Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

یولا کا خواب اور دوسری نظمیں (شاعر: احمد شافعی، ترجمہ: ادریس بابر)

test-ghori

test-ghori

14 ستمبر, 2020

مصر سے تعلق رکھنے والے شاعر، ادیب اور مترجم احمد شافعی عربی ادب کی منفرد ترین نئی آوازوں میں سے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں پر پھیلا ہوا ان کا متنوع کام ان کی خلاقی کا ثبوت ہے۔ جہاں ان کی آزادہ روی نے ان کے مداحوں کے دلوں میں گھر کیا وہیں ان کی روشنئ طبع خود ان کے لئے بلا بھی ثابت ہوتی رہی۔ احمد شافعی مسقط میں مقیم ہیں۔ آج آپ لالٹین پراس باکمال شاعر کی نظمیں آپ پڑھنے جا رہے ہیں۔ ان نظموں کوعربی سے انگریزی قالب میں مونا کریم، احمد رخا اور رابن موجر نے ڈھالا جبکہ انہیں اردو روپ ادریس بابر نے دیا۔

[divider]1[/divider]

شاعری وہاں نہیں ملی مجھے
جہاں میں اسے چھوڑ کے گیا تھا

بادل میری کھڑکی میں
نظم میری لکھنے کی میز پر
ذرا حیران نہیں ہوا میں

کمرے کا کمرہ
بے چینی سے منتظر تھا میرا
نشے میں چور
پلکیں اٹھائیں اس نے
مخمور بانہیں کھول دیں
ذرا تصور تو کرو
وہ کہنے لگا
از برائے خدا
تصور تو کرو مجھے

[divider]2[/divider]

ایک چھوٹے سے شہر کے پاس ہے
ایک بہت بڑا سمندر
اس پر سایہ فگن ہے
ایک شاندار قلعہ
گلیاں ہیں اور چوک ہیں
راستے ہیں اور موڑ ہیں
طرح طرح کے اچنبھوں
ان گنت اتفاقی ملاقاتوں کے امکانات لیے

چھوٹا سا شہر
جو ہم بنا پائے
ایک دوسرے سے واقفیت کے کارن

اسی دوران
کہیں کے کہیں تیرتے چلے گئے
ہمارے باپ
رنگ برنگی چھتریوں کو
ہماری ماوں کی نشانیاں ٹھہرا کر

[divider]3[/divider]

ہر نظم
جو میں پڑھتا
ایک ہیرا نکلتی
لوٹ مار کے نتیجے میں
جسے دنیا سے چھین لیا گیا ہو
ہر نظم
جو میں لکھتا
اس کے مقابلے میں
نظر آتی
ایک معذرت نامہ

[divider]4[/divider]

وہی فیصلہ کن گھڑی تھی
جب میں بہت بھاری پڑ رہا تھا
اپنے حریف کے مقابلے میں
اس نے راہ فرار اختیار کی
میں بھی پیچھے ہٹتا گیا
اسے سوچنے سمجھنے کا موقع دیے بغیر
کہ میں جو حاوی تھا
کیوں پیچھے ہٹا
جب وہ پرے بہت پرے ہٹ چکا
تو میں اسے نہایت غیر اہم دکھائی دینے لگا
اتنا کہ اسے خود پر پیار آنے لگا
کہ آخر اس نے کچل کے کیوں نہ رکھ دیا
مجھ ایسی حقیر شے کو
اپنے جوتوں تلے

[divider]یولا کا خواب[/divider]

قلم پر پوری قدرت نہ رکھتی تھیں
ابھی اس کی پانچ سالہ انگلیاں
جب یولا نے کاغذ پر نقش کیا
ایک ٹوٹا ہوا دل
نارنجی رنگ میں
اور کہنے لگی
میں نے تمہیں خواب میں دیکھا تھا
تم اشارہ کررہے تھے
ایسی ہی بلکہ اس سے بڑی چیز کی طرف
جبکہ تم ایک صحرا میں تھے
اور تم کہہ رہے تھے
یولا! میں ہی تو ہوں
وہ جس نے یہ گھر بنایا
تمہارے لیے
وہ گھر بہت دور تھا
اور مزید دور ہو جاتا
وہاں سے جہاں کا رخ ہم کر رہے تھے