Laaltain

سہاگ کے پھول (محمد عباس)

23 اکتوبر، 2020
Picture of محمد عباس

محمد عباس

بے بے کی انگلیوں کا لمس زہریلی تاثیر رکھتا تھا۔ کسی بھی قسم کے پھول ہوں، بے بے کے ہاتھ میں آتے ہی مرجھاجاتے تھے۔ کتنے ہی مہکتے ہوئے کیوں نہ ہوں، ایک پل میں سوکھے سرکنڈے بن جاتے۔ ابھی تازہ اور زندہ خوشبو سے نہائے ہوئے ننھے بچوں جیسے معصوم اور دلکش لگتے اور اگلے ہی لمحے وہ کسی ٹھنٹھ بوڑھے جیسے چمڑیس ہو جاتے۔ بچپن میں یہ بات ہمارے لیے حیران کن تھی اور ہم بار بار اس کا تجربہ بھی کرتے تھے۔ جہاں سے کوئی پھول ملتا، تو ڑ کر ہاتھوں میں لیے بے بے کے پاس جاتے اور اسے تھما دیتے۔ بے بے پھول کو ہاتھ میں لیے جانے کس مسموم نظر سے دیکھتی کہ پھول جھلس کر رہ جاتا۔ اس کا چمکتا چہرہ روکھ جاتا۔ ساری خوشبو نچڑ جاتی اورتازہ پھول سڑی ہوئی لاش بن جاتا۔ اور تو اور جو پھول بے بے نے اپنے ہاتھوں سے سینچ کر ویہڑے میں لگا رکھے تھے، وہ بھی بے بے کے ہاتھوں کا لمس نہ سہہ پاتے۔ سرخ سرخ گلابوں کے درجنوں پودے تھے جو بے بے نے ایک بڑی سی کیاری میں سلیقے سے اگا رکھے تھے۔ ان پھولوں میں بے بے کی جان تھی۔ جانے کب بے بے نے یہ کیاری بنائی تھی اور یہ پودے لگائے تھے۔ ہم نے تواپنے بچپن کی پہلی نظر سے ہی ان پھولوں کو دیکھ رکھا تھا۔ بے بے جس نظر سے ان پھولوں کو دیکھتی تھی، ایسی نظر سے تو کوئی ماں اپنے اکلوتے بچے کو بھی نہیں دیکھتی۔ دیوتا کے سامنے کھڑے کسی عقیدت مند پجاری کی نظروں سے پھولوں کو نہارتی تھی۔ میری بہن نے تو ایک دفعہ کہہ دیا تھا کہ بے بے کوہم سے زیادہ ان پھولوں سے پیار ہے۔ اس بات پر اسے بے بے سے جھڑکیاں بھی پڑی تھیں لیکن ہم جانتے تھے کہ بات ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ لگتا تھا کہ بے بے ان پھولوں کی وجہ سے ہی زندہ ہے۔ ہر نیا پھول کھلتا دیکھ بے بے کے چہرے پر جواں جذبے دمکنے لگتے تھے۔ البتہ اس سب کے باوجود بے بے ان پھولوں کے قریب نہیں جاتی تھی۔ یہ بھی نہیں کہ ان پھولوں کی طرف سے بے پروا ہو۔ صبح شام اسے ان پھولوں کی فکر ہوتی تھی لیکن خوداپنے ہاتھوں سے کچھ کرنے کی بجائے ہم بہن بھائیوں سے ان کی دیکھ ریکھ کرواتی تھی۔ خود کبھی کام نہ کرتی۔ صبح پانی دو، شام پانی دو۔ کبھی گوڈی کرنے پر بٹھا دیا، کبھی شاخیں تراشنے پر لگا دیا۔ اُس پودے کی جگہ نیا لگانا ہے، اِس کی نئی قلمیں لگانی ہیں۔ روز ہی کوئی نہ کوئی کام اس کیاری میں نکل آتا تھا۔ ان سب لاڈیوں کے باوجود یہ پھول بھی بے بے کے ہاتھوں کی مار نہیں سہہ پاتے تھے۔ ادھر ہاتھ لگا، ادھر پھول کا بدن ٹھنڈا پڑ گیا۔ کسی اور کو بتائیں تو کوئی یقین ہی نہ کرے لیکن ہم نے ہرے بھرے پودوں کے اوپر بھی یکدم مرجھاتے پھول دیکھے ہیں۔ پودا، ٹہنیاں اور پتیاں ہری رہیں جب کہ پھول وہیں کا وہیں سوکھ گیا۔ یہ تھا بے بے کا لمس۔

بے بے کہتی تھی کہ اس میں سارا قصور تمہارے بابے کا ہے۔ اس نے میرے وجود میں ایسا زہر رکھ چھوڑا ہے کہ کوئی پھول میری قربت سہہ ہی نہیں سکتا۔ بے بے کی اس بات پر ہم بہت حیران ہوتے کیوں کہ اس ایک بات کے علاوہ جب بھی وہ بابے کا ذکر کرتی تواس کے منھ سے چھتے سے تازہ اترا خوشبو دارشہد ٹپکنے لگتاتھا۔ میں اور میری بہنوں نے بابے کو بالکل دیکھا ہی نہ تھا بلکہ ہمارے ابا جی نے بھی نہ دیکھا تھا۔ صرف ان کا نام سنا تھایا ذکر سنتے رہے تھے۔ ہم سب بے بے کی زبانی سنی باتوں سے جانتے تھے کہ بابا کیا تھا اور اس میں کیا گُن تھے۔ بے بے بتاتی ہے کہ بابے جیسا جوان پورے گاؤں میں کیا، پورے علاقے میں نہ ہو گا۔ طاقت میں کوئی اس کا ثانی نہ تھا۔ دن بھر گاؤں کے مختلف لوگوں کا بلاواآیا رہتا تھا جنہیں طاقت سے کرنے والا کام درپیش ہوتا۔ لوہے کے پھال بنانے کو وزنی ہتھوڑے کی زور دار ضرب چاہیے ہوتی تو سبھی کو ایک ہی شخص یاد آتا۔ دور دراز کے گاؤں دیہاتوں تک جب کسی کنویں کے ستونوں پر کانجن رکھنے کا وقت آتا تو میرے بابے کو ضرور بلایا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک طرف سے چارچار آدمی کندھا دے کے کانجن اٹھاتے تھے اور دوسری طرف سے اکیلا بابا کانجن کو رکھ دیتا تھا۔ کسی کی بارات دوسرے گاؤں جائے تو داخلی راستے پر وزنی مگدر رکھا ہوتا، سبھی جانتے ہوتے کہ یہ مگد ر بارات میں کا کوئی بندہ اٹھائے گا تو بارات آگے جا سکتی ہے۔ ایسے موقع کے لیے میرے بابے کو آواز دی جاتی۔ خیر، بے بے کے بیان تو چلیں محبت کے مبالغے پربھی مبنی ہو سکتے تھے لیکن بابے کی جسمانی طاقت کے قصے میں نے اُن کے کئی ہم عمروں سے بھی سُن رکھے ہیں۔ چار دن کی جوانی میں جانے انہوں نے کتنے کام ایسے کیے تھے کہ ان کے ہم عمر انہیں بھولتے ہی نہ تھے۔ سبھی کے پاس کوئی نہ کوئی نیا قصہ ہوتا تھا اور ان سبھی قصوں کو سن سن کر مجھے یہی لگتا تھا کہ میرا بابا اپنے زمانے کا ہرکولیس ہو گا۔ بے بے کا کرنل بھائی میری کمزور صحت پر مسکرا کر کہتا تھا کہ بھائی صاحب اگر زندہ ہوتے تو اس بڑھاپے میں بھی تم جیسے دو جوانوں کو گھٹنوں تلے دبا کر آرام سے کھانا کھاتے رہتے۔ البتہ ان سب باتوں میں وہ رَس نہ تھا جو بے بے کی تصویر کشی میں ہوتا تھا۔ اُس نے بابے کو جن والہانہ نظروں سے دیکھا تھا، ویسے پُر شوق لفظوں میں اس کو بیان بھی کرتی تھی۔ اُچا لما قد،بھرا بھرا پینڈاجثّہ،مگدر جتنا چوڑا پتھریلا سینہ، چوڑے ہاڈ پیر، سوہنا لشکتا چہرہ، ہونٹوں کے اوپر بھاری بھاری مونچھیں، آنکھوں میں پہاڑوں پر اڑتے باز جیسی چمک، کوری تختی جیسا چکنا ماتھا۔ چارپائی پر لیٹا ہوتا تو چارپائی چھوٹی لگتی۔ جب چٹے تہمد پر چٹا کرتہ اور کندھے پر رانگلا پَرنا رکھے گلیوں سے گزرتا تو اُس کی ٹَور دیکھنے والی ہوتی، لگتا تھا کہ جوانی کا دیوتا اپنا اَصلی روپ دکھانے دھرتی پر اتر آیا ہے۔ اسے گلی سے گزرتے دیکھ گاؤں کی کنواری لڑکیوں کے سانس ان کے سینوں میں اٹک اٹک جاتے۔ جانے کتنی لڑکیوں نے اس کو دکھانے کے لیے نت نئے انداز کے کپڑے سلوائے تھے، وَن سونّی گُت بندھوائی تھی اور رنگو رنگ پراندے پروئے تھے۔ وہ کسی شادی بیاہ میں جاتا تو اُسے دیکھ کر کنواریوں کے دل بے تاب جھانجھروں کی طرح چھنکنے لگتے تھے۔ مگر، بے بے بتاتی تھی کہ وہ نگاہ کا ایسا پاک اور نظر کااتنا سُچا تھا کہ کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ اس کی ایک مسکراہٹ پر جانے کتنے دل پگھل کر اس کی طرف بہنے کو تیار ہوتے مگر اس کا دل اس کی اکڑی مونچھوں سا سخت تھا اور کسی لڑکی کو کبھی اس کے سرد ہونٹوں پر مسکراہٹ کی گرمی محسوس نہ ہوئی۔

میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج چالیس سال کی عمر تک میں نے بے بے کے منھ سے ایک ہی شخص کا ذکر سنا۔ بابا۔ دوسرے کسی شخص کا ذکر کرنا بھی پڑے تو حتی الامکان بابے کے ساتھ رشتہ جوڑ کر بتاتی، تمہارے بابے کا باپ، تمہارے بابے کی ماں۔ بابے کابھی نام نہ لیتی تھی بلکہ تمہارا بابا کہہ کر ذکر کرتی مگر کون سی گھڑی نہ تھی جب اس نے یہ ذکر نہ کیا ہو۔ بابا لہوبن کر تمام زندگی بےبے کے انگ انگ میں شامل رہا۔ بے بے کا ہر عمل بابے کے خیال سے نمو پاتا تھا۔ ایسے بابے کے متعلق بے بے کا یہ شکوہ عجیب لگتا تھا۔ ہم نہ سمجھ پاتے کہ اپنے محبوب سے گلہ کس وجہ سے ہے۔ میں نے تو کئی بار پوچھا تھا مگر بے بے یوں ٹال جاتی جیسے سوال سنا ہی نہ ہو۔

جس دن میری بہن کی شادی ہوئی۔ ڈولی رخصت ہو کر گھر سے چلی گئی۔ پورا گھر اداس تھا۔ اماں اور ابا چپ سے تھے۔ میرا دل بھی ہلکا پڑا ہوا تھا لیکن بے بے کی آنکھوں میں خوشی کے دیے ٹمٹما رہے تھے۔ بہن کی تازہ جدائی کے صدمے سے بے حال دل یہ دیکھ کر رہ نہ سکا۔ نم آنکھوں نے بے بے سے پوچھ لیا:’تم اتنی خوش کیوں ہو؟میری پھولوں کے پنگھوڑے میں پلی بہن کو غیر لے گئے اور پتا نہیں اب اس کی زندگی سرکنڈوں کے جنگل میں گزرتی ہے یا تپتے تھلوںمیں۔ اس کی آئندہ زندگی کا سوچ سوچ کر میرا دل پھٹنے کو آ رہا ہے اور تم بیٹھی کھِل رہی ہو۔ تمہاری آنکھوں میں خوشیوں کی لَو چمک رہی ہے۔ کیا تمہیں پوتی سے لگاؤنہ تھا۔‘ یہ سوال کرتے وقت میں جانتا بھی تھا کہ پوتی میں اس کی جان تھی۔ بے بے نے جواب دیا:’پتر! تم عورت نہیں ہو نا، اس لیے تم نہیں جانتے۔ بہن بیٹی کو گھر سے ودیاہ (وداع) کر کے یہی دعا کرتے ہیں کہ اس کا نصیب اچھا ہو۔ اس کے بخت کبھی مرجھائیں نہیں۔ عورت کے نصیبوں میں برا نہ ہو تو اس کا جیون سسرال میں ہی ہوتا ہے۔ سہاگ سے عورت زندگی کے رنگ دیکھتی ہے۔ اکیلی جندڑی چِٹّے لٹھے کی طرح روکھی پھیکی ہوتی ہے۔ ‘بے بے کی آنکھیں بھیگنے لگیں تو میں نے جھٹ کہہ دیا:’بابا یاد آرہا ہے کیا؟ ‘ بے بے کی آنکھوں میں بابے کا تصورسرخ لاچا باندھے رقصاں تھا، آج قصہ چھیڑ بیٹھی۔ ’وہ بھولتا ہی کب ہے۔ زندگی اسی کے ساتھ گزری ہے۔ سار ی خوشیاں، سارے غم اسی کے سانجھے میں گزرے ہیں۔ ‘ برسوں سے مچلتا تجسس بول اٹھا:’ تو پھر بابے سے گِلہ کیوں کرتی ہو؟‘بے بے کی آنکھوں میں دُکھ کے سائے لہرانے لگے۔ ’تمہارے بابے سے مجھے دو ہی گِلے ہیں۔ ایک یہ کہ مجھے اتنا جلدی کیوں چھوڑ کے چلا گیا تھا۔ دوسرا گِلہ جو بے بے نے سنایا تھا، وہ تفصیل طلب ہے۔ بے بے کے الفاظ کی بجائے میں اپنے انداز میں بتاتا ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بے بے ابھی نئی نئی جوان ہوئی تھی، عمرپندرہ یا ساڑھے پندرہ ہو گی۔ دودھ مکھن کی پلی، گورا چٹا رنگ تھا۔ نزاکت میں اپنی مثال آپ تھی۔ گاؤں میں اس جیسی حسین بھی کوئی کم ہو گی، اس پر مستزاد ملکانی تھی اور اونچے نخرے والے گھر کی لڑکی تھی۔ حسن کی دولت فرواں تھی مگر کاجل کے بوجھ سے جھکی آنکھوں میں ایسی معصومیت تھی کہ زمانے بھر کی گناہ گار نظریں بھی حیا سے شرما جائیں۔ بے بے اپنی مست جوانی کے نشے میں جانے کب میرے بابے کی بے پروا اَکھ پر فدا ہو گئی جو اسے کبھی دیکھتی بھی نہ تھی۔ اس بے طرح آگ کی تپش نے بے بے کو یہ بھی دیکھنے نہ دیا کہ وہ ملکانی ہے اور بابا ایک عام واہک جس کے پاس محض چودہ بیگھے زمین ہے۔ وہ سوہنا ہے،تنو مند ہے لیکن اس کے پاس زندگی گزارنے کے وہ وسائل نہیں ہیں جو اسے باپ کے گھر میسر ہیں۔ عشق کا غبار اسے یہ حقیقت دیکھنے بھی نہ دیتا تھا کہ وہ زندگی میں دوبارہ اِس سُکھ کے خواب بھی نہ دیکھ سکے گی جو ابھی اس کے چاروں طرف رقص کرتا ہے۔

بے بے کی کسی نے نہ سنی تھی لیکن بے بے اپنی ضد پر قائم رہی۔ اس کی ہَٹ پر والدین کو ہار ماننی پڑی اور رشتہ طے ہو گیا۔ بے بے شادی سے پہلے خاصی شوخ مزاج اور چاؤ چونچلوں والی تھی۔ ملکانی ہونے کی وجہ سے اس کا نخرہ بنتا بھی تھا۔ بابے کے ساتھ محبت بھی اور شادی بھی اپنی مرضی سے کی تھی۔ اسے بابے سے کچھ درکار نہ تھا۔ البتہ شادی سے پہلے اس نے بابے سے اپنی اس خواہش کا اظہارکیا تھا کہ جب ان کے وصل کی رات ہو تو مسہری پھولوں سے سجی ہونی چاہیے، اصلی گلابوں سے جن کی مہک سے پوری رات اس کے حواس پر مستی چھائی رہے اوراس مہکتی رات کا نشیلا خمار کبھی اس کی یادوں سے محو نہ ہو پائے۔ بے بے نے اپنی ایک مسیر کی مسہری دیکھی تھی۔ اس پر اپنے سہاگ کے انتظار میں بیٹھی نئی نویلی دلہن کا نظارہ بے بے کے خیا ل میں کسی بھی لڑکی کی زندگی کا سب سے حسین اور یادگار نظارہ تھا۔ بے بے کے دل میں بھی یہ حسرت تھی کہ اس کی مسہری بھی پھولوں سے لدی ہوئی ہو اور وہ اسی طرح وصل کے خیال سے مہکتی ہوئی اس پر بیٹھی اپنے محبوب کا انتظار کرے۔

لڑکے والوں نے بارات سے پہلے بھی اور بارات کے دن بھی شادی کی رسومات کچھ زیادہ نہ کروائی تھیں اور ہر پل یہی لگتا کہ اس خوشی کے موقع پر بھی انہیں بچت کی سوجھ رہی ہے۔ دولہے والوں کا یہ رویہ بے بے کے گھر میں سب نے محسوس کیا تھا اور ایجاب و قبول سے پہلے ہی بے بے تک چہ میگوئیاں پہنچ گئی تھیں لیکن بابے کی محبت میں شرابور وہ ان فضول باتوں کو خاطر میں نہ لائی۔ اس کا ذہن تو آنے والی رات کے پھولوں بھرے گلنار تصورسے مخمور تھا لیکن جب بے بے سہاگ کی مسہری تک پہنچی تو وہاں عجب منظر تھا۔ نواڑ کا پلنگ بچھا تھا جس پر پلاسٹک کے پھولوں کی چند لڑیوں سے برائے نام سجاوٹ کی گئی تھی۔ وہ جب مسہری پر بیٹھی تو ارد گرد لٹکتے بے جان پھول اس کے کومل احساس پر چبھنے لگے۔ بابا سادہ جٹ آدمی تھا، ملکانی کی دلار بھری خواہش کی نزاکت نہ سمجھ پایا اور بھلا بیٹھا تھا۔ بے بے کا دل جو اپنے محبوب کی بانہوں میں سمٹنے کے لیے بے تاب تھا، اپنے ارمانوں کی یہ بے جان صورت دیکھ کر بجھ گیا۔ بابے نے بھی اس فاصلے کو محسوس کیا اور اپنی عاشق بیوی سے اس بے رخی، بے نیازی کا سبب پوچھا۔ بے بے نے،جس کے گال جواں جذبوں کی آگ سے دہکتے تھے، بجھ کر بابے کو سبب بتایا۔ بابے نے شرمندہ ہوکروقتی عذر پیش کیا اور پھر کبھی موقع دیکھ کر مسہری سجوا کر اس پر بیوی کو بٹھانے کا وعدہ کیا۔ بے بے کا دل یہ سن کر بہل تو گیا مگر بابے کا ہو نہ سکا۔ یو ں تو یہ دل دھڑکتا بابے کے لیے ہی تھا لیکن اس حسرت میں ایسا دھواں تھا کہ بے بے کے دل میں بابے کے نام کا دیا جلنے نہ پایا۔ دُکھ کی سواہ اس کے وجود کی تہہ میں بیٹھ گئی اور وہیں جمتی رہی۔

بابے کے اس وعدے کے انتظار میں بے بے بیٹھی رہی۔ پورا وجود بابے کو سونپ چکی تھی لیکن دل کبھی بابے کو نہ دے پائی۔ یہ دل منتظر رہا کہ کب بابا پھولوں سے بھری مسہری لگوائے گا،کس دن وہ اس کے وصال کی مہکتی ہوئی دولت سے مالا مال ہو گی اور تب دل پوری طرح اس کاہو جائے گا۔ ادھر بابا جٹ آدمی تھا،لطیف جذبات سے عاری،مشقتوں تلے دبا ہوا، اوپر سے غربت پاؤں جکڑ لیتی تھی، اس وعدے کو پورا کرنے میں کبھی سنجیدہ نہ ہوا۔ اگر پورا کرنا چاہتابھی تو کرتا کیسے۔چودہ بیگھے کی ہل واہی صرف اشد ضرورتیں پوری کرتی تھی۔ پیٹ بھر جاتا تھا، تن ڈھک جاتا تھا اور گاؤں کی پنچایت میں چٹا صافہ باندھ کر بیٹھنے لائق ہو جاتا تھا۔ اس کے پاس نقد روپیہ تو کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ بے بے خود بتاتی ہے کہ بیاہ کے ڈیڑھ سال میں اس نے صرف دو دفعہ روپے کا سکہ ہتھیلی پردیکھا تھا ورنہ لین دین ہمیشہ گندم کے بدلے ہی ہوتا تھا۔ بے چارہ بابا پندرہ سے سترہ روپے خرچ کر کے مسہری لگواتا کیسے۔ بے بے اسی مسہری کے انتظار میں مرجھائی رہی مگر مسہری نے سجنا تھا نہ ہی سجی۔

بے بے کو اپنی زندگی کی ہر خوشی حاصل تھی مگراس نے بتایا کہ مسہری کا دکھ ایک دفعہ بھی اس کے دل سے نہ نکلا تھا۔ کانٹے سا چبھتا تھا۔ خوشیوں بھرے پل گزرتے رہے۔ بابے کا پیار بے بے کے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر نمو پا نے لگا اور شادی کے ایک سال بعد بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ یہ میرے ابا جی تھے۔ اس تحفے کو پا کر دونوں خوش تھے۔ بابا خود اکیلا بھائی تھا، پھولے نہ سماتا تھا کہ اتنی جوان عمر میں بیٹا مل گیا۔ بھائی کی طرح ساتھ کھڑا ہو ا کرے گا۔

ہمارے ابا جی ڈیڑھ سال کے ہوئے تھے اور بے بے کے بیاہ کو تین سال ؛ بے بے کی عمر بیس سال ہوگی اور بابے کی چوبیس کہ بابا دنیا سے رخصت ہوگیا۔ چلتا پھرتا ایک دن چارپائی پر لیٹا اور پھر اٹھ نہ سکا۔ اس کی چارپائی لے کر برادری کے لوگ شہر تک بھاگے مگر اس کے سانس پورے ہو چکے تھے۔ جو علامتیں بتائی جاتی ہیں،ان سے میرا اندازہ ہے کہ شاید بابے کی اپنڈکس پھٹ گئی تھی۔ بے بے بھری جوانی میں رانڈ ہو گئی۔ ابھی دھان کی طرح نِسری تھی، لچکیلی، مہکتی، ہری کچور اور ابھی باجرے کا ٹانڈہ ہو گئی، سوکھی، سڑی اور پھیکی۔ ساس سسر کا ایک ہی بیٹا تھا، ان کا دکھ اپنی جگہ لیکن انہیں زیادہ افسوس بے بے کا تھا۔ اگر ان کا کوئی اور بیٹا ہوتا تو شاید اس کے ساتھ بہو کو بیاہنے کا سوچا کرتے لیکن صرف جوان بہو کواکیلے گھر میں بورائی پھرتی دیکھ دیکھ گھُلتے تھے۔ انہوں نے بارہا بے بے سے کہا کہ ماں باپ کے گھر لوٹ جائے اور دوبارہ شادی کر لے، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ مگر بے بے نے،جو اس وقت بے بے تو نہ تھی، جوانی کی تپش سے دمکتی، امنگوں سے چھلکتی ہو گی، کسی اور کا ہونے کا سوچا بھی نہیں۔ بابے کی ہو گئی تھی، اب اسی کی تھی۔ بیٹے کو سینے سے لگائے کہ اب وہی اسے بابے کی جگہ لگتا تھا، سا س سسر کے پاس ٹھہری رہی۔ اپنے ماں باپ، سبھی بھائی اصرارکرتے رہے کہ واپس آ جاؤ،ایک دفعہ زبردستی بے بے کا سامان بھی اٹھا کے لے گئے لیکن بے بے اپنی محبت پر جمی رہی۔ کوئی آندھی، کوئی طوفان اسے اکھاڑ نہ سکا۔ ملکانی تھی، گاؤں میں ان کی خاصی جاگیر تھی۔ ماں باپ کے پاس زندگی کی ہر سہولت موجود تھی۔ اکیلے رہتی تب بھی ٹھاٹھ کرتی اور کسی اپنے جیسے گھرانے میں شادی ہو جاتی تو پھر بھی راج کرتی۔ لیکن اسے اپنے رانجھن کا گھر چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ ساس سسر غریب تھے، صبح سے شام محنت، مشقت کرتے تب جا کر روکھی سوکھی کھانے کے قابل ہوتے تھے۔ اس گھر میں کوئی فرد فارغ بیٹھ رہے تو گھر کی بنیادیں بیٹھ سکتی تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے بہو کو انگلی کا چھالہ بنا کے رکھا۔ ملکانی ہونے کا مان رکھا اورکسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیا۔ اسے کبھی گھر سے باہر پاؤں نہ رکھناپڑا۔ کھیتی، زمینداری، مال ڈنگر اور گھر کی ذمہ داریاں انہوں نے خود سنبھالے رکھیں۔ بہو اونچے گھر کی تھی، اسے خود سے اونچا ہی بٹھائے رکھا۔ بے بے کو کچھ بھی نہ کرنا پڑتا۔ بس یکسوئی سے اپنے بچے کا خیال رکھتی تھی۔ فکر نہ پریشانی۔ اُڑتا پٹولہ بن کر عمرگزاری تھی۔ کھیتی کے سہارے اور وہ بھی چودہ بیگھوں کا مالک،کیسے جی سکتا ہے۔ ان سب نے مشکل سے بسر کی۔ جب ساس سسر رخصت ہوئے تب زمین ٹھیکے پردینی پڑی مگر تب تک بیٹا جوان ہو کر دبئی چلا گیا تھا اور زندگی کے دن آسان ہو گئے تھے۔

بے بے نے بابے کے بعد تریسٹھ سال گزارے تھے۔ میں بابے کے مرنے کے تیئس سال بعد پیدا ہوا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ تیئس سال بے بے نے کیسے گزارے۔ مجھے تو آخر ی چالیس برسوں کا حال معلوم ہے۔ یہ چالیس سال گویا مجھ پر بھی بیتے ہیں۔ بچہ تھا تو اس نے میرے اُس بابے کی محبت میرے دل میں ڈال تھی جسے میں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ بابے کا حلیہ، بابے کی عادتیں، اس کی ایک ایک ادا؛بے بے نے اتنی دفعہ سب بتایا تھاکہ مجھے لگتا ہے میں نے سنا نہیں، دیکھ رکھا ہے۔ بابا بیلوں کے پیچھے چلتا زمین میں ہل گڑوتا تو اس کی طاقت کے آگے بیل بھی عاجز آنے لگتے۔ گھر میں داخل ہوتا تو چوکھٹ سے جھک کے گزرنا پڑتا تھا۔ کمرے کے دروازے میں کھڑا ہوتا تو روشنی کو بھی درز نہ ملتی تھی۔ بابا جب کھانے بیٹھتا تو پاس بیٹھا شخص روٹیوں کی گنتی بھول جاتا تھا۔ لسّی کا پورا دَور ایک سانس میں پی مارتا تھا۔ اسے بھنڈیوں کی لیس زہر لگتی تھی اور بینگن کا رنگ آنکھوں کو کاٹتا تھا۔ جب کبھی لوہار نے درانتی، کھرپے، کسّی، بیلچے کے نئے پھال بنانے ہوں تو سارا دن وزنی بدان چلانے کے لیے اسے گاؤں میں ایک ہی آدمی ملتا تھا، بابا۔ برادری کی پنچایت میں بابے کے بغیر فیصلہ نہ ہوتا تھا۔ بیلوں کو، بھینسوں کو کاڑھا پلانا ہو تو یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ پھلہ لگانا ہو، سمیٹنا ہو، گندم کا پسّا لگانا ہو، سبھی کاموں میں اس جیسا سلیقہ کسی میں نہ تھا۔ رفتہ رفتہ بابے کی محبت میرے دل میں اپنی جگہ بنانے لگی تھی۔ جوان ہونے تک میں اپنے ان دیکھے بابے کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو چکا تھا۔ سو بے بے جب کبھی بابے سے جدائی کے دکھ میں جلتی ہوتی تو مجھے اپنی ہڈیاں بھی اسی آگ سے تڑختی محسوس ہوتیں۔ بابا اپنی خوبیوں کی بنا پر نہیں بلکہ اس لیے اچھا لگتا تھا کہ وہ میری بے بے کا محبوب تھا۔ میری بے بے، جس نے مجھے وہ انمول محبت دی جس کا بدل دنیا میں کوئی اور ہستی نہیں دے سکتی۔ ماں نے زندگی دی، باپ نے زندگی کا مان سمجھالیکن بے بے نے جو پیار دیا، وہ مجھے کہیں اور سے نہ مل سکتا تھا۔ بے بے نے مجھے اسی پیار میں سے حصہ دیا جو ابدی شکل میں اسے بابے کے ساتھ تھا۔ بے بے کی ایک چمی میں مجھے تین پیار ملتے تھے۔ ایک تو میں بے بے کا پوتا تھا، دوسرے اکلوتا تھا اور تیسرے میری صورت میرے بابے سے ملتی تھی۔

بے بے کی حالت دیکھ کر میں تصور کر سکتا ہوں کہ بابے کی وفات کے بعدبے بے کے دن کیسے اُجڑ گئے ہوں گے۔ جس عمر میں ہاتھوں پر خوشیوں کی شوخ رنگ مہندی لگتی ہے، اس عمر میں بے بے کے سینے میں ارمانوں کا خون ہو گیا تھا۔ امڈتی جوانی جو بابے کی توانا بانہوں کی چھاؤں میں ٹھنڈے ٹھار گزر جانی تھی، یک دم تپتی دھوپ میں آ گئی تھی۔ ا س عمر میں فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ زندگی اکیلے گزاری جائے لیکن بے بے نے ذرا پروا نہ کی تھی۔

بے بے ہمارے بابے کا نام نہیں لیتی تھی لیکن زندگی اس نے بابے کے نام پر ہی گزاری۔ نہ کسی غیر مرد کی طرف دیکھا نہ کسی غیر کا سایہ اس کے سایے کے قریب سے گزر سکا۔ بابے کے ذکر سے اس کی صبح ہوتی تھی، بابے کو یاد کرتی تو دن گزرتا تھا اور اسی کے روشن خیالوں سے اس کی اکیلی تاریک راتیں جگمگاتی تھیں۔ بے بے پانچ وقت نماز کی پابند تھی۔ قضا کرتے کبھی نہ دیکھا۔ ہر نماز کے بعد بہت دیر تک دعا کرتی رہتی۔ سب کہے بغیر جانتے تھے کہ یہ بابے کے لیے تھیں۔ بے بے بتاتی تھی کہ ہمارا بابا نمازی نہ تھا۔ شادی کے بعد تین سال اکٹھے گزرے مگر بابے نے کبھی نماز نہ پڑھی۔ جوانی کے اندھے نشے میں اس کا سر جھکتا ہی نہ تھا۔ کہتا تھا کبھی جب بوڑھے ہوں گے، ہاتھ پیر کام نہ کریں گے،کمر جھک جائے گی تب لاٹھی ٹیکتے مسجد کے چکر لگایا کریں گے۔ ابھی جوانی اور طاقت کام کرنے کے لیے ہے، سو کام ہی کرتے ہیں۔ دعاؤں کے علاوہ بابے کے نام پر ہفتہ وار’ختم‘ بھی پورے اہتمام سے ہوتا تھا۔ ہر جمعرات کی شام مغرب کی آخری رکعت کے سلام پھیرتے ہی بے بے امیدانہ رسوئی کی طرف دیکھنے لگتی۔ پہلے میری اماں ا ورمیری شادی کے بعد میری بیوی ’ختم‘ کا سامان لیے تیار ہوتی تھیں۔ سامان زیادہ کچھ نہ ہوتا لیکن اتنا ضرورہوتا کہ جوان آدمی اگر کھاتا تو پیٹ بھر کے اٹھتا۔ بے بے کہتی تھی کہ ’جمعرات کی شام ہوتے ہی گزری روحیں گھر کی منڈیر پر آ بیٹھتی ہیں اور آخرت کی دنیا کے لیے زادِ راہ سمیٹ لے جاتی ہیں۔ جس گھر سے مل جائے، وہاں سے روحیں خوش خوش جاتی ہیں اور جس گھر سے کچھ نہ ملے، وہاں سے روتی ہوئی جاتی ہیں۔ جو ثواب انہیں یہاں سے ملتا ہے، وہ آخرت کی دنیا میں جا اپنے کھاتے میں جمع کراتی ہیں۔ ‘ بے بے کی وضع داری کا کمال ہے کہ تریسٹھ برسوں میں ایک دفعہ بھی بابے کی روح خالی ہاتھ نہ لوٹی ہو گی۔ آخرت کی دنیامیں اس کی کمائی بڑھتی گئی ہو گی۔

قبرستان جاتے رہنا بے بے کا معمول تھا۔ کچھ دن اور تہوار مخصوص بھی تھے۔ جمعہ کی صبح قبرستان جانا اور بابے کی قبر پر پنج سورۃ پڑھنا بے بے کے لیے لازم تھا اورہر خاص اسلامی دن پر پورے اہتمام کے ساتھ جاتی تھی۔ محرم، شب برات، شب معراج، شب قدر، عید میلاد النبی، حج اور عیدین کوئی دن بابے کے بغیر آغاز نہ کر تی تھی۔ تغاری میں کھرپا، درانتی لے کر بابے کی قبر پر پہنچ جاتی۔ خاص لگاؤ سے اُس کی صفائی کرتی۔ جھاڑ جھنکار صاف کر کے تازہ مٹی ڈالتی۔ اگر کوئی جھاڑی یا پودا اُگے ہوتے تو رکھوالے سے کٹوا دیتی۔ پھراُس پر اگر بتیاں لگاتی جِن کا دھواں پھیلنے سے ماحول گاڑھی خوشبو سے بوجھل ہو جاتا۔ کوئی اچھا موقع ہوتا تو اس دن صبح سب سے پہلے بابے کے پاس جا کے حاضری دیتی۔ ہزار خوشی ہو،لاکھ مصروفیت ہو،بے بے صبح صبح ضرور قبرستان جاتی اور وہاں ہمارے بابے کے ساتھ پتا نہیں کیا کیا باتیں کر کے روتی رہتی۔ وہاں رو کر آتی تو خوشی میں شامل ہو پاتی تھی۔ ہمیں کبھی معلوم نہیں ہوا کہ بے بے کیا باتیں کر کے روتی تھی لیکن سمجھ تو سکتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ یقینا بے بے کے اتنے دُکھ بھرے آنسو دیکھ کر قبر کے اندربابا بھی رو پڑتا ہو گا۔ کہتی تھی کہ تمہارے بابے کے بغیر میری کوئی خوشی ہے ہی کدھر۔ اُس کا نام نہ لوں، اس کے سرہانے جا کر نہ بیٹھوں تو خوشی پر نحوست چھاجاتی ہے۔ خوشی پھر بھی بے بے سے برداشت ہو جاتی تھی، دُکھ کی ہلکی سی چھایا بھی آتی تو بے بے سے رہا نہ جاتا۔ بابے کے پاس جا کے پناہ لے لیتی۔ کسی فکر، پریشانی کا سامنا ہو تو بابے کی پائینتی بیٹھ کر پہروں ڈسکورے بھرتی رہتی۔ وہ بے بے کی زندگی میں ابھی تک پوری طرح شامل تھا۔

ان سب معمولات کے ساتھ بے بے ایک ایسی رسم بھی باقاعدگی سے نبھاتی تھی جو ہمیں بہت حیران کرتی تھی۔ ویہڑے میں بنی بےبے کی کیاری میں سدا بہار گلاب تھے۔ بے بے اِن کی بہت دیکھ بھال کرتی تھی۔ بہار کے موسم میں ان پھولوں پر جوبن ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی سارا سال اس میں گلاب کھِلے رہتے تھے۔ سیج کے سرخ اور سدا بہارگلاب۔ بے بے قبرستان جانے سے پہلے ہمیں کہہ کر جتنے پھول لگے ہوتے، سبھی اتروا کے تھیلے میں ڈلوا کرساتھ لے جاتی۔ جب خوب خوب رو چکتی، جی بھر کے دعا مانگ لیتی تو پھولوں کو اپنے ہاتھوں سے پتی پتی کر کے بابے کی قبر پر پیار سے بکھیرنے لگتی۔ پھول جو چند لمحے پہلے خوشبو سے ماحول کو مہکائے ہوتے تھے، بے بے کے ہاتھوں کے لمس سے یک دم مرجھا کرمردہ ہو جاتے، خوشبو کا نام تک نہ رہتا۔ بابے کی قبر پر پڑے یہ پھول یوں لگتے جیسے پھول نہ ہوں، پھولوں کی لاشیں ہوں۔ جیسے بے بے نے قبر پر پھول نہ بکھیرے ہوں، مردے کو کنکریاں ماری ہوں۔ بے بے کی رگوں میں بابے کی وعدہ شکنی نے جانے کیسا زہر بھر دیا تھا۔ ہم اکثر بے بے کو کہتے کہ پھول ہم پھینک دیا کریں گے، اگر مرجھا کر ہی پھینکنے ہیں تو پھر پھینکنے کا فائدہ کیا۔ بے بے کی جلتی آنکھیں بتاتی تھیں کہ ایسے مرجھائے پھول قبر پر ڈال کر وہ بابے کو یاد دلاتی ہے کہ پھولوں بھری سیج کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ ابھی بھی خوشبوئوں سے لدی سیج پر لیٹ کر اپنا دل، اپنی سلگتی جوانی بابے کو سونپنے کا خواب اس کی آنکھوں میں رڑکتا ہے۔ اگر اسے خوشبو والے پھول ملنے لگے تو بیوی کے سینے کا سینک اُس تک کیسے پہنچے گا۔

مجھے بے بے کے ساتھ قبرستان جانے کااکثرموقع ملتا تھا۔ کئی دفعہ بے بے نے مجھ سے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا۔ خواہش عجیب تھی اور ہمارے گاؤں کے قبرستان کے حالات دیکھتے ہوئے ناممکن۔ ہمارے قبرستان کے گرد،شہرکے قبرستانوں کی مانند، چاردیواری نہیں تھی۔ کھلے میں قبروں کا ایک بہت بڑ اجھنڈ تھا جہاں گزشتہ دو سو سال کے مردے دفن تھے۔ قبرستان کی کوئی حد بندی نہیں تھی۔ بس اتنا تھا کہ جہاں تک قبریں ہیں، وہ قبرستان ہے۔ اس کے چاروں طرف کھیت تھے جہاں فصلیں کاشت ہوتی تھیں۔ اگر قبرستان میں کوئی مردہ مزید نگلنے کی گنجائش نہ رہے تو کوئی نہ کوئی زمین دار اپنی متصل زمین قبرستان کے لیے وقف کر دیتا یا قبرستان کمیٹی اپنے جمع کردہ چندے سے جگہ خرید کر ساتھ شامل کر دیتی۔ اس میں کوئی ترتیب نہ ہوتی اور قبرستان کوچاروں طرف سے جدھر بھی جگہ ملتی، ادرک کی طرح ادھر سے پھیلنے لگتا۔ قبریں بہت گنجان تھیں، لوگوں کی یہی خواہش ہوتی کہ ایک کرم جگہ بھی خالی نہ رہے۔ جہاں کوئی خالی جگہ نظر آتی، وہاں کسی نہ کسی مردے کو ٹھونس دیا جاتا۔ قبرستان کے مرکز میں جہاں شاید ڈیڑھ دو سو سال پہلے کوئی مردے دفنائے گئے تھے، وہاں سے لے کر قبرستان کے بیرونی سروں تک کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ قبر کے ساتھ جوڑ کر دوسری قبر کھودی گئی تھی۔ اگر کہیں خالی جگہ رہ بھی جائے تو کچھ ہی دنوں میں وہاں سنگِ مر مر کی نئی تختی لگی ہوگی۔ اس وجہ سے قبرستان کے اندر کوئی جگہ خالی نہ رہی تھی اور باوجود ہزار خواہش کے کوئی اپنے کسی پیارے کے ساتھ دفن نہ ہو سکتا تھا۔ کئی دفعہ ایسے ہوا کہ قبرستان کے درمیان میں جہاں جھاڑ جھنکار زیادہ تھا اور موجود قبروں پر 1880ء کے آس پاس کی تختیاں لگی تھیں، کسی نے خالی جگہ دیکھ کر اپنا مردہ دفنانا چاہا لیکن چار فٹ نیچے جانے پر بیلچے الٹے گھڑوں سے ٹکرانے لگتے۔ (بزرگ بتاتے ہیں کہ مدتوں پہلے آج کل کی طرح لحد پر پتھر کی سلیں رکھنے کی بجائے الٹے گھڑے رکھے جاتے تھے۔ ) اس قبر کواحترام سے دوبارہ پاٹ دیا جاتا۔

کچھ مدت سے ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک نیا رواج چل نکلاتھا۔ لوگوں کے دل میں اپنے پیاروں کے ساتھ دفن ہونے کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے۔ ہمارے گاؤں میں اس سوچ نے نیا رنگ اختیار کیا۔ جب گھر کا کوئی ایک فرد کسی جگہ دفن ہوتا تو اس گھر کے باقی زندہ افراد کی خواہش ہوتی کہ جب ان کا وقت پورا ہوتو انہیں دفن کے لیے اس کے آس پاس جگہ ملے۔ یہ خواہش صرف آرزو کی بات نہ تھی، لوگ اس کے لیے عملی کوشش بھی کرتے تھے۔ آج ایک مردہ دفن ہوتا، کل اس کے بہن بھائی، ماں باپ کی کل تعداد گن کر اتنی قبروں کی جگہ ناپ کر اس کے چاروں طرف دیوارچی سے چاردیواری بنا دی جاتی۔ لوگوں کو تسلی ہوجاتی تھی کہ سب اپنے اکٹھے دفن ہوں گے۔ ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ مرنے سے پہلے اپنی مخصوص جگہ دیکھ کرآدمی کو روحانی تشفی ملتی تھی اوربعد از وفات اسے اپنے خون کے رشتوں کے پاس دفن دیکھ کر اس کے لواحقین کو طمانیتِ قلبی بھی میسر ہو جاتی۔

قبرستان کی جگہ کسی کی ملکیت نہیں تھی۔ اس کا نظام ایک کمیٹی چلاتی تھی جو میت کی تدفین پر کوئی پائی پیسہ وصول نہ کرتی۔ فی سبیل اللہ کام تھا۔ سارا نظام چندے پر چلتا تھا۔ پہلے پہل کمیٹی نے لوگوں کی یہ در اندازی نظر انداز کی، پھر جب یہ چلن عام ہونے لگا تو کمیٹی والوں نے بھی کاروباری ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ ایسے خاندانوں سے جو اپنے لیے جگہ مخصوص کرنا چاہتے، ان سے اس زمین کی قیمت لے کرجگہ دی جاتی اور حاصل شدہ رقم سے مزید کچھ زمین خرید کر قبرستان میں شامل کر دی جاتی۔ خاندانی شرف اور دولت پر نازاں لوگ اپنے خاندان بھر کے لیے جگہ مخصوص کر لیتے جب کہ غریب لوگ ایسے ہی اکیلے دُکیلے دفن ہوتے۔ گاؤں کے تقریباً ہر اچھے اور قابلِ ذکر خاندان نے اپنے لیے جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ ایسی جگہ کے گرد چاردیواری لگی ہوتی۔ چاردیواری پر خوبصورت ٹائلیں لگی ہوتیں اور قبروں کی آرائش بڑھ چڑھ کرکی جاتی۔ شان و شوکت کے جن مظاہر کا مقابلہ زندگی میں ہوتا تھا، اب موت کے بعد بھی وہی مقابلہ شروع ہو گیا تھا۔ سب کی یہی خواہش ہوتی کہ اپنے خاندان کا امتیاز قائم کرنے کے لیے قبرستان میں دو تین مرلے جگہ حاصل کر لیں۔ جگہ پر قبضہ جمانے کی اس دوڑ میں وہ لوگ زیادہ مستعد تھے جو یورپ اور امریکہ یا خلیجی ممالک میں اپنے خاندانوں سمیت رہائش پذیر ہیں۔ یہ لوگ جب کسی پیارے کی میت واپس لے کر آتے تو ان کی خواہش ہوتی کہ کسی اپنے سگے کے ساتھ دفن ہوں، اگر کسی اجنبی کے ساتھ ہی دفن ہونا ہے تو باہر ہی کیوں نہ مٹی ہو جائیں۔ ایسے لوگ جب اپنا کوئی ایک پیارا دفن کر دیتے تو اس کے آس پاس کی جگہ اپنی برادری کے باقی بزرگوں کے لیے مَل لیتے۔ کمیٹی کو اس جگہ کی معقول قیمت ادا کر کے اس کی اپنی حیثیت کے مطابق آرائش کر لیتے۔ کسی خاندان کی عظمت اسی میں جھلکتی تھی کہ اس کے کتنے لوگ ایک جگہ اکٹھے دفن ہیں۔ جیسے قبائلی جیون میں زندہ لوگوں کے سروں کی تعداد سے قبیلے کی بڑائی کا اندازہ ہوتاتھا، ایسے ہی یہاں مرنے کے بعد تختیوں کی اکٹھی تعدادخاند ان کی برتری قائم کرنے لگی تھی۔ اگر کسی خاندان کی قبریں مختلف جگہ پر بکھری ہوتیں تو انہیں قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا اور وہ خود بھی قبرستان میں جاتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے تھے۔

اس طریقے سے جگہ پر قابض ہوئے بغیر اگر کوئی یہ خواہش کرے کہ اس کے مرنے پر اس کی قبر اس کے کسی قریبی عزیز کے سا تھ بنائی جائے تو آرزو امکان کی حدوں سے باہر نظر آتی تھی۔ ایک سال کے دوران قبر کے چاروں طرف درجنوں غیروں کی قبریں چھاؤنی جمائے پڑی ہوتی ہیں۔ ادھر ہماری پاگل بے بے چاہتی تھی کہ وہ مرے تو اُس کی قبر بابے کے پہلو میں بنائی جائے۔ اس خواہش کا اظہار پہلی بار اس نے اپنے بڑے بھائی سے کیا تھا۔ وہ فوج کا ریٹائر ڈکرنل تھا اور شہر میں رہتا تھا۔ نانا کی وفات پر گاؤں آیا تو اس نے باپ کی قبر کے ساتھ چھ قبروں کی مزید جگہ کے پیسے دے کر ایک چار دیواری تعمیر کروا دی۔ وہاں سے فارغ ہو کر وہ ہمارے گھر آیا اور بے بے کے پاس بیٹھ گیا۔ باتوں کے دوران اس نے بے بے کو بتایا کہ اس نے جو چھ قبروں کی جگہ خریدی ہے، وہ اپنے ماں باپ، چاروں بھائیوں اور بہن کے لیے ہے۔ بے بے کا چہرہ تمتما اٹھا اور اس نے وہیں اپنے بھائی کو ٹوک دیا۔

’’نہیں! ہر گز نہیں!میں کسی صورت بھی وہاں دفن نہیں ہو گی۔ ‘‘

بے بے کا بھائی حیران رہ گیا۔ بے بے کے چہرے کو تکتا رہا اور پھر حیرانی سے پوچھا:’’پر بہن! اس میں غلط کیا ہے؟ تمہیں اپنے ماں باپ کا ساتھ گوارا نہیں ہے کیا؟یابھائیو ں سے ناراضی ہے؟‘‘

’’نہ بھائی۔ تم لوگوں سے کیوں ناراض ہوں گی۔ میں نے اپنی جگہ پہلے سے ہی مَل رکھی ہے۔ ‘‘
’’وہ کہاں؟ پہلے کبھی بتایا نہیں۔ ‘‘
’’یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ جہاں میرے سر کا سائیں ہے، میں بھی وہیں جاؤں گی نا۔ ‘‘
’’پر وہ تو قبرستان کے عین درمیان میں ہے۔ قبر پر قبر چڑھی ہے۔ تمہارے لیے ادھر جگہ کہاں سے ملے گی؟‘‘
’’تم لوگ کبھی اس کی قبر پر جاؤ تو پتا چلے نا۔ میں جاتی رہتی ہوں،مجھے پتا ہے۔ اس کے دائیں پہلو میں ابھی تک ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ بس اسی جگہ کو میں نے مَل رکھا ہے۔ ‘‘
’’مگر وہاں کسی نے چاردیواری بنائی ہی نہیں۔ ‘‘
’’قبر کے لیے قبضہ ضروری ہے؟ دل کی ملکیت کافی نہیں ؟ جس دن احسان کا بابا دفن ہوا تھا، اسی دن میں نے اپنے لیے جگہ مَل لی تھی۔ ‘‘
’’لیکن خالی جگہ قبرستان میں کون چھوڑتا ہے؟ جانے کب کسی کو ادھر دفن کر دیا جائے۔ تمہاری حسرت دل میں ہی رہ جائے گی۔ ‘‘
’’چالیس سال ہو گئے اسے وہاں لیٹے۔ آج تک کسی کی جرأت نہیں ہوئی اس کے ساتھ قبر کھودنے کی۔ آگے بھی دیکھ لینا، وہاں کوئی نہیں آئے گا۔ وہ جگہ میں نے پکی مَل رکھی ہے۔ ‘‘
’’تو تمہارا بیٹا اب خوشحال ہے۔ تھوڑے سے پیسے خرچ کر لو۔ وہ جگہ خرید کے اپنے لیے چاردیواری بنا دو۔ ‘‘
’’ وہ جگہ ہے ہی میری۔ چاردیواری کی ضرورت ہی نہیں؟ اپنی جگہ کون خریدتا ہے ؟‘‘
’’لیکن اگر کسی اور نے وہاں قبر بنا لی توپھر۔۔۔؟‘‘
’’ہر گز نہیں۔۔۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ میری ملکیت ہے۔‘‘
’’پر بہن! اس جگہ دن کو بھی ڈر لگتا ہے۔ ہماری طرف قبرستان خاصا کشادہ ہے۔ صفائی بھی ہوتی رہتی ہے…‘‘
’’اپنے گھر میں کبھی کسی کو ڈر لگتا ہے بھلا؟‘‘

یہ بات آج سے تیئس سال پہلے کی ہے۔ تب میں لڑکا تھا۔ بے بے کی بات مجھے اتنی عجیب نہیں لگی تھی۔ بے بے کے لہجے کا تیقن مجھے ابھی تک یاد ہے۔ بے بے کی پائینتی بیٹھے یہ باتیں سنتے ہوئے اُس کے تندرست جسم اور سیدھی اٹھی گردن دیکھ کر یہ خیال آیا تھا کہ کیا پتا بے بے کب مرتی ہے اور کون جانتا ہے کہ وہ جگہ خالی رہے گی یا نہیں۔ لیکن بے بے درست کہتی تھی۔ کون سا زبان سے کہتی تھی۔ وہ تو دل سے اس جگہ پر قابض تھی۔ وہ جگہ اسی کی رہنی تھی۔

آج بابے کی وفات کے تریسٹھ سال بعد جب ابا جی کی عمر بھی چونسٹھ سال ہو چکی ہے اور میں خود بھی جوانی کی آخری صفوں میں کھڑا ہوں، بے بے میرے تقریباً جوان بچوں کو کھیلتے کودتے دیکھنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔ بے بے نے اپنی تمام عمر جس سکون اور اطمینان سے گزاری ہے، اسی طرح اگلی دنیا کو سدھار گئی ہے۔ جیسے کوئی کامل پیر محبوبِ ازلی کے وصل کی امید میں چہرے پر سکون اور اطمینان کا احساس لیے نزع کے کرب ناک مراحل سے گزر جاتے ہیں۔ آخری سانس لیتے وقت بے بے ویسے ہی سرشار تھی۔ میری بڑی بچی اور اس سے چھوٹا بیٹا بے بے کے آخری لمحوں میں قریب تھے، وہ بتاتے ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ بے بے نے کب اور کس وقت آخری سانس لیا۔ بس بستر پر لیٹی ہے۔ طبیعت خراب ہے، لبوں پر مسکراہٹ ہے۔ اسی حالت میں معلوم نہیں کب دم دے دیا۔ خود میں نے بھی جب بے بے کاچہرہ دیکھا تو وہی میٹھی مسکراہٹ اُس کے لبوں پر ثبت تھی جو بابے کا ذکر کرتے وقت ہوتی تھی۔

بے بے کی وفات کے وقت ابا جی یو اے ای میں تھے۔ عمر نوکری کرنے کی حد سے آگے گزر گئی تھی،پرانی جگہ سے جواب مل گیا تھا۔ ابھی ان کی خواہش تھی کہ کچھ برس اور ادھر لگ جائیں تا کہ گھر چلتا رہے۔ ایک نئی کمپنی میں ملازمت ملنے والی تھی اور اس کا ویزہ لگنے کے لیے پاسپورٹ ایمبیسی میں جمع تھا۔ یو اے ای میں پاسپورٹ جمع ہو تو یہ ایک لحاظ سے کالے پانی کی سزا ہوتی ہے۔ پاکستان آنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ فون پر جتنی دفعہ بات ہوئی، آواز کی بجائے رندھے ہوئے الفاظ کا گریہ ہی سنائی دیتا تھا۔ ان کی تلملاہٹ، ان کی بے تابی اور دکھ اپنی جگہ لیکن وہ بے بے کی فوتیدگی پر آ نہ سکے۔ میں اور میرے بچے تھے۔ بہن بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ پہنچ گئی تھی۔ بے بے کے سبھی بھائی بھی خبر سنتے ہی آ گئے تھے۔ اپنی برادری تھی۔ ہمیں کسی طرح کی مشکل نہ ہوئی تھی۔ مرن کی سبھی رسومات مناسب طریقے سے نپٹتی چلی گئی تھیں۔ میرا زیادہ وقت تعزیت کے لیے آئے لوگوں کے ساتھ ہی گزرا۔رسومات کی تمام ذمہ داریاں برادری والوں نے سنبھال لی تھیں۔ جب قبر کھودنے کا وقت آیا تو مجھے کہا گیا کہ قبرستان میں جا کر قبر کی جگہ نشان زد کر وا آؤں۔

ہمارے گاؤں میں قبر کھودنے کے لیے کوئی پیشہ ور آدمی نہیں ہے۔ جب کوئی فوت ہو جائے تو برادری اور گاؤں کے لوگ مل جُل کر خود ہی قبر کھودلیتے ہیں۔ درجنوں لوگ یوں باری باری ہاتھ بٹاتے ہیں کہ کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ کچھ کام کیا گیا ہے۔ پہلے رشتہ دار پہنچتے ہیں، نشان لگا کر کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ٹولیوں کی ٹولیاں جوانوں کی آنے لگتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر تیار پڑی ہوتی ہے۔

بے بے کی میت کا ناپ لے کر جب میں قبرستان پہنچا اور کسیاں بیلچے لے کر مستعد کھڑے رشتہ داروں کو قبر کی جگہ بتائی تو سبھی نے اعتراض کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں قبر کے لیے جگہ خالی ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ بھلاکیسے ہو سکتا ہے کہ تریسٹھ سال سے ادھر کوئی مردہ دفن نہ ہوا ہو۔ چھ فٹ کی جان توڑ کھدائی کے بعد کسی کی کڑکڑاتی ہڈیاں برآمد ہو جائیں گی۔ نئے سرے سے گرد پھانکنی پڑ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنازے میں وقت کچھ زیادہ نہیں ہے، اتنی دیر میں ایک ہی قبر نکل سکتی ہے۔ آخر پر ہڈیاں نکل آئیں تو نئی قبر کی تیاری تک میت کو انتظار کرنا پڑے گا۔ مجھے ان سب باتوں کی کوئی پروا نہ تھی۔ میں جانتا تھا، جس نے اپنی جگہ مَلی ہوئی تھی،وہی اس جگہ دفن ہو گی۔ اس نے تریسٹھ سال انتظار کیا ہے اپنے محبوب کے پہلومیں لیٹنے کا۔ وہ یہیں دفن ہو گی۔

جب بے بے کو نہلا دھلا،کفن پہنا کر چارپائی پرلٹایا گیا تو میں چہرہ دیکھنے کوگیا۔ چہرے پر جمی مسکراہٹ دیکھ کر میرے آنسو نہ رک سکے۔ وہاں جمع مردوں اور عورتوں نے مجھے بہت روکا مگر میرے جذبات قابو میں نہ رہے تھے۔ پہلے بے بے کے پاؤں چومے، پھر ہاتھ اور آخر پر ماتھا چوما۔ یہ میری بے بے تھی جس کے ہاتھوں اور پیروں نے کبھی غیر مرد کی طرف جانے کا سوچا بھی نہ تھا۔ میرے بابے کے ہوئے تھے اور مرتے دم تک اسی کے لمس کو زندہ رکھا تھا۔ یہ میری بے بے کے ہاتھ اور پائوں تھے جو مجھ سے اس لیے حد درجہ محبت کرتی تھی کیوں کہ میری صورت میرے بابے سے ملتی تھی۔ یہ میری بے بے تھی جس کی بے لوث محبت جیسی دولت مجھے دوبارہ نہ ملنی تھی۔ اس بے بے کی محبت کا لاوا تھا جو اس کے آخری دیدار کے لیے آنکھوں سے پھوٹتا چلا آرہا تھا۔ کب جنازہ اٹھا، کب جنازہ گاہ پہنچے اور کس طرح جنازہ پڑھا گیا، مجھے کچھ ہوش نہ تھا۔ آنکھوں میں بے بے کی محبت کے تمام مناظر گریہ کناں تھے اور اشکوں کی پوری برادری میرے اس نقصان پر ماتم کرتی چلی آ رہی تھی۔ جناز ے کے بعد بے بے کو قبر کی طرف لے جایا گیا۔ تریسٹھ سال پہلے چار کہاروں کے کندھے پر لد کر وہ بابے کے پاس آئی تھی اور آج اسی طرح چار کندھوں پر سوار بابے کے پاس لے جائی جا رہی تھی۔ قبر بابے کے بالکل پہلو میں تیار پڑی تھی۔ امام صاحب نے تدفین سے پہلے کی دعا مانگی اور پھر بے بے کی میت کو لحد میں اتارا جانے لگا۔ مجھ میں صبرکی تاب نہ تھی۔ بے بے کے بدن کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہ تھی۔ سو بے بے کا ایک بھائی اور بھتیجا میت کو لحد میں اتارنے لگے۔ بے بے کا بے جان وجود لحد میں لٹایا جا رہا تھا جب میرا بھانجا میرے قریب آ کر مجھے ایک تھیلا تھما گیا۔ تھیلا بھرا ہوا تھا اور اس میں بے بے کے گلابوں کی مہک آ رہی تھی۔ اس نے اشارے سے بتایا کہ امی نے توڑ کے دیے ہیں اور بے بے کی قبر پر ڈالنے ہیں۔ میں نے پھول بے بے کے بھائی کو تھما دیے اور اس نے پتی پتی کر کے کفن میں لپٹی بے بے پر ڈال دیے۔ سفید کفن سرخ پھولوں میں چھپ گیا۔ مجھے بے بے کی حسرت یاد آ گئی۔ یہ میت کے پھول کیا ان پھولوں کا مداوا ہو سکتے ہیں جو بابے نے وعدہ کر کے بھی نہیں دیے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں پھولوں سے لدے بے بے کے وجود کو پتھر کی سلوں سے ڈھک دیا گیا اور بے بے کا مادی وجود نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

اس دن عصر تک ہماری بیٹھک میں فاتحہ خوانی کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد میرے ذمے آگ کی ذمہ داری لگا دی گئی۔ میں اِس رسم کا قائل نہیں تھا لیکن دنیا داری کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ مشہور ہے کہ قبر میں مردہ دفن کرنے کے پہلے ہفتے کے دوران کسی بھی رات کوبِجّو آتا ہے اور پائینتی کی طرف سے قبر کھود کر میت تک جا پہنچتا ہے۔ میت کے پاؤں کے انگوٹھے کو منھ میں دباتا ہے تو اس میں دوبارہ جان آ جاتی ہے اور وہ بِجّوکے پیچھے چلتا چلتا اس کے ٹھکانے پر جا پہنچتا ہے جہاں بِجّو اس کا سارا ماس نوچ نوچ کر کھا جاتا ہے۔ مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بِجّو آگ سے بہت ڈرتا ہے۔ اگر قبر کے پائینتی ساری رات آگ جلتی رہے توقبر کے قریب بھی نہیں آتا۔ ایسی آگ لگانا مشکل ہے کہ جو شام کو لگائی جائے اور صبح تک جلتی رہے۔ اپلوں کی آگ دھیمی ہوتی ہے، پانچ تھاپیاں ہوں تو تمام رات دُھختے رہتے ہیں۔ بھوسے کی آگ بھی دیر تک دہکتی ہے۔ سو بھوسہ اور اپلے ملا کر انہیں سلگا دیا جاتا ہے۔ یہ روایت جانے کب سے ہے اور جانے کب تک رہے گی۔ میں اگر نہیں کرتا تو ساری برادری کے طعنے ماتھے پر لگتے رہیں گے کہ اسے مرنے والی سے کوئی لگاؤتھا ہی نہیں۔

میں اپلوں اور بھوسے سے بھرا توڑا لیے قبرستان پہنچا تو سورج سرخ تھالی بن چکاتھا۔ قبرستان کے باہر ابھی روشنی میں چمک تھی۔ اندر روشنی ذرا کم تھی لیکن بے بے کی قبر کا گیلا خاکی رنگ پوری طرح نظر آرہا تھا۔ قبر کی تازہ کچی مٹی دیکھ کر تازہ درد تڑپ اٹھا۔ دن بھر لوگوں کے سامنے جس ضبط کا مظاہرہ کیا تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ میں نے اپلوں اور بھوسے کا توڑاوہیں پھینکا اور خود بے اختیار بے بے کی پائینتی گر گیا۔ بے بے نے چالیس سال کی عمر میں جتناپیار دیا تھا اور آئندہ کی تمام زندگی جس پیار سے محروم رہنا تھا، اس کا احساس پانی ہو کر آنکھوں سے بہہ نکلا۔ جانے کتنی دیر میں بے بے کی امڈتی یادوں کے سہارے وہاں پڑا رہا اور بے بے کو پکار پکارکے بچوں کی طرح روتا رہا۔ آنسو میری آنکھوں سے بہتے چلے جارہے تھے۔ کوئی خیال نہ تھا کہ میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں، کوئی روتا دیکھ لے تو کیا کہے گا۔ بس یہی خیال تھا کہ میری جو سب سے پیاری ہستی تھی،وہ اب نہیں رہی اور اس کی دائمی جدائی پر مجھے بہت زیادہ رونا ہے۔

جب خوب دل بھر گیا تو دھیان آیا کہ میں کس کام کے لیے آیا تھا۔ اٹھا اور بے بے کی پائینتی بھوسے اور اپلوں کی ڈھیری لگا دی۔ ماچس جیب سے نکال کر آگ جلانے لگا تھا کہ تبھی میری شامہ سے ایک تیز امڈتی ہوئی خوشبو ٹکرائی۔ خوشبو مانوس تھی۔ میں چونک اٹھا۔ یا حیرت!یہ خوشبو واضح طور پر بے بے کے پھولوں کی تھی۔ ان کی منفرد خوشبو کے متعلق میرے گھر کا کوئی فرد بھی ایک دفعہ سونگھ کر بتا سکتا ہے۔ البتہ یہ خوشبوعام دنوں کی نسبت بہت تیز تھی۔ میں انہی پھولوں میں پلا بڑھا تھا، کسی بھی موسم میں ان پھولوں کی خوشبو اتنی تیز نہ ہوتی تھی، عین بہار میں جب ویہڑے میں سرخ سرخ پھولوں کے کھیس بچھے نظر آتے تھے، تب بھی خوشبو کا احساس اس قدر جوان نہ ہوتا تھا۔ مجھے بھلا دھوکا کیا ہو سکتا تھا کہ ان پھولوں کی خوشبو میری ہر رگ میں بسی ہوئی تھی۔ عمر بھر ان کی گوڈی کی تھی۔ ان پھولوں کی مست خوشبو اپنے دل آنگن میں کھلتی محسوس کی تھی۔ لیکن ے بے کے پھول تو بڑی اداس، دھیمی اور ٹھنڈی خوشبو رکھتے تھے۔ ابھی جو خوشبو آرہی تھی اس میں تیزی تھی،گرمی تھی اور خوشی کے رقص تھے۔ لیکن تھی یہ خوشبو بے بے کے پھولوں کی ہی۔ یہ خوشبو قبرستان میں آ کیسے رہی ہے؟ ادھر کھلے میں کہیں بھی پھول نہیں پڑے ہوئے اور اگر پڑے بھی ہوتے تو اتنی تیز خوشبو نہ آتی؟ آخر اس خوشبو کا منبع کیا ہے؟ دماغ میں کونداسا ہوا کہ یقینا یہ خوشبو ان پھولوں کی ہے جو بے بے کی لحدمیں منوں مٹی نیچے بے بے کے کفن پر ڈالے گئے تھے۔ یقیناً یہ وہی پھول تھے ورنہ ادھر بے بے کے کوئی اَورپھول تو لائے ہی نہیں گئے تھے۔ یقینا یہ وہی پھول تھے جو بے بے کے وجود کے ساتھ مَس ہو کر مرجھا جانے چاہیے تھے لیکن جانے آج کیا ماجرا ہوا۔ خوشبو مری بھی نہیں تھی اور رات کی تاریکی اترنے کے ساتھ پھول اس شدت سے مہکنے لگے تھے کہ منوں مٹی بھی ان کی مہک کونہ روک پائی تھی۔ امڈ امڈ کے باہر آرہی تھی۔ آنسوؤں کی ماری میری آنکھیں خوشی سے سجری ہو گئیں۔ بھوسہ اور تھاپیاں وہیں پڑے رہنے دیے اور ماچس جیب میں ڈال لی۔ بھلا آج کی رات اپلے جلانے کا کیا جواز۔۔؟رونا بھی نحس تھا۔

قبرستان سے نکلتے وقت آخری بار پلٹ کر اس سمت دیکھا جدھر بے بے کی تازہ کھدی قبر تھی۔ پھولوں کی خوشبو یہاں تک آرہی تھی۔ میں دھیرے سے مسکرا اُٹھا۔ یوں ہی خیال آگیا تھا کہ ابدی زندگی کے آغاز پر آج بے بے کے دونوں شکوے ختم ہو گئے۔ اب بابا کبھی جدا بھی نہیں ہو گااور پھولوں بھری مہکتی ہوئی سیج بھی مل گئی ہے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے آخری بار ان پھولوں کی خوشبو کو اپنے وجود میں اتارا اور تیزی سے ہٹ آیا۔

آج بے بے کو خلوت کی ضرورت تھی۔ آخر تریسٹھ سال بعد سُچے وصال کی رات آئی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *