جیسا کہ آئی پی ایل کے آغاز کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ اور ایک بات اور جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ باقی لیگز ان کے اپنے ممالک میں کھیلی جاتی ہیں جبکہ پی ایس ایل پاکستان میں نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی لیکن پھر بھی میدان میں شائقین کی تعداد قابلِ قدر تھی اور فائنل میں تو تمام ٹکٹ فروخت ہوئے حالانکہ فائنل چھٹی کے دن نہیں بلکہ ایک کاروباری دن کو کھیلا گیا تھا، اس امر سے لوگوں کی اس لیگ میں دلچسپی کا پتہ چل جاتا ہے۔ جہاں دبئی میں کافی لوگ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو دیکھنے گئے وہیں پاکستان میں بھی سب لوگ ٹی وی پر یا انٹرنیٹ کے ذریعے کرکٹ سے محظوظ ہوتے رہے۔

جتنا پیسہ آئی پی ایل اور بگ بیش جیسی لیگز کے پاس ہے اتنا پیسہ پی ایس ایل والوں کے پاس نہیں جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو اتنی مراعات اور معاوضے نہیں ملے جتنے آئی پی ایل اور بگ بیش میں ملتے ہیں لیکن پھر بھی غیر ملکی کھلاڑیوں کی شمولیت اور ان کی دلچسپی ایک بہت بڑی بات تھی۔ اس لیگ کی سب سے بڑی خوبی (جس کا ذکر ایک گزشتہ تحریر میں بھی کیا گیا) یہ تھی کہ کھلاڑیوں کا انتخاب باقی لیگوں کی طرح نیلامی سے نہیں ہوا بلکہ ڈرافٹ سے ہوا جس کے باعث تقریباً تمام ٹیمیں متوازن تھیں اور ہر ٹیم کو دو ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا بھی انتخاب کرنا تھا جس سے نئے ٹیلنٹ کو منظرِ عام پر آنے کا موقع ملا اور آئندہ بھی ملتا رہے گا جو نہایت خوش آئند ہے۔

پہلے ہی سال میں اس لیگ کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ اپنے آغاز کے پہلے ہی سال اسے وہ کامیابیاں ملی ہیں جس کی شاید لوگ توقع نہیں کر رہے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے سال لیگ کی کارکردگی کیسی ہوگی اور کس قدر جلد اس لیگ کو پاکستان لایا جائے گا۔