Laaltain

نعمت خانہ — تیسری قسط

14 مئی، 2017
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

یہ ہو گا بعد میں، ہماری موت کے بعد
کہ وہ مُردہ ہو جائے گا
اور گھنٹیاں بجیں گی مرنے والوں کی
اُس کے لیے
ملارے

 

.….….….….

 

ہوا کو وہ اپنی ہی طرح نظر آرہا تھا۔ وہ پُرانے مُردوں کے پاس آیا تھا اور ہر جذبے، احساس اور کیفیت سے خالی محض ایک چکراتا ہوا بگولا تھا یا ایک ایسی ممی بن چکا تھا جس کے دماغ کو اُس کی ناک کے ذریعے مہارت کے ساتھ باہر نکال کر پھینک دیا جاتا ہے تاکہ جسم سڑ گل نہ سکے۔ دماغ کوڑے دانوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جسم ہواﺅں میں۔

 

دماغ اور جسم کی اس دائمی جدائی کے سبب دونوں کے درمیان صرف سائے پیدا ہوتے ہیں، جذبوں اور احساس سے خالی، محض تاریک سائے۔

 

یقینا وہ جذبات ہی تو تھے جن کے دریا جیسے پاٹ پر وہ گناہوں اور جرائم کے گھڑے رکھ کر کھینچا کرتا تھا اور وہ دماغ ہی تو تھا جو ان گھڑوں کو بنانے اور پھر چھپانے کی ترکیبیں سجھایا کرتا تھا۔

 

تب یہ گھڑا آسانی سے کھنچتا چلا جاتا تھا کیونکہ اس میں اُس گھڑے کی مٹّی کے خالق اور اس کے دریا کا زور اور بہاﺅ بھی شامل تھا۔ ایک زائد طاقت، ایک بیرونی امداد۔

 

مگراب وہ ایک اکیلا آدمی تھا۔ دنیا کے پہلے آدمی کی طرح اکیلا اور غریب۔ خدا کے رحم و کرم پرمبنی کیونکہ جہاں دریا بہتاتھا وہاں ریت کی ایک لمبی اور گہری کھائی ہے۔ اب اس پاپ کے گھڑے کو اکیلا، ریت پر وہی کھینچتا ہے۔ زوالِ آدم کے اِس تماشے کو ہوا دیکھ رہی ہے اور یہ بھی کہ اُس کے پاﺅں کے نشانوں سے ریت پر سانپ کی سی لکیر بنتی جاتی ہے۔

 

یہ ہے میرا سانپ! مگر تمھارا سانپ کہاں ہے؟

 

اپنا سانپ بھی تو دِکھاﺅ، اے فرشتو اور شریف نیک دل انسانو!

 

اُسے چیخ کر غصّے اور احتجاج کے ساتھ کہنا چاہئیے تھا مگر نہیں کہا۔ اُس کے ہونٹ سڑے ہوئے شہد سے سنے ہوئے تھے اور ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے بھنچ گئے تھے تاکہ اب تالو اور حلق میں خاموشی بھی سڑنے لگے۔

 

اُس کا کاکروچ باورچی خانے کی اینٹوں تک پہنچ گیا۔

 

ہوا نے دیکھ لیا کہ ٹھیک یہی وقت تھا جب اُس کا بایاں پیر مٹّی کے گارے میں پھنس گیا اور اندر— گہرائی میں دھنستا ہی چلا گیا۔ اُس نے لوہے کے ایک پائپ کو کس کر پکڑ لیا، ورنہ منھ کے بل اپنے ہی سائے کے اوپر گرپڑتا، اگرچہ سایہ نظر نہ آتا تھا، وہ خود ہی ایک سایہ تھا۔

 

زنگ لگا ہوا لوہے کا یہ موٹا پائپ دراصل گزرے زمانوں کے پانیوں کا نل تھا۔

 

اس کی قسم کھائی جاسکتی ہے کہ ہوا چاہے کتنی بھی دبی کچلی ہو، وہ پھپھوندی لگی ایک چٹان یا پھر خدا کی مہربانی سے پتھّر کی مورت ہی کیوں نہ بن جائے، وہ بارش کی آہٹ کو ہمیشہ، دور بہت دور سے ہی پہچان لیتی ہے۔ بارش سے ہوا کا ایک ابدی اور پُراسرار رشتہ ہے۔ ایک بھید، کچھ کچھ انسانوں کے درمیان کے بھیدوں جیسا۔

 

ہوا نے پہچان لیا کہ بارش آرہی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری، اجنبی ہوا بھی تھی۔ ایک ایسی ہوا جس کا تعلق اس گھر سے نہیں تھا؛ بارش کے ساتھ چلی آرہی تھی۔ مُردوں کو گھسیٹ کر لے آنے والی ہوا۔

 

چلنے سے معذور، درخت کی سوکھی لاش کے نیچے دبی ہوئی ہوا نے اس غیر، اجنبی اور زور زور سے چلتی ہوئی، آنے والی ہوا کو سونگھا اور اُس کی بے رحمی کو پہچان لیا۔ اُسے اِس پرائی ہوا سے کوئی حسد نہیں ہوا۔ وہ جانتی تھی کہ ہر ہوا کو ایک دن پتھّر بن کر سنّاٹے میں جذب ہوجانا ہے۔

 

اور یقیناً وہ آئی۔

 

بارش آ گئی، کسی دوسری دنیا کی ہوا کے کاندھوں پر سوار۔

 

بے آواز بارش میں اُس کا سر بھیگ رہا تھا۔

 

بارش ہوتی رہی۔ اُ س کا سر بھیگ بھیگ کر جوﺅں سے بھر گیا۔ وہ ایسے ہی، ملبے پر کھڑا رہا، خاموش، مٹّی میں دبے اپنے ایک پاﺅں کے ساتھ ۔ وہ اُس پرائی اور کالی ہوا کی چپیٹ میں آگیا۔ اس کا سرخ سویٹر، نیلی قمیص اور کرمچ کے سفید جوتے کالے پڑ گئے۔ اُ س کی آنکھوں تک میں کالی ہوا بھر گئی، مگر ہر فیصلہ موت تک ہی نہیں منحصر ہوتا۔ وہ بعد میں بھی سنایا جاسکتا ہے، وہ کالی ہوا میں جھومتا اور بارش میں بھیگتا ایک پاﺅں پر اِسی طرح کھڑا رہا۔

 

”گڈّو میاں آ گئے، گڈّو میاں آگئے، “

 

ہوا نے سنّاٹے کی سفید چادرکے تھان سے کٹنے کی آواز کو سن لیا۔ یہ وہی آواز تھی جو کپڑے کی چادر کو تیز دھار والی سفاک قینچی سے کاٹنے پر پیدا ہوتی تھی۔
وہ اس سفید سنّاٹے کی دوگز کی کترن کو اپنے جسم پر لپیٹنا چاہتا تھا۔ وہ موت کا بہی کھاتا تیار کرنا چاہتا تھا، تاکہ اُس میں اپنی موت کے اندراج کے ساتھ دوسروں کا حصّہ بھی لکھ سکے۔ روٹی اور حلوے کے حصّے کی طرح تاکہ جلد ہی لگنے والی عدالت میں ایک ملزم کی حیثیت سے وہ غیر حاضر نہ ہو، چاہے عدالت میں کوئی منصف ہو یا نہ ہو۔

 

”گڈّو میاں آگئے۔“

 

ہوا نے کچھ خوش اور کچھ مغموم ہوکر دیکھا کہ بارش میں بھیگتے ہوئے اُس کے سائے نے اس بار اِس توتلی آواز کو پہچان لیا تھا۔

 

ہوانے مُردوںکے قدموں کی دھمک کو خاموشی سے سنا۔ وہ سب آرہے تھے، ان کی تعداد کو اُن کے قدموں کی دھمک سے نہیں گنا جاسکتا تھا۔

 

لوہے کے پرانے زنگ لگے نل کو بائیں ہاتھ سے پکڑے، وہ اِسی جگہ ساکت و جامد کھڑاتھا اور اُس کا بایاں پیر گیلی لیس دار مٹّی میں پنڈلی تک اس طرح دھنسا ہوا تھا، جیسے اُس پر پیلی مٹّی کا سخت اور مضبوط لیپ چڑھایا گیا ہو اور ٹوٹی ہوئی ہڈی ہِل جُل نہ سکتی ہو۔

 

مگر یہ سب ہوا نے ہی دیکھا۔ وہی اِس المیے یا طربیے کی اِکلوتی عینی شاہد تھی۔

 

اور اگر وہاں ایک بار، بارش کے ساتھ کوندا نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی ہوا یہ دیکھ لیتی کہ باورچی خانے کی گرتی ہوئی دیواروں پر بے شمار کاکروچ اکٹھا ہوگئے ہیں۔ عدالت لگ گئی ہے۔

 

باورچی خانہ— ایک خطرناک جگہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *