آوازوں والا کردار (چوتھا حصہ) – تالیف حیدر
تالیف حیدر: وہ خاص کر کسی ایک لڑکی کا پیچھا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے تو صرف مختلف خوشبووں کا تعاقب کرنا تھا، جس سے اسے مسرت ملتی تھی۔
ہندسوں میں بٹی زندگی اور دیگر کہانیاں (محمد جمیل اختر)
ہندسوں میں بٹی زندگی ’’ وارڈ نمبر چار کے بیڈ نمبر سات کی مریضہ کے ساتھ کون ہے ؟‘‘ ’’ جی میں ہوں” ’’مبارک ہو ، آپ کا بیٹا ہوا ہے‘‘ اُس لڑکے کو کمیٹی کے اُس سال کے رجسٹر میں تین ہزار بارہ نمبر پردرج کردیا گیاتھا۔ سکول میں وہ لڑکا ۸۰ اور ۹۰ […]
ریلوے اسٹیشن (محمد جمیل اختر)
“جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے ؟ “ جب پانچ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ اُترتے ہی ایک ٹکٹ چیکر سے یہ سوال کیا تھا۔ “ او جناب پیچھے ایک جگہ مال گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے اب اس گاڑی کا انجن اُسے […]
بساند
آصف زہری: کتابوں اور جالی کے درمیان گوریوں کے گھونسلے اور پر وغیرہ تھے۔ اس نے جھاڑو سے جمع شدہ سارا کوڑا کرکٹ سمیٹ کر بالٹی میں ڈالنا شروع کیا۔ ایک گھونسلے میں دو انڈے بھی تھے جو بالٹی میں گرتے ہی ٹوٹ گئے۔
“اماں ھو مونکھے کاری کرے ماریندا” کا تاثراتی جائزہ
شین زاد: یہ کہانی صرف پسماندہ علاقے کی نہیں۔ تھر کی ہے جسی کی اپنی ثقافت ہے جس کی اپنی اقدار ہیں جس کی اپنی حدود ہیں تھر جہاں بیویاں شادی کے بعد تیس سال گزار دیتی ہیں لیکن اپنے خاوند کی موجودگی میں آنکھ اونچی نہیں کرتیں
دائرہ
اسد رضا: مجھے وہاں تقریر کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے کس نے بھیجا ہے اور نہ ہی یہ کہ میرے سامع کون ہوں گے۔
ادبی سر پرستی اور ادیب کی خود مختاری
تالیف حیدر: اگر کسی طرح کی سرپرستی میں کوئی ادب لکھا جاتا ہے تو وہ ایک خاص طبقے کی حظ ، تکلفات ، اشتہار ، تہذیب ، تفخر اور شان علویت سے متعلق ہوتا ہے اس کے برعکس ادیب کی خود مختاری سے جو فن پارہ سامنے آتا ہے اس میں تکلفات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی
پارو
محمد حمید شاہد:لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب اُس پردورے نہیں پڑتے مگر لوگ افسوس کرتے ہیں کہ جنات پاروکے سارے لفظ اَپنی گٹھڑیوں میں باندھ کر لے گئے تھے۔
شکن
صدف فاطمہ: اس نے پاوڈر کی ڈبیا اٹھائی آنسو سے بن جانے والی لکیر کو پوچھا اور ماٹی کے لیے تیار ہونے لگی۔
لیزلی حیات خان (اپنے فرضی ہم شکل کا حقیقی خاکہ)
ذکی نقوی:لونڈو!! اگر قابل اور لائق لوگ ہو اور دماغ کی بتی روشن ہے اور طبیعت میں تلون، تو اپنی جوانی فوج کو نہ دینا! لڑنے والے لوگ مستقل مزاج لیکن نیم خواندہ ہوتے ہیں۔ تُم کام کے لوگ بنو! اِس قوم کو قابل اُستادوں، شریف ڈاکٹروں، سچے صحافیوں اور دردِ دل رکھنے والے سماجی کارکنوں کی ضرورت سپاہیوں کی نسبت کہیں ذیادہ ہے۔
نعمت خانہ – پچیسویں قسط
خالد جاوید: میں ڈر گیا۔ اپنے اندر کے اُس پرُاسرار کالے سانپ سے میں ڈر گیا اور مجھے یہ بھی یاد آیا کہ ابھی کل ہی شام تو اندر والے دالان کے کونے میں، میں نے سانپ کی اُتاری ہوئی کینچلی پڑی دیکھی تھی۔
پارہ دوز (تین پارچے ایک کہانی)
محمد حمید شاہد: میں اسے دیکھتے رہنا چاہتا تھا مگر اسے یوں دیکھنا میرے لیے ممکن نہ رہا تھا کہ میرا سر گھومنے لگا۔اور میں قبر جیسے اندھرے میں ڈوبتا چلا گیا۔ شان دار روشن قبر کے گہرے اندھیرے میں۔
لوتھ
محمد حمید شاہد: بسین کے اِس معصوم اور بے ضرر حوالے کوبعد ازاں وقوع پذیر ہونے والے سانحوں نے ثانوی بنادیا تھا۔ اب تو اُس کی یادوں میں بسین کے اَندر بپھرے پانیوں کا شراٹا بہہ رہا تھا اور وہ ایک ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ دیکھتا تھا۔
کالے تجھے کتا کھالے
ممتاز حسین: اوئے کالے تجھ میں تو سب رنگ ہیں تیرے سب رنگ نکل جائیں تو میں بچتاہوں۔ چٹا صرف بے رنگ۔۔۔چٹا سائیں۔ تو جمع ہے میں تفریق ہوں۔ آؤ ہم آنکھوں کے ڈھیلوں کو بدل لیتے ہیں تمہاری آنکھین کالا دیکھیں اور میں سفید۔ ‘‘