[blockquote style=”3″]
علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔
ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔
[/blockquote]
علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔
(23)
ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے بعد غلام حیدر اگر بہت زیادہ مطمئن نہیں تھا تو غیر مطمئن بھی نہیں تھا۔ کیونکہ پچھلے تین دن سے اُسے ایک تو اپنے سکول کے دوست کے ساتھ رہنے کا موقع مل گیا۔ جسے وہ پچھلے دو سال سے نہیں ملا تھا۔ یہ رفاقت اُسے گزری رُتوں میں لے گئی اور وہ دونوں بچپن کے دنوں کو دہراتے رہے۔ اگرچہ ابھی جوان تھے مگر بچپن کی یاد کچھ اپنا ہی مزا رکھتی ہے۔ نجم سے ملنے کے سبب غلام حیدر کے دل سے بار کچھ ہلکا ہو گیا اور وہ ایک بڑے سردار کی ذمہ داری سے کچھ وقت کے لیے کٹ گیا۔ دوسرا شیخ مبارک حسین کی صحبت نے اُسے باپ کی شفقت کا سا کام دیا۔ شیخ مبارک نے سمجھایا کہ جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ عقل اور سمجھداری سے کام لو، رعایا کو سنبھالنا تمہاری ذمہ داری ہے لیکن اس طرح نہیں کہ عین انہی کی خواہش کو تکمیل تک پہنچاؤ۔ اپنے حساب سے کام کرو۔ رعایا تو چاہتی ہے،نتیجہ ایک دم نکل کے سامنے آ جائے اور دشمن سے فوراًبھڑ جاؤ۔ تو کیا تم اُن کی خواہش کو پورا کرنے پر قادر ہو گے ؟تم یا تمہاری رعایا جو کچھ بھی کرو گے،اُس کی ذمہ داری کا بوجھ صرف تمھی اُٹھاؤ گے۔ جو نتیجہ نکلا اُس کے مٖفید ثمرات میں تو رعا یا تمھاری شریک ہو گی لیکن اُن کی کڑواہٹ صرف تمھارے حصے میں آئے گی۔اس لیے خودکو سنبھالو اور رعایا کے ہاتھوں میں کھلونا مت بنو۔کیونکہ آج تم اپنی رعایا کی ایک بات مانو گے تو کل وہ دوسری کی خواہش کر دیں گے۔وہ تمھیں یہ تک ثابت کر دیں گے کہ تم وائسرائے سے زیادہ طاقت ور ہو۔ تو کیا تم اُسی سمجھ بوجھ سے کام لو گے ؟بیٹا میری ایک صلاح ہے، اُسے پلّے سے باندھ لو۔انگریزی قانون ایک بم ہے۔ اسے جس گدھے نے دولتی ماری، اُس کے پرخچے اُڑ گئے۔تم نہیں جانتے مگر میرا تجربہ بتاتا ہے کہ انگریز اپنے قانون میں کسی کی مداخلت جائز سمجھ لیتا تو ہندوستان میں ایک لمحے کے لیے راج نہ کر سکتا۔ سردار سودھا سنگھ تو دو ٹکے کا نہیں۔ یہاں نوابوں کی نہیں چلتی۔ غلام حیدر بات ابھی تک تمھارے ہاتھ میں ہے۔ سودھا سنگھ پر قتل اور ڈکیتی کا پرچہ کٹ چکا ہے۔ اُسے نہیں پتا کہ اُس پر کتنا بڑا وزن گِر گیا ہے۔ دیکھ لینا،دو چار دن میں جب اُس پر راستے تنگ ہو جائیں گے تو بلبلا اُٹھے گااور گردن بچاتا پھرے گا۔ تم ابھی حوصلہ رکھو۔ آخر وہ اس قتل کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ حکومت کو اس کا کُھرا تو نکالنا ہے۔ اب تم آرام سے جلال آبادمیں جا کر حالات کا جائزہ لو اور رعایا کو کسی بھی طریقے سے لگام میں رکھو۔ میرا خیال ہے، جلد معاملہ آگے بڑھے گا۔ ریل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اپنے ڈرائیور ہاشم کو کہتا ہوں، وہ تمھیں جلال آباد چھوڑ آتا ہے۔ جیپ دو گھنٹے میں پہنچ جائے گی، باقی اگر کچھ مسئلہ پیدا ہوا تو میں حاضر ہوں لیکن اُس وقت تک، جب تک تم قانون کے دائرے میں ہو۔ اگر تم نے خود اپنے فیصلے قانون کے متوازی شروع کر دیے تو بیٹا میرے لیے مشکل ہو جائے گی۔ میں ایک کاروباری آدمی ہوں، زیادہ مسائل میں میرا دماغ نہیں چلتا۔ تم مجھے نجم علی کی طرح ہو اس لیے میں نہیں چاہتا،تمھارا کچھ نقصان ہو۔
غلام حیدر کے دل پر شیخ مبارک کی باتوں کا کافی اثر ہوا۔ اُس نے فیصلہ کیا، واقعی اُسے جلدی نہیں دکھانی چاہیے۔ اس کے علاوہ غلام حیدر کے دل میں ایک اور بات بھی تھی کہ اُسے نواب افتخار کو ایک دفعہ ضرور تار دینی چاہیے لیکن فی الحال آرام سے شیخ مبارک کے مشورے کے مطابق چار چھ دن اور انتظار کر لینے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ ویسے بھی اُسے یہ اطلاع تو مل چکی تھی کہ ولیم اپنی طرف سے معاملے کو سنجیدہ لے کر تفتیش کر رہا ہے۔ بلکہ پہلی دفعہ کسی انگریز نے خود جا کر گاؤں میں پوچھ گچھ کی تھی۔ غلام حیدر نے سوچا، ہو سکتا ہے ڈپٹی کمشنر ٹھیک کہتا ہو کہ ولیم میری طرف داری میں ہے اور مجھے کسی وجہ سے ولیم کے ساتھ پہلی ملاقات میں غلط فہمی ہوئی۔ بہرحال اب اُسے جلد ازجلد جلال آباد پہنچنا چاہیے کہ اس حالت میں اتنے دن باہر رہنا زیادہ ٹھیک نہیں تھا۔ ویسے بھی اُس نے جو کچھ کرناتھا اُس حد تک تو کر لیا تھا۔:
ٹھیک بارہ بجے وہ شیخ مبارک کی جیپ میں بیٹھ چکا تھا۔ ہاشم علی نے دو اور دوست بھی اپنے ساتھ لے لیے کہ رستے میں کوئی مسئلہ بھی پیش آ سکتا تھا،پھر اکیلا آدمی بہت خجل ہوتا ہے۔
نجم علی نے نہایت تپاک سے غلام حیدر کو رخصت کیا۔ جیپ کی گراری کا رسہ کھینچا گیا۔اُس کے شور سے بازار میں چلنے والے ایک تانگے کا گھوڑا بدک گیا۔ بارہ بجے جیپ فیروز پور سے نکل پڑی۔ غلام حیدر اپنی ر ائفل بائیں کاندھے پر لٹکاکر ہاشم علی کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ پف لگی پگڑی،جو چار دن سے اتا رکر رکھی ہوئی تھی، وہ بھی سر پر رکھ لی۔ اب اُسے اپنے علاقے میں ایک بڑے چوہدری کی حیثیت سے ہی داخل ہونا تھا۔ غلام حیدر سر پر پگڑی باندھے، بائیں کاندھے پر رائفل رکھے،ہاشم علی ڈرائیور کے دائیں پہلو میں بیٹھا،رعب داب کی ایک نئی تصویر پیش کر رہاتھا۔ غلام حیدر کو اسلحہ لے کر اور پگڑی باندھ کر جیپ میں بیٹھنا اچھا لگا۔ اُس نے دل ہی دل میں خیال کیا، اب اُسے بھی اپنی ایک جیپ خرید لینی چاہیے۔جیپ کی سواری ایک تو تیز ہے،دوسرا اس دور میں بگھی کی نسبت رعب بھی ذرا زیادہ ہے۔ غلام حیدرکے پیچھے بیٹھے ہوئے ہاشم علی کے دوست مسلسل باتیں کرتے جا رہے تھے۔ جس کی وجہ سے غلام حیدر بار بار اپنے خیالات سے باہر نکل آتا۔ بالآخر اُس نے سیٹ کے ساتھ سر ٹکا لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ہی دیر بعد جیپ کے جھولوں میں نیند کے جھولاٹے اُسے اپنی پناہ میں لے گئے۔پھر جو آنکھ کھلی تو وہ جلال آبا دمیں تھا۔
نجم علی نے نہایت تپاک سے غلام حیدر کو رخصت کیا۔ جیپ کی گراری کا رسہ کھینچا گیا۔اُس کے شور سے بازار میں چلنے والے ایک تانگے کا گھوڑا بدک گیا۔ بارہ بجے جیپ فیروز پور سے نکل پڑی۔ غلام حیدر اپنی ر ائفل بائیں کاندھے پر لٹکاکر ہاشم علی کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ پف لگی پگڑی،جو چار دن سے اتا رکر رکھی ہوئی تھی، وہ بھی سر پر رکھ لی۔ اب اُسے اپنے علاقے میں ایک بڑے چوہدری کی حیثیت سے ہی داخل ہونا تھا۔ غلام حیدر سر پر پگڑی باندھے، بائیں کاندھے پر رائفل رکھے،ہاشم علی ڈرائیور کے دائیں پہلو میں بیٹھا،رعب داب کی ایک نئی تصویر پیش کر رہاتھا۔ غلام حیدر کو اسلحہ لے کر اور پگڑی باندھ کر جیپ میں بیٹھنا اچھا لگا۔ اُس نے دل ہی دل میں خیال کیا، اب اُسے بھی اپنی ایک جیپ خرید لینی چاہیے۔جیپ کی سواری ایک تو تیز ہے،دوسرا اس دور میں بگھی کی نسبت رعب بھی ذرا زیادہ ہے۔ غلام حیدرکے پیچھے بیٹھے ہوئے ہاشم علی کے دوست مسلسل باتیں کرتے جا رہے تھے۔ جس کی وجہ سے غلام حیدر بار بار اپنے خیالات سے باہر نکل آتا۔ بالآخر اُس نے سیٹ کے ساتھ سر ٹکا لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ہی دیر بعد جیپ کے جھولوں میں نیند کے جھولاٹے اُسے اپنی پناہ میں لے گئے۔پھر جو آنکھ کھلی تو وہ جلال آبا دمیں تھا۔
جیپ حویلی کے دروازے پر پہنچی تو ایک اور ہی سماں تھا۔ سینکڑوں لوگ حویلی کے باہر کھڑے تھے۔ غلام حیدر جیپ سے نیچے اُتر کر آگے بڑھا تو سب اُس کے گرد جلد بھاگ کر اکٹھے ہونے لگے۔ وہ حیران تھا کہ آخر انھیں کیا ہو گیا ہے۔ اِن کو میری ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی خبر لینے کی ایسی کیا جلدی ہے مگر ساتھ ہی تمام لوگوں کے چہروں پر تفکرات کی جُھریاں دیکھ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کے دل میں خدشات کے جھکڑ چلنے شروع ہو گئے۔ حویلی میں داخل ہواتو وہاں اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔لوگ غلام حیدر کو دیکھ کر فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ خدابخش نے آگے بڑھ کر غلام حیدر کے پہلو میں چلتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر چپ ہو گیا۔ اتنے میں وہ ایک بڑے موڈھے پر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ہی پوچھا،چاچا بخشے چاچا رفیق کدھر ہے، نظر نہیں آ رہا اور دوسرے بھی دکھائی نہیں دے رہے؟
خدا بخش فوراً اپنی سفید داڑھی کو مٹھی سے آزاد کرتے ہوئے بولا، سردار غلام حیدر وہ تو اسٹیشن پر تمھیں لینے کے لیے پہنچا ہے۔ اُسے کیا پتا تھا تم جیپ پر آ جاؤ گے۔
خدا بخش فوراً اپنی سفید داڑھی کو مٹھی سے آزاد کرتے ہوئے بولا، سردار غلام حیدر وہ تو اسٹیشن پر تمھیں لینے کے لیے پہنچا ہے۔ اُسے کیا پتا تھا تم جیپ پر آ جاؤ گے۔
غلام حیدر نے اپنی خالص اُون کی سرمئی چادر اُتا رکرساتھ کے خالی موڈھے پر رکھی اور کہا، خدا بخش فوراً بندہ بھیج کر اُنھیں واپس بلا لو اور یہ اتنے لوگ یہاں کس لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور سب کے چہرے کیوں مرجھائے ہوئے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی غلام حیدر کی نظر غلام رسول پر پڑگئی۔
غلام رسول پچاس کے پیٹے میں ادھیڑ عمر کا مگر منجھا ہوا شخص تھا۔ ہلکی سفید داڑھی جس میں کچھ بال ابھی تک سیاہ تھے۔ چہرے کی ہڈیاں چوڑی اور کُھلے کُھلے ہڈ کاٹھ۔ چرخے پر کاتے گئے دھاگے سے بُنا ہوا کھدر کا کھیس کاندھے پر تھا۔جس کاایک پلُو اُس نے دائیں بغل سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا تھا۔اس طرح کھیس کاندھے پر رکھنے کا رواج پنجاب کے اکثر بڈھوں میں تھا۔ کھیس کے دونوں کنارے لال رنگ کے سوتی دھاگے سے بُنے ہوئے تھے۔جو دیکھنے والے کی آنکھوں کو بھلے لگتے۔پاؤں میں دیسی طرز کے جوتے بظاہر سادہ لیکن مضبوط چمڑے کے تھے اور گاؤں کے ہی موچی سے بنوائے ہوئے تھے۔ غلام رسو ل شاہ پور گاؤں میں شیر حیدر کا ہیڈ مُنشی تھا۔ جو شاہ پور کی زمینوں کا حساب کتاب رکھتا۔اس کے ساتھ ہی رعایا کے معاملات کی خبر گیری کا کام بھی اس کے ذمے تھا۔ شاہ پور کے لوگوں کے چھوٹے موٹے جھگڑے چُکا دینا بھی اُس کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ نہایت ایماندار اور بھلا آدمی تھا اور شاہ پور میں بھی اُس سے کسی کو کچھ شکایت یا گلہ کم ہی پیدا ہوا تھا۔پچھلے تیس سال سے شیر حیدر کا اہم ملازم تھا۔
غلام حیدر نے غلام رسول کو اچانک دیکھا تو مضطرب سا ہو گیا اور غلام رسول کی طرف منہ کرکے پوچھا،چاچا غلام رسول تم شاہ پور سے کب یہاں پہنچے؟
غلام رسول کا جواب سننے سے پہلے ہی غلام حیدر نے پہلی دفعہ لوگوں پر غور سے نظر ڈالی۔ اُسے اور بھی کئی چہرے شاہ پور کے نظر آئے۔ غلام حیدر کا دل دھڑکنے لگا، اُس نے سوچا، کوئی بات ہو گئی۔ اتنے میں غلام رسول بولنے لگا، اُس کا ایک ہاتھ حقے کی نَے پر ہی رہا۔
چوہدری غلام حیدر، “غلام رسول نے نہایت کرب کے ساتھ بولنا شروع کیا” ہم آج گیارہ بجے جلال آباد پہنچے ہیں۔
چوہدری غلام حیدر، “غلام رسول نے نہایت کرب کے ساتھ بولنا شروع کیا” ہم آج گیارہ بجے جلال آباد پہنچے ہیں۔
اس دوران تمام لوگ بالکل ساکت وصامت بیٹھے اور کھڑے غلام رسول کی بات سننے کے لیے تیار تھے۔
غلام رسول نے اب ہمت کر کے بات سنانا شروع کی”غلام حیدر خیر ہی تو نہیں ہے۔شاہ پور پر رات قیامت ٹوٹ گئی، دشمنوں نے حملہ کر دیا ہے، شاہ پور کاباڑہ اُجڑ گیا، پورے پچاس بندوں نے حملہ کیااور آدھی رات اچانک باڑے میں برچھیوں اور چھوّیوں کا مینہ برسنے لگا۔خدا جانے ویریوں میں اتنا کروہد کس لیے آ گیا؟
غلام حیدر ہکا بکا ہو کر غلام رسول کی باتیں سُننے لگا۔ اچانک اُس نے محسوس کیا کہ اتنے بھرے مجمعے میں اُسے کچھ نہیں پوچھنا چاہیے۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے غلام رسول کو چپ کرا دیا۔پھر خدا بخش سے کہا، خدا بخش تم ایسا کرو جلدی سے شیخ صاحب کے بندوں کے لیے کھانے کابندوبست کرو، اور رفیق کو اسٹیشن سے بلانے کے لیے کوئی بندہ بھیجو۔
خدا بخش نے ہولے سے کہا، فیقے کی طرف تو حبیب کو بھیج دیا ہے چوہدری صاحب۔
خدا بخش نے ہولے سے کہا، فیقے کی طرف تو حبیب کو بھیج دیا ہے چوہدری صاحب۔
اتنا کہہ کر خدا بخش وہاں سے اُٹھ کر حویلی کے زنانہ حصے کی طرف چل دیا۔
خدا بخش اور اُس کی بیوی جوانی کے دنوں سے ہی شیرحیدر کے ملازم ہو گئے تھے۔ گھر کے اندر خدا بخش کی بیوی فاتاں کے پاس باورچی خانہ اورنجی قسم کے چھوٹے چھوٹے معاملات کا بندوبست تھا۔جبکہ باہر کی میزبانی کا بار خدا بخش کے ہاتھ میں تھا۔اولاد کوئی نہیں تھی اور دونوں کی عمریں سڑسٹھ سال کے لگ بھگ ہو چکی تھیں۔ میاں بیوی حویلی کے وفادار ملازموں میں سے تھے۔ غلام حیدر کی ماں اور پورا خاند ان ان پر بھروسا کرتے تھے۔ غلام حیدر کے ملازموں میں بھی ہر دلعزیز ہونے کی وجہ سے نوکروں کی چھوٹی موٹی شکایات کو اُوپر ہی اُوپر نپٹا دیتے اوراُن کی رشتے داریوں میں بھی پوری طرح دخیل تھے۔غلام حیدر نے خدا بخش سے فارغ ہو کر غلام رسول اور اُس کے ساتھ آئے ہوئے بندوں کو ڈیوڑھی کے ایک کمرے میں اُس کے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے چل دیے،باقی سب وہیں بیٹھے رہ گئے۔
خدا بخش اور اُس کی بیوی جوانی کے دنوں سے ہی شیرحیدر کے ملازم ہو گئے تھے۔ گھر کے اندر خدا بخش کی بیوی فاتاں کے پاس باورچی خانہ اورنجی قسم کے چھوٹے چھوٹے معاملات کا بندوبست تھا۔جبکہ باہر کی میزبانی کا بار خدا بخش کے ہاتھ میں تھا۔اولاد کوئی نہیں تھی اور دونوں کی عمریں سڑسٹھ سال کے لگ بھگ ہو چکی تھیں۔ میاں بیوی حویلی کے وفادار ملازموں میں سے تھے۔ غلام حیدر کی ماں اور پورا خاند ان ان پر بھروسا کرتے تھے۔ غلام حیدر کے ملازموں میں بھی ہر دلعزیز ہونے کی وجہ سے نوکروں کی چھوٹی موٹی شکایات کو اُوپر ہی اُوپر نپٹا دیتے اوراُن کی رشتے داریوں میں بھی پوری طرح دخیل تھے۔غلام حیدر نے خدا بخش سے فارغ ہو کر غلام رسول اور اُس کے ساتھ آئے ہوئے بندوں کو ڈیوڑھی کے ایک کمرے میں اُس کے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے چل دیے،باقی سب وہیں بیٹھے رہ گئے۔
غلام حیدر کو پتا تھا کہ غلام رسول سب لوگوں کو کہانی پہلے ہی بتا چکا ہے اور یہ بات کوئی راز نہیں رہ گئی پھر بھی کچھ ایسی بات ہوتی ہے جس کا سب کے سامنے وضاحت کر کے اور کھُول کر بیان کرناٹھیک نہیں ہوتا۔اس لیے یہ قصہ اِن سب کے سامنے نہ ہی دہرایا جائے تو اچھا ہے۔ ڈیوڑھی کے کمرے میں داخل ہو کر غلام حیدر نے وہاں پڑی ہوئی چار پائیوں پر اُن سے بیٹھنے کو کہا اور خود بھی ایک چارپائی پر بیٹھ کر بولا، غلام رسول اب سارا قصہ سناؤ۔
غلام رسول نے بات دوبارہ شروع کر دی، اس دوران دوسرے تمام لوگ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔
چوہدری غلام حیدر “غلام رسول بولا”یہ آج رات دس بجے کی بات ہے۔ آپ کو تو پتا ہے، پچھلے دس سال سے سارے شاہ پور کا مال مویشی اُسی باڑے میں اکٹھا بندھتا ہے جو شیر حیدر نے بنوا کر دیا تھا۔ اُس باڑے کی پہرے داری روزانہ دس بندے کرتے ہیں۔ جب سے سودھا سنگھ نے جودھا پور پر حملہ کیا، ہم نے یہ پہرہ اور بھی سخت کر دیا تھا بلکہ تیری ہدایت کے مطابق ڈانگ سوٹے کی پوری تیاری بھی وہاں کر کے رکھی ہوئی تھی۔ مگر پتا نہیں تھا کہ دشمن اتنی جلدی ایسی بے شرمی کی چال کھیلے گا۔ یہ آج رات دس بجے کی بات ہے، باڑے میں سارے بندے جاگ رہے تھے اور نذیر بھیکو قصہ شاہ داؤد سنا رہاتھا۔ ہم سوکھا گووہا اکٹھا کر کے آگ جلا کر سارے اُس کے گردبیٹھے ہوئے تھے۔ دُھند کچھ زیادہ نہیں تھی اور تارے چمک رہے تھے اتنے میں ہمیں کچھ لوگوں کے قدموں کی آواز سنائی دی، ہشیار تو ہم پہلے ہی سے تھے۔میں نے فوراً اُٹھ کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی،کیا دیکھتا ہوں کچھ لوگ گھوڑوں پر اور بہت سے پیدل، باڑے کے چاروں طرف بندے ہی بندے سر نکالے کھڑے تھے۔ میں فوراًپیچھے ہٹا اور بیلیوں کو کہا کہ تکڑے ہو جاؤ دشمن چڑھ آٗئے ہیں۔ہم نے بھی فٹا فٹ اٹھ کر اپنی ڈانگیں اور چھّویاں کَس کے دشمن کو للکار دیااور دھویں کی آگ پر راکھ ڈال کر اُسے بجھا دیا۔
چوہدری غلام حیدر “غلام رسول بولا”یہ آج رات دس بجے کی بات ہے۔ آپ کو تو پتا ہے، پچھلے دس سال سے سارے شاہ پور کا مال مویشی اُسی باڑے میں اکٹھا بندھتا ہے جو شیر حیدر نے بنوا کر دیا تھا۔ اُس باڑے کی پہرے داری روزانہ دس بندے کرتے ہیں۔ جب سے سودھا سنگھ نے جودھا پور پر حملہ کیا، ہم نے یہ پہرہ اور بھی سخت کر دیا تھا بلکہ تیری ہدایت کے مطابق ڈانگ سوٹے کی پوری تیاری بھی وہاں کر کے رکھی ہوئی تھی۔ مگر پتا نہیں تھا کہ دشمن اتنی جلدی ایسی بے شرمی کی چال کھیلے گا۔ یہ آج رات دس بجے کی بات ہے، باڑے میں سارے بندے جاگ رہے تھے اور نذیر بھیکو قصہ شاہ داؤد سنا رہاتھا۔ ہم سوکھا گووہا اکٹھا کر کے آگ جلا کر سارے اُس کے گردبیٹھے ہوئے تھے۔ دُھند کچھ زیادہ نہیں تھی اور تارے چمک رہے تھے اتنے میں ہمیں کچھ لوگوں کے قدموں کی آواز سنائی دی، ہشیار تو ہم پہلے ہی سے تھے۔میں نے فوراً اُٹھ کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی،کیا دیکھتا ہوں کچھ لوگ گھوڑوں پر اور بہت سے پیدل، باڑے کے چاروں طرف بندے ہی بندے سر نکالے کھڑے تھے۔ میں فوراًپیچھے ہٹا اور بیلیوں کو کہا کہ تکڑے ہو جاؤ دشمن چڑھ آٗئے ہیں۔ہم نے بھی فٹا فٹ اٹھ کر اپنی ڈانگیں اور چھّویاں کَس کے دشمن کو للکار دیااور دھویں کی آگ پر راکھ ڈال کر اُسے بجھا دیا۔
چوہدری صاحب باڑے کی دیوار دو ہاتھ سے زیادہ نہیں۔ منٹوں میں سارے بندے چھلانگیں مارکر اندر آ گئے۔اللہ مولاجانتا ہے، پورا پچاس بندہ تھا۔ پَر میں نے شادھے خاں کو کہا، بھائی شادھے آ ج علی کا نام لے کر پلتھے کے کرتب دکھا دے۔ بس پھر آدھے بندے شادھے خاں کی پشت پر تھے اور آدھے خان دلاور کی چوکی میں کر دیے۔ اس کے بعد بغلوں کے وار چلنے لگے۔ پھٹیت میں تو میرا وار بھی ہلکا نہیں تھا۔ پَر رات شمّے کے دیگی لوہے والی برچھی نہ پورا بھرم رکھا۔ لو جی چودھری صاحب، پچاس بندوں نے ہمیں گھیر لیا،باقی مال کھولنے میں لگ گئے۔ ادھر میں نے للکارا مارا تا کہ جو گاؤں میں سو رہے ہیں وہ بھی آجائیں۔ہم نے کہا مرناتو ایک دن ہے ہی۔کیوں نہ آج مردوں کی طرح جان دے دیں۔ چوہدری جی لوہے پر لوہا ایسے گرتا تھا جیسے فرنگی توپیں چلتی ہیں۔ یہ مندرے( پاس بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس نے نوک دار مونچھوں کو وٹ دے کر اوپر کی طرف موڑی تھیں اور آنکھیں انگارے کی طرح سرخ تھی )نے بھی کمال کر دیا۔ ہم صرف دس بندے تھے اور دشمن کی تعداد ہم سے سات گُنا زیادہ تھی۔
جس کی وجہ سے لڑائی کے شروع میں ہمارے دو بندے گر گئے لیکن اس کے بعد ہم نے باندر کِلًے کی طرح دائرہ باندھ لیا تاکہ کنڈیں بچی رہیں اور کوئی پیچھے سے وار نہ کرے۔ چھوّیوں اور ڈانگوں کااتنا کھڑکا تھا، جس کی آواز فوراً ہی گاؤں والوں نے بھی سُن لی اور تھوڑے ہی وقت میں وہ بھی ڈانگیں پکڑے آ گئے۔دشمنوں کو اتنی امید نہیں تھی کہ ہم اس طرح اُن کا مقابلہ کریں گے۔ جب انھوں نے گاؤں والوں کی للکاریں سنیں تو اُن کے جی چھوٹ گئے اور انھوں نے بھاگنے کاارادہ کر لیا۔ اس وقت مَیں نے شادھے کو کہا، شادھے خاں یہی وقت ہے اِن کے بندے گرانے کا۔عین اُسی وقت میراسامنا بِلّے کمبوہ سے ہو گیا۔ اُس کا مڑاسا گرگیا تھا۔تب میری آنکھیں کُھلیں۔ میں نے کہا رسُولے یہ کیا ہوگیا؟یہ تو عبدل گُجر کا خاص بندہ ہے۔ اتنے میں گاؤں والے سارے باڑے میں داخل ہو چکے تھے۔ بِلاٌ شاید بھاگ ہی جاتا مگر نذیرے بھیکو نے آگے سے رستہ روک لیا اور ایک برچھی کا الٹا ہاتھ بِلُّے کے سر پر مارا۔ سَر تو اُس نے ایک طرف کر کے بچا لیا مگر برچھی دائیں موڈھے میں اُتر گئی اوربِلُّا گر پڑا۔اتنے میں شادھے نے دماسنگھ کو گرا لیا۔
اب میں نے ساری کہانی سمجھی۔ چوہدری غلام حیدر، ہم پر سودھا سنگھ اور عبدل گجر دونوں نے مل کر سٹ ماری کیونکہ دَما تو خاص سودھا سنگھ کا بندہ تھا۔ شادھیا کا وار دما سنگھ کی چوٹی پر سیدھا پڑا تو وہ نیچے بیٹھتا ہی چلا گیا۔ اُوپر سے میں نے دووار کرکے اپنے لوہے کو گرم کیا۔ شادھا تو بِلے کو بھی مارنے لگا تھا پر میں نے کہا،فی الحال اِسے پکڑ لو۔کوئی ثبوت تو پاس ہو۔پھر یہ مسلمان بھی ہے۔ اس طرح ایک بندہ ہم نے مار دیا جو سودھا سنگھ کا تھا اور ایک بندہ زخمی پکڑ لیا ہے۔اِس کے بعد غلام رسول نے سر نیچا کر کے کہا، لیکن چوہدری صاحب ہمارے تین بندے لطیف کمھار، دُلّا آرائیں اورباہلی شیر گڑھیا بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور چار بندے پھٹٹر ہو گئے۔ ان بندوں کے علاوہ پندرہ بھینسیں بھی لے گئے۔( آہ بھر کر )چوہدری، زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر مرنے والے تینوں ہی بڑی بے جگری سے لڑے ہیں۔
اُس وقت ذرا اندھیرا تھا اور وہ دونوں شادھے کی ٹولی میں تھے۔ مجھے تو بعد میں پتا چلا کہ سودھا سنگھ کے اور بھی بندے شامل تھے۔نیک علی نے مجھے بتایاہے۔ لطیف پر جس نے وار کیا وہ متھا سنگھ تھا اور شادھے نے رنگا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ باقی تو کئی بندے پچھانے گئے جو عبدل گجر کے تھے۔ لڑائی کے دوران ہم مال مویشی پر توجہ نہیں دے سکے اس لیے جب تک لڑائی ختم ہوئی وہ بہت دور لے کر نکل چکے تھے۔ جب مجھے تھوڑا سا ہوش ملا تو میں نے کہا کہ جلدی سے لاھد کراؤ،یوں ہمارے دس پندرہ بندے اُن کے پیچھے لاھد کرتے ہوئے بھاگے۔اس میں اتنا ہوا کہ وہ آدھا مال چھوڑ کر بھاگ گئے کیونکہ لاھد ہونے کی وجہ سے وہ انھیں تیز ہنکا نہیں سکتے تھے۔ پھر بھی نقصان کافی زیادہ ہو گیا ہے۔کم از کم پندرہ بھینسیں چلی گئیں ہیں۔ چوہدری صاحب یہ قصہ ہے، جو آپ کے شاہ پور میں ہوا۔ ہمارے تین بندوں کا نقصان تو ہو گیا ہے پر رب نے شرم رکھ لی۔ اس واقعے کے بعد مَیں تو اطلاع دینے کے لیے صبح ہی اِدھر آ گیا، باقی گاؤں والے سارے اُدھر ہی ہیں۔ زخمیوں کو ہلدی اور دودھ پلایا جا رہا ہے، پٹیاں باندھ دی گئی ہیں۔اُن میں سے خدا کا شکر ہے کسی کی جان کو خطرہ نہیں۔ اب تک پولیس بھی آگئی ہو گی۔ اب ہمارے پاس اُن کے دو بندے ایک سودھا سنگھ کا حقہ بردار اور دوسرا عبدل گجر کا بندہ بِلّاکمبوہ ثبوت کے طور پر ہیں۔ میں نے ساری کہانی چاچے فیقے کو آپ کے آنے سے پہلے ہی بتا دی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا،آپ فیروز پور ڈپٹی صاحب بہادر سے ملاقات کے لیے گئے ہوئے ہیں اور آج واپس آنا ہے۔space:
غلام رسول اپنی رَو میں کہانی سنا گیا جبکہ غلام حیدر کا سر چکرا رہا تھا۔ اُسے ہرگز یہ گمان نہیں تھا کہ کل کے خارش زدہ کتے اُس پر بھیڑیوں کی طرح پل پڑیں گے۔ سودھا سنگھ تو خیر پھر بھی ایک حیثیت کا مالک تھا مگر عبدل گجر کی یہ جرأت ہو گی، یہ اُسے اندازہ نہیں تھا۔ اس نے اپنے بِل سے باہر نکل کر اتنا زبردست حملہ کیا تھاکہ سچ بات تو یہ ہے، غلام حیدر کے اوسان ٹھکانے پر نہیں رہے تھے اور اُسے غلام رسول کی بات سن کر کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔البتہ یہ حوصلہ ضرور ہوا کہ اس کے بندوں نے کسی بھی محاذ پر پیٹھ نہیں دکھائی تھی۔ یہی بات غلام حیدر کی ہمت بندھانے والی تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ ڈیوڑھی سے باہر نکل آیااور کہا، غلام رسول گھبراؤ ناں،دیکھ مَیں اب کیسے سودھا سنگھ اور عبدل گجر کی ایسی کی تیسی پھیرتا ہوں۔
اتنے میں رفیق پاولی بھی حویلی میں داخل ہو گیا۔رفیق پاولی غلام حیدر کے ساتھ سلام لے کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ اس کے پیچھے باقی بندے بھی خموش کھڑے تھے۔
تھوڑی دیر خموش کھڑا رہنے کے بعد غلام حیدر نے رفیق کو مخاطب کر کے کہا، چاچا فیقے جلدی سے شاہ پور چلنے کی تیاری کرو۔ اتنا کہہ کر وہ حویلی کے زنانہ حصے کی طرف بڑھا اور اندر داخل ہو گیا۔ غلام حیدر گھر میں داخل ہوا تو اس کی ماں فاطمہ بانو دوڑ کر بیٹے کے گلے لگ گئی اور ر ونے لگی۔ غلام حیدر کچھ دیر کھڑا ماں کا روناسنتا رہا۔حویلی میں اس تازہ واقعے کی خبر سن کر بہت عورتیں اکٹھی ہو چکی تھیں۔ وہ بھی اُٹھ کر غلام حیدر کے گرد جمع ہو گئیں۔ غلام حیدر نے سب عورتوں سے کہا کہ آپ سب فی الحال اپنے گھروں کو چلی جاؤ۔ پھر وہ اپنی والدہ کو لے کر صحن کے ایک کونے میں بیٹھ گیاجہاں دھوپ کافی چمک رہی تھی۔ فاطمہ بانو نے چارپائی پر بیٹھتے ہی کہا، پتر حیدر میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہوں تُوشہر واپس چلا جا اور لاہور والے گھر میں ہی رہ۔دشمن اپنی آئی پر آیا ہوا ہے۔ دیکھ، تُوچار دن فیروز پور رہا اور میری جان سوئی پر اٹکی رہی،۔خدا نہ خواستہ تیرے دشمنوں کو کچھ ہو گیا تو میں زندہ مر جاؤں گی۔ میرا تیرے بغیر اب کوئی سہارا نہیں۔
فاطمہ بانو کی اس قدر آہ زاری اور سیاپا سُن کر غلام حیدر بولا، لیکن اماں یہ بتا میں اتنی زمینوں اور اتنے لوگوں کو بے سہارا چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں؟ سودھا سنگھ اور عبدل گجر میری رعیت کی بوٹیاں نوچ کھائیں گے۔ تمھیں نہیں پتا، میرے باپ کی عزت اور مال داؤ پر لگا ہوا ہے؟
فاطمہ بانو نے غلام حیدر کا جواب سنا تو تڑپ کر بولی،پتر آگ لگے اِن زمینوں کو۔ ہمیں یہ نہیں چاہئیں،مجھے تو تیری جان عزیز ہے۔ تمھیں نہیں پتا، جتنی دیر تم حویلی سے باہر ہوتے ہو مَیں انگاروں پر بیٹھی ہوتی ہوں۔( پھر نزدیک ہو کر اپنے پلُو سے غلام حیدر کی چادر پر پڑی گرد کو جھاڑتے ہوئے)دیکھ میرا پتر، یہ ساری زمین رعایا میں بانٹ یا اِس کو تھوڑے بہت ٹھیکے پر دے دے اور لاہور چلا چل۔ مَیں بھی ترے ساتھ وہیں چلی جاؤں گی۔ اب تو یہ حویلی مجھے کاٹ کھاتی ہے۔ زندہ رہیں گے تو عزت بھی آ جائے گی۔ رعیت کا اللہ وارث ہے، جس نے پیدا کیا ہے، وہ اِن کو رزق بھی دے گا اور اِن کی حفاظت بھی کرے گا۔
غلام حیدر نے دیکھا کہ اُس کی ماں بہت زیادہ ڈری اور سہمی ہوئی ہے اوراس کی سب سے بڑی وجہ یہ عورتیں ہیں،جو رتی بھر کو سیر کر کے دکھاتی ہیں۔ لیکن فی الحال اُس نے عورتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا بلکہ اپنی ماں کا دل رکھنے کے لیے کہہ دیا،ٹھیک ہے اماں جیسے تُو چاہتی ہے ویسے ہی کریں گے۔ہم بہت جلد لاہور چلے جائیں گے لیکن ا ِس وقت تو جو مصیبت آئی ہے،کسی طرح اُس کا اُپا کریں۔ پھر دوچار دن میں سارا کچھ فیقے پاولی کو سونپ کر ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔ بس تو حوصلہ رکھ۔ اتنا کہہ کر غلام حیدر جیسے ہی باہر نکلنے کے لیے اُٹھا، فاطمہ بانو نے غلام حیدر کا بازو پکڑ کر کہا، بیٹا ایک بات تو بتا؟یہ وائسرائے کی بیٹی والا کیا قصہ ہے؟ کہیں یہ سب کچھ اِسی غصے میں سرکار ہی تو تیرے ساتھ نہیں کرا رہی؟ بیٹا مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ یہ ساری مصیبتیں اُسی کی وجہ سے آ رہی ہیں۔ دیکھ پتر ہم کتنے ہی زمینوں والے کیوں نہ ہوں، حکومتوں سے مقابلے نہیں ہوتے۔
غلام حیدر اپنی ماں کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ وہ ہکا بکا ماں کو دیکھنے لگا۔کون سا وائسرائے اور کہاں کی بیٹی؟ غلام حیدر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ کیا معاملہ ہے اور یہ کون سا نیا قصہ کھل گیا ہے؟ اُس نے حیران ہوکر پوچھا، اماں یہ کیا بجھارتیں کہتی ہو ؟سیدھی بات کرو۔
لو بیٹا، اب ماں سے چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں، فاطمہ بانو نے غلام حیدر کے منہ پر پیار سے ایک چپت مارتے ہوئے کہا، دیکھ بیٹامَیں ایک سے ایک اچھا رشتہ تیرے لیے ڈھونڈ نکالوں گی۔تُوبس فرنگی کی بیٹی کا پیچھا چھوڑ دے۔ مجھے تیری زندگی چاہیے ورنہ یہ فرنگی تیرے پیچھے پتا نہیں اور کتنے کُتے لگائے گا۔
غلام حیدر نے جھنجھلاکر کہا، مگر اماں کون سی فرنگی کی بیٹی ؟مجھے تو کچھ خبر بھی نہیں، یہ کیا اشقلے چھوڑ رہی ہو؟
تو کیا یہ ساری عورتیں جھوٹ کہتی ہیں کہ تیرے ساتھ وائسرائے کی بیٹی کے تعلق ہیں؟ اور وہ اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تیرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے۔
غلام حیدر نے غصے سے اٹھتے ہوئے کہا، لاحولا قوۃ، اماں یہ کیا بکواس اور جھوٹ ہے۔ میں نے تو آج تک اُسے دیکھا بھی نہیں(عورتوں کی طرف دیکھتے ہوئے جو دور بیٹھی ماں بیٹے کی گفتگو تو خیر نہیں سن سکتی تھیں مگر دیکھ رہی تھیں)اماں سارے فساد کی جڑ یہ پھپا کُٹنیاں ہیں۔ تُو ان کی باتوں پر دھیان نہ دیا کر۔ اتنا کہہ کر غلام حیدر اٹھ کھڑا ہوا اور چلنے سے پہلے کہا، اماں دیکھ میں شاہ پور جا رہا ہوں۔ آج رات شاید واپس نہ آ سکوں اس لیے بجائے رونے پیٹنے کے میرے لیے دعا کر۔
بیٹا، کیا یہ نہیں ہو سکتا، تو شاہ پور فیقے کو بھیج دے اور خود نہ جا۔
یہ جملہ فاطمہ بانو نے ایسی ملتجیانہ نظروں سے دیکھ کر کہا کہ غلام حیدر کا دل بھر آیا۔ اس نے ماں کو گلے سے لگا کر کہا،اماں حوصلہ رکھ کچھ نہیں ہو گا، دشمن تیرے بیٹے کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اِتنا کہہ کر غلام حیدر باہر نکل آیا ہے حالانکہ جانتا تھا کہ اس بات سے ماں کی ڈھارس نہیں بندھے گی۔
یہ جملہ فاطمہ بانو نے ایسی ملتجیانہ نظروں سے دیکھ کر کہا کہ غلام حیدر کا دل بھر آیا۔ اس نے ماں کو گلے سے لگا کر کہا،اماں حوصلہ رکھ کچھ نہیں ہو گا، دشمن تیرے بیٹے کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اِتنا کہہ کر غلام حیدر باہر نکل آیا ہے حالانکہ جانتا تھا کہ اس بات سے ماں کی ڈھارس نہیں بندھے گی۔
سارے جوان بگھیوں پر تیار بیٹھے ہوئے تھے۔ غلام حیدر کے بگھی پر قدم ر کھتے ہی گھوڑے دوڑ پڑے اور قافلہ شاہ پور کی طرف روانہ ہو گیا۔ اب کے ہر ایک پر خموشی طاری تھی۔ دشمن کے تازہ حملے نے سب پر ایک قسم کا سکتہ کر دیا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ اب کیا ہوگا۔ رفیق پاولی کا ذہن تو بالکل ہی ماؤف ہو چکا تھا۔ اُس کی زندگی میں ابھی تک ایسی پے در پے چوٹیں کبھی نہیں لگی تھیں۔
بگھیاں شاہ پور پہنچیں تو شام کے پانچ بج رہے تھے۔ ایک تو وقت ایسا تھا، اُوپر سے شاہ پور میں تین قتل اور مال کا نقصان الگ۔ہر طرف ایک ماتمی اور سوگوار کیفیت نظر آ رہی تھی۔شاہ پور کے لوگ تو ایک طرف، ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسے درخت اور جانور بھی چپ سادھے ہوں۔ فروری کا مہینہ تھا، اس لیے ہوا کی سرسراہٹیں اور پتوں کے مسلسل گرنے نے اُس پر مزید اُداسی پیدا کر دی تھی۔ غلام حیدر فوراً باڑے میں پہنچا جہاں یہ سارا واقعہ پیش آیا تھا۔ لاشیں ابھی تک وہیں پڑی تھیں۔جن پر اُن کے بیوی بچوں کے بین جاری تھے۔جب انھوں نے غلام حیدر کو دیکھا تو بین اور بلند ہو گئے۔ عورتیں اُٹھ کر دوہتھڑ پیٹنے لگیں جو پہلے ہی رو رو کر تھک چکی تھیں۔ غلام حیدر تھوڑی دیر لاشوں کے پاس کھڑا رہا۔ تھانیدار دیدار سنگھ اور کچھ سنتری بھی وہیں پر غلام حیدر کے آنے سے پہلے پہنچ چکے تھے۔وہ لاشوں کا اچھی طرح سے معائنہ اور وقوعے کا جائزہ لے رہے تھے۔ گاؤں والوں نے صبح ہی کھوجی بلا کر پیروں کے نشان محفوظ کرنے کی عقلمندی بھی کر لی تھی۔ تھانیدار کے ساتھ جیسے ہی غلام حیدر کی آنکھیں ملیں، اُس کی آنکھیں خود بخود نیچی ہو گئیں۔وہ جانتا تھا کہ اب عذر خواہی کا وقت گزر گیا۔
سودھا سنگھ ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکاتھا،جس کی وجہ سے یہ دوسری کارروائی ہو گئی تھی۔ اِس میں زیادہ کردار اگرچہ عبدل گجر کا تھا مگر کُھرے واضح طور پر سودھا سنگھ کی حویلی تک بھی جاتے تھے۔ لوگ جو پہلے کسی حد تک تھانیدار سے سہمے ہوئے دور کھڑے تھے، اب غلام حیدر کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ غلام حیدر نے فی الحال تھانیدار کو نظر انداز کر کے گاؤں والوں کی طرف توجہ دی، جو بہت زیادہ بے بس اور ڈرے ہوئے تھے۔وہ اس طرح غلام حیدر کو دیکھ رہے تھے،جیسے پوچھتے ہوں کہ اب کیا ہو گا۔
عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازیں اور گاؤں والوں کی حسرت آمیز آنکھیں غلام حیدر کے دل پر چُھرے چلانے لگیں۔ وہ ایک چارپائی منگوا کر اُس پر بیٹھ گیا۔ اُس نے اپنی رائفل کاندھے سے اُتار کر پائنتی رکھنے کی بجائے اپنی جھولی میں ہی رکھ لی اور اُس کی نال پر ہولے ہولے ہاتھ پھیرنے لگا۔ اُس نے نہ تو کسی سے سوال کیا اور نہ ہی کسی نے واقعے کی تفصیل بتانے کی کوشش کی۔البتہ عورتوں کے اُٹھتے ہوئے بین،جن کے اندر ساری کہانی موجود ہ تھی، وہ سنتا رہا۔تھوڑی دیر بعد تھانیدار دیدار سنگھ بھی اس کے سامنے چارپائی پر بیٹھ گیا اور بولا،غلام حیدر مجھے واہگرو کی سونہہ اِس حادثے پر بہت افسوس ہوا ہے۔ میں نے وقوعے کا سارا جائزہ لیا ہے۔ میں نہیں جانتا تھا عبدل گجر اور سودھا سنگھ اتنے گِر جائیں گے۔بس اب آپ چنتا رکھیں۔ میں دونوں کو اُن کے بندوں سمیت گرفتار کروں گا۔ چاہے خون کے چھجے بہہ جائیں۔مَیں نے گورنمنٹ سے اُس کی گرفتاری کے وارنٹ حاصل کر لیے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ سودھا سنگھ پٹیالے چلا جائے، مَیں اُسے ٹوکرے کے نیچے سے ہی دبوچ لوں گا۔ مجھے مخبری ہوئی ہے کہ سودھا سنگھ مہاراجہ پٹیالے کے ساتھ رابطے میں ہے اور عبدل گجر منٹگمری میں اپنے رشتے داروں کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ وقوعے کی ساری تفصیل اور بِلًے اور دماسنگھ کی موجودگی بتاتی ہے کہ یہ کام اُن دونوں کی ہلا شیری سے ہوا ہے۔ میں کل ہی جھنڈو والا میں جاتا ہوں،سودھا سنگھ کی گرفتاری کے ساتھ اُس کا سارا مال بحق سرکار ضبط کر کے لے آؤں گا اور عبدل گجر کی طرف حوالدار شاد علی کو بھیجتاہوں۔ بس تُوحوصلہ رکھ گرفتاری جرور ہو گی۔سودھا سنگھ ابھی پٹیالا نہیں جائے گا کیونکہ ولیم کمشنر بہادر جلال آبا دنے اُس پر پابندی لگائی ہے کہ وہ جھنڈو والا سے باہر نہ جائے۔ اُسے پتا ہے اگر اُس نے صاحب بہادر کے حکم پر عمل نہ کیا تو پکا مجرم ظاہر ہو جائے گا۔ آپ کل یا آج ہی آ کر تھانے گروہرسا اِس واقعے کی ایف آئی آرکٹوا دیں پھر دیکھیں میں کیا کرتاہوں۔
غلام حیدر تحمل سے بیٹھا تھانے دار دیدار سنگھ کی باتیں سنتا رہا۔ غلام حیدر کو مسلسل خاموش دیکھ کر تھانیدار گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ شاید اِسی گھبراہٹ میں وہ کچھ اور بھی بول جاتا کہ اُسی لمحے رفیق پاولی نے تھانیدار کو مخاطب کر کے کہا، تھانیدار صاحب، آپ نے کیا کرناہے ؟بس یہ دیکھیں کہ اگلا حملہ ہم پر کب ہوتا ہے۔اُس کے بعد پھر ایک وقوعے کا معائنہ کرنے آ جانا۔ آپ کا کام ختم ہو جائے گا۔
رفیق پاؤلی کے یہ جملے تھانیدار کی چھاتی پر لگے۔اگر معاملہ اتنا سنجیدہ نہ ہوتا جتنا ہو چکا تھا تو وہ پاؤلی کے بچے کو اِس بدتمیزی پر یہیں پر لمبا کر لیتااور اُسے سمجھ آ جاتی کہ انگریزی سرکار کے تھانیدار کے سامنے کیسے بولا جاتا ہے۔ اِدھر جب رفیق پاؤلی کچھ اور بولنے لگا تو غلام حیدر نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، چاچا فیقے رہنے دے، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بھلا تھانیدار کا اس میں کیا گناہ ہے؟( پھر تھانیدار کی طرف منہ کر کے )تھانیدار صاحب مَیں کل سانجرے تھانہ گروہرسا پہنچ جاؤں گا ایف آئی آر درج کروانے۔ اگر آپ نے حالات اور وقوعے کا جائزہ لے لیا ہے تو جا سکتے ہیں۔ غلام حیدر کی بات سن کر تھانیدار اُٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑی پر بیٹھتے ہوئے کہا،سردار غلام حیدر آپ لاشوں کو دفنا سکتے ہیں۔ مَیں کل سانجرے آپ کا تھانہ گرو ہرسا میں انتظار کروں گا۔
تھانیدار رخصت ہوا تو غلام حیدر نے رفیق پاولی سے کہا، چاچا رفیق اِن تینوں لاشوں کو قبرستان میں دفن کرنے کی بجائے شاہ پور کے چوک میں دفن کردیں۔میں اِن شہیدوں کا جب تک بدلہ نہ لوں گا، میرے سینے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوگی۔
مگر چوہدری غلام حیدر تم نے تھانیدار کو کچھ نہیں کہا ؟یہ سب کیا دھرا اِسی پیٹو حرامی کا ہے، فیقے نے کہا، یہ سانحہ کبھی پیش نہ آتا اگر یہ سکھڑا سودھا سنگھ کو گرفتار کر لیتا۔ اب حرامی کا پُتر کہہ رہا ہے اُس کے مہاراجہ پٹیالہ کے ساتھ رابطے ہیں۔ میرا توخیال ہے یہ اُس سے ملا ہوا ہے اور اُسی نے اِس کو مشورہ دیا ہے پٹیالہ جانے کا۔
غلام حیدر نے تحمل مزاجی سے آہ بھرتے ہوئے کہا، چاچا فیقے اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تھانیدار بچارا تو اُس کے آگے بلی ہے۔ جن کی راجے مہاراجے میزبانیاں کریں وہاں بچارے دیدار سنگھ کو کون پوچھتا ہے ؟لیکن اب یہ نوکری اور عزت بچانے کے لیے ضرور اپنا زور لگائے گا۔ اِس لیے اِسے خلاف کرنے کی ضرورت نہیں بس دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔
دلبیر علی جو غلام رسول کا بڑا بیٹا اور ذرا زبان کا تیز تھا، پاس بیٹھا یہ باتیں سن رہاتھا، وہ ہمت کر کے بولا، مگر چوہدری غلام حیدر ہم کب تک بیٹھے منہ دیکھتے رہیں گے؟ہمیں خود آگے بڑھ کے سودھا سنگھ اور اور عبدل گجر پر حملہ کر دینا چاہیے۔
دلبیر علی اپنے حواس کو ٹھیک کرو، غلام حیدر نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا، کیا تم چاہتے ہو مَیں بندے لے جا کر اِن کے گاؤں پر حملہ کر کے اسی طرح اوچھا وار کروں جس طرح اُنھوں نے کیا ہے؟، اس طرح سودھا سنگھ اور عبدل گجر کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ ہم ضرور مجرم بن جائیں گے اور وہ خوشی سے بغلیں بجاتے پھریں گے۔
پھر چوہدری صاحب آپ ہی بتاؤ کیا کریں؟ “دلبیر علی نے دوبارہ دھیمے لہجے میں سوال کیا” کل وہ سؤر کے پُتر تم پر حملہ کر دیں گے۔پھر خدا نہ کرے تیرے دشمنوں کا بال بیکا بھی ہوا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے۔
غلام حیدر نے دلبیر کے کاندھے پر ہاتھ رکھا، دلبیر اب اِس کی نوبت نہیں آئے گی۔خدا نے چا ہا تو ہم پہلے ہی نپٹ لیں گے اِن دونوں خنزیروں کو۔ اس کے بعد غلام حیدر رفیق پاولی سے مخاطب ہوا، چاچا فیقے، تم کل منہ اندھیرے ہی چک عالمکے چلے جاؤاورملک بہزاد خان کو لے کر بارہ بجے سے پہلے جلال آباد حویلی پر آ جاؤ۔ مَیں بھی جنازہ پڑھ کے اور اِن لاشوں کو دفنا کے تھانہ گروہرسا پرچہ کٹوا کر بارہ سے پہلے ہی حویلی پہنچ جاؤں گا۔
اُس کے بعد تمام لوگ ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔بہت ساری پاتھیوں اور لکڑیوں کو آگ لگا کر اُن کے گرد بیٹھ گئے۔ غلام حیدر سب لوگوں کے درمیان یونہی بیٹھا رہا۔ دونوں لاشیں اُٹھا کر ان کے گھر پہنچا دی گئیں جن پر ساری رات اُن کے بیوی بچے اور رشتے دار رو رو کر بے حال ہوتے رہے۔ شاہ پور کا کوئی فرد ہی ہو گا جو رات سویا ہو۔ لاشوں کو دوسرا دن ہو گیا تھا، مگر سردیوں کی وجہ سے خراب ہونے کا خطرہ نہیں تھا۔ ارد گرد سے بھی بہت سے لوگ، چوہدری اور جاننے والے،جو شیر حیدر اور غلام حیدر کے واقف کار تھے، اکٹھے ہوئے بیٹھے تھے۔ اسی طرح ساری رات گزر گئی۔ دوسرے دن صبح کی اذان سے پہلے ہی فیقا رات کے طے شدہ پروگرام کے مطابق چار بندوں کو لے کر چک عالمکے چلا گیا۔ مولوی اللہ دتہ نے آٹھ بجے ہی جنازہ پڑھ دیا اور نو بجے تک لاشوں کو شاہ پور گاؤں کے چوک میں دفن کر دیا۔لاشیں دفنانے کے فوراً بعد باقی بندوں کے ساتھ غلام حیدر تھانہ گروہرسا پرچہ کٹوانے کے لیے روانہ ہو گیا۔
(24)
ولیم کی آنکھ صبح چھ بجے ہی کھل گئی۔اُٹھتے ہی اُس نے بوٹ اور جرسی پہنی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ سب لوگ آرام سے سو رہے تھے۔ دن نکلنے میں پون گھنٹہ باقی تھا مگر پرندے،خاص کر کوؤں کی کائیں کائیں اور چڑیوں کے چہکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ولیم کمرے سے نکل کر ڈاک بنگلے کے صحن میں آیا۔وہاں ملازم اور سنتری آگ کے گرد جھرمٹ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے،جو ولیم سے بھی ایک گھنٹہ پہلے جاگ گئے تھے۔ ڈاک بنگلے کا صحن دو ایکڑ کے قریب تھا۔جس میں ایک طرف مالٹے اور امرود کے اور دوسری طرف ٹاہلیوں اور پیپل کے درخت کھڑے تھے۔گیٹ کے پاس ایک برگد کا بہت ہی بڑا پیڑ تھا۔ اُس کی شاخوں سے داڑھیاں نکل کر زمین میں دور دور تک دوبارہ پیوست ہو کر اُن میں سے بھی شاخیں نکل آئی تھیں۔جس کی وجہ سے مرکزی تنے کے ساتھ کئی ذیلی تنے بن گئے تھے۔ برگد پر پرندوں کی اتنی بہتات اور شور تھا کہ کان پھٹتے جا رہے تھے۔ صبح سے پہلے کی سرمئی خموشی او پرندوں کی چہکار سے ولیم ایک وجد کی حالت میں چلا گیا کہ اُسے کچھ دیر کے لیے سب کچھ بھول گیا۔ وہ ڈاک بنگلے کی مسحور کن فضا میں گم ہو کر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ خدا انسان پر اپنی رحمتیں کن کن رنگوں میں نازل کرتا ہے۔ولیم کو دیکھ کر سنتری اور دوسرے ملازم فوراً با ادب ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ڈر کے مارے اُنہیں کچھ نہ سوجھا کہ کیا کریں؟ صرف ریفلیں پکڑ کر جلدی جلدی ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ ولیم نے اُن کے اِس اضطراری عمل کو نظر اندازکرتے ہوئے سب ا نسپیکڑ کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔سب انسپیکڑ رام لال جو پہلے آگ کے پاس بیٹھا مسواک کر رہاتھا اور ولیم کو دیکھ اُس کی مسواک ہاتھ سے گر چکی تھی، پُھرتی سے آگے بڑھا، تو ولیم نے نرم مزاجی سے کہا،رام لال اپنے ساتھ تین سنتری لے کر میرے پیچھے آ جاؤ، باقی آرام سے بیٹھو۔یہ کہہ کر چل پڑا۔
ولیم بنگلے سے باہر نکلا تو ہرے بھرے کھیتوں نے خوش نگاہی سے اُس کا استقبال کیا۔ جب وہ ڈاک بنگلے پہنچا تھا تو شام کا دھندلکا تھا۔اِس کی وجہ سے صاف نہیں دکھائی دیا تھا۔لیکن آج صبح کے روشن اندھیرے میں اُسے اپنی آنکھوں کی بینائی میں طراوت اُترتی محسوس ہو رہی تھی۔ ایک دفعہ اُس کے جی میں آئی کاش جلال آباد کی تحصیل “بنگلہ فاضل کا،میں ہوتی۔ وہ آگے بڑھتا گیا۔اُس کے پیچھے تین سنتری اوررام لال چلنے لگے۔
تو ریے، برسن، مکئی اور گندم کی فصلیں دور تک پھیلی تھیں۔ولیم نے دل میں تہیہ کیا کہ وہ پورے جلال آباد کو ایسا ہی سرسبز کر کے رہے گا۔ اسی رو میں ندی نالے اور ہری بھری فصلوں کے قالینوں پر چلتا گیا۔ چلتے چلتے بغیر پیچھے مڑ کر دیکھے رام لال سے سوال کیا،رام لال، یہاں سے ہیڈ سلمیان کی کتنے فاصلے پر ہے؟
رام لال نے تھوڑا سا تیز قدم اٹھاکرولیم کے برابر سے قدرے پیچھے ہو کر جواب دیا،سر ویسے تو کاغذوں میں دو میل ہی لکھا ہے مگر فاصلہ پانچ میل سے کم نہیں ہے۔میں ایک دو دفعہ پہلے بھی یہاں آیا ہوں۔
گڈ ہم وہیں پر جا رہے ہیں، ولیم نے مسکراتے ہوئے رام لال کی طرف دیکھا،آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوگی؟
صاحب جی فاصلہ زیادہ ہے، آپ تھک نہ جائیں،رام لال نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا، اگر حکم ہو تو میں دلبیر کو جیپ نکالنے کا حکم دے دوں اور دوسرے سب افسروں کو بھی خبردار کردوں ؟
ولیم نے رُک کررام لال کی طرف دیکھا اور کہا، ہم ان سنتریوں کے ساتھ پیدل ہیڈ سلیمانکی کی طرف چلتے ہیں۔ تم دلبیر سے کہو وہ ناشتہ وغیرہ کر کے آرام سے جیپ لے کر وہاں آ جائے، باقی لوگوں کو بھی اطلاع کر دو، وہ بھی وہیں آ جائیں۔میں ذرا چہل قدمی کر لوں۔
جیسے آپ کا حکم سرکار،”رام لال نے سر نیچے کرتے ہوئے کہا”۔ اُس کے بعد سنتریوں کی طرف مخاطب ہوکر آہستہ سے کہا، مترو ذرا سنبھل کر کے، صاحب نال ہے گے نے” نئیں تاں بُھگتان پے جُو، اور پیچھے کی طرف دوڑ لگا دی تا کہ اُن کو جلدی سے بتا کر واپس آملے
ولیم نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ قدموں میں پہلے کی نسبت تیزی آ گئی۔ سڑک کچی اور گرد سے اٹی ہوئی تھی جس پر رات بھر اوس پڑنے سے مٹی نم زدہ ہو گئی تھی۔ ولیم کے بوٹ گرد سے اَٹ گئے لیکن وہ چلتا گیا۔ پندرہ منٹ بعد دن کے آثار بہت قریب آ گئے۔ اب لوگ بھی اِکا دُکا فصلوں میں نظر آنے لگے۔ کوئی گڈے میں بیل جوتے کچی سڑک پر رواں دواں تھااورگڈے کے بھاری پہیوں جو لکڑی کے تھے، سے آوازیں چیں چیں بن کر آتیں۔ کوئی کسان فصلوں میں چارا کاٹ رہاتھا، کسی نے کاندھے پر ٹوکی رکھی تھی اور گدھی پر واہنا رکھے ڈھچکو ڈھچکو چلا جاتا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ولیم کو حیرانی سے کھڑے ہو کر دیکھتے اور چل پڑتے۔ ولیم نے سوچا اِن بے چاروں کو کیا پتا، اس وقت جلال آبا دکا سب سے بڑا افسر یہاں اکیلا تین سنتریوں کے ساتھ پھر رہاہے جس کی ملاقات کرنے کے لیے بڑے بڑے جاگیرداروں اور چوہدریوں کو وقت لینا پڑتا ہے۔ اب وہ بالکل اُن کے پاس سے گزر رہا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے۔ اگر وہ چاہیں اور اُن کو پتا چل جائے تو وہ بغیر وقت لیے اُسے اپنی فریاد یہیں سُنا سکتے ہیں۔
جیسے آپ کا حکم سرکار،”رام لال نے سر نیچے کرتے ہوئے کہا”۔ اُس کے بعد سنتریوں کی طرف مخاطب ہوکر آہستہ سے کہا، مترو ذرا سنبھل کر کے، صاحب نال ہے گے نے” نئیں تاں بُھگتان پے جُو، اور پیچھے کی طرف دوڑ لگا دی تا کہ اُن کو جلدی سے بتا کر واپس آملے
ولیم نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ قدموں میں پہلے کی نسبت تیزی آ گئی۔ سڑک کچی اور گرد سے اٹی ہوئی تھی جس پر رات بھر اوس پڑنے سے مٹی نم زدہ ہو گئی تھی۔ ولیم کے بوٹ گرد سے اَٹ گئے لیکن وہ چلتا گیا۔ پندرہ منٹ بعد دن کے آثار بہت قریب آ گئے۔ اب لوگ بھی اِکا دُکا فصلوں میں نظر آنے لگے۔ کوئی گڈے میں بیل جوتے کچی سڑک پر رواں دواں تھااورگڈے کے بھاری پہیوں جو لکڑی کے تھے، سے آوازیں چیں چیں بن کر آتیں۔ کوئی کسان فصلوں میں چارا کاٹ رہاتھا، کسی نے کاندھے پر ٹوکی رکھی تھی اور گدھی پر واہنا رکھے ڈھچکو ڈھچکو چلا جاتا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ولیم کو حیرانی سے کھڑے ہو کر دیکھتے اور چل پڑتے۔ ولیم نے سوچا اِن بے چاروں کو کیا پتا، اس وقت جلال آبا دکا سب سے بڑا افسر یہاں اکیلا تین سنتریوں کے ساتھ پھر رہاہے جس کی ملاقات کرنے کے لیے بڑے بڑے جاگیرداروں اور چوہدریوں کو وقت لینا پڑتا ہے۔ اب وہ بالکل اُن کے پاس سے گزر رہا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے۔ اگر وہ چاہیں اور اُن کو پتا چل جائے تو وہ بغیر وقت لیے اُسے اپنی فریاد یہیں سُنا سکتے ہیں۔
ولیم کے پیدل چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ سنتریوں اور چھوٹے تھانیدار کو وقفے وقفے سے بھاگنا پڑتا۔جب اُن کا اور ولیم کا فاصلہ بہت کم رہ جاتا،پھر چلنا شروع کر دیتے لیکن دو ہی منٹ بعد ولیم اُن سے پھر کافی آگے بڑھ چکا ہوتا۔ فاصلہ زیادہ ہونے پر پھر دوڑ پڑتے۔ اسی طرح یہ کھیل جاری تھا اور وہ بچارے ہانپ رہے تھے۔ولیم پورا نوجوان، تازہ خون اور خالی ہاتھ تھا۔اِدھر یہ بچارے ادھیڑ عمر سنتری، بال بچوں والے، کچھ پیٹ بھی بڑھے ہوئے، اُوپر سے ستم یہ کہ بھاری بندوقیں کاندھوں پر، جان پر عذاب ہو گیا۔دل ہی دل میں ولیم کو کوسنے دینے لگے اور سوچتے جاتے تھے کہ آج تک ایسا کمشنر نہ دیکھا نہ سنا۔ جدھر جی چاہتا ہے، منہ اُٹھا کر اُٹھ دوڑتا ہے، مجال ہے ڈر اور جھجک اس کی رگوں میں آئے۔
رستے میں کئی چھوٹی چھوٹی بستیاں اور ڈھاریاں آئیں جن کے باہر ہی سے گزر جانا ولیم نے مناسب سمجھا۔ کھیت اور سبزہ ہر طرف تھا۔ درخت بھی کافی تھے۔ پگڈنڈیوں اور کھالوں کے کناروں پر ہری ہری گھاس اُگی تھی۔ فصلوں، گھاس اور درخت، ہر شے پر رات کو پڑنے والی اوس کا پانی موتیوں کی طرح بکھرا ہوا عجب دلنشینی اور ٹھنڈک کا احساس پیدا کر رہا تھا۔
اب سورج نکل چکا تھا لیکن اُس کی شعاعوں میں وہ تیزی نہیں تھی، جو گرمیوں کے پیدائشی سورج میں ہوتی ہے۔البتہ ولیم، اور سنتری تیز چلنے کی صورت میں پسینے میں آ گئے تھے۔ خاص کر سنتریوں کے دل ڈوبنے کا سامان بن رہاتھا مگر ولیم اِس صورت حال سے بے نیاز فقط بڑھتا اور چلتا ہی جاتا تھا۔ اچانک ولیم کو ایک کھیت میں گُڑ بنانے والا بیلنا نظر آ گیاجس کے اِدھر اُدھر بہت سے گنے کے کھیت تھے۔ تازہ گڑ بننے کی گرم گرم اور میٹھی خوشبو کے تیز لمس نے ولیم کو مسحور کر دیا۔
اب سورج نکل چکا تھا لیکن اُس کی شعاعوں میں وہ تیزی نہیں تھی، جو گرمیوں کے پیدائشی سورج میں ہوتی ہے۔البتہ ولیم، اور سنتری تیز چلنے کی صورت میں پسینے میں آ گئے تھے۔ خاص کر سنتریوں کے دل ڈوبنے کا سامان بن رہاتھا مگر ولیم اِس صورت حال سے بے نیاز فقط بڑھتا اور چلتا ہی جاتا تھا۔ اچانک ولیم کو ایک کھیت میں گُڑ بنانے والا بیلنا نظر آ گیاجس کے اِدھر اُدھر بہت سے گنے کے کھیت تھے۔ تازہ گڑ بننے کی گرم گرم اور میٹھی خوشبو کے تیز لمس نے ولیم کو مسحور کر دیا۔
خوشبو بہت ہی مانوس اور منفرد تھی جس نے ولیم کو بچپن کے دن یاد دلا دیے جو اس نے وسطی پنجاب میں گزارے تھے۔ ولیم نے ایک دفعہ کھڑے ہو کر کھینچ کھینچ کر دوچار سانس لیے۔ اُدھر سنتری دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ وہ کچھ دیر کے لیے یہاں رُک ہی جائے تو اچھا ہے ورنہ جان نکلنے کے قریب تھی۔بالآخر اُن کی سُنی گئی اور ولیم نے بیلنے کی طرف قدم بڑھا دیے۔ کسان جن میں دو عورتیں اور چار پانچ مرد تھے، فرنگی افسر اور سنتریوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر حیرانی سے کھڑے ہو گئے۔ یہ سب کے سب سکھ تھے جو کماد کے گنوں کا گڑ اور شکر بنا رہے تھے۔یہ پاس پہنچے توسب ادب سے کھڑے ہو گئے۔ ولیم نے آگے بڑھ کر ایک سکھ، جو اُن میں کچھ سیانا نظر آ رہا تھا، سے کہا، باباجی آپ اپنا کام جاری رکھو۔ مَیں تھوڑی دیر کے لیے دیکھنا چاہتا ہوں، گڑ کیسے بنتا ہے۔
ولیم کے رویے کو دیکھ کر ایک بڈھی عورت جس نے گھگھرا پہن رکھا تھا، نے آگے بڑھ کر اپنے میلے ہاتھوں سے ولیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی آ پُت بیٹھ۔ گُڑکھا، روہ پی، لسی وی ہیگی آ۔ لُون والی آ، مٹھی وی مل جاؤو۔ گرو دی رکھ آ پُت، گڑ شکر بہت آ۔ مینوں لگدا پُت تُوں وڈا تھانیدار آ۔ سویرے سویرے کہنو پھڑن چلے آ؟ لگدا کسے وڈے باغی نوں کن پھڑاون دا ارادہ کیتا( پھر سنتریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) پُت تُسیں وی بہہ جاؤ، جو کجھ کھانا وا، کھاؤ۔
ولیم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بوڑھی کیا کہ رہی ہے۔اِس طرح کی گُوڑھی بنجابی سیکھنے کا ابھی اُسے اتفاق نہیں ہوا تھا اور نہ کوشش کے باوجود پنجابی کی کوئی گرائمر کی کتاب اُس کے ہاتھ لگی تھی۔ لیکن وہ یہ ضرور سمجھ رہا تھا کہ بوڑھی اُنہیں دعا دینے کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے پلانے کے چکر میں بھی ہے۔ولیم پر کافی عرصے کے تجربات سے یہ بات تو ثابت ہو چکی تھی کہ عام پنجابیوں یا ہندوستانیوں کو،چاہے وہ سکھ تھے یا مسلمان،اس سے کچھ غرض نہیں تھی کہ اُن پر کون حکومت کر رہا ہے او ر یہ کہ حکومت کرنے والے کا مذہب کیا ہے اور وہ کس نسل سے ہے ؟اُسے تو ان عام لوگوں سے امن اور محبت ہی کی خوشبو آئی تھی۔
وہی محبت اس بوڑھی خاتون اور گُڑ بنانے والے اُس کے بیٹوں میں نظر آ رہی تھی۔یہ سوچ کر ولیم کو وہ ہندو،مسلمان اور سکھ اشرافیہ کا خیال آگیا جو اِن سادہ لوحوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اُسی طرح اِن کا استحصال کرتے ہیں جس طرح غیر ملکی ان کا خون نچوڑتے ہیں۔ اِدھر یہ بڈھی ولیم اور سنتریوں کی آؤ بھگت کو لگ گئی، اُدھر دوسرے لوگوں نے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا۔ بیلنے پر ایک سکھ بیٹھا مسلسل گراریوں کے درمیان گنے ڈال رہاتھا۔گنے کی ایک طرف سے روہ (جوس) بہہ کر پیپوں میں جا رہی تھی اور دوسری طرف سے گنے کا پیڑھ نکل کر اکٹھا ہو رہاتھا۔دو بیل بیلنے کی گراریوں کو گھمانے کے لیے پنجالی میں جُتے ہوئے مسلسل ایک چکر میں گھوم رہے تھے۔ انھیں وقفے وقفے سے ایک آدمی چھڑی مار کر ہنکاتا جاتا۔ ایک آدمی چُونبے کے کنارے بیٹھا کُڈھن سے اُس میں پیڑھ پھینک رہا تھا، جس کی تیز آگ کڑاھے میں پڑی ہوئی پت کو پکا رہی تھی۔ چھاننی اور کڑچھے سے اُسے بار بار ہلایا بھی جا رہا تھا۔ گنڈ میں پکی ہوئی راب سے ایک سکھڑا رنبی کی مدد سے گُڑ کی ڈلیاں کاٹ کاٹ کر بنانے لگا۔ یہ پورا منظر ولیم کے لیے انتہائی پر کشش تھا۔ دونوں سنتری بیٹھے لسی پینے کے ساتھ گُڑ بھی کھانے لگے۔
ولیم نے ایک سکھ سے کہا کہ وہ اُسے گنے کا جوس صاف کر کے دے۔ سکھ نے ولیم کا اشارہ پاتے ہی اُسی بڈھی سے کہا “بے بے، صاحب واسطے چھنا دھو دے، پھر ایک لڑکے کو آواز دے کر، جو بیلوں کو ہنکانے پر معمور تھاکہا،پُت بھج کے جا، دھیر سنگھ دے بوٹیاں توں دو کینو لَے آ۔ لڑکاحکم سنتے ہی بھاگ اُٹھا۔ بھاگنے کے دوران اُس کی بودیاں کھل گئیں۔ ولیم نے دیکھا کہ دُور ایک کھیت کے کنارے پر پانچ دس مالٹے کے پودے کھڑے تھے۔ لڑکا غالباً اُسی طرف گیا تھا۔ولیم کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تین چا رکینو لے کر آ گیا۔
اُس سردار نے اُن میں سے دو کینو ایک صاف ستھرے گنے کے ساتھ ملا کر بیلنے کی گراریوں میں دے دیے اور چھنا نال کے سامنے رکھ دیا۔ کچھ ہی دیر میں سیر بھر کا چھنا گنے اور مالٹے کے جوس سے بھر گیا۔ اُسی بوڑھی عورت نے وہ چھنا ولیم کے ہاتھوں میں دے دیا۔ ولیم نے ڈرتے ڈرتے کہ خدا جانے یہ جوس کیسا ہو گا؟جب ایک گھونٹ لیا تو ایک کیف آفریں لطف اُس کے گلے سے ہوتا ہوا سینے میں اٰترتا چلا گیا۔اُس نے آج تک اِس طرح کا تازہ اور مزے کا شربت نہیں پیا تھا۔ولیم نے دل ہی دل میں سوچا کہ دنیا کی کوئی وہسکی اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس پورے قضیے میں اُن کو یہاں پر آدھ گھنٹہ گزر گیااور سنتریوں نے خوب آرام کر لیا۔چلتے ہوئے ایک سنتری نے اُسی بوڑھے سکھ سے پوچھا، بابا جی “ہیڈ سلیمانکی” یہاں سے کتنی دور ہے۔ بوڑھے نے بغیر غور وفکر کے فوراً جواب دیا، کچھ زیادہ نہیں پُت ایہا بس دو میل ہو گا۔ ایہہ بیلا پار کرو گے، تاں ہیڈ آ جاؤو۔
ولیم بہت حیرا ن ہوا۔ کم از کم چار میل کا سفر وہ طے کر آئے تھے اور بوڑھا ابھی دو میل کہہ رہاتھا، جبکہ نقشے پر “فاضل کا بنگلہ” کا ہیڈ سے فاصلہ محض دو میل درج تھا۔ ولیم نے سوچا یہ کس قسم کے نقشے تھے، جن کا ایک ایک میل چھ چھ کلو میٹر کا ہے۔ اب قریباً ساڑھے آٹھ کا وقت ہو چلا تھا۔ ولیم کو تو ایسا کوئی فرق نہیں پڑتا تھا البتہ سنتریوں نے دو میل مزید کا سن کر دل چھوڑ دیا لیکن چلنا تو بہرحال تھا۔ولیم نے جیسے ہی دوبارہ چلنا شروع کیا اُسی وقت سنتری بھی تیز قدموں سے دوڑ پڑے۔ وہ جانتے تھے کہ ولیم کچھ دیر رُکنے کے بعد بالکل تازہ دم ہو چکا ہے اور اب اُس کا ساتھ دینا مزید مشکل ہو جائے گا لیکن ابھی وہ کھیت سے نکل کر کچی سڑک پر پہنچے ہی تھے کہ ُانہیں دور سے جیپیں گرد اُڑاتی اپنی طرف آتی دکھائی دیں۔ سنتریوں نے جیسے ہی جیپوں کو اپنی طرف آتے دیکھا،بھگوان کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنے لگے۔کیونکہ ولیم کو تو اُن پر رحم نہیں آ رہا تھا لیکن واہگرو نے اُن کی سُن لی۔
جیپیں دس قدم دور ہی آ کر رُک گئیں تاکہ کمشنر صاحب بہادر پر گرد نہ پڑے۔
جیپ رکتے ہی مالیکم چھلانگ مار کر نیچے اُترا اور سلام کے لیے ہاتھ بڑھا تے ہوئے بولا، سر آپ بھی کمال نکلے،ہمیں بھی خبر کر دیتے تو آپ کی ہم رکابی میں کچھ چہل قدمی ہم بھی کر لیتے۔
جیپ رکتے ہی مالیکم چھلانگ مار کر نیچے اُترا اور سلام کے لیے ہاتھ بڑھا تے ہوئے بولا، سر آپ بھی کمال نکلے،ہمیں بھی خبر کر دیتے تو آپ کی ہم رکابی میں کچھ چہل قدمی ہم بھی کر لیتے۔
ولیم مسکراکر بولا،مسٹر مالیکم ہماری ہم رکابی جنہوں نے کی ہے پہلے اُن کی حالت کا اندازہ تو کر لیجیے، خیر کوئی بات نہیں دوبارہ موقع آ جائے گا۔
مالیکم نے خوشگواری کے تاثر کو کم کر تے ہوئے قدرے سنجیدگی سے کہا، سر ابھی جلال آباد سے ایک خبرآئی ہے ذیلدار متوفی شیر حیدر کے گاؤں شاہ پور پر کچھ شر پسندوں نے بلوا کر دیا۔جس میں تین بندے شاہ پور والوں کے مارے گئے اور ایک حملہ آوروں کی طرف سے مر گیا۔ حملہ کل رات دس بجے کیا گیا۔
ولیم خبر سُن کر ایک دم بے لطف ہو گیا۔گویا سارے دورے کا مقصد فنا ہو گیا ہو۔ کچھ دیر کی خموشی کے بعد بے دلی سے جیپ کی طرف بڑھتے ہوئے بولا، مالیکم دورے کو مختصر کرو اور ہیڈ سے ہو کر آج عصر تک جلال آباد پہنچو اور ڈی ایس پی لوئس صاحب کو اطلاع کر دو کہ وہ حلقے کے تھا نیدار کے ساتھ آفس پہنچ جائے اور ہمارے جلال آباد پہنچنے سے پہلے تمام معاملات کی رپورٹ جمع کر لے۔