یہ ۲۰۰۶ء کے اواخر سرما کی ایک دھندلی شب تھی، جب ناچیزکو نہرکنارے، مال روڈ کے قریب ایک دلچسپ مگر نا قابل یقین "واردات” کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافت کے ابتدائی سال تھے، ریڈیو ایف ایم ایک سو تین میں نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے شعبےسے وابستگی تھی، نیوز ڈیسک کے علاوہ بلیٹن اور چند پروگراموں کی میزبانی بھی اپنے ہی ذمہ ہوا کرتی تھی۔ رات بارہ کا بلیٹن ایڈٹ کرنے اور پھر پڑھنے کے بعد عموما سوا بارہ ہو جایا کرتے تھے۔ ساڑھے بارہ بجے آخری "تینتیس نمبر ی” شملہ پہاڑی سے گزرا کرتی تھی، پریس کلب اپنا "مقررہ” سٹاپ ہوا کرتا تھا، لیکن اس شب دفتر میں کچھ یار لوگ آن بیٹھے، تاخیر ہو گئی اور جب اپنے سٹاپ پر پہنچے تو معلوم ہو ا کہ چونکہ رات کا ایک بج چکا ہے لہذا تینتیس نمبر ی تو کجا کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا حصول ناممکن ہے، سوچا یہاں سے نہر تک واک کی جائے اور پھر کسی "بادشاہ” سے لفٹ کا تقاضا کیا جائے، دو چار سگریٹ ہوا میں اڑا ادئیے، (چھلا بنائے بغیر) اور” رمقے رمقے” نہر پر آن نکلے، انتظا ر تھا کسی لفٹ کا، لیکن معلوم نہ تھا کہ یہاں پہلے ہی سے کوئی ہمارے انتظار میں ہے،، نجانے کب سے۔۔!!
احساس تب ہوا جب کن پٹی پر ٹھنڈی ٹھنڈی سی کوئی دھات جیسے چپک گئی ہو۔۔ بے حد کوشش کے بعد ذرا مڑ کر دیکھا تو آواز آئی۔۔ "کڈ دے جو کج ہے ای، جلدی کر ورنہ گولی اندر” یہ ایک جملہ کہتے ہوئے اس ڈاکو نما "چور” نے دو چار جاندار "پنچ” بھی ہماری نازک کمریا میں رسید کر دیئے۔ گھپ اندھیرا ، دھندلی رات، اور سردی بھی کہے کہ بس آج ہی ہوں۔۔حواس سنبھالنے کی بھر پور کوشش کی اور کہا۔۔! ‘بھیا !! ایزی ہو جاو، خدا قسم۔! جو بھی ہے سب تمہیں دان دیتے ہیں’۔۔ بس یہ ذرا "ہتھیار” نما ” اوزار” پرے کرو ۔ لیکن یقین جانیے یہ "غیرروایتی ” وارداتیے بہت ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں۔۔ مجال ہے کسی ناچیز کی کسی بھی بات پر کان دھریں۔۔ اخیر ڈھیٹ۔۔!! فقط دو جملے۔۔ !! یعنی۔۔ "نکالو جو کچھ ہے” "ورنہ گولی اندر” ۔۔ کوئی تیسری بات کرنا تو جیسے انہیں آتی ہی نہیں۔
ستم ظریفی یہ کہ۔۔ نہر کنارے اس بس سٹاپ پر ہم دو اکیلےہی تھے، حالانکہ ایسی تنہائی کا خواب تو کسی اور کے ساتھ دیکھا کرتے تھے۔۔ مگر ہیچ آرزو مندی۔” دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے”۔۔ اب تو صورتحال یہ تھی کہ "مرتے کیا نہ کرتے” ۔۔
قریبا پانچ یا دس منٹ کی دھینگا مشتی اور منت سماجت (ہماری جانب سے) کے بعد "ڈاکو” المعروف "کانگڑی پہلوان سامنے آن کھڑا ہوا، لیکن کمبخت نے پستول بدستور ہماری کن پٹیا پر ہی رکھا۔۔
اب اس بد بخت کو کون سمجھاتا کہ فقیروں کے ہاں بھلا کونسے ہیرے جواہر یا "دنیاوی” لعل و گہر ہوا کرتے ہیں جنہیں وہ سنبھالے پھریں، آخر میں کل ملا کے فقط ایک سو پچھہتر روپے کی خطیر رقم، ایک عدد موبائل فون، اور آدھی ڈبیا سگریٹ مع دیدہ زیب لائٹر (جو ان دنوں نیا نیا تحفتا وصول ہوا تھا)۔ یہ سب دیکھ کر کانگڑی پہلوان خاصا سیخ پا ہو گیا، "بس اینا کج؟؟” (صرف اتنا ہی؟؟) کہا۔۔!بھائی۔! فقرا کے ہاں سے یہ بھی غنیمت جانو۔۔ موبائل بغور دیکھا تو طنزا کہنے لگا۔۔ "ایدا کی کراں؟؟ ” (اس کا کیا کروں) جواب دیا۔۔ حضور! واپس کر دیں۔۔ نوکیا گیارہ سو!! وہ بھی سکاچ ٹیپ سے جڑا ہوا۔ جس کی کیسنگ جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی تھی، ہمیں یاد پڑتا ہے کہ اس "تاریخی” فون کو سٹارٹ کرنے کے لیے ماچس کی تیلی درکار ہوا کرتی تھی کیونکہ آن آف والا بٹن بھلے وقتوں میں ہی کہیں "نیست و نابود” ہو چکا تھا۔ اس قدر ‘عالی شان’ اور لش پش یعنی "انتہائی خستہ حال” موبائل فون اور محض ایک سو پچھہتر روپے دیکھ کر ڈاکو کے دل میں شاید کچھ رحم پیدا ہوا۔۔ اور پہلے مرحلے میں اس کا لب و لہجہ نارمل ہو گیا۔ دوسرے مرحلے میں اس نے تا سف اور حقارت بھرے انداز میں چند ایک معصوم خواہشات کا اظہار کیا۔۔ کہنے لگا۔۔ ہن تیرے کولوں بندا بھلا کی کھوہوے۔۔ (اب تم سے کوئی کیا چھینے) کہا بھائی حکم کرو۔۔ کہنے لگا؛ چونکہ بائیک میں پیٹرول نہیں۔۔ لہذا پچھہتر تم رکھو اور سو مجھے دو۔۔ یہ لائٹر بہت اچھا ہے۔۔ یہ بھی ہمیں دیتے جاو۔۔ اور ہاں یہ جو رنگین کارڈ ہے (ایک صحافتی آئی ڈی کارڈ جو کہ کسی اثاثے سے کم نہیں ہوتا) یہ بھی ہمارے ہاتھ پر رکھو۔ سوچا جان بخشی کے عوض سودا برا نہیں۔ بخوشی اسے سب تھما دیا۔ اور کہا کہ ہن موج کرو بادشاہو۔۔۔ لیکن ہماری بھی ایک خواہش ہے۔ کیمپس تک اپنی بائیک پر لفٹ دو۔۔ ڈاکو ایک لمحے کے لیے مسکرایا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ یہ شخص قطعا بے ضرر ہے تو اس نے "صلہ رحمی” کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں لفٹ دے دی۔
رستے میں بہتیرا دل چاہا کہ ہاسٹل کے دوستوں کو بذریعہ ٹیکسٹ مطلع کر دوں کہ ہم "مہمان خصوصی ” کے ہمراہ چند لمحوں بعد پدھارنے والے ہیں۔ تاکہ اس ڈاکو کی خاطر تواضع کیمپس کی دہائیوں پرانی "مروجہ” روایت کے عین مطابق کی جاسکے۔ لیکن نجانے کیوں ہم ایسا چاہ کر بھی نہ کر سکے۔ وگرنہ ڈاکو کیمپس کی تواضع کے بعد یقینا ساری عمر کے لیے وارداتوں سے توبہ کر لیتا۔
قصہ مختصر کہ اس سانحے میں بنیادی طور پر ہماری جان بخشی کا سبب ہمارا "تاریخی "موبائل فون بنا۔ اور چونکہ ڈاکو ہونے کے باوجود کانگڑی نے ہمیں مال روڈ تا کیمپس سترہ نمبرتک لفٹ دی۔۔ لہذا ڈاکو کی اسی "سخاوت” نے اسے کیمپس کی "مہمان نوازی” سے بچا لیا۔
یہ تو قصہ تھا ۲۰۰۶ء کا۔۔گو کہ اب تک ایسےکئی ایک یادگار واقعات پیش آ چکے ہیں لیکن مذکورہ بالا "وقوعہ” سے ملتا جلتا ایک سانحہ ابھی دو چار روز پہلے پیش آیا۔۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر ہمیں "غیر سیاسی” تحریر لکھنا پڑ رہی ہے۔
آفس سے گھر واپسی کا عمل روایتی تاخیری حربوں کے ساتھ جاری و ساری تھا۔۔رستہ بھی وہی تھا جہاں دو ہزار چھ کی واردا ت طے پائی تھی۔ ایف سی کالج انڈر پاس کراس کیا ہی تھا کہ ضروری فون کال سننے کے کارن ایک اوور ہیڈ کراسنگ کے قریب سائیڈ پر گاڑی پارک کرنا پڑ گئی۔۔ قریب پانچ کا وقت تھا، ابھی سورج ڈھلنے کی تیاری کر رہا تھا، فون پر گفتگو کرتے اچانک محسوس ہوا جیسے کوئی ناک ناک کر رہا ہو، انجانے میں اس احساس کو نذر انداز کر دیا، لیکن جیسے ہی فون بند کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سر منہ لپیٹے پیلی شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس ایک عد د ڈاکو سلور کلر کی بندوق تانے ہمارے سر پر کھڑا ہے۔ اب ہماری فطرت ثانیہ ہے کہ کسی بھی قسم کے رد عمل سے پہلے ہم ایسے واقعات کی ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے مماثلت تلاش کرتے ہیں۔۔ تو پہلا مشاہدہ یہ تھا کہ یہ ڈاکو دو ہزار چھ والے "کانگڑی "سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔۔ یعنی کلین شیو، کانگڑی جثہ، پھرتیلی حرکتیں، آنکھوں میں قدرے خوف، اور مسلسل دھمکی دینے کی روش۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔لیکن اب کی بار نا جانے کیوں ہم مسکرا دیئے۔اور اس سے کہا بھائی دوسرا ڈور خراب ہے، لہذا ڈرائیونگ سیٹ کی جانب آ کر سب چھین لو۔ گو کہ شیشے بند تھے گاڑی لاک تھی، لیکن اس کے باوجود ہم دونوں کی سماعتوں سے ایک دوجے کی آواز ایک خاص "کھنک” کی مانند ٹکرار رہی تھی۔
دائیں بائیں، ادھر ادھر، اوپر نیچے، آجوباجو میں دیکھا تو ٹریفک کو اپنے معمول کے مطابق رواں پایا، کسی کو زحمت محسوس نہ ہوئی کہ ہماری مدد کو آن پہنچے۔۔ اور پولیس یعنی (پُلس ) پیٹرولنگ کا تو سوچنا بھی شاید فضو ل تھا۔
خیر جب یہ یقین ہو گیا کہ اب کہ بار لٹنا طے ہے۔۔ اور لٹے بنا جان بخشی مشکل ہے تو دونوں موبائل مع والٹ ڈاکو کو دکھائے اور اشارہ کیا کہ یہ تمھارے ہیں بھائی، بندوق بس پرے کرو۔ لیکن ڈھیٹ ڈاکو مسلسل پستول لوڈ ان لوڈ کئے جا رہا تھا، دھمکائے جا رہا تھا۔ کمبخت کو شاید یہ علم نہ تھا کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے وقتا فوقتا ہمارے "فیوز” بھی شارٹ ہو رہے تھے۔
خیر۔۔ تقریبا پانچ یا دس منٹ کے "مناظرے” کے بعد سہمے چہرے کے ساتھ ہم سب کچھ ڈاکو کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے رضامند ہو گئے۔۔ لیکن اپنی شرط پر قائم رہنے کی جسارت بھی کر ڈالی۔ کہ بھائی یہ سب تم چھین سکتے ہو لیکن ڈرائیونگ سیٹ کی اور سے ۔۔ طویل مذاکرات کے بعد، ہماری رضا مندی اورپھر بے وقوفانا ضد نے ڈاکو کو بھی قدرے تلملا دیا تھا۔ اس دوران ہمیں رہ رہ کہ دو ہزار چھ کا”وارداتیا ” خوب یا د آیا، ویسا تاریخی فون تو پاس نہیں تھا البتہ صحافی کا "رنگین” کارڈ ضرور جیب میں موجود تھا، وہ نکالا۔۔ اور اسے دکھایا کہ یہ بھی لے جاو میاں۔۔ کام آئے گا۔۔ لیکن پستول پرے کر دو پلیز۔۔۔!! ڈاکو نے چہر ہ قریب لاتے ہوئے شیشے کی دوسری جانب سے ہمارے کارڈ کا بغور مطالعہ کیا۔۔ اور ساتھ ہی ایک ہاتھ سے” رخ روشن” سے نقاب ہٹا دیا۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کم بخت مسکرا رہا ہے ۔۔۔ ہم سمجھےشاید کو ئی جان پہچان والا نکل آیا ہے۔۔ لیکن دوسرے ہاتھ سے "جا سمرن۔۔ جی لے اپنی زندگی” کا اشارہ کرتے ہوئے ڈاکو "ان بلیو جینز” نو دو گیارہ ہو گیا۔۔
اس قدر آسانی سے جان بخشی کا ہمیں رتی برابر بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ لہذا ہم نے ہارن دیا۔۔ ڈاکو واپس پلٹا۔۔ ہم نے مسکراتے ہوئے ڈاکو کو لفٹ کی پیش کش کی۔۔ لیکن اشارتا کہا کہ پہلے بندوق کو ان لوڈ کرو۔وہ کھڑا مسکراتا رہا اور چند لمحوں کے لیے سوچتا رہا۔۔ بلاخر جب اسے بھی یقین ہو گیا کہ بندہ ناچیز بے ضرر ہے تو اس نے حامی بھرلی۔۔ اور پھر وہ دروازہ جو خراب تھا پستول ان لوڈ ہوتے ہی کھل گیا۔۔
ڈاکو کے چہرے پر مانوسیت دیکھتے ہی ہم نے "فرینک” ہونے کی کامیاب کوشش کی۔۔ پوچھا کہاں جاو گے۔۔ بولا۔۔ جناح اسپتال اتار دیجیے گا۔۔ اب چونکہ یہ "سٹاپ” ہماری منزل کے راستے میں ہی تھا لہذا ہمیں اسے وہاں تک لفٹ دینے میں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئی۔ ۔ بیس سے پچیس منٹ کے سفر کے دوران کانگڑی ڈاکو سے ہماری کیا گفتگو ہوئی یہ کہانی پھر سہی۔۔ لیکن ایک بات طے تھی کہ وہ ڈاکو کم اور ایک سوشیالوجسٹ زیادہ تھا۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ "شان بے نیازی” کیساتھ موصوف نے جیب سے آئی فون فور نکالا، اورباقاعدہ "انہماک” کیساتھ دو چار "مختصر ” مواصلاتی خطوط کا جواب ارسال کر ڈالا۔ تجسس بڑھا تو۔ ترچھی نظروں میں عقابی پن کا اضافہ کیا ۔۔معلوم ہوا کہ حضرت اپنے تحریری جوابات میں ٹھیک ٹھاک "انگلش” استعمال کر رہے تھے۔ ۔ یعنی یہ کوئی "ان پڑھ” ڈاکو ہر گز نہ تھا۔
بہر حال۔۔۔ دوران سفر ہمیں بار ہا خیال آیا کہ کیمپس سے گزرنا ہے اور یہاں جان پہچان اب بھی باقی ہے کیوں نہ اس ڈاکو کے لیے "شاہانہ تواضع” کا اہتما م کر لیا جائے۔۔ سوچا ہاسٹل میں مقیم دوستوں کو ٹیکسٹ کر دوں۔۔ شاید یہ جان کر آپ کسی حد تک حیران ہوں گے کہ ایک بار پھر نجانے کیوں ہم چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکے۔
۔۔۔ لیکن ہوشیار۔۔ خبردرا۔۔!! اب اِنَف اِز انَف۔۔۔!! ایسی مزید کوئی توقع نہ رکھی جائے۔۔ کیونکہ اب ہمیں یقین کامل ہے کہ اگر تیسری بار خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ۔۔تو ۔۔یا ۔۔ڈاکو ہمیں سچی مچی لوٹ کر "جینوئن” ڈاکو ہونے کا حق دار قرار پائے گا ۔۔ یا پھر اب کہ بار کوئی ہمارے ساتھ یا ہمیں اپنے ساتھ کیمپس لے جانے پر رضا مند ہوا تو وہ یقینا ” جامعاتی تواضع” کا مستحق قرار پائے گا۔۔ شکریہ۔
احساس تب ہوا جب کن پٹی پر ٹھنڈی ٹھنڈی سی کوئی دھات جیسے چپک گئی ہو۔۔ بے حد کوشش کے بعد ذرا مڑ کر دیکھا تو آواز آئی۔۔ "کڈ دے جو کج ہے ای، جلدی کر ورنہ گولی اندر” یہ ایک جملہ کہتے ہوئے اس ڈاکو نما "چور” نے دو چار جاندار "پنچ” بھی ہماری نازک کمریا میں رسید کر دیئے۔ گھپ اندھیرا ، دھندلی رات، اور سردی بھی کہے کہ بس آج ہی ہوں۔۔حواس سنبھالنے کی بھر پور کوشش کی اور کہا۔۔! ‘بھیا !! ایزی ہو جاو، خدا قسم۔! جو بھی ہے سب تمہیں دان دیتے ہیں’۔۔ بس یہ ذرا "ہتھیار” نما ” اوزار” پرے کرو ۔ لیکن یقین جانیے یہ "غیرروایتی ” وارداتیے بہت ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں۔۔ مجال ہے کسی ناچیز کی کسی بھی بات پر کان دھریں۔۔ اخیر ڈھیٹ۔۔!! فقط دو جملے۔۔ !! یعنی۔۔ "نکالو جو کچھ ہے” "ورنہ گولی اندر” ۔۔ کوئی تیسری بات کرنا تو جیسے انہیں آتی ہی نہیں۔
ستم ظریفی یہ کہ۔۔ نہر کنارے اس بس سٹاپ پر ہم دو اکیلےہی تھے، حالانکہ ایسی تنہائی کا خواب تو کسی اور کے ساتھ دیکھا کرتے تھے۔۔ مگر ہیچ آرزو مندی۔” دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے”۔۔ اب تو صورتحال یہ تھی کہ "مرتے کیا نہ کرتے” ۔۔
قریبا پانچ یا دس منٹ کی دھینگا مشتی اور منت سماجت (ہماری جانب سے) کے بعد "ڈاکو” المعروف "کانگڑی پہلوان سامنے آن کھڑا ہوا، لیکن کمبخت نے پستول بدستور ہماری کن پٹیا پر ہی رکھا۔۔
اب اس بد بخت کو کون سمجھاتا کہ فقیروں کے ہاں بھلا کونسے ہیرے جواہر یا "دنیاوی” لعل و گہر ہوا کرتے ہیں جنہیں وہ سنبھالے پھریں، آخر میں کل ملا کے فقط ایک سو پچھہتر روپے کی خطیر رقم، ایک عدد موبائل فون، اور آدھی ڈبیا سگریٹ مع دیدہ زیب لائٹر (جو ان دنوں نیا نیا تحفتا وصول ہوا تھا)۔ یہ سب دیکھ کر کانگڑی پہلوان خاصا سیخ پا ہو گیا، "بس اینا کج؟؟” (صرف اتنا ہی؟؟) کہا۔۔!بھائی۔! فقرا کے ہاں سے یہ بھی غنیمت جانو۔۔ موبائل بغور دیکھا تو طنزا کہنے لگا۔۔ "ایدا کی کراں؟؟ ” (اس کا کیا کروں) جواب دیا۔۔ حضور! واپس کر دیں۔۔ نوکیا گیارہ سو!! وہ بھی سکاچ ٹیپ سے جڑا ہوا۔ جس کی کیسنگ جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی تھی، ہمیں یاد پڑتا ہے کہ اس "تاریخی” فون کو سٹارٹ کرنے کے لیے ماچس کی تیلی درکار ہوا کرتی تھی کیونکہ آن آف والا بٹن بھلے وقتوں میں ہی کہیں "نیست و نابود” ہو چکا تھا۔ اس قدر ‘عالی شان’ اور لش پش یعنی "انتہائی خستہ حال” موبائل فون اور محض ایک سو پچھہتر روپے دیکھ کر ڈاکو کے دل میں شاید کچھ رحم پیدا ہوا۔۔ اور پہلے مرحلے میں اس کا لب و لہجہ نارمل ہو گیا۔ دوسرے مرحلے میں اس نے تا سف اور حقارت بھرے انداز میں چند ایک معصوم خواہشات کا اظہار کیا۔۔ کہنے لگا۔۔ ہن تیرے کولوں بندا بھلا کی کھوہوے۔۔ (اب تم سے کوئی کیا چھینے) کہا بھائی حکم کرو۔۔ کہنے لگا؛ چونکہ بائیک میں پیٹرول نہیں۔۔ لہذا پچھہتر تم رکھو اور سو مجھے دو۔۔ یہ لائٹر بہت اچھا ہے۔۔ یہ بھی ہمیں دیتے جاو۔۔ اور ہاں یہ جو رنگین کارڈ ہے (ایک صحافتی آئی ڈی کارڈ جو کہ کسی اثاثے سے کم نہیں ہوتا) یہ بھی ہمارے ہاتھ پر رکھو۔ سوچا جان بخشی کے عوض سودا برا نہیں۔ بخوشی اسے سب تھما دیا۔ اور کہا کہ ہن موج کرو بادشاہو۔۔۔ لیکن ہماری بھی ایک خواہش ہے۔ کیمپس تک اپنی بائیک پر لفٹ دو۔۔ ڈاکو ایک لمحے کے لیے مسکرایا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ یہ شخص قطعا بے ضرر ہے تو اس نے "صلہ رحمی” کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں لفٹ دے دی۔
رستے میں بہتیرا دل چاہا کہ ہاسٹل کے دوستوں کو بذریعہ ٹیکسٹ مطلع کر دوں کہ ہم "مہمان خصوصی ” کے ہمراہ چند لمحوں بعد پدھارنے والے ہیں۔ تاکہ اس ڈاکو کی خاطر تواضع کیمپس کی دہائیوں پرانی "مروجہ” روایت کے عین مطابق کی جاسکے۔ لیکن نجانے کیوں ہم ایسا چاہ کر بھی نہ کر سکے۔ وگرنہ ڈاکو کیمپس کی تواضع کے بعد یقینا ساری عمر کے لیے وارداتوں سے توبہ کر لیتا۔
قصہ مختصر کہ اس سانحے میں بنیادی طور پر ہماری جان بخشی کا سبب ہمارا "تاریخی "موبائل فون بنا۔ اور چونکہ ڈاکو ہونے کے باوجود کانگڑی نے ہمیں مال روڈ تا کیمپس سترہ نمبرتک لفٹ دی۔۔ لہذا ڈاکو کی اسی "سخاوت” نے اسے کیمپس کی "مہمان نوازی” سے بچا لیا۔
یہ تو قصہ تھا ۲۰۰۶ء کا۔۔گو کہ اب تک ایسےکئی ایک یادگار واقعات پیش آ چکے ہیں لیکن مذکورہ بالا "وقوعہ” سے ملتا جلتا ایک سانحہ ابھی دو چار روز پہلے پیش آیا۔۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر ہمیں "غیر سیاسی” تحریر لکھنا پڑ رہی ہے۔
آفس سے گھر واپسی کا عمل روایتی تاخیری حربوں کے ساتھ جاری و ساری تھا۔۔رستہ بھی وہی تھا جہاں دو ہزار چھ کی واردا ت طے پائی تھی۔ ایف سی کالج انڈر پاس کراس کیا ہی تھا کہ ضروری فون کال سننے کے کارن ایک اوور ہیڈ کراسنگ کے قریب سائیڈ پر گاڑی پارک کرنا پڑ گئی۔۔ قریب پانچ کا وقت تھا، ابھی سورج ڈھلنے کی تیاری کر رہا تھا، فون پر گفتگو کرتے اچانک محسوس ہوا جیسے کوئی ناک ناک کر رہا ہو، انجانے میں اس احساس کو نذر انداز کر دیا، لیکن جیسے ہی فون بند کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سر منہ لپیٹے پیلی شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس ایک عد د ڈاکو سلور کلر کی بندوق تانے ہمارے سر پر کھڑا ہے۔ اب ہماری فطرت ثانیہ ہے کہ کسی بھی قسم کے رد عمل سے پہلے ہم ایسے واقعات کی ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے مماثلت تلاش کرتے ہیں۔۔ تو پہلا مشاہدہ یہ تھا کہ یہ ڈاکو دو ہزار چھ والے "کانگڑی "سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔۔ یعنی کلین شیو، کانگڑی جثہ، پھرتیلی حرکتیں، آنکھوں میں قدرے خوف، اور مسلسل دھمکی دینے کی روش۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔لیکن اب کی بار نا جانے کیوں ہم مسکرا دیئے۔اور اس سے کہا بھائی دوسرا ڈور خراب ہے، لہذا ڈرائیونگ سیٹ کی جانب آ کر سب چھین لو۔ گو کہ شیشے بند تھے گاڑی لاک تھی، لیکن اس کے باوجود ہم دونوں کی سماعتوں سے ایک دوجے کی آواز ایک خاص "کھنک” کی مانند ٹکرار رہی تھی۔
دائیں بائیں، ادھر ادھر، اوپر نیچے، آجوباجو میں دیکھا تو ٹریفک کو اپنے معمول کے مطابق رواں پایا، کسی کو زحمت محسوس نہ ہوئی کہ ہماری مدد کو آن پہنچے۔۔ اور پولیس یعنی (پُلس ) پیٹرولنگ کا تو سوچنا بھی شاید فضو ل تھا۔
خیر جب یہ یقین ہو گیا کہ اب کہ بار لٹنا طے ہے۔۔ اور لٹے بنا جان بخشی مشکل ہے تو دونوں موبائل مع والٹ ڈاکو کو دکھائے اور اشارہ کیا کہ یہ تمھارے ہیں بھائی، بندوق بس پرے کرو۔ لیکن ڈھیٹ ڈاکو مسلسل پستول لوڈ ان لوڈ کئے جا رہا تھا، دھمکائے جا رہا تھا۔ کمبخت کو شاید یہ علم نہ تھا کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے وقتا فوقتا ہمارے "فیوز” بھی شارٹ ہو رہے تھے۔
خیر۔۔ تقریبا پانچ یا دس منٹ کے "مناظرے” کے بعد سہمے چہرے کے ساتھ ہم سب کچھ ڈاکو کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے رضامند ہو گئے۔۔ لیکن اپنی شرط پر قائم رہنے کی جسارت بھی کر ڈالی۔ کہ بھائی یہ سب تم چھین سکتے ہو لیکن ڈرائیونگ سیٹ کی اور سے ۔۔ طویل مذاکرات کے بعد، ہماری رضا مندی اورپھر بے وقوفانا ضد نے ڈاکو کو بھی قدرے تلملا دیا تھا۔ اس دوران ہمیں رہ رہ کہ دو ہزار چھ کا”وارداتیا ” خوب یا د آیا، ویسا تاریخی فون تو پاس نہیں تھا البتہ صحافی کا "رنگین” کارڈ ضرور جیب میں موجود تھا، وہ نکالا۔۔ اور اسے دکھایا کہ یہ بھی لے جاو میاں۔۔ کام آئے گا۔۔ لیکن پستول پرے کر دو پلیز۔۔۔!! ڈاکو نے چہر ہ قریب لاتے ہوئے شیشے کی دوسری جانب سے ہمارے کارڈ کا بغور مطالعہ کیا۔۔ اور ساتھ ہی ایک ہاتھ سے” رخ روشن” سے نقاب ہٹا دیا۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کم بخت مسکرا رہا ہے ۔۔۔ ہم سمجھےشاید کو ئی جان پہچان والا نکل آیا ہے۔۔ لیکن دوسرے ہاتھ سے "جا سمرن۔۔ جی لے اپنی زندگی” کا اشارہ کرتے ہوئے ڈاکو "ان بلیو جینز” نو دو گیارہ ہو گیا۔۔
اس قدر آسانی سے جان بخشی کا ہمیں رتی برابر بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ لہذا ہم نے ہارن دیا۔۔ ڈاکو واپس پلٹا۔۔ ہم نے مسکراتے ہوئے ڈاکو کو لفٹ کی پیش کش کی۔۔ لیکن اشارتا کہا کہ پہلے بندوق کو ان لوڈ کرو۔وہ کھڑا مسکراتا رہا اور چند لمحوں کے لیے سوچتا رہا۔۔ بلاخر جب اسے بھی یقین ہو گیا کہ بندہ ناچیز بے ضرر ہے تو اس نے حامی بھرلی۔۔ اور پھر وہ دروازہ جو خراب تھا پستول ان لوڈ ہوتے ہی کھل گیا۔۔
ڈاکو کے چہرے پر مانوسیت دیکھتے ہی ہم نے "فرینک” ہونے کی کامیاب کوشش کی۔۔ پوچھا کہاں جاو گے۔۔ بولا۔۔ جناح اسپتال اتار دیجیے گا۔۔ اب چونکہ یہ "سٹاپ” ہماری منزل کے راستے میں ہی تھا لہذا ہمیں اسے وہاں تک لفٹ دینے میں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئی۔ ۔ بیس سے پچیس منٹ کے سفر کے دوران کانگڑی ڈاکو سے ہماری کیا گفتگو ہوئی یہ کہانی پھر سہی۔۔ لیکن ایک بات طے تھی کہ وہ ڈاکو کم اور ایک سوشیالوجسٹ زیادہ تھا۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ "شان بے نیازی” کیساتھ موصوف نے جیب سے آئی فون فور نکالا، اورباقاعدہ "انہماک” کیساتھ دو چار "مختصر ” مواصلاتی خطوط کا جواب ارسال کر ڈالا۔ تجسس بڑھا تو۔ ترچھی نظروں میں عقابی پن کا اضافہ کیا ۔۔معلوم ہوا کہ حضرت اپنے تحریری جوابات میں ٹھیک ٹھاک "انگلش” استعمال کر رہے تھے۔ ۔ یعنی یہ کوئی "ان پڑھ” ڈاکو ہر گز نہ تھا۔
بہر حال۔۔۔ دوران سفر ہمیں بار ہا خیال آیا کہ کیمپس سے گزرنا ہے اور یہاں جان پہچان اب بھی باقی ہے کیوں نہ اس ڈاکو کے لیے "شاہانہ تواضع” کا اہتما م کر لیا جائے۔۔ سوچا ہاسٹل میں مقیم دوستوں کو ٹیکسٹ کر دوں۔۔ شاید یہ جان کر آپ کسی حد تک حیران ہوں گے کہ ایک بار پھر نجانے کیوں ہم چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکے۔
۔۔۔ لیکن ہوشیار۔۔ خبردرا۔۔!! اب اِنَف اِز انَف۔۔۔!! ایسی مزید کوئی توقع نہ رکھی جائے۔۔ کیونکہ اب ہمیں یقین کامل ہے کہ اگر تیسری بار خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ۔۔تو ۔۔یا ۔۔ڈاکو ہمیں سچی مچی لوٹ کر "جینوئن” ڈاکو ہونے کا حق دار قرار پائے گا ۔۔ یا پھر اب کہ بار کوئی ہمارے ساتھ یا ہمیں اپنے ساتھ کیمپس لے جانے پر رضا مند ہوا تو وہ یقینا ” جامعاتی تواضع” کا مستحق قرار پائے گا۔۔ شکریہ۔
(نوٹ: مذکورہ بالا وارداتوں میں استعمال کیے گئے کسی بھی "حربے” پر عمل درآمد ہر گز نہ کیجیے گا۔۔ کیونکہ یہ ۔۔۔یا قسمت یا نصیب۔۔ والے معاملے ہوتے ہیں۔۔مزید براں۔۔ اس تحریر کو صرف جینوئن اور نان جینوئن ڈاکو کی تفریق کے لیے پڑھا جاوے)
بہت اعلیٰ، مدتوں بعد ایسی تحریر پڑھی۔
Humare sath b kuch istarhan ka waqiya paish achuka hai, waise profession k hisab se hum b ap hi k profession k sathi hai.. Hwa kuch youn k hum 2 saal pehly apne daftar ane k lie Ghar se rawana hoe.. Bus ma bethy hi thy k kuch fasle per jakr bus ma pehly se mojod bethy logo main kuch harkat hoi or ek uth kr mera Bajoo(barabr) main akr beth gay.. or Khne laga tu Party ka admi hai humare bande marwata hai Mukhber..pehly to mian kuch samjh nahi paya..per jub us ne Pistol humare pait per lagayi to humain ehsas hoa k woh Reh.zan(snatcher) hain.. takreeban 10 se zaid KM ka safar unho ne mera sath safr kia.. or bus mujhe se baatien krte rahe mobile liaa.. paise lie… card lie. card wapis kia or sath hi Mobile hi mobile wapis daite hi mera dil main khushi dor gayi.. per yeh khushi us waqt mannand par gayi jub us ne kahan sim nkl k wapis kr 🙁
Waise mera tha is tarhan k 3 waqiyat paish achuke hain.
ap ka column prh kr maza aya… 🙂
Although you wrote Funny But its not Funny For Heaven Sake….!!! you shouldn’t take such chances… stay safe….