اس طویل کہانی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
آج سرخ قمیض اور نیلی جینز والی لڑکی نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا اور اس کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں خوف اتر آیا۔اس لڑکی کے چہرے پر غصے کی لہر صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ اس کی ساتھی نے جب لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے کان میں کہا۔ ” رہنے دو۔” تو لڑکی نے اپنی ساتھی کا ہاتھ جھٹک دیا۔
” کیوں رہنے دوں۔ انہیں بھی تو معلوم ہو کہ ہم پندرہ دنوں سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ آخر کسی بات کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔”
اس کی ساتھی ذرا سہمی ہوئی تھی۔ مگر لڑکی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اسے کسی کا خوف نہیں ہے۔ اس نے لڑکے کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ ایک صاف ستھراسفید رنگ کا شارٹ کرتا اور کالی پتلون پہنے ہوا تھا۔ اس کے بال گھنگریالے تھے اور رنگت سانولے پن سے ذرا زیادہ سیاہی مائل۔ لڑکے کے حلیے سے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی شاور لے کر آیا ہے۔
“کیوں بھئی آپ ہمارا پیچھا کیوں کر رہے ہیں۔ میں پچھلے پندہ روز سے دیکھ رہی ہوں کہ آپ روز ہمارے پیچھے پیچھے نئی سٹرک کے چوراہے تک آتے ہیں۔”
اس نے محسوس کیا کے لڑکی کی آنکھوں اور لہجے میں غصہ ضرور ہے، مگر اس کے بولنے کا انداز بہت شگفتہ ہے۔ وہ جب پلٹی تھی تو اسے لگا تھا کہ آج تو شامت آ گئی۔ مگر اب جب کہ لڑکی اس سے اس کی حرکت کی شکایت کر رہی ہے تو اس کا خوف کچھ کم ہونے لگا تھا۔
“ہو سکتا ہے یہ ہمارا وہم ہو۔”
لڑکی کی ساتھی نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے اس کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“وہم! تمہارا داماغ تو ٹھکانے پر ہے۔ یہ مسٹر پچھلے پندرہ دنوں سے ہمارا پیچھا کر رہے ہیں اور تم کہتی ہو کہ یہ میرا وہم ہے۔ ”
لڑکی نے پھر سفید شارٹ کرتے والے لڑکے کی جانب دیکھا۔ “کیا آپ گونگے ہیں، میں آپ سے کچھ پوچھ ہی ہوں۔سنائی نہیں دیتا۔”
اس بات پر اسے ہنسی آ گئی۔ اس نے سوچا کہ یہ لڑکی شاید اتنے بھی غصے میں نہیں ہے جتنا میں اسے سمجھ رہا ہوں۔
لڑکی اور اس کی ساتھی نے جب اسے ہنستے ہوئے دیکھا تو حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ اس بار لڑکی کی ساتھی نے۔ تیزی سے اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور یہ کہتے ہوئے نئی سٹرک کے چوراہے کی طرف بڑھنے لگی “ہو سکتا ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو تم کیوں بلا وجہ کسی کے بھی منہ لگتی ہو۔ اگر پیچھا بھی کر رہا ہے تو کرنےدو کون سا ہمیں کھا لے گا۔ “لڑکی اس دوران اپنا ہاتھ چھڑا نے کی کوشش کرتی رہی۔ وہ پلٹ پلٹ کر اس لڑکے کی جانب بھی دیکھے جا رہی تھی جو ابھی تک اسی جگہ مبہوت انداز میں کھڑا تھا۔
وہ کافی دیر تک اسی جگہ کھڑا جاتی ہوئی لڑکی اور اس کی ساتھی کو گھورتا رہا۔ اسے اپنی بد اخلاقی کا بھی احساس ہو رہا تھا کہ اس نے لڑکی کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور یہ بھی کہ اس طرح کسی لڑکی کے پیچھے روز لپکناک ون سی اچھی بات ہے۔ حالاں کہ اسے آخری درجے تک یقین تھا کہ وہ دونوں لڑکیاں اس بات سے نا واقف ہیں کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے حکومتی عمارتوں کی فٹ پاتھ سے نئی سڑک کے چوراہے تک آتا ہے۔ لیکن اب جبکہ وہ یہ جان گیا تھا اسے ندامت کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ خاص کر کسی ایک لڑکی کا پیچھا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے تو صرف مختلف خوشبووں کا تعاقب کرنا تھا، جس سے اسے مسرت ملتی تھی۔ مگر ہوا یہ تھا کہ جس روز اس نے اپنی سینٹ کی شیشی کھولی اور اس کی خوشبو اپنے بدن پہ لگائی اسی روز وہ لڑکیاں ایک ایسی خوشبو لگا کر حکومتی عمارتوں کی فٹ پاتھ پر آئی تھیں جن خوسے اس کے سینٹ کی خوشبو مل کر ایک بالکل ہی انوکھی مہک پیدا کر رہی تھی۔ جس سے اسے ایسا سرور ملتا کہ وہ دوبارہ گھر پہنچ کر بھی اسی سرور میں کھویا رہتا۔ اس نے شائد گزشتہ پندرہ روز میں ایک دن بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا ہوگا کہ اس کے خد و خال کیسے ہیں یا وہ کن رنگوں کے کپڑے پہن کر آتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نے ان لڑکیوں کے سامنے اپنی زبان نہیں کھولی۔ آخر وہ بولتا بھی تو کیا۔ اسے یہ بات سمجھا پانا بھی مشکل معلوم ہوئی تھی کہ وہ ان کا نہیں بلکہ ان کے اندر سے اٹھنے والی ایک خاص مہک کا پیچھا کر تا ہے۔ نئی سڑک پہ جب وہ لڑکیاں مڑ جاتیں تو وہ وہیں سواری لے کر اپنے گھر لوٹ آتا۔ اسے روز کے اسی روپے مل رہے تھے۔ اس لیے صبح سے شام تک اپنا کام کرنے کے بعد ایک نئی اور دلچسپ مصروفیت اس کے ہاتھ آ گئی تھی۔ پہلے تو چند روز تک وہ انہی پرانے کپڑوں میں حکومتی عمارتوں کے فٹ پاتھ تک جاتا تھا۔ پھر اس نےخود کو مزید سنوارنے کا عزم کیا اور ایک دن جب اس کی کارخانے کی چھٹی تھی وہ اپنے علاقے کے اختتام پر واقع بازار تک گیا اور اپنے لیے تین نئے شارٹ کرتے اور تین جینز خرید لایا۔ ان کرتوں کا آئیڈیا اسے اپنے مالک سے ملا تھا۔ ان دنوں وہ اسی طرح کے کرتے پہن کر کار خانے میں آیا کرتا تھا۔ وہ سلیقے سے اپنے تینوں جوڑ نئے کپڑوں کو اپنے بکس میں ایک سفید پنی میں رکھتا اور شام کو کا ر خانے سے لوٹنے کے بعد نہا دھو کر ان میں سےکسی ایک کو پہنتا اور حکومتی عمارتوں کی فٹ پاتھ کے طرف روانہ ہو جاتا۔ واپسی پر اسی سلیقے سے انہیں تہہ کر کے پنی میں لپیٹ کر دوبارہ اپنے صدوق میں رکھ دیتا۔
دو ماہ سے یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ مگر آج جب وہ لوٹا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کل سے ان فٹ پاتھوں کی طرف ہر گز نہیں جائے گا۔ اسے کسی انجان لڑکی کے پیچھے اس طرح سے ٹہلتے پھرنا ٹھیک نہیں لگا۔ اب اسے یقین تھا کہ اگر وہ دوبارہ ان لڑکیوں کے پیچھا گیا تو وہ سخت قدم اٹھائیں گی اور وہ اس شرمندگی کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ ادھر جانا ترک کردینا ہی بہتر ہے۔ مگر آج اسے ایک اور نیا احساس نصیب ہوا تھا۔ اس نے کسی خوبصورت لڑکی کواتنی نازک آواز میں خود سےکبھی مخاطب ہوتے نہ سنا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ غصے میں اتنے آہستہ لہجے میں بات کر ر ہی تھی تو اس کا محبت بھرا لہجہ کیسا ہو گا۔ اس خیال سے اس کے ہونٹوں پہ دوبارہ ہنسی بکھر گئی۔ پل بھر کے لیے اسے محسوس ہوا کہ اس لڑکی نے اپنی خفگی کا اظہار کر کے اس کے اندر کچھ بدل دیا ہے۔ مگر وہ بدلی ہوئی چیز کیا تھی ابھی وہ خود شناخت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے چہرے کے آثار رہ رہ کر اس کے دماغ میں روشن ہوتے۔ گوراچہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، پتلے پتلے ہونٹ، کھلی گردن اور بھرا بھرا سینہ جو اس قمیض سے باہر کی طرف کھنچا چلا آ رہا تھا۔ اسے لڑکی کا حلیہ اوپر سے نیچے تک رٹ گیا تھا اور جب وہ اس کے ہلتے ہوئے ہونٹ اور چلتی ہوئی سانسوں کو تصور کرتا جو خفگی کے باعث نمایاں ہو رہی تھیں تو ایک دم ہڑ بڑا جاتا۔
(8)
آج صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو تھکا ہوا پایا۔ بدن اس سے اصرار کر رہا تھا کہ وہ کچھ دیر اسی طرح آنکھیں میچے پڑا رہے، کل کی رات اس پہ نہ جانے کیسی گزری تھی۔ اس نے خود سے الجھنا ٹھیک نہیں سمجھا اور چادر منہ تک اوڑھ کر سو گیا۔ دوبارہ جب اس کی آنکھ کھلی تو محسوس ہوا کہ سورج سر پہ آ چکا ہے۔ آج وہ کارخانے نہیں گیا تھا۔ صبح آنکھیں موندتے وقت اسے اس بات کا احساس تھا کہ اگر وہ دوبارہ سو گیا تو اٹھ نہیں پائے گا۔ اس نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ اب اس کی طبیعت میں وہ بوجھل پن نہ تھا جو وہ صبح میں محسوس کر رہا تھا۔ اس نے بستر سے اٹھ کر کھڑ کی سے منہ باہر نکالا تو سورج کی شعاعوں سے اس کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔ کل شام کا منظر پھر اس کے ذہن میں تازہ ہونے لگا اور لڑکی کی شکل ذہن میں صاف ہوتے ہی اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ نہ جانے کیوں اس نے خوشی کے عالم میں سوچا کہ آج ٹیلے کی طرف چلا جائے۔ حالاں کہ وہ یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اب ٹیلے کی طرف کبھی نہ جائے گا۔ اس نے جلدی جلدی منہ دھویا۔ کھونٹی پہ ٹنگے کل شام والے کپڑے پہنے اور ٹیلے کی طرف نکل گیا۔ راستے میں ایک چائے خانے پہ رک کر اس نے چائے پی اور تھوڑا بہت ناشتہ کیا۔ ایک پان کے کھوکھے سے کچھ سگریٹیں خریدیں اور ٹیلے کی طرف چل دیا۔ راستے میں اسے احساس ہوا کہ آج اس طرف وردی والے کچھ زیادہ ہی نظر آ رہے تھے۔ اس نے کبھی اتنے وردی والوں کو اس علاقے میں گھومتے نہ دیکھا تھا۔ اسے کسی وردی والے نے روکا تو نہیں، مگر اس کی چھٹی حس اسے احساس دلا رہی تھی کہ ماحول کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ وہ ٹیلے پہ پہنچا تو ٹیلا دھوپ کی تپش سے جل رہا تھا۔ ہر وہ چیز جس میں سے بد بو آرہی تھی وہ مزید بدبو دار محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سیدھا زمین کے اس بنجر ٹکڑے کی طرف گیا جہاں سے سامنے کی شاہراہ صاف دکھائی دیتی تھی۔ وہاں بیٹھ کر اس نے سگریٹ جلا یا اور روڈ کی طرف دیکھ کر رات والی لڑکی کے خدو خال کے متعلق سوچنے لگا۔ کیا اگر میں اس سے دوبارہ جا کر ملوں تو وہ مجھے مارنے لگے گی ؟ اچانک اس سے ملنے کی خواہش کہیں اند ر ہی اندر سر ابھارنے لگی۔ لیکن وہ تو اسے جانتی تک نہیں ہے اور پھر اس کے لہجے میں لاکھ نرمی سہی، تھی تو وہ غصے میں ہی۔اسے یہ بات پسند نہ آئی تھی کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ لیکن وہ اس کا پیچھا کر ہی کہاں رہا تھا؟ وہ اس خاص خوشبو کے پیچھے تھا جس کی کشش اب اس کے خدو خال کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔ اگر اسی کا پیچھا کرنا ہے تو وہ اب کرے گا۔
وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ ایک جوان عورت ہاتھ میں پلاسٹک کا لوٹا لیے دور سے آتی دکھائی دی۔ وہ جانتا تھا کہ ٹیلے کے قریب کے جھونپڑوں میں رہنے والے مرد، عورت اور بچے ٹیلے پہ رفع حاجت کے لیے آیا کرتے تھے۔ لیکن اس نے اس بات پہ کبھی غور نہیں کیا تھا کہ اس کی موجودگی میں کتنے مرد، عورتیں یا بچے ٹیلے کی بدبووں میں اضافہ کر رہے ہیں۔اس نے دیکھا کہ وہ عورت اس سے خاصے فاصلے پہ لوٹا لے کر بیٹھ گئی ہے۔ عورت کی پیٹھ اس کی طرف تھی۔ جس سے وہ اس کے کولہے اور اس سے نکلتا ہوا مل دیکھ سکتا تھا۔ وہ حالیہ دنوں جن خوشبووں کا عادی تھا اس کے پیش نظر اس عمل سے اس کا گھنا جانا لازمی تھا، مگر ایسا ہوا نہیں، نہ جانے کیوں اس کی نگاہ عورت کے پٹھے سے نکلنے والے مل کے بجائے اس کے کولہوں کی گولائی پہ جمی ہوئی تھی۔ اسے یہ منظر بہت لبھا رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کولہوں کو دیکھتا رہا، پھر اپنی نگاہیں وہاں سے ہٹا کر شاہراہ کی جانب کر لیں۔سگریٹ کے دو تین کش لیے اور پھر کولہوں کی گولائی پہ نظریں جما دیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے یہ عورت اس بھری دوپہری میں صرف اسی لیے ٹیلے پہ ہگنے آئی ہے تاکہ اسے اپنے کولہے دکھا سکے۔ جب تک عورت بیٹھی رہی وہ اس کے کولہوں سے لطف اندوز ہوتا رہا اور عورت اس سے بے خبر اپنے عمل میں لگی رہی۔ پھر اس نے اپنے کولہوں پہ پانی ڈالا اپنے بائیں ہاتھ سے کولہوں کے بیچ کی گندگی صاف کی اور لوٹا اٹھا کر ادھر ادھر دیکھے بنا ٹیلے سے رخصت ہو گئی۔
وہ اب سے پہلے کبھی اس احساس سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ ننگی عورتوں کے دیکھنے کا شوق تو کجا اسے لڑکیوں میں ہی کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی، حالاں کہ اس کے بہت سے ساتھیوں نے بچپن سے اسے کئی بار ننگی عورتوں کی تصویریں اور پورن فلمیں دکھائی تھیں، لیکن وہ انہیں دلچسپی سے نہیں دیکھتا تھا۔اسے اس عمل سے ایک انجانی گھن کا احسا س ہوتا تھا۔ مگر کل شام کے واقعے سے اس کے اندر ایک بڑی تبدیلی پیدا ہوئی تھی۔ اس نے جب دوبارہ کل والی لڑکی کے خدو خال یاد کیے تو اس بار اس عورت کے کولہے بھی اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے جن کی گولائیوں سے وہ محظوظ ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب بدبو کی شدت بڑھنے لگی تو وہ وہاں سے اٹھ گیا۔ علاقے کی طرف لوٹا تو پھر اسے وردی والوں کی سر گرمیوں پر شبہ ہوا۔ وہ بڑ ھ رہے تھے ایسے جیسے وہ شہر کو اپنی گرفت میں لینا چاہتے ہوں۔ اس نے چائے خانے کے قریب سگریٹ کے کھوکے سے دو سگرٹیں اور خریدیں اور انہیں جیب میں ڈال کر اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
آج شام تک وہ گھر کے اندر ہی رہا مختلف لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق طرح طرح کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ کسی کسی صبح وہ جس دودھ والی دکان پہ بیٹھی موٹی لڑکی سے دودھ خریدا کرتا تھا یا کار خانے کے برابر میں رنگائی کی دکانوں پہ جو لڑکیاں اس کی نگاہوں سے روز گزرتی تھیں۔ اس نے سوچا کے وہ ان ساری لڑکیوں کو نہ جانے کتنی مرتبہ دیکھ چکا تھا، مگر آج ان کے متعلق سوچ کر جانے کیوں اسے لطف مل رہا تھا۔ اسی دوران اسے یاد آیا کہ جب وہ پچھلی مرتبہ کسی کام سے شہر کے باہر گیا تھا تو ایک بس اڈے پہ اسے ہتھا کھینچتی ہوئی ایک جوان اور خوبصورت لڑکی دکھی تھی۔وہ اپنے اطراف کے لیے ایک عجوبہ بنی ہوئی تھی جسے اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے سارے مرد گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔ جب اس نے اس لڑ کی کی ان دو بڑی بڑی چھاتیوں پہ نظر ڈالی تھی جو اس کے ہتھا چلانے کی وجہ سے رہ رہ کر ابھر رہی تھیں تو اسے عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ اس نے ایک بھر پور نظر ڈالی تو اسے اس کی دونوں چھاتیوں کی ہری ہری رگیں جو دانوں کے مقام پر زور پڑنے کی وجہ سے ابھر رہی تھیں صاف نظر آئی تھیں۔ مگر وہ ان چھاتیوں کو ویسی للچائی ہوئی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہا تھا جس طرح اس کے اطراف کے نوجوان لڑکے اور مرد دیکھ رہے تھے۔ ان کی شکلوں سے محسوس ہوتا تھا کہ اگر یہ چھاتیاں انہیں ایک لمحے کے لیے بھی مل جائیں تو وہ انہیں اتنی زور سے دبائیں کہ ان چھاتیوں میں موجود دیدار کی لذت ان کے بدن میں سرایت کر جائے۔ اس نے یہ سوچ کر آنکھیں میچ لیں۔ اس کے بدن میں ایک لہر سی دوڑ رہی تھی اس کا ہاتھ دھیرے دھیر اپنی پتلون کے اندر کھسک گیا۔ اچانک اس کا ہاتھ تیزی سے چلنے لگا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ دونوں چھاتیاں کہیں خلا سے نمادار ہو کر اس کے ہاتھوں میں آ جائیں اوروہ انہیں مسل کر اپنی انجان اور دبی ہوئی خواہش کو پورا کر لے۔
(9)
وردی والے ہزاروں کی تعداد میں ٹیلے کے اطراف جمع تھے۔لوگوں کی چیخ پکار کی آوازیں پورے جنوبی شہر میں گونج رہی تھے۔ آسمان پہ کالے دھوئیں کے بادل بڑھتے جارہے تھے۔ ودری والوں نے ٹیلے کے آس پاس کی تمام جھونپڑوں میں اور ٹیلے کے کچرے میں آگ لگا دی تھی۔ اس کا حکم اس ملک کی انتظامیہ کی طرف سے آیا تھا جس کا قرض اس شہر پہ چڑھتا چلا جا رہا تھا۔ شہر کے جنوبی علاقے کو ایک عرصے سے نظر میں رکھا جا رہا تھا۔ یہاں نشے کا کاروبار زوروں پہ تھا اور عورتوں اور بچوں کی کالا بازاری بھی ہوتی تھی۔ مگر آگ لگانے کا فیصلہ ان وجوہات کی بنا پر نہیں لیا گیا تھا۔ یہ پورے شہر میں مذہبی جھگڑے بڑھانے کی شروعات تھی۔راتوں رات پورے شہر میں وردی والے چار گنا ہو گئے تھے۔ جنوبی علاقے میں آگ لگا کر یہاں کے وردی والوں نے ہزاروں کی تعداد میں مزدور اور غریب شہریوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ ان کو اطلاع دی جا رہی تھی کہ اس کا آڈر سیدھا ان کے ملکوں سے آیا ہے۔ جنوبی علاقے کے عوام پریشان تو تھے مگر ان میں غصے کی شدید لہر دوڑ رہی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ جن ملکوں کے حکم پہ ان کے گھروں کو جلایا گیا وہاں کے عقیدت مندوں کے گھروں اور دکانوں کو بھی اسی طرح جلا کر راکھ کر دیا جائے۔ ایک طرف وردی والے لاٹھیاں اور بندوقیں لیے عوام کے ریلے کو دھیرے دھیرے ٹیلے سے شہر کی طرف دھکیل رہے تھے اور باری باری بستی کے چھونپڑوں پہ بلڈوزر چلا کر ان میں آگ لگا رہے تھے۔ دوسری طرف نوجوان لڑکے اور بستی کے غصے سے بھرے مرد یہ منصوبہ تیار کر رہے تھے کہ کسی طرح ان وردی والوں کی بندوقیں چھین کر اس تماشے کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ عورتوں کی چیخ پکار تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ بچے بلک بلک کر رو رہے تھے۔ ایک لڑکا جو ان مردوں اور نوجوانوں کی باتیں کا فی دیر سے سن رہا تھا اس نے دانت پیس کے ایک وردی والے کو گالی دی اور ایک پتھر اس پہ کھینچ مارا۔پتھر وردی والے کے جبڑے پہ لگا جس سےاس کی آنکھوں میں تارے ناچ گئے۔ اس کے منہ سے بھل بھل خون بہنے لگا۔ وہ اس صورت حال کی امید نہیں کر رہا تھا، لہذا اس نے اپنا ہیلمٹ اتار کرہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔ جوں ہی اسے ہوش آیا اس نے فوراً اپنا ہیلمٹ پہنا۔ اسی دوران اس کے اطراف کے وردی والے بھی سنبھل گئے۔ جس لڑکے نے پتھر پھینکا تھا۔ تین، چار وردی والے اس کی جانب ڈنڈے اور بندوقیں لے کر بڑھے جس کے جواب میں وہاں کھرے کئی نوجوانوں اور مردوں نے پتھروں کی بارش کرنا شروع کر دی۔ وردی والوں نے اپنی ڈھالیں سنبھال لیں اور آن واحد میں کئی سو وردی والے وہاں جمع ہو کر پتھراو کرنے والوں پہ ٹوٹ پڑے۔ پہلے کچھ گولیاں چلیں، پھر لاٹھیا ں برسی اور دیکھتے ہی دیکھتے آنسو گیس کے گولے اور پانی کے ٹینکروں سے وردی والوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ افراتفری کا ماحول تو پہلے ہی سے تھا۔ اس لاٹھی چارج نے ٹیلے کے اطراف کی بستی کو ویران بنا دیا۔ عورتیں اور مرد سب شہر کی طرف بھاگ گئے تھے۔ جو ڈٹے ہوئے تھے وہ خون سے لت پت تھے اور جگہ جگہ پڑے سسکیاں لے رہے تھے۔ وردی والوں نے بہت سے لڑکوں کو اٹھا کر اپنی گاڑیوں میں بند کر دیا تھا اور ان پہ گاڑی کے اندر لاٹھیا ں چل رہی تھیں۔