Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

ذوالفقار عادِل کی اُردُو غزل کے اِنفرادی خدوخال

test-ghori

test-ghori

03 مئی, 2017
تحریر: ازور شیرازی
اکیسویں صدی کا اُردُو شعری ماحول اگرچہ اِظہار کی متعدد ہیتوں سے مملو ہے لیکن ابھی تک شعری روایت کے پالن کے لیے غزل سے درخورِ اعتنا نہیں برت سکا؛جس کی وجہ اِس صنفِ سخن کا ثفافتی خدوخال اور مشرقی شعری مزاج سے مضبوط اِنسلاک ہے۔سابقہ تین چار صدیوں سے غزل شناخت کے جن مراحل سے گزری ہے اُس نے اِسے مقبول ترین شعری صنف منوانے کے ساتھ اِس کے ادبی معیارات کو بھی سنگلاخ بنا دیا ہے۔تاہم اِس میدان کے تخلیق کاروں کی بھیڑ میں جونہی کوئی منفرد اور توانا آواز سنائی دیتی ہے تو وہ جلد ہی سنجیدہ قارئین اور ناقدین کے دل کو لُبھا لیتی ہے ؛انہی مختصر اسماء میں سے ایک اہم نام ذوالفقار عادل کا ہے ؛جس کی ابتدائی پہچان بیسویں صدی کی نویں دہائی سے متعدد ادبی رسائل میں متواتر کلام کی اشاعت سے بننا شروع ہوئی ۔بعد ازاں جسے منضبط تشخص جولائی ۲۰۱۶ء میں منظرِ عام پر آنے والے اُن کے اولین شعری مجموعے ” شرق میرے شمال میں “سے حاصل ہوا۔

ذوالفقار عادل کی غزل کا موضوعاتی وجود رواں صدی کے سماجی رویوں ،نفسیاتی عوامل،وجودی محرکات،طبیعاتی وحیاتیاتی مسائل اور بے یقینی و لایعنیت کے خمیر سے گندھا ہوا ہے۔تبھی وہ اِنسانی روابط کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنے داخلی منظر نامے کو بے جان اشیاء سے مربوط کرکے اپنی تنہائی کا ازالہ تلاش کرتا ہے ۔چابی،الماری،میز،دفتر،بینچ،گھراور کمراجیسے کلیدی الفاظ اُس کے شخصی اور تخلیقی رویوں سے ہم آہنگ ہوکر جاندار شعری مضمون کو جنم دیتے ہیں جو موجودہ انسان کی عدم برداشت ،نفسیاتی الجھاؤ اور مبہم افعال کا مشاہداتی محاکمہ پیش کرتا ہے:

دیر سے قفل پڑا دروازہ اِک دیوار ہی لگتا تھا
اُس پر ایک کھلے دروازے کی تصویر لگا لی ہے
اپنے آپ کو گالی دے کر گھور رہا ہوں تالے کو
الماری میں بھول گیا ہوں پھر چابی الماری کی
ہر منظر کو مجمع میں سے یوں اُٹھ اُٹھ کر دیکھتے ہیں
ہو سکتا ہے شہرت پالیں ہم اپنی دلچسپی سے
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرا خالی ہے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلالی ہے

اُس کی غزل کا دھیما لب و لہجہ نشاط و غم کی معتدل کسک کا زائیدہ ہے ؛اِسی وجہ سے ذوالفقار عادل کے اشعار غیر محسوس طریقے سے قاری پر اپنے اثرات مرتسم کرتے ہیں؛ جن سے رفتہ رفتہ اُنسیت شعر کی تہہ داری اور معاصر قدروقیمت کی گرہیں کھولتی جاتی ہے ۔کیونکہ اُس کے موضوعی ڈھانچے میں دقیق علمی موضوعات کا دخول نہیں بلکہ ذاتی تجربات و مشاہدات کا رس موجود ہے۔ایسے تمام اشعار روایت کے شعور و انجذاب کے باوجود بین المتونیت کے چھان سے کم ہی متحد الخیال معلوم ہوتے ہیں ۔موضوع کا اِنفرادی اور دلکش بیان ہی اُسے جدید غزل کی صف میں سر بر آوردگی عطا کرتا ہے۔نیز وہ روائتی موضوع کو بھی ایسے عمدگی کے ساتھ شعری پیکر میں ڈھالتا ہے کہ اُس کی شمولیت غزل کے باقی اشعار سے ذرا بھی کم صورت معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی اُس میں سپاٹ پن نظر آتا ہے :

میں آسماں کی طرف دیکھ کر ہنسوں تو یہ لوگ
یہ پوچھتے ہیں کہ اے بھائی کیا دکھائی دیا؟
صاحب تمہیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں
ویسے تو اب بھی ہیں کوئی مر بھی نہیں گئے

ہجرتیں سب پہ فرض تھیں لیکن
سب سے پہلے مجھے خیال آیا
اک ذرا روشنی میں لاؤ اِسے
دیکھتے ہیں دیا بجھا کیوں ہے
بند کمروں کی خبر لو کہ بہت ممکن ہے
آنے والے ہمیں مہمان سمجھنے لگ جائیں

ٍعہدِ حاضرکے مادی دھندلکوں نے اُس کے باطنی کینوس سے اولین تشخص کے نقوش مخدوش کردیے ہیں؛جن کی تلاش میں وہ ماحول سے بے اِعتنائی برت کر بچپن بالخصوص ازل کی طرف مراجعت کرنے کی سعی کرتا ہے ۔جہاں اُس کے شعری متن میں بچپنے کی خواہشاتی تصاویر اُبھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں وہیں عرفانِ ذات کا کم زور تسلسل بھی پختگی سے آراستہ ہوتا ہوادِکھتا ہے۔وہ اپنے انجام سے آشنا ہونے کے باوجود ابتدا کی کھوج کو مقصدِ حیات گردانتا ہے لیکن اِس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ وہ ناسٹلجیا کا شکار ہے ؛وہ لمحہ ء موجود کو شاعری کی غذا بنانے کے ساتھ اِس سے ہم رشتگی کے لیے ماضی سے صرف اِستفادہ چاہتا ہے :

واپس پلٹ رہے ہیں ازل کی تلاش میں
منسوخ آپ اپنا لکھا کر رہے ہیں ہم
یہ جو بھی لوگ ہیں اِن کشتیوں میں

شاخوں کا نام دے کے تماشا بنا دیا
جیسے کسی درخت پہ اُگتے ہوئے درخت

ذوالفقار عادل کا تخّیلی ظرف شاعری کے ساتھ داستان،افسانہ اور ڈراما کی عملی پیش کش سے بھی مہمیز حاصل کرتا ہے۔یہ عناصر اُس کی ادبی زندگی کے ساتھ سماجی زندگی میں بھی اولین ترجیحات کے حامل ہیں ؛اِنہی وجوہات کے کارن اُس کی غزل میں افسانہ طرازی ،داستانوی ماحول اور تھیٹر کی منظر کشی ظاہری مفاہیم کے ساتھ عصری رویوں میں مضمر جہات کی عقدہ کشائی کرتی ہے:

سبھی اپنی کہانی کہہ رہے ہیں
الاؤ جل رہا ہے خامشی سی
یہ آدمی مری نظروں میں پست کیسے ہوا
کسے بتاؤں کہ میں سگ پرست کیسے ہوا
ایک کردار کی اُمید میں بیٹھے ہیں یہ لوگ
جو کہانی میں ہنسانے کے لیے آتا ہے
ناٹک کے کرداروں میں کچھ سچے ہیں کچھ جھوٹے ہیں
پردے کے پیچھے کوئی اِن کو سمجھاتا رہتا ہے
ہر کردار کے پیچھے پیچھے چل دیتا ہے قصہ گو
یونہی بیٹھے بیٹھے اپنا کام بڑھاتا رہتا ہے

اُس کی غزل کا ایک اور اِنفرادی وصف تشکیکی اور اِستفہامی فضا کی تشکیل ہے ۔عموماََ اِس تشکیکی اور اِستفہامی ماحول میں خود کلامی بھی در آتی ہے لیکن ذوالفقار عادل کا یہ دعویٰ ہے کہ خودکلامی کا عمل کیسے ممکن ہو؟ جب ہم اپنی ذات سے ہم کلام ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو جاودانی قوت سے مکالمے کی راہ نکلتی ہے؛ جس سے حقیقتِ انسان کی کھوج کا اِبتدائیہ شروع ہوتا ہے ۔عادل شعری پیرائے میں اُٹھائے گئے سوالات کا جواب ازخود دیتا ہے ؛اِس سے جہاں اُس کی تخلیقی اور مشاہداتی قوت معلوم ہوتی ہے وہیں شعر “مراجعہ” کے قالب میں بھی ڈھل جاتا ہے :

یہ کس نے ہاتھ پیشانی پہ رکھا
ہماری نیند پوری ہوگئی ہی
خود سے جو بات بھی کرتے ہیں خدا سنتا ہی
خود کلامی کہاں ممکن ہے کلیمی کہیی
اِک ایسے شہر میں ہیں جہاں کچھ نہیں بچا
لیکن اِک شہر میں کیا کر رہے ہیں ہم
اپنی نہ کہوں تو کیا کہوں میں
ہر بات کی ابتدا میں ہوں میں

اَسالیبی حوالے سے ذوالفقار عادل کی غزل نوکلاسیکی بانکپن کی وارث ہے؛جو تین طرح کے تحریری خدوخال سے اُسلوبی پرداخت کا سفر مکمل کرکے ایک شناختی طرزِ نگارش میں ڈھلتی ہے۔اِبتدا میں یہ شعری تحریر نثر کے ترتیبی وصف سے مطابقت پیدا کرکے موزونیت کے دھارے میں بہتی ہے ۔دوسری سطح پر یہ اُسلوب قدم کلاسیکی تراکیب کے بناؤ سنگھار سے شروع ہو کر اُن کی عصری معنویت میں منقلب ہو جاتا ہے ۔بعد ازاں ذوالفقار عادل کا تیسرا اِنفرادی اور فی الوقت کا مستقل اُسلوبی رویہ سامنے آتا ہے ؛جس کی شناخت امرِ واقعہ کے مطابق مصرعے کی بُنت اور وقفے کی علامت سے ٹھہراؤ پیدا کرنا ہے تاکہ قاری شعر کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ توقف کے عمل سے شعری لطافت اور موضوعاتی

وسعت سمجھنے کا اہل ہو جائے ۔مزید برآں اُس کا اندازِ تحریر زبان کے قدیم ذائقوں سے لفظی تاثیر مستعار لینے کے علاوہ اِس کے ارتقائی سفر سے بھی اِستفادہ کرتا ہے :

وہیل چیئر پہ بیٹھ کے چڑھتا ہے کون سیٹرھیاں
آکے مجھے ملے جسے شک ہو مرے کمال میں
باغ اپنی طرف کھینچتا تھا مجھے خواب اپنی طرف
بینچ پر سو رہا ہوں میں دونوں کا جھگڑا چکاتا ہوا
جتنی تنہائی ہے عادل،اتنی ہی گہرائی ہی
بس کہ سطح ِ زندگی پر تیرتا رہتا ہوں میں

ذوالفقار عادل کی اِستعاری عمارت کشتی ،دل،دریا،باغ اور دیوار پر کھڑی ہے۔اُس نے اِن استعاروں کو ادبی تدبر سے کلاسیکی مطالب سے الگ معنی فراہم کیے ہیں۔جن کا خاصا یہ ہے کہ اِن استعاروں کے برتاؤ میں یکسر اشتراکی دہراؤ نہیں پایا جاتا ۔کشتی کا استعارہ جسے وسیلہ،نجات ،آرام گاہ اور مضبوط سہارے کے طور پر عموماََ استعمال کیا جاتا ہے ۔اِس کی غزل میں ایک غیر محفوظ پناہ گاہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔دراصل یہ استعارہ ہر انسان کے احساسِ ذمہ داری کو جِلا بخشنے کے لیے وضع کیا گیا ہے کہ وہ صرف مسیحا کی آس لگائے نہ بیٹھا رہے بلکہ اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں سے احسن انداز میں عہدہ بر آ ہو سکے۔ مزید برآں اِسے سیاسی وڈیروں اور غیر مفید پیر بابوں کی عمومی صورتِ حال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ وہ کشتی کوبادی النظر میں ہی غیر مستحکم وسیلہ نہیں سمجھتا بلکہ آزمائش کے بعد کوئی فیصلہ صادر کرتا ہے اگرچہ اِس معاملے میں وہ نتائج سے قبل بھی عدم استحکام کی فکر ضرور کرتا ہے:

کشتی کو کشتی کہہ دینا ممکن تھا آسان نہ تھا
دریاوں کی خاک اڑائی ملاحوں سے یاری کی
کشتی تو بن گئی مگر
کشتی سے کچھ بنا نہیں
کس کشتی کی عمر ہے کتنی ملاحوں سے پوچھنے دو
تم سے بھی پوچھیں گے اِک دن دریاؤ چھپ ہوجاؤ
ہونٹ ٹکرا رہے ہیں کشتی سی
کون پانی پلا رہا ہے مجھے

“دیوار” کے استعارے کو زیادہ تر رکاوٹ اور بے حسی کے تناظر میں برتا گیاہے۔ذوالفقار عادل کی شعری دنیا میں دیوار ذی روح ہے جو باہمی رابطے کے فقدان کی وجہ سے اِنسان سے خائف رہتی ہے اور انسان اِس سے روائتی شناخت کے باعث دور ہے جبکہ دیوار گفتگو کرنے کے ساتھ اعلیٰ ظرف رکھنے والا نفس ہے۔تبھی یہ اپنی زبان پر تعلقات کی بحالی قائم رکھنے کی غرض سے حرفِ شکایت تک نہیں لاتی:

چیونٹیاں رینگ رہی ہیں کہیں اندر عادل
ہم ہیں دیوار کے مانند بظاہر خاموش
اِک عمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہی
اِک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں
گفت گو سے نکل آتے ہیں ہزارواں رستے
ذرا دیوار کی سنیے ذرا اپنی کہیے
جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں
دروازے پر قفل لگا کر ہم تو دفتر آ جاتے ہیں

“دل “کے استعارے کو ہمیشہ رنج و آلام کا مرکز ،ٹوٹا ہوا یامکمل طور پر تصوف کے نقطہ نظر سے آئینہ قرار دیا گیا ہے جبکہ عادل کی غزل میں دل کئی مفاہیم کی وسعت پذیری کے لیے نمو کا کام سر انجام دیتا ہے ۔یہاں دل مصائب کی آماجگاہ نہیں کیونکہ اِس میں تیر پیوست ہونے کے بعد بھی ترازو یعنی برابری کی شکل اختیار نہیں کرتا ؛جس کی وجہ دل کی

ظاہری موجودگی کا غیر مناسب ٹھہراؤ ہے۔جب کبھی دل بانجھ پن کا شکار ہو جاتا ہے تو ہم اِسے اپنی ظاہری نمود و نمائش سے زندہ و توانا رکھنے کی منافقانہ سعی کرتے ہیں ۔کبھی یہ محرومیوں ،حسرتوں سے عبارت ہے جسے محبت کی موجودگی متحرک کر دیتی ہے۔ اُس کے نزدیک آئینے کی طرح صفا قلب خود شناسی اور خدا شناسی کا ذریعہ نہیں بلکہ دکھوں اور غموں کی چوٹوں سے لبریز دل معرفتِ خداوندی کے دریچے وا کرتا ہے ؛جن کے حصول میں سماجی عوامل کا عمل دخل شامل ہے نہ کہ فرار کا ؛نیز اِسی معتدل فضاکے باعث دل اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے:

اب تک کوئی بھی تیر ترازو نہیں ہوا
تبدیل اپنے دل کی جگہ کررہے ہیں ہم
روز نکل جاتے ہیں خالی گھر سے خالی دل کو لے کر
اور اپنی خالی تربت پر پھول سجا کر آجاتے ہیں
ہر حسرت پر ایک گرہ سی پڑ جاتی ہے سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنا لی ہی
یہ ایک داغ ہے دل پر کہ ایک روزن ہے
اِسی سے خواب اِسی سے خدا دکھائی دیا
دل میں رہتا ہے کوئی دل ہی کی خاطر خاموش
جیسے تصویر میں بیٹھا ہو مصور خاموش

دل کے ساتھ ہی منسلک ہوکر شناخت پانے والا ایک استعارہ” دریا “بھی ہے ؛جس کا ظاہری سکوت اقرار نامے کی سند ہے اور اِس سے نسبت رکھنے والوں کی آنکھیں صحرا میں بھی خشک نہیں ہوتیں ۔اُس کے نزدیک دریا سے پہلے دل سے محبت کی کہانی کا آغاز ہوا تھاکیونکہ دریا تودل سے کہیں بعد میں جا کر دریافت ہوئے ہیں۔ دل و دریا کے تقابلی انداز میں وہ دریا کو غیر مستقل جبکہ دل کو مستقل مزاج گردانتا ہے ۔جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے ہاں دریا کا استعارہ کبھی ظاہری دریا کبھی محبوب کبھی اِس سے کرداری مناسبت رکھنے والے افراد کی خاطر استعمال ہوا ہے :

دریا تو اپنی موج میں جانے کہاں گیا
دل میں جو پھول ہے وہ کناروں پہ عام تھا
دریا تو کہیں بعد میں دریافت ہوئے ہیں
آغاز ہوئی دل سے روانی کی کہانی
صحرا میں بھی آنکھیں خشک نہیں ہوتیں
دریاؤں سے نسبت زندہ رکھتی ہی
یہ جو دریا کی خموشی ہے اِسی
ڈوب جانے کی اجازت سمجھو

“باغ” کا استعارہ کلاسیکی شاعری میں خصوصاََ میر سے ہوتا ہوا جدید غزل میں کئی اہم شعرا کے علاوہ ثروت حسین ،ادریس بابر اور ذوالفقار عادل کی غزل میں عکس ریز ہوا ہے۔ جس کی معنویت کو اِن مذکورہ شعرا نے انفرادی تشخص کے ساتھ برقرار رکھا ہے ۔ذوالفقار عادل کے ہاں باغ کا استعارہ عصری آشوب سے فرار کی صورت اختیار کرنے کی وقیع علامت ہے جو شاعر کی طبیعت میں بدرجہ اتم حلول ہوکر خوشبو و سرمستی کی پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔اُس کے نزدیک باغ کا متبادل یہ عصری آشوب نہیں صرف اور صرف من چاہی فرار کی دنیا “خواب “ہے:

سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے
مجھ میں پھیلنے لگ جاتی ہے خوشبو اپنی مرضی سی
باغ اپنی طرف کھینچتا تھا مجھے خواب اپنی طرف
بینچ پر سو رہا ہوں میں دونوں کا جھگڑا چکاتا ہوا
باغ ایسا اُتر گیا دل میں
پھر وہ کھڑکی نہیں کھلی ہم سے

اجتماعی طور پر” شرق میرے شمال میں ” نے غزل کے محدود جگالی شدہ موضوعات کے منجمد تالاب میں ارتعاش پیدا کیا ہے ۔اِس کی شعری کائنات یہ ادبی استدلال پیش کرتی ہے کہ غزل کے دائرہ کار میں ابھی کافی تخلیقی امکانات پنہاں ہیں ۔جن کا ادراک روایت کی معرفت ،انتھک مشقِ سخن،الفاظ کے ماہرانہ استعمالات ،تخلیقی قوت اور بے پایاں مشاہدے کا متقاضی ہے ۔یہ شعری مجموعہ اِن اُوصاف سے متصف ہونے کے ساتھ اکیسویں صدی کی شعری حنا بندی میں معیاری دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی اِمتیازات جہاں ” شرق میرے شمال میں ” کو رواں صدی کے اولین ترین کامیاب شعری مجموعوں میں انفرادی شناخت بخشتے ہیں وہیں غزل کے سفر میں “سنگِ میل ” کی ذمہ داریاں بھی تفویض کرتے ہیں۔