آخری بار کوئٹہ شہر میں بین الاقوامی کرکٹ میچ پاکستان اور زمبابوے کے مابین 29 اکتوبر 1996 کو بگٹی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا جس میں وسیم اکرم ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 300 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے پہلے باؤلر بنےتھے۔
پچھلے کئی دنوں سے دبئی اور شارجہ میں جاری پاکستان سوپر لیگ اپنے اختتامی مراحل میں پہنچ چکی ہے۔ اس لیگ کا انعقاد پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے کیا گیا ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی کرکٹرز شاندار کھیل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس لیگ میں کل پانچ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ لیگ میچز کے اختتام تک سب سے بہتر اور مستقل کارکردگی کا مظاہرہ جس ٹیم نے کیا ہے وہ ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ہے۔ ٹیم کی حیران کن کارکردگی سے نہ صرف لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس سے کوئٹہ شہر کو بھی پہلی بار اس بڑے پیمانے پر خصوصی توجہ حاصل ہو رہی ہے۔ لیکن کوئٹہ کی ٹیم اور لیگ کو سراہنے والوں کے ساتھ ساتھ ٹیم اور لیگ کو تنقید کا نشانہ بنانے اور اعتراض کرنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔
کوئٹہ شہر، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت ہے۔ کوئٹہ میں رہنے والوں کا تعلق زیادہ تر پشتون، بلوچ اور ہزارہ برادری سے ہے۔ کوئٹہ بہترین پھلوں کی پیداوار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے لیکن پچھلی دو دہائیوں سے کوئٹہ صرف اور صرف دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے خبروں کی زینت بن رہا ہے۔ یوں تو کوئٹہ نے کئی مایہ ناز سپوت پیدا کیے ہیں جن میں ابرار حسین باکسر (ایشین گولڈ میڈلسٹ)، کوہ پیما ہدایت اللہ خان درانی، سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد موسیٰ، چیف جسٹس افتخار چوہدری، فلائٹ لیفٹنٹ صمد علی چنگیزی (ستارہ جرات) ناول نگار اور ہدایتکار ہاشم ندیم، شاعر محسن چنگیزی (تمغہِ امتیاز) اور فنکاروں میں جمال شاہ، ایوب کھوسہ، عذرا آفتاب اور حمید شیخ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ مگر کرکٹ کے کھیل سے اس شہر کا تعلق اتنا گہرا نہیں ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اب تک کوئی کرکٹر اس شہر سے منظرِ عام پر نہیں آیا ہے۔ آخری بار کوئٹہ شہر میں بین الاقوامی کرکٹ میچ پاکستان اور زمبابوے کے مابین 29 اکتوبر 1996 کو بگٹی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا جس میں وسیم اکرم ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 300 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے پہلے باؤلر بنے تھے۔ اس میچ کو اس لئے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ اس میچ میں دنیا کے سب سے کم عمر (متنازعہ طور پر) کرکٹر حسن رضا نے اپنا پہلا بین الاقوامی میچ کھیلا تھا۔ پاکستان سوپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مسلسل کامیابی کی وجہ سے پچھلے کئی دنوں سے غیر متوقع طور پر کوئٹہ کا نام اچھی اور خوش کن خبروں کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں آ رہا ہے۔ پچھلے میچ میں بسم اللہ خان (جن کا تعلق کوئٹہ شہر سے ہے) کی شاندار بلے بازی سے ایسا لگ رہا ہے کہ کوئٹہ میں کرکٹ کی جانب رحجان میں مزید اضافہ ہونے والا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔
دنیا بھر میں جتنی بھی لیگز موجود ہیں ان میں یہ امر مشترک ہے کہ کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے متعلقہ شہر سے کھلاڑیوں کے انتخاب جیسی جغرافیائی قیود متعین نہیں کی جاتیں۔
پاکستان سوپر لیگ، انڈین پریمیئر لیگ کی طرح بارونق اور بیگ بیش لیگ کی طرح تماشائیوں سے چکا چک بھری ہوئی نہیں ہے لیکن پھر بھی پاکستان اور پاکستان سے باہر موجود کرکٹ کے شائقین بڑی تعداد میں ان میچوں کو دیکھ رہے ہیں۔ لیگ پر سب سے پہلا اعتراض (جس کا نشانہ زیادہ تر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کو بنایا گیا ہے) یہ ہے کہ ٹیم حقیقی معنوں میں اپنے شہروں کی نمائندگی نہیں کر رہی۔ اس اعتراض کی ایک وجہ میچوں کا اپنے متعلقہ پاکستانی شہروں میں نہ کھیلا جانا ہے جس کی ذمہ داری ملک میں امن وامان کی تشویشناک صورتحال پر عائد ہوتی ہے۔ شائقین کے ساتھ ساتھ کھلاڑی اور منتظمین بھی یہ چاہتے ہیں کہ میچز پاکستان کے شہروں میں ہوں لیکن فی الحال ایسا ہوتاممکن دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم چئیرمین پی سی بی اور چیئرمین پی ایس ایل اگلے برس کم از کم ایک سے دو میچ پاکستان میں کرانے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں اور اس سے اگلے برس پی ایس ایل کے تمام میچ پاکستان میں کرانے کی امید بھی ظاہر رک چکے ہیں، ہم دعاگو ہیں کہ ایسا ہی ہو اور پاکستان میں کرکٹ کی رونقیں بحال ہوں۔

بگٹی سٹیڈیم-کوئٹہ تصویر: سعادت صبوری
بہت سے معترضین یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں کوئٹہ کا صرف ایک ہی کھلاڑی (بسم اللہ خان) ٹیم کا حصہ ہے جس سے لوگ کافی ناخوش ہیں۔ ان لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ دنیا بھر میں جتنی بھی لیگز موجود ہیں ان میں یہ امر مشترک ہے کہ کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے متعلقہ شہر سے کھلاڑیوں کے انتخاب جیسی جغرافیائی قیود متعین نہیں کی جاتیں۔ اگر دیکھا جائے تو دنیائے فٹبال کے بے تاج بادشاہ لیونل میسی کا تعلق ارجنٹائن سے ہے لیکن ان کی مقبولیت میں ارجنٹائن کی قومی ٹیم سے زیادہ بارسلونا فٹبال کلب نے اہم کردار ادا کیا ہے جو سپین کا ایک کلب ہے۔ اسی طرح رونالڈو کا تعلق بھی پرتگال سے ہیں لیکن ان کی وجہِ شہرت انگلش کلب مانچسٹر یونائٹڈ اور ہسپانوی کلب ریال میڈریڈ ہیں۔ مہیندر سنگھ دھونی بھی آئی پی ایل میں چینائی کی قیادت کرتے رہے ہیں جبکہ ان کا تعلق رانچی، بہار (موجودہ جھاڑکھنڈ) سے ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض سراسر غلط ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا ایک اور کھلاڑی محمد اصغر بھی اس لیگ میں شامل ہے اور وہ پشاور زلمی کی طرف سے بہترین گیند بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ محمد اصغر نے بلوچستان کے شہر حب سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا اور پچھلے کچھ عرصے سے کراچی میں قیام پذیر ہے۔
پاکستان سوپر لیگ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ دوسری لیگز کے برخلاف کھلاڑیوں کا انتخاب (فروخت) نیلامی یا بولی کے ذریعے نہیں بلکہ ڈرافٹ کے ذریعے ہوا
پاکستان سوپر لیگ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ دوسری لیگز کے برخلاف کھلاڑیوں کا انتخاب (فروخت) نیلامی یا بولی کے ذریعے نہیں بلکہ ڈرافٹ کے ذریعے ہوا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تمام ٹیمیں متوازن طور پر منتخب ہوئی ہیں۔ تمام کھلاڑیوں کو چھ درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں ایک درجہ ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کے لئے مختص تھا اور ہر ٹیم کے لئے لازم تھا کہ وہ کم از کم دو ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا انتخاب کرے (میری محدود معلومات کے تحت یہ دنیا کی پہلا لیگ ہے جس میں ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا انتخاب لازمی قرار دیا گیا ہے)۔ اس سے نہ صرف نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ ڈریسنگ روم میں سر ویوین رچرڈز، کیون پیٹرسن، کماراسنگاکارا، وسیم اکرم، ڈین جونز جیسے کھلاڑیوں سے مل کر ان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا جو اس سے پہلے پاکستان میں ممکن نہیں تھا جس کا اثر محمد اصغر، محمد نواز، بسم اللہ خان، رومان رئیس اور اسامہ میر جیسے نوجوان کھلاڑی نہایت عمدگی سے دکھا رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لیگ میں بہت سی خامیاں ہیں جنہیں دور کرنے کے لئے منتظمین کو بہتر لائحہ عمل بنا کر مزید محنت کرنی ہوگی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ مکمل داد کی مستحق ہے جو کئی سالوں سے مشکلات سے دوچارہونے کے باوجود ایک بہتر معیار کی کرکٹ لیگ کے انعقاد میں کامیاب ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس قدر جلد کرکٹ بورڈ اس لیگ کو پاکستان میں منعقد کرانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ کرکٹ کے ایک مداح کے طور پر نہ صرف میری بلکہ تمام پاکستانیوں کی یہی خواہش ہے کہ جلد از جلد پاکستان میں کرکٹ کی بحالی ممکن ہوسکے۔ میری تمام تر ہمدردیاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ ہیں کیوں کہ وہ اس لیگ کی بہترین ٹیم ہیں۔ میری خواہش یہی ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم اس لیگ کو جیت کر کوئٹہ کے رہنے والوں کو خوش ہونے کا ایک نادرموقع فراہم کرے۔
Image Credit: Saa’dat Sabori
Leave a Reply