[blockquote style=”3″]
پاکستان میں شناخت کے موضوع پر بحث عرصہ دراز سے جاری ہے۔ تاہم ستر برس کے دوران ایک ایسی شناخت وجود میں آ چکی ہے جو اگرچہ علمی حلقوں میں متنازع ہے مگر اس کے باوجود ہمارے روز مرہ کے معاملات میں اس کی واضح چھاپ موجود ہے۔ عبدالمجید عابد کی یہ تحریر اس سے قبل ‘ہم سب’ پر بھی شائع ہو چکی ہے، مصنف کی اجازت سے اسے لالٹین پر بھی شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
شناخت (Identity) کا قومیت (Nationalism) کی تعمیر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستانیت اور پاکستانی شناخت کے متعلق بحث تقسیم ہند کے بعد سے جاری ہے۔ اس موضوع پر دائیں اور بائیں بازو کے مابین چپقلش کئی دہائیوں سے چل رہی ہے کہ کیا ہماری شناخت مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم ہو گی یاہم جغرافیائی بنیاد پر شناخت کو قومیت کا عنصر بنائیں گے۔ اس سلسلے میں دائیں بازو (اور ریاستی اداروں) کی جانب سے دو قومی نظریہ اور نظریہ ء پاکستان کی اختراع کی گئی۔ بائیں بازو نے سندھ ساگر اور مقامی شناختوں کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ ایوب اور یحییٰ دور میں پاکستانیت کے نظریاتی معیار کا چرچا رہا تو بھٹو صاحب کے دور میں ثقافت اور تہذیب کو پروان دی گئی۔ ضیاء دور میں مذہبی شناخت کو حرفِ اول اور حرف آخر کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ بعدازاں جمہوری حکومتوں نے اس بحث میں قابل قدر حصہ نہیں ڈالا اور موجودہ دور میں ہم شناخت کے معاملے پر ایک تذبذب (confusion) کا شکار ہیں۔
اس موضوع پر دائیں اور بائیں بازو کے مابین چپقلش کئی دہائیوں سے چل رہی ہے کہ کیا ہماری شناخت مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم ہو گی یاہم جغرافیائی بنیاد پر شناخت کو قومیت کا عنصر بنائیں گے۔
ابن انشاء نے سنہ 69 ء میں ’ہمارا ملک‘ نامی فکاہیے میں پوچھاتھا:’یہ کون سا ملک ہے؟ یہ پاکستان ہے، اس میں پاکستانی قوم رہتی ہو گی؟‘ اور جواب میں لکھا:’اس میں سندھی قوم رہتی ہے، اس میں پنجابی قوم رہتی ہے، اس میں بنگالی قوم رہتی ہے، اس میں یہ قوم رہتی ہے، اس میں وہ قوم رہتی ہے‘۔ سبط حسن نے سوال اٹھایا تھا:’تہذیب عبارت ہے کسی قوم کی ہر نوع کی تخلیقات کی نچوڑ سے۔ہماری تہذیبی روایات کیا ہیں، ان کی پہچان کیا ہے، ہمیں اپنے تہذیبی ورثے میں سے کن کن چیزوں کو مسترد کرنا ہے، کن کن کو فروغ دینا ہے، قومی تہذیب اور علاقائی تہذیبوں کا کیا رشتہ ہے اور اس رشتے کو کس طرح اور مضبوط کیا جائے؟ ابھی تک ہم یہ تصفیہ نہیں کر پائے کہ ہماری تہذیب کا نشان امتیاز کیا ہے اور اس کی شناخت کا طریقہ کیا ہے۔’
اس موضوع پر تجاویز پیش کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر پاکستانی شناخت کیا ہے؟ہماری ناقص رائے میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پراب ایک مخصوص پاکستانی شناخت وجود میں آچکی ہے(چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں)۔ اقبال مرحوم سے معذرت کے ساتھ لیکن ہمارے ناقص خیال میں یہ شعر مروجہ پاکستانی شناخت کی نشاندہی کرتا ہے۔
مذہبی، حب الوطن، فوج کا حامی،پدر سری نظام کا پیروکار
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے (پاکستانی) مسلمان
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے (پاکستانی) مسلمان
1۔ مذہب پسندی-پہلا عنصر
مذہب کو ’مکمل ضابطہ حیات‘ سمجھنا اور دنیا کے ہر مسئلے کا حل مذہب میں ڈھونڈنا ’مذہبی‘ ہونے کی علامت ہے۔
مذہبی شناخت رکھنے کا تعلق مذہب کے احکامات پر عمل پیرا ہونے سے نہیں، انسان مذہبی احکامات پر عمل کرتے ہوئے ’غیر مذہبی‘ بھی ہو سکتا ہے (چاہے یہ بات بھائی عامر ہاشم کو سمجھ آئے یا نہ آئے)۔ مذہب کو ’مکمل ضابطہ حیات‘ سمجھنا اور دنیا کے ہر مسئلے کا حل مذہب میں ڈھونڈنا ’مذہبی‘ ہونے کی علامت ہے۔ عقیدے کی حد تک مذہب کی بات سمجھ میں آتی ہے، سیاست، معاشرت اور معیشت کے میدان میں دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور معاشی طور پر خوش حال ممالک میں ان موضوعات کے ماہر ہی ان پر رائے دے سکتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کے احکامات پر عمل کرنے کا اختیار انسان کو حاصل ہے (اور ہونا بھی چاہئے)۔ دستور کے مطابق پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اور اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ آبادی کا بیشتر حصہ مسلمان ہے۔ ان حالات میں غیر مسلموں سے تفریقی رویہ رکھنا اور اپنی حیثیت پر فخر کرنا تکبر کی نشانی ہے۔ پاکستان کا مطلب بنتے وقت تو جانے کیا تھا، اب لا الہ الا اللہ ہو چکا ہے(یا کیا جا چکا ہے)۔جب پہلی سے سولہویں جماعت کی درسی کتب ’پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے‘ کی گردان کریں گی تو طلبہ اسے ایمان مجمل کی طرح ہی تسلیم کریں گے۔ اس پاکستانی مذہبیت کا ایک پہلو قطعیت بھی ہے، یعنی خود کو ہی درست سمجھنا اور صرف خود کو ہی جنت کا حقدار قرار دینا۔ اس مذہبیت کی بنیاد مذہب سے ایک غیر علمی اور جذباتی تعلق رکھنا ہے۔ پاکستان میں سماجی سطح پر اس مذہبی قطعیت کا اظہار فرقہ وارانہ شکلوں میں بھی عام ہے، جس کی ایک واضح مثال تکفیری دہشت گردی کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ اسی مذہبی شناخت کے باعث پاکستانی مسلمان دنیا بھر کے جہادیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، عربوں سے زیادہ عرب بننا چاہتے ہیں اور اپنی مقامی ثقافتی روایات کو تکفیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
2۔ پدرسری-دوسرا عنصر
پدر سری نظام پاکستان کا خاصہ نہیں بلکہ عورت مخالف رویے دنیا کے بیشتر ممالک میں پنپ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں انسانی جان کی قیمت دیگر ممالک کی نسبت ارزاں ہے لہٰذا عورتوں کی جان کی اہمیت اس لحاظ سے کم تر سمجھی جاتی ہے۔ مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ اس نظام کی بقا اور استحکام میں عورتیں اور مرد برابر کے شریک ہیں۔ پدرسری نظام تقسیم سے قبل بھی ان علاقوں میں صدیوں سے رائج تھا جو موجود پاکستان میں شامل ہیں۔ پدرسری اقدار اب ریاست کے انتظامی بندوبست میں بھی سرایت کر چکی ہیں۔ گو آئین صنفی امتیاز کے خلاف تحفظ دینے کے عزم کا اظہار کرتا ہے تاہم قانون سازی، انتظامی بندوبست اور سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت اور انہیں شامل کرنے کی خواہش نایاب ہے۔ بہرطور گزشتہ ایک دہائی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے جو پدرسری اقدار کے تحت روا رکھے جانے والے عورت مخالف رویوں کی حوسلہ شکنی کرتی ہے مگر معاشرے اور ریاست کے عملی بندوبست پر اس قانون سازی کے اثرات ابھی نظر نہیں آتے۔
3۔ فوج سے محبت- تیسرا عنصر
فوج کی حمایت کرنا کوئی جرم نہیں کہ آخر یہ ہماری اپنی فوج ہے، اس فوج کے سپاہی اور افسر ہمارے بھائی، باپ اور بیٹے ہیں۔ ہاں فوج کو ہر سیاسی مسئلے کی دوا سمجھنا اصل مسئلہ ہے۔
فوج کی حمایت کرنا کوئی جرم نہیں کہ آخر یہ ہماری اپنی فوج ہے، اس فوج کے سپاہی اور افسر ہمارے بھائی، باپ اور بیٹے ہیں۔ ہاں فوج کو ہر سیاسی مسئلے کی دوا سمجھنا اصل مسئلہ ہے۔ فوج سے محبت امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ فرق صر ف یہ ہے کہ وہاں کمانڈر انچیف کی رخصتی سے قبل ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کے‘ کے پوسٹر نہیں لگوائے جاتے، اور نہ ہی وہاں ہر دس سال بعد مارشل لاء نافذ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں فوج سے متعلق پائی جانے والی محبت گو تمام صوبوں میں یکساں شدت سے موجود نہیں مگر قومی سیاسی منظر نامے میں سول قیادت عسکری بالادستی کو عملاً قبول کر چکی ہے۔ عوامی سطح پر فوجی سربراہان یا آمروں کے خلاف اگر بعض حلقوں میں نفرت پائی بھی جاتی ہے تو فوج کے ادارے کی عوامی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ فوج سے عوامی محبت کا یہی جذبہ ہے جس کی وجہ سے آج تک فوج کی ناکامیوں، غیر پیشہ ورانہ طرزعمل اور آئین کی خلاف ورزی پر کبھی کسی آمر کا محاسبہ نہیں ہو سکا۔ اس ضمن میں یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ موجودہ پاکستان کے علاقے تقسیم سے قبل بھی بڑے پیمانے پر فوجی مہیا کرتے تھے۔
4۔ حب الوطنی- چوتھا عنصر
حب الوطنی بھی کوئی بری بات نہیں اور اپنے وطن سے الفت رکھنا ایک فطری سی بات ہے۔ اس محبت میں ’وہ قرض چکانا جو واجب بھی نہیں تھے‘ قابل تقلید روش نہیں۔ اپنے ملک سے محبت کا مطلب دوسرے ممالک سے نفرت کے مترادف نہیں ہونا چاہئے۔ حب الوطنی کا پاکستانی تصور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک سے نفرت کی بنیاد پر استوار ہے۔ اسی طرح حب الوطنی کے تحت غیر حقیقت پسندانہ اور جذباتی طرزعمل جس شدت کے ساتھ پاکستان میں ہے کہیں اور نہیں۔ افغانستان اور بھارت کے شہری بھی ہماری ہی طرح کے انسان ہیں، ان کے خاندان ہیں، نوکریاں ہیں، ضرورتیں ہیں، ان سے صرف اس صفت کی وجہ سے نفرت کرنا کہ وہ فلاں ملک میں پیدا ہوئے، اول درجے کی حماقت ہے۔ دیگر ممالک سے نفرت کو حب الوطنی کا لازمی جزو بنا لینا، اُس جذباتیت، بیمار نرگسیت اور دیگر اقوام سے الگ تھلگ ہونے کے طرزِ عمل کی بھی بنیاد ہے جو ہمیں عالمی تنہائی کا شکار کر رہے ہیں۔ حب الوطنی کا یہی غیر حقیقت پسندانہ تصور ہمارے ہاں پائے جانے والے سازشی مفروضوں کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔
پاکستانی شناخت کا ارتقاء
اس شناخت سے انحراف کرنے والوں کو کافر، غدار، باغی، بزدل، بے غیرت، لبرل انتہا پسند اور اس قماش کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔
پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے، وہاں جمہوریت کے ارتقاء کی کہانی موجودہ غیر جمہوری رویوں کی داستان سناتی ہے۔ انگریز راج سے سنہ 1970ء تک ووٹ ڈالنے کا حق ایک مخصوص طبقے کو حاصل تھا جو تعلیم یافتہ، نوکری یافتہ یا زمین داری طبقہ تھا۔ انہی لوگوں کے ووٹوں سے پاکستان بنا۔ عام شہری کے لئے جمہویت، ملک صاحب یا شاہ صاحب کی خاطر مدارت سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ ووٹ کی طاقت حاصل کرنے کے بعد بھی یہ تماشا جاری رہا۔ جمہوریت کے فضائل اگر دینو کمہار کو سکھائے جاتے تو چوہدری صاحب کو ووٹ کون ڈالتا؟ جمہوریت کو ووٹ ڈالنے تک محدود کر دیا گیا اور حقیقی فضائل ہمیشہ اشرافیہ کے حصے میں آئے۔70ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب کے ساتھ جو لوگ پہلی دفعہ منتخب ہوئے تھے، وہ اس اشرافیہ کا حصہ بن گئے اور ان میں سے بیشتر 85ء کے غیر جماعتی انتخابات میں امیدوار بنے۔جمہوری رویوں سے اجتناب کا نتیجہ نجی سطح پر پدر سری نظام اور سماجی سطح پر آمریت کی شکل میں نکلتا ہے۔
اس شناخت کی تعمیر میں بہت سے عوامل شامل رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کی نالائقی، فوجی قیادت کی مہم جوئی(اور خوش فہمی)، ملائیت کو سرکاری تحفظ عنایت کیا جانا، سماجی تحاریک کی ناکامی، ہمسایہ ممالک کے معاملات میں غیر ضروری دخل اندازی، سرکاری موقف کے ذریعے طلباء کی ذہن سازی اور ہر دور حکومت میں ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کئے جانے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ اس شناخت سے انحراف کرنے والوں کو کافر، غدار، باغی، بزدل، بے غیرت، لبرل انتہا پسند اور اس قماش کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔تقسیم کے دوران بربریت پر آواز اٹھاؤ تو دو قومی نظریے کی دہائی پڑتی ہے، جناح صاحب کے اقدامات پر تنقید کرو تو حب الوطنی مشکوک قرار دی جاتی ہے، کشمیر میں دخل اندازی کی جانب توجہ دلاؤ تو قومی مفاد کی لال جھنڈی لہرائی جاتی ہے، ’اسلامی تشخص‘ پر تبصرہ کرو تو ایمان کی کمزوری کا رونا رویا جاتا ہے۔
یہ شناخت پنجاب اور دیگر صوبوں کے شہری علاقوں میں دیہی علاقوں کی نسبت نمایاں ہے۔ ہمارے لئے فکر کی بات یہ ہے کہ اس شناخت کو بعینہٰ تسلیم کیا جائے یا اسے بدلنے کی سعی کی جائے؟ کیا ہم اس شناخت کے ساتھ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں؟ کیا ان خصوصیات کے ساتھ ہم دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں؟ کیا نوع انسانی کے لئے ہماری یہ شناخت تخریب کا باعث بنے گی یا ملی نغمے کے الفاظ میں ’جہاں تک وقت جائے گا، ہمیں آگے ہی پائے گا‘؟ کیا ہم اس شناخت کی موجودگی میں ’محبت، امن اور اس کا پیغام پاکستان‘ بنا سکیں گے؟
Leave a Reply