یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ آپ کی مذہبی تشریحات کے مطابق ایک جانب تمام انسان برابر ہیں اور دوسری جانب عملاً تمام آزاد مسلم مردوں کو تمام دنیا کے غلام، غیر مسلم اور غیر مرد انسانوں پر فوقیت حاصل ہے
سوال یہ نہیں ہے کہ آپ کی مذہبی تشریحات، آپ کے صحیفے اور آپ کا خدا عورت کو تحفظ دیتے ہیں یا نہیں، سوال یہ بھی نہیں کہ (آپ کے بقول) ایک اسلامی اور پاکستانی معاشرے میں گھریلو تشدد کے ایسے واقعات ہوتے ہی نہیں تو پھر اس قانون کی کیا ضرورت تھی؟ سوال یہ ہے کہ آپ مذہب، آسمانی کتب اور خدا کے واحد ترجمان کیوں اور کیسے بن سکتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ آپ ایک عورت کو آزاد، خود مختار اور محفوظ کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ ایسا کیوں ہے کہ آپ کے بقول آپ جس خدا کے پیغام کے ترجمان ہونے کے دعویدار ہیں وہ خدا عورت کو مرد کی مساوی حیثیت تسلیم کرنے، اسے اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرتے دیکھنے اور اپنے لیے اپنا معاشی، سماجی، سیاسی اور انفرادی کردار خود طے کرنے کی آزادی حاصل کرتے ہوئے برداشت کرنے کا قائل نہیں؟ یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ آپ کی مذہبی تشریحات کے مطابق ایک جانب تمام انسان برابر ہیں اور دوسری جانب عملاً تمام آزاد مسلم مردوں کو تمام دنیا کے غلام، غیر مسلم اور غیر مرد انسانوں پر فوقیت حاصل ہے؟ عورت کو تحفظ، مساوی حیثیت کا حامل انسان، آزاد اور خرد مختار تسلیم کرنے سے اسلام (جسے آپ اسلام کہتے ہیں) کو اس قدر تحفظات کیوں ہیں؟ عورت پر تشدد کی روک تھام اور اسے تحفظ فراہم کرنے کا قانون خلاف اسلام کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ اس طرح انہوں نے خود کو خود ہی عورتوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا جو آمرانہ اختیار “خدا کی جانب سے” ودیعت کر رکھا ہے وہ چھن جاتا ہے؟
مفتی نعیم یا ان کی قبیل کے مبلغین کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ خدا کے پیغام اور مذہب کی تشریح کا اختیار اپنے لیے (مردوں کے لیے) خدا کی جانب سے ودیعت کردہ اور مخصوص کردہ اختیار سمجھتے ہیں اور اس بناء پر دین اور دنیا کو اپنی یعنی مردوں مرضی سے چلانے کے قائل ہیں۔ معاملہ خدا کے عورت بیزار ہونے کا نہیں حقیت مذہب کے مبلغین، شارحین اور فقہاء کے مرد ہونے اور مردوں کے نقطہ نظر سے بقیہ تمام غیر مرد انسانوں کو دیکھنے کا ہے۔ یہ بات خود اپنی نفی کرتی ہے کہ ایک جانب ایک خدا منصف ہونے کا دعویدار ہو اور پھر انصاف کی بنیاد یعنی تمام انسانوں کی مساوات کی نفی کرتے ہوئے مرد حضرات کو خواتین پر بیشتر معاملات میں فوقیت دے دے؟ ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ خالق کائنات اپنے عقل کل ہونے پر اصرار کرے اور پھر ایک ایسے معاشرے کو مثالی قرار دے دے جہاں عورت بنیادی آزادیوں اور مساوی حقوق سے محروم قرار دی جائے۔ ایسی پدر سری روایات اور تصورات کو مذہب سمجھ کر ماننا اور ان کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا اپنی جگہ ایک غیر منطقی اور غیر منصفانہ عمل ہے جسے خدا سے منسوب کرنا بجائے خود غلط ہے۔
معاملہ خدا کے عورت بیزار ہونے کا نہیں حقیت مذہب کے مبلغین، شارحین اور فقہاء کے مرد ہونے اور مردوں کے نقطہ نظر سے بقیہ تمام غیر مرد انسانوں کو دیکھنے کا ہے۔
مذہب کی تشکیل کا عمل چوں کہ ایک ایسے معاشرے میں مردوں ہی کے ہاتھوں ہوا ہے جہاں سماجی، معاشی اور سیاسی عوامل کی بناء پر یہ طے کر لیا گیا تھا کہ تمام انسان پیدائشی طور پر باقی تمام انسانوں کے برابر نہیں ہو سکتے اس لیے کچھ نسلوں، کچھ مذاہب کے ماننے والوں اور مردوں کو دوسروں پر فضیلت اور فوقیت خدا کی جانب سے ودیعت کردہ ہے اور خداوں کا منشاء و مقصود یہی ہے کہ زمانے میں جنس، نسل، سماجی و معاشی پس منظر یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کے مابین Hierarchy کو قائم رکھنا معاشرے کی بھلائی کے لیے لازم اور ضروری ہے۔ اور مذہبی معاشرے میں امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نظم و ضبط کا یہ “الہامی” قاعدہ برقرار رکھا جائے۔ اور اسی مفروضہ الہامی قاعدے کی بناء پر آج بھی آزادی نسواں اور حقوق نسواں کو اسلام کے اس مردانہ تشخص کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر واقعی خدا مردوں کو عورتوں پر حاکم یا نگران یا محافظ مقرر کرنے کے لیے انہیں عورتوں پر فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا ہے، عورت کو “صراط مستقیم پر چلانے کے لیے” مردوں کو عورت پر تشدد کا اختیار دے چکا ہے، اور اسلام کی رو سے خواتین کا درجہ بیشتر معاملات میں مرد سے کم تر ہے یا مرد کو عورت کا نگران اور محافظ قرار دیا گیا ہے تو پھر یہ کیسے منوایا جائے کہ خدا ذات پات یا نسل یا امیری غریبی کی بنیاد پر انسانی سماجی کی درجہ بندی اور انسانوں سے امتیازی سلوک کا حکم نہیں دیتا؟ یا یہ کہ چوں کہ مرد عورتوں پر نگران اور محافظ ہیں اس لیے انہیں عورتوں کو راہ راست پر لانے، انہیں با حیا رکھنے اور انہیں سیدھی راہ پر چلانے کے لیے طاقت کے استعمال، اپنی مرضی کے نفاذ یا تشدد کا حق خدا کی جانب سے حاصل ہے تو پھر طالبان یا داعش جیسے گروہوں کو تشدد سے روکنے کا کیا جواز باقی رہے گا؟ اگر مرد واقعی خدا کے احکامات کے مطابق عورت کی نسبت زیادہ سیاسی، سماجی اور معاشی طاقت، اختیار اور قوت کے مالک ہیں تو پھر یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک گورے کو ایک کالے پر برتری حاصل نہیں یا ایک برہمن کو ایک شودر پر خدا کی طرف سے فوقت نہیں دی گئی؟ یہ تضاد نہایت سنگین ہے کہ ایک جانب اسلام مساوات کا درس دیتا ہے مگر دوسری طرف وہ مردوں کو عوتوں پر فائق قرار دیتا ہے؟ مفتی نعیم صاحب اور بیشتر مبلغین اسلام کے مطابق اگر عورتوں کے تحفظ کے قوانین، تمام انسانوں کی مساوات اور آزادی نسواں کے تصورات غیر اسلامی ہیں تو انہیں سوچنا چاہیئے کہ پھر ہٹلر کے نسلی علیحدگی کے قوانین کا خاتمہ، غلامی کا خاتمہ، ذات پات کے نظام کا خاتمہ اور نسل پرستی کا خاتمہ بھی خلاف مذہب قرار دینا ہوں گے اور دنیا کو اسی تاریک دور میں لے جانا ہو گا جہاں انسانوں کی آزادیاں سلب کرنا مذہب کی بنیاد پر جائز تصور کیا جاتا تھا۔
مذہب کی تشریح اور مذہب کی تشکیل کے عمل سے عورت کو علیحدہ رکھنے کے باعث مذہب کی عورت کو کم تر قرار دینے والی ایک متعصب شکل سامنے آئی ہے، نا کہ مذہب میں عورت کی تحقیر کی گئی ہے۔
آج اسلام کی اس تشریح اور فقہ کی بنیاد پر جس کی تشکیل مردوں کے ہاتھوں ہوئی جن کا نفاذ بھی مردوں ہی نے کیا، یہ درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ایک طرف اسلام بنیادی انسانی حقوق متعین کرتا ہے لیکن دوسری طرف عورت کو سیاست میں حصہ لینے یا آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی فراہم نہیں کرتا۔ یہ باتیں کس طرح سے ایک ایسے خدا یا ایک ایسے مذہب سے منسوب کی جا سکتی ہیں جو مساوات اور حقوق کا علمبردار قرار دیا جاتا ہے۔ مساوات کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ تمام انسان اپنی پیدائش سے قطع نظر مساوی حقوق کے حامل ہیں اور انہیں ان کی رنگت، نسل، جنس، سماجی پس منظر، عقیدے یا مال و دولت کی بنیاد پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اس لیے ایسے تمام قوانین یا رسم و رواج کو مذہب کے نام پر تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا جو انسانوں کو رنگ، نسل، عقیدے یا جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے کم تر یا برتر قرار دیتے ہوں۔
درحقیقت خدا اور مذہب عورت کے معاملے میں اس قدر متعصب نہیں جس قدر مرد مذہبی مبلغین ہیں یا جس قدر وہ معاشرے تھے جہاں مذاہب کی ابتداء ہوئی۔ مذہب کی تشریح اور مذہب کی تشکیل کے عمل سے عورت کو علیحدہ رکھنے کے باعث مذہب کی عورت کو کم تر قرار دینے والی ایک متعصب شکل سامنے آئی ہے، نا کہ مذہب میں عورت کی تحقیر کی گئی ہے۔ مذاہب عالم کے بانی اور داعین اپنے زمانوں میں ممکنہ حد تک سماجی، سیاسی اور اقتصادی عوامل کے پیش نظر جس قدر مساوات یا جس قسم کا منصفانہ معاشرہ سوچ سکتے تھے انہوں نے وہ تصور دیا، لیکن اب بات اس سے آگے بڑھنی چاہیئے اور اب یہ ممکن نہیں کہ آپ عورت کو مذہبی معاملات سے محض یہ کہہ کر خارج کر دیں یا صرف اس وجہ سے اسے کم تر قرار دے دیں کیوں کہ وہ عورت ہے، اور عورت ہونے کی وجہ سے ہی خدا نے اسے اس حق سے محروم قرار دیا ہے۔ اب یہ ممکن نہیں۔ خدا میرا بھی ہے اور میری طرح تمام عورتوں کا بھی ہے اور یہ خدا مفتی نعیم صاحب کی طرح عورتوں کے تحفظ کے قوانین، حقوق نسواں اور آزادی نسواں کی تحریکوں سے خائف نہیں اور نہ ہی عورت کو مرد سے کم تر قرار دینے کا قائل ہے۔ میرا اسلام اور تمام عورتوں کا اسلام عورت کو مرد کی نگرانی، تحفظ یا حکومت میں دینے کی بجائے ایک آزاد اور خود مختار عورت کا قائل ہے۔ ہم اسلام اور معاشرے کو پیچھے نہیں دھکیل سکتے اور یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ اسے چودہ سو سال قبل کی حالت میں محفوظ کیا جائے، ہمیں اسلام کو ماضی کے غیر منصفانہ تصورات اور رسم و رواج عجائب گھر نہیں بنانا بلکہ ہمیں مذہب کو تمام ذاتوں، جنسوں، رنگوں، نسلوں اور رویوں کے حامل جیتے جاگتے انسانوں کے لیے قابل قبول بنانا ہے جیسا کہ دنیا کے بہت سے نظریات اور مذاہب کر رہے ہیں۔
Image: Guardian