Laaltain

پرانے نالے پر نیا فلیٹ (تحریر: راجندر یادو، ہندی سے ترجمہ: محمد عباس)

18 اپریل، 2021
Picture of محمد عباس

محمد عباس

راجندر یادو کا نام ہندی ادب کی نمایاں تحریک ‘نئی کہانی’ سے منسوب ہے۔ آپ نے منشی پریم چند کے رسالے ‘ہنس’ کی دوبارہ اشاعت کا بھی اہتمام کیا۔ راجندر یادو کا پہلا ناول ‘پریت بولتے ہیں’ کے نام سے 1951 میں شائع ہوا جس پر بعدازاں باسو چیٹرجی نے فلم بھی بنائی۔ ناولوں کے علاوہ آپ نے کہانیاں بھی لکھیں اور روسی ادب کا ہندی میں ترجمہ بھی کیا۔ محمد عباس ان کی کہانیوں سے اردو قارئین کو متعارف کرا رہے ہیں۔ محمد عباس کے کیے یہ تراجم ‘دستاویز مطبوعات، لاہور’ نے شائع کیے ہیں جنہیں اب لالٹین پر شاٰئع کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوں مجھے اپنے آپ میں، اپنی تحریر میں ایسی کوئی بات نہیں لگتی لیکن جانے کیسے میرے قارئین اوردوستوں میں یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ خواتین مجھے بہت خط لکھتی ہیں اور اکثر و ہ اس بات کا ذکر لطف لے کر کرتے ہیں۔درحقیقت معاملہ صرف اتنا ہے کہ پانچ سال پہلے ایک قاریہ نے مجھے پہلا خط لکھا تھا اور دھیرے دھیرے وہ قلمی تعلق گہری دوستی میں بدلتا چلا گیا تھا۔ تب ان کی شادی ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا۔ پہلے میں نے ان کے خط کو ٹھیک اسی طرح لیا تھا جیسے ایک دوست دوسر ے دوست کو اپنے اندر کی بات کہتے ہوئے لکھتا ہے لیکن آج اچانک جب شروع کے دنوں کا لکھا ہوا ایک خط سامنے آیا تو پہلی بار مجھے لگا، جیسے ان کے اس قلمی تعلق کے پیچھے خالص دل کی بات کہنے کی آرزو نہیں بلکہ ایک تمنا اور بھی تھی۔وہ اپنے شوہر کو دکھانا چاہتی تھیں کہ وہ بھی کسی کو خط لکھ سکتی ہیں اور بہت بے تکلف ہو کر لکھ سکتی ہیں۔اور اِس نگاہ سے یہ خط مجھے اپنے کو لکھا ہوا ہی نہیں لگتا۔ یہ تو کسی کو بھی لکھا جا سکتا تھا۔ ان کی دلی کیفیت کے بارے میں میرا اندازہ صحیح ہے یا نہیں، اس بارے میں اپنے قارئین سے جان کر مجھے اطمینان ہو گا۔ خط کے آخر کی اور کچھ شناختی اور ذاتی باتیں چھوڑ کر میں، یقینا نام اور مقام بدل کر، خط کی نقل نیچے دیے دے رہا ہوں؛

ڈی 78/15۔۔۔۔ نگر
نئی دلی
تاریخ:24 جون 05

پیارے راجندر !

۔۔۔۔۔سے لکھے خط میں مَیں نے لکھاتھا کہ دلی پہنچتے ہی میں اپنا پتا بھیجوں گی۔ شاید تم راہ بھی دیکھ رہے ہو گے۔ ہوسکتا ہے، گالیاں بھی دے رہے ہو۔ سوچا تھا، آتے ہی پہلا خط تمھیں ہی لکھوں گی لیکن روز آج کل، آج کل میں ہی سارا وقت گزر جاتا تھا۔ کبھی فرصت بھی ہوتی تو دل اتنا خراب ہو جاتا کہ کیا بتاؤں۔۔۔جانے کیا ہو تا چلا جا رہا ہے مجھے۔ میری خو د سمجھ میں نہیں آتا۔ کل اچانک کسی رسالے میں تمہاری کہانی دیکھی تو خیال آ گیا کہ تمھیں لکھنے کا وعدہ کیا تھا ۔۔۔ لو اب معافی مانگ لیتے ہیں۔ آگے سے ایسی تاخیر نہیں ہو گی۔ لمبے خط سے اُوبو گے تو نہیں۔۔۔؟

یہ گھر بڑ اعجیب ہے۔ ہمیشہ میرا من گھٹتا رہتا ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ ان فلیٹوں میں نہ تو ابھی فلش لگا ہے، نہ ٹھیک سے بجلی ہی آئی ہے۔ پانی بھی کنستر والوں سے دو پیسہ کنستر دے کر منگانا پڑتا ہے۔ پیچھے ہی نالہ ہے، سو ایسی بدبو آتی رہتی ہے کہ سر بھنا جاتا ہے۔کہتے ہیں یہ نالہ بہت پرانا ہے۔ مغلوں کے دور میں نہر تھی اور اس سے آمدو رفت ہوتی تھی۔ ہوسکتا ہے، مہابھارت کے دور میں بھی رہا ہو لیکن اب تو اس کا پرانا پن نہ کھینچتا ہے، نہ ڈراتا ہے۔ ہمیشہ من میں اٹھتا رہتا ہے کہ یہاں سے کہیں بھاگو ۔۔۔ بھاگو۔ گھر پر عادتیں بگڑ گئی ہیں نا۔۔۔ اب تو لگتا ہے کہ اگر یہیں رہی تو اس بدبو سے پاگل ہو جاؤں گی۔ چاہے جتنی کھڑکیاں دروازے بند کر لو، چاہے جتنی اگر بتیاں پھونکتے رہو، بدبو تو ہواؤں میں بسی ہے نا۔ مجھے تو سارے دن حیرت ہوتی ہے کہ یہ پنجابنیں کیسے اس جگہ بنا کسی شکوہ شکایت کے رہتی چلی آ رہی ہیں۔ ایک ہاتھ سے ناک پر رومال لگائے ہوئے کام بھی تو نہیں ہوتا۔ سو میں ساڑھی کا پلّو ناک پر باندھ لیتی ہوں۔ یہ جب جب دیکھتے ہیں، ہنس پڑتے ہیں،کہتے ہیں:’’ جھاڑو ٹوکری اور لے لو، سامان پورا ہو جائے گا۔‘‘خود میں نے شیشے میں دیکھا تو دیر تک ہنستی رہی۔ یہ کہتے ہیں:’’ شروع شروع میں ایسا ہی لگتا ہے۔ کچھ دن بعد بدبو اپنے آپ کم ہو جائے گی۔ رہنا تو یہیں ہے۔ مکان ہی نہیں ملتے۔ ادھر ونے نگر اور لودھی کالونی کی طرف سرکاری کوارٹر ملتے ملتے سال لگے، دو سال لگیں،کون جانے، ہمارے یہاں رہتے ہوئے ملے ہی نہیں۔‘‘وہ سب ٹھیک ہے لیکن یہ تو صبح چلے جاتے ہیں۔ آفس میں خس کی ٹٹیا ں لگی ہیں۔ یہاں یا تو دن بھر گھٹو یا ناک باندھ کر پڑے رہو۔ میں تو زیادہ سے زیادہ سامنے کی طرف رہتی ہوں۔ ایک ڈیڑھ کمرے کے پار کچھ تو بدبو کم ہو گی۔

تم سوچ بھی نہیں سکتے راجندر ! یہ دم گھونٹ بدبوکس طرح میرے دماغ پر بھوت بن کر سوار ہوگئی ہے۔ ایک بار جب ہم لوگ میرٹھ سے آ رہے تھے۔ تو سگنل نہ ملنے کے باعث گاڑی سٹیشن سے پہلے ہی کھڑی ہو گئی تھی۔اس جگہ کی ہوامیں جانے کیسی بدبو بھری تھی کہ مجھے تو قے آنے لگی۔ سبھی نے ناکوں پر رومال رکھ لیے تھے۔کسی نے بتایا کہ گیہوں کا گودام سڑ رہا ہے۔کسی نے کہا چینی کی مل ہے،سو اس کے لیے ہڈیاںپیسنے کے کارخانے سے ایسی بدبو آتی ہے۔ ایک دم لگتاتھا جیسے گندہ نالہ ٹوٹ گیا ہو۔ رات تھی، سو اَوس میں ڈوبی بتیوں کو چھوڑ کر دِکھا تو کچھ نہیں لیکن وہ دو منٹ وقتِ نزع کی دوزخی تکلیف جیسے لگے تھے۔ اب اس گھر میں چلتے پھرتے، اس ڈبے اور اس لمحے کی یاد آتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے گاڑی وہیں آ کر کھڑی ہو گئی ہے، کہیں کوئی سگنل نہیں دے رہا کہ کھسکے۔ پہلے تو لگتا تھا کہ بس اگلے پل ہی میری تو کنپٹیاں پھٹ جائیں گی سر دردسے۔ کیوں راجندر! کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک بار گھر کر جانے پر سردرد کبھی نہیں جاتا۔ کرانک (chronic)ہو جاتا ہے؟

اور نہ ہو سر درد کرانک، لیکن مجھے تویہ خیال بھی ناقابلِ برداشت لگتا ہے کہ ایک دن میری ناک کے سارے کیڑے مر جائیں گے اور مجھے کسی بھی طرح کی بو آنی بند ہو جائے گی۔۔۔ شاید اسے ہی یہ ’عادی ہونا‘ کہتے ہیں۔

تم بھی کیا کہو گے کہ اتنے دنوں بعد خط لکھنے بیٹھی اور یہ ’بدبونامہ‘ لکھ مارا۔ اچھا، چھوڑو اسے،بولو اور کیا بتاؤں۔۔۔؟اس بار سوچا تھا کہ تمھیں ایک نیا پلاٹ اور دوں گی۔ اپنے پڑوس میں مسٹر آئینگر ہیں، انہی کا قصہ ہے۔ پربس،سوچ کر ہی رہ جاتی ہوں۔ کبھی جی چاہتا تھا، تمھیں ساری باتیں لکھوں۔۔۔ اپنی باتیں، ان کی باتیں، گھرکی باتیں، پاس پڑوس کی باتیں۔ پر یہی سوچ کر رہ جاتی تھی کہ کہاں سے شروع کروں ؟ آج دل میں بھی بہت کچھ کہنے کو بھرا ہے اور کافی فرصت بھی ہے۔ اب دو بجے ہیں۔ پانچ بجے انگیٹھی جلانے کو اٹھنا ہو گا۔ پتھر کے کوئلوں کی انگیٹھی کو دہکتے دہکتے بھی تو آدھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ ان کے آنے تک چائے تیار ہو جاتی ہے۔ بس یوں ہی سارا دن کھسک جاتا ہے۔ لیٹے لیٹے، سوچتے سوچتے۔ کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا۔پہلے سوچا تھا کہ پڑوس میں آئینگر کی بیوی سے ہی دوستی کر لوں گی۔ کچھ تو وقت بیتے گا لیکن دو پہر کو ’’آ آ آ‘‘ کر کے وہ اپنا چھٹکے دار سنگیت سیکھتی رہتی ہے اور میں کتاب چھاتی پرکھلی چھوڑ کر دھول اَٹے روشن دان کو دیکھتی رہتی ہوں۔ جب سارا بدن پسینے سے تر بتر ہو جاتا ہے تو یاد آتا ہے کہ ہاتھ کا پنکھا یوں ہی ڈھیلا ہو کر جھک گیا ہے۔ عجب حالت ہے، اب گھر کی یاد بھی نہیں آتی۔جیجی کی دو چٹھیاں آئی پڑی ہیں، وہی آج کل، آج کل میں ہی مہینہ ہونے کو آیا۔ سچ راجندر! سب کچھ بڑافضول سا لگنے لگا ہے۔

یہ لکھتے ہی ہاتھ رک گیا ہے۔ تم کہانی کار ہو بھئی، جانے کیا کیا مطلب لینے لگو۔ اب اس بات سے ضرور سوچو گے کہ شاید مجھے ایسا کچھ نہیں ملا جس کی میں نے امیدیں کی تھیں، جس نوکر چاکروں سے بھرے گھر کے سپنے دیکھے تھے۔ تم کہو گے کہ ساری کاہلی اور بے معنویت کامفہوم اور کچھ نہیں ۔۔۔ مایوسی کا ہی ایک روپ ہے۔ شکستگیِ خواب کا ملال ہے۔ لیکن نہیں راجندر نہیں۔ میں جانتی ہوں، یہ بدبودار گھر، یہ بجلی نہ ہونے کی تکلیفیں، یہ مکھیوں کے منڈراتے چھتے، یہ گھٹن اور اکیلا پن زیادہ دن نہیں رہیں گے۔ دھیرے دھیرے سب کی عادت ہو جائے گی۔ شاید ہم لوگ ہی مکان بدل دیں گے۔۔۔ اور میں کیسے کہوں تم سے کہ ہمیں نیا مکان نہ ملے، ہم یہاں سے نہ جائیں،توبھی میں سب کچھ چپ چاپ سہہ لوں گی، سہہ سکوں گی،مجھے ایک سہارا تو ہو، کوئی تو تنکا ہو جسے۔۔۔

راجندر میں تمھیں کیسے سمجھاؤں کہ ۔۔۔

ایک دن انھوں نے کہا تھا : ’’بیرو! تم چاہتی ہو کہ میں اپنے پرانے سارے تعلقات اور رشتوں کو صرف اس لیے چھوڑ دوں کہ تم سے شادی ہو گئی ہے۔‘‘

’’نہیں تو! ایسا تو میں نے کبھی نہیں کہا۔ کبھی نہیں چاہا۔‘‘میں چت لیٹی آنکھوں پر بانہہ رکھے رو رہی تھی، بانہہ ہٹا کر بولی۔

انھوں نے میری بانہہ پر ہاتھ رکھ کر پیار سے پوچھا:’’ میرے ماں باپ ہیں، میرے بھائی بہن ہیں، سگے رشتے دار، یار دوست ہیں، ان سب سے تمھیں کوئی شکایت نہیں؟‘‘

’’لیکن ان سب رشتوں اور اس رشتے میں ۔۔۔میں کیا کروں میرا دل نہیں مانتا۔‘‘ میری آنکھوں سے پھر چھل چھل آنسو بہنے لگے جیسے بند ٹوٹ گیا ہو۔

’’دیکھو بیرو! تم سمجھدار ہو، پڑھی لکھی ہو۔ تھوڑی فراخ دل بن کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرسکتیں؟ میرے دوسرے دوستوں کی طرح دپتی کو بھی ایک نہیں مان سکتیں؟‘‘

یہ چارپائی کی پٹی پر بیٹھے تھے۔ آنسوؤں سے دھندلی نگاہوں کے پار مجھے ان کا رنجیدہ چہرہ دکھائی دیا۔

’’لیکن دوست تو وہ سب نہیں لکھتے جو اس نے لکھا ہے؟‘‘ میں روتی رہی۔

’’مگر بیرو ! یہ تو میں نے کبھی نہیں چھپایا کہ دپتی میری بہت بے تکلف دوست ہے۔۔۔ تمھارے آنے سے پہلے کی۔ چاہو تو یہ کہہ سکتی ہو کہ میں نے اپنے ماضی کو تم سے چھپایا کیوں نہیں ؟ کیانہ چھپانے کی سزا یہ ہے کہ میں ماضی کو ہی کاٹ پھینکوں؟‘‘

’’مجھے لگتا ہے کہ وہ میرا حصہ پا رہی ہے۔‘‘

’’حصہ؟‘‘ انھوں نے دبی آواز میں پوچھا:’’تو ہر آدمی کو پیار یا محبت کا کوٹا ملا ہوا ہے اور اس میں سے ایک آدمی جب لیتا ہے تو دوسرے کا حصہ پاتاہے؟‘‘

’’یہ سب میں نہیں جانتی۔ لیکن میں تو تمھارا بلا شرکت غیرے اور بھرپور پیار چاہتی ہوں۔‘‘

’’وہی تو میں پوچھنا چاہتا تھا۔بلا شرکت غیرے اور بھرپور کا مطلب تو تمھارے لیے یہی ہوا نا کہ باقی سارے رشتے اور تعلق ختم کر ڈالے جائیں؟‘‘

’’یہ میں نے کب کہا؟‘‘ اور میں پھر روتی رہی۔

یہ اٹھ گئے۔ میں روتی رہی۔ صبح کی ڈاک سے آیا تھا ایک خط۔ سادہ سے لفافے میں، کاپی کے صفحوں پر جلدی جلدی میں لکھا ہوا۔ یہ آفس سے آ کر ہی بیٹھے تھے۔ سائیکل کے کلپ ابھی پتلون میں لگے تھے۔ کھڑے کھڑے خط پڑھا اور مسکراتے ہوئے گھوم کر کھڑکی کے پاس کا ایک چکر لگاآئے۔ میرے دونوں ہاتھوں میں دو کپ پلیٹ تھے، ایک ان کے اور ایک اپنے لیے۔ چائے نہ پھیلے، اس لیے ان پر نگاہیں ٹکائے رہی۔ پوچھا: ’’کس کا خط آیا ہے؟‘‘

مجھے لگا، یہ تھوڑا سٹپٹائے۔ پھر عام سے انداز میں ہاتھ کے پنکھے کو جلدی جلدی گھماتے ہوئے بولے:’’دپتی نے لکھا ہے۔ پوچھاہے کہ بیوی نے ایسا فرمان دے دیا ہے کہ جب سے وہ آئی ہے، کوئی خبرہی نہیں دی؟‘‘

میں نے چائے ان کے پھیلے ہاتھ پر رکھی اور کہا:’’اسے بلائیے تو سہی، ہم بھی تو دیکھیں ۔۔۔ دپتی۔ کیسی ہیں آپ کی دپتی جی۔‘‘

’’یوں دیکھنے میں بیوٹی نہیں ہے، لیکن سویٹ ہے۔‘‘ اوپر کو اُٹھے ہونٹوں کی طرف پیالہ بڑھا کر انھوں نے زور دار سڑاکا لیا۔لگا،جیسے اپنے کو مصروف کرلیا۔

’’دیکھ لوں، کیا ہے؟ ‘‘میں پاس کی چھوٹی سی بینت کی کرسی پر بیٹھ گئی اور چائے میں مکھیاں نہ گریں، اس لیے ہتھیلی کپ پر ڈھک دی۔ پلے سے گلے کا پسینہ پونچھ کر ہاتھ بڑھایا۔ دل تھا کہ جھپٹ کر چٹھی اٹھا لوں لیکن اپنے کومکمل لاتعلق دکھاتی رہی۔

سٹپٹا گئے ہوں، اس طرح انھوں نے ادھر ادھر مدد کے لیے دیکھا۔پھر جھجکتے ہوئے بڑے بے من سے ایک طرف رکھی ہوئی چٹھی اٹھا کر میری طرف بڑھا دی۔ خط میں نے پڑھا اور لوٹا دیا۔ چپ چاپ چائے پینے لگی۔ شاید بجھ گئی۔

’’کیوں؟‘‘انہو ں نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ میری سستی کو انھوں نے پکڑ لیا تھا۔

یہ کچھ نہیں بولے اور پلکیں جھپکے بغیر آنکھیں کھولے بڑ ے مشینی اندازسے چائے سڑکتے رہے۔دل کہیں اور تھا۔

اور رات کو جیسے ہی انھوں نے مجھے اپنی طرف کھینچا،میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ پہلے تو یہ ایک دم سکتے کی سی حالت میں رہ گئے۔ پوچھتے رہے:’’کیا بات ہے بیرو؟بیرو؟‘‘

میں کچھ نہیں بولی اور روتی رہی، اپنی بانہوں میں منہ چھپائے۔ جتنا ہی باہیں ہٹا کر یہ مجھے چپ کرانے کی کوشش کرتے، میں سرموڑ موڑ کر اور بھی روتی جاتی۔ ہار کر انھوں نے بہت ہی پریشان انداز سے کہا:’’تم بتاؤ گی نہیں تو میں جانوں گا کیسے،بیرو؟‘‘

میں نے اوندھے لیٹ کر ان کی چھاتی سے ماتھا سٹا کر کہا:’’ میرا یہاں دل نہیں لگتا۔۔۔ گھر کی یاد آ رہی ہے۔۔۔ ہمیں گھر چھوڑ آؤ۔‘‘

’’کیوں بھئی؟ اچانک یہ گھر کی یاد؟ کوئی بات ہو گئی؟کوئی خط آیا گھرسے ؟ ایسی کو ئی بات ہے تو مجھے بتاؤ نا۔‘‘ مجھے اور بھی روتے دیکھ کر سمجھاتے ہوئے کہا:’’گھر ہی جانا ہے تو صبح باتیں کریں گے۔اب آدھی رات میں گھر کی یاد؟ کتنی بار ہم نے تم سے کہا کہ پاس پڑوس میں کسی سے دوستی کر لو،لائبریری کی ممبر بن جاؤ یا بازار جا کر کچھ کتابیں خرید لایا کرو۔۔۔‘‘

میں نے کچھ جواب نہیں دیا اورروتی رہی۔ پھر اچانک پوچھا:’’دپتی تمھاری کیا لگتی ہے؟‘‘

پہلے تو انھوں نے مجھے غور سے دیکھا، جیسے پہچانتے ہی نہ ہوں۔ پھرزور سے ہنس پڑے: ’’پاگل ۔۔۔ بیوقوف۔‘ ‘

اس بار میرے لہجے میں سختی آ گئی۔ ان کے چہرے کو بے جھجک دیکھتے ہوئے پھرکہا:’’ہنس کر بہکاؤ مت، مجھے بتاؤ نا، دپتی تمھاری کیا لگتی ہے؟‘‘

’’لگے گی کیا؟‘‘ اس بار بات جان لینے کے اطمینان سے یہ چٹ لیٹ گئے اور اوپر دیکھتے ہوئے بولے:’’دوست ہے۔۔۔ فرینڈ۔‘‘
’’تو پھر مجھے کیوں لائے؟‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘انھوں نے ضرورت سے زیادہ حیرانی سے پوچھا:’’تم ۔۔۔ تم ہو۔ کوئی بھی اَور اس جگہ کا حق دار کہاں سے ہو گا۔‘‘
’’تمھارے اور کتنے دوست ڈارلنگ سے چٹھیاں شروع کرتے ہیں؟‘‘ اب ان کے اس انجان بننے کی اداکاری پر مجھے غصہ آنے لگا۔
’’میرا خیال ہے بیرو!رشتوں کی گہرائی یا اتھلے پن کو ان لفظوں سے نہیں تولا جا سکتا۔ لفظوں کے استعمال کا اختیار تو سبھی کو ہے۔ کوئی مجھے ہر تیسرے جملے میں ڈارلنگ نہ بھی لکھے تب بھی اسے جی جان سے پیار کر سکتا ہوں اور کسی کو پیارے دوست لکھ کر بھی اس سے نفرت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’تم مجھے لفظوں میں بہلا رہے ہو۔‘‘میں نے بات کاٹ دی۔
اس بار شاید انھیں بھی طیش آ گیا۔ کڑے انداز میں پوچھا:’’آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘
ان کا یہ رویہ دیکھ کر میں نے دھیرے سے کہا:’’کچھ نہیں۔‘‘ اور دوسری طرف کروٹ بدل کر لیٹ گئی:’’مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘
اس رات نہ ہم دونوں میں سے کوئی کچھ بولا،،نہ رات بھر سویا۔

دو تین دن ہم لوگوں میں بڑا تناؤ چلتارہا۔ بنا کچھ بولے ہم لوگ ساتھ ساتھ کھانا کھا لیتے، سو لیتے۔میرے اندر ہمیشہ جیسے ایک گُھن کھرر کھرر کرتا اپنے آرے جیسے دانتوں سے کھایا کرتا۔ نہ ہنسنے کی طبیعت ہوتی، نہ بولنے کی۔ تیسرے ر وز شاید ہفتہ تھا۔ آفس سے آتے ہی انھوں نے کہا:’’چلو بیرو! آج ٹکٹ لے آ یا ہوں، سینما دیکھ آئیں۔‘‘

کاہلی اور بجھی ہوئی آوازسےمَیں نے کہا:’’چلیے۔‘‘
ان کے چہرے پر مجھے ایسا انداز دِکھا جیسے ابھی یہ ٹکٹ نکال کر پھاڑ دیں گے لیکن انھوں نے اپنے پر قابو کر لیا۔ پیار سے کندھا پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا: ’’بیرو! یہ سب کیاہے آخر؟ تین دن ہو گئے، نہ تو تم مجھ سے بولتی ہو، نہ باتیں کرتی ہو؟‘‘

’’بول تو رہی ہوں۔‘‘ آنکھیں اَن چاہے بھر ہی آئیں، پلکیں جھکائے کہا۔
’’یہ بولنا ہوا؟‘‘یہ یوں ہی میرا منہ دیکھتے رہے:’’سارا چہرہ پیلا پڑ گیا ہے۔ سچ مچ۔ تم اس طرح کا رویہ اپناؤ گی تو کیسے چلے گا آگے؟ آخر تم نے بی اے کیا ہے، بڑے شہروں میں رہی ہو، تمھارے ساتھ بھی لڑکے پڑھے ہیں، پھریہ سب۔۔۔‘‘
’’کیا یہ سب۔۔۔؟‘‘ اس بار میں نے انجان بن کر پوچھا۔
’’تم سمجھتی ہو، یہ سب میں سمجھتا نہیں ہوں؟‘‘انھوں نے دلار بھرے انداز میں کہا:’’بھائی! دپتی میری دوست ہے۔ میری کلاس فیلو ہے۔ بس ذرا سی بے تکلف ہے۔ ایک خط میں جب تمھارا یہ حال ہے تو اگر تم کہیں اسے میرے کندھے پرہاتھ مار کر کہیں یہ کہتے دیکھ لو کہ یار چلو، آج تو کہیں کافی پی آئیں، تب تو شاید تم غدر ہی کر دو۔۔۔‘‘ان کی بات ادھوری رہ گئی۔

میں نے کچھ نہیں کہا۔آنکھوں میں اٹکے آنسو دھاری بنا کر ڈھلک آئے۔ امڈ کر گلے میں آ اٹکا گولہ سٹکا اور دانتوں سے ہونٹ چبا کر دھیرے سے بولی:’’اب عادت پڑ جائے گی۔بڑے شہر میں آئی ہوں نا، تو نیا نیا لگتا ہے۔‘‘

’’یعنی اپنے سب دوستوں اور جاننے والوں کو لکھ دوں کہ جب تک بیوی کو عادت نہ پڑے، وہ مجھے کچھ نہ لکھیں۔‘‘انھوں نے ایک ٹک مجھے دیکھتے، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے بڑی تکلیف بھری آواز میں کہا۔

’’انھیں کیوں لکھو گے، میں ہی اپنے خیالات بدلوں گی۔شروع شروع میں تو برا لگتا ہی ہے۔‘‘ میں کندھے پر گردن گھما کرروتی رہی اور چھڑانے کی کوشش میں بانہہ سے ان کی انگلیاں ہٹاتی رہی۔

یہ کچھ دیر مجھ پر یوں ہی نگاہیں ٹکائے رہے، پھر گہری سانس لے کر بانہہ چھوڑ دی:’’سچ مچ تم جان بوجھ کر الجھنیں پید اکر رہی ہو، بیرو! میرا کون دوست مجھے کیا کہہ کر پکارے، یا کیا مخاطب کر کے لکھے، یہ اختیا ر کیا میرے ہی پاس نہیں رہنے دو گی؟‘‘

’’میں تو آپ سے کوئی بھی اختیار نہیں چاہتی۔‘‘اور اندر جا کر خوب خوب روتی رہی۔ دیر تک یہ مجھے سمجھاتے رہے۔ اور تم سے سچ کہتی ہوں راجندر !مجھے اس وقت خود اپنے اوپر اچنبھا ہوا کہ ایسی بھی یہ کیا سنجیدہ بات ہے جس پر میں یوں مری جارہی ہوں؟ اس لمحے مجھے وہ بات نہایت ہی کمینی اورنیچ لگی۔

اپنی بے وقوفی پر دکھ بھی ہوا، سوچا، سینما جانے سے دل ہی بہلے گا۔ تین گھنٹے اپنے سے الگ سینما میں الجھ کر ہو سکتا ہے، فکر کی اس جونک کو پھرجھٹک کر پھینک ہی دوں۔

لیکن سینما کے شروع میں ہی جو موڈ خراب ہوا تو آخر تک چلتا رہا۔ اشتہار چل رہے تھے۔ مسکراتے ہوئے صابن کی خوبیاں بتاتی ایک لڑکی کو دیکھ کر یہ بولے:’’مسکراتے وقت اس لڑکی کے گال بالکل دپتی کے گالوں جیسے لگتے ہیں۔‘‘ میں کچھ نہیں بولی لیکن لگا بوجھ تو دل پر جیوں کا تیوں رکھا ہے۔تم جھوٹ مانو گے راجندر! مجھے بالکل ایسا لگا جیسے ایک لمبا سا کنکھجورا اپنے زہریلے پنجے گڑائے میرے دل پر یہاں سے وہاں تک جما بیٹھا ہے اور ذرا ذرا سی دیرمیں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے وہ اپنے پنجے گڑاتا ہے تو درد سے چھاتی کسک اٹھتی ہے۔ سینما کے پردے پر کیا ہو رہا ہے، یہ میں نے نہیں دیکھا اوردل کو پھسلا کر جب جب دیکھنے کی کوشش کرتی ہر بار خیال آ جاتا کہ کیسے سینما دیکھ پارہی ہوں، کیسے اسے بھولی ہوئی ہوں؟ میں نے کہنی گودی میں ٹکا کر اس پر اپنا سر ٹیک لیا۔ انھوں نے پیار سے پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھا:’’کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں،آنکھوں کے آگے دھندلا دھندلا لگ رہا ہے۔‘‘
’’کچھ کھانے پینے کی چیز لے آؤں ؟‘‘
’’نہیں،ٹھیک ہے۔ ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کسی چیز کوزیادہ غور سے دیکھنے سے ہو جاتا ہے۔‘‘

یوں محسوس ہوا، اس بار یہ سمجھ گئے۔مطمئن انداز سے ناک اوپر اٹھائے دھیان سے سینما دیکھتے رہے جیسے انھوں نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ نہیں مانتی تو پھر مرو۔ میں تمھیں آخر کتنا سمجھاؤں۔ رہ رہ کر مجھے خود تعجب ہوتا کہ جانتے بوجھتے یہ سب میں کیا کیے جارہی ہوں، اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا اور انھوں نے نہ تو میری طبیعت کا حال پوچھا نہ انٹرول میں چائے پان ہی منگایا۔ خود اپنے کسی شناسا کے ساتھ باہر چلے گئے اور اندھیرا ہوتے ہی اندر آ بیٹھے۔
اور ساتھ لیٹنے، کھانے اور رسمی باتوں کی روایت پھر چلتی رہی۔

مجھے دو تین دن بعد اچانک احساس ہواکہ نہ تو مجھے باقی خط کا مضمون تکلیف دیتا تھا، نہ ان کا کٹا کٹا روکھا برتاؤ۔ بلکہ ہر پل یہ ڈستی سچائی گڑے کانٹے سی کسک دیتی تھی کہ کوئی ہے جو میرے حصے کی ساجھے دار ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی رونا امڈ پڑتا۔ بستر پر لیٹتی تو سونے اور جاگنے کے بیچ ایک عجیب سی حالت چلتی رہتی جیسے صبح سفر کو چلنے والوں کو رات کو سوتے وقت محسوس ہوتی رہتی ہے۔جانے کیا ہوا کہ تیسری رات میں سوتے سوتے اچانک چیخ کر جاگی تو دیکھا، ارے میں رو رہی ہوں۔ یہ چپ چاپ سورہے تھے۔ جانے دل میں کیا آیا کہ ان کی چھاتی سے ماتھا ٹھوک ٹھوک کر روتی رہی، ’مجھے یوں مت مارو۔‘یہ ہڑ بڑا کر جاگ اٹھے اور دیر تک سمجھاتے رہے ۔۔۔’تمھیں کیا ہو گیا ہے بیرو؟ تمھیں کون ماررہاہے؟ بتاؤ، میں کیا کرو ں کہ تمھاری تکلیف کم ہو؟تمھیں یو ں گھلتے ہوئے مجھ سے نہیں دیکھا جاتا‘ یہ بھی دیر تک روتے رہے، ’ہمیشہ یہ تناو بھری حالت۔۔۔ہمیشہ کی یہ دوری، ہمیشہ یہ سخت تیوری ۔۔۔ بیرو مجھے تم صاف صاف کہو نا کہ میں کیا کروں؟‘

جو میں چاہتی تھی، وہ مجھ سے کہتے نہیں بنتا تھا۔ شاید میں جانتی بھی نہیں تھی کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ کوشش کر کے بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھے ان سے شکایت کیا ہے اورتب اچانک یہ دیکھ کر مجھے خود بڑا تعجب ہوا کہ دھیرے دھیرے میں دکھ کی وجہ بھول چکی ہوں یااس سے اتنی دور آ گئی ہوں کہ وہ وجہ اتنے بڑے دکھ کے لیے ناکافی لگتی ہے۔ بس، میں دکھی رہوں، یہ ایک عادت بن گئی ہے۔ اب انتہائی دکھ کے موقع پراُن کا یہ کٹا کٹا برتاؤ، یہ روکھا رویہ مجھے کھانے لگتا تھا۔ دل ہی دل میں بولی ’ایسے باتیں کر رہے ہیں، جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ جیسے انھیں پتا ہی نہیں کہ ایک دپتی ہے جو میری سوت ہے۔‘

’سوت‘ لفظ مجھے خود بھاری ہتھوڑے کی چوٹ سا لگا۔ لگا نہایت ہی نکمی اور بیکار بات کو میں بڑا بھاری لفظ دے رہی ہوں، اتنا بھاری کہ اس کے معنی اوربوجھ دونوں ہی مجھ سے نہیں سہے جا رہے۔

’’دیکھو بیرو!‘‘یہ پیار سے میرا کندھا تھپتھپا کر کہہ رہے تھے:’’کسی بھی شناسا لڑکی کو اپنا دشمن مان کرایک خاص طرح کا دکھ اٹھانا یا دوسروں کو دکھ اور تناؤ میں رکھنا اگر ایک ایسی رسم ہے جس کانبھانا بہت ہی ضروری ہے، تب تو مجھے کچھ بھی نہیں کہنا۔ تم جی بھر کر جب تک چاہو، اس روایت کی پاسداری کرو لیکن ذراخود سوچ کر دیکھو،کیا سچ مچ یہ وجہ اتنی بڑی ہے کہ یوں دنیا سرپر اٹھا لی جائے؟‘‘

اور یقین جانو راجندر ! مجھے یہ سب اپنے دماغ کا فتور لگا۔

اس سے اگلے یا پھر اور بھی اگلے دن کی بات ہے، اس بیچ سب کچھ فطری سا لگنے لگا تھا اور ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اکثر ہی مسکرایا کرتے تھے۔ان مسکراہٹوں کے ساتھ ہی مجھے لگتا کہ اور بھی نزدیک آنے کے لیے شاید یوں کبھی کبھی لڑنا بہت ہی ضروری ہے۔میں آگے سے آگے ان کا کام تیار کر رکھتی لیکن اسی لمحے یہ بھی لگتا کہ یہ پیار کا فطری انداز نہیں ہے،جیسے اتنے دنوں کی اپنی غلطی کو ہم دونوں ہی ضرورت سے زیادہ پیار کے دکھاوے سے دھو پونچھنا چاہتے ہیں۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ انھوں نے غسل خانے سے چلا کر کہا:’’بہت دیر ہو گئی بیرو! اس سفید والی پتلون میں بکسوے لگا دو، جلدی سے۔‘‘ پتلون نکال کر میں بکسوے کھوجتی رہی، پوچھا: ’’کہاں ہیں بکسوے؟ ہمیں تو کہیں نہیں مل رہے۔ ‘‘ تو بولے:’’پرانی گندی والی پتلون میں سے نکال لو نا۔۔۔ بہت لیٹ ہو گیا۔‘‘میں نے پرانی پتلون میں سے بکسوے نکال کر لگائے۔سوچا،ویسے ہی انھیں دیر ہو گی، سو جیب سے پرانا گندا سا رومال نکال کر دھونے کے لیے ڈالا اور کاغذ دُھلی پتلون کی جیب میں رکھنے لگی۔ تبھی کاغذوں میں ایک مڑے تڑے لفافے کو دیکھ کر ہاتھ ٹھٹک گیا۔ جانے کیوں، لگا جیسے اس میں سب کچھ ہے۔۔۔ کھولا تو پھر وہی ’ڈارلنگ‘‘ لفظ سامنے تھا۔ ایک بار پھر پتا دیکھا۔ اوہ ۔۔۔ تو اب آفس کے پتے پر چٹھیاں آنے لگیں اور اچانک مجھے لگا کہ جس درد کو میں بھولی ہوئی تھی، وہ بھک بھکا کر جل اٹھا۔ کیسے بھول سکی میں اس درد کو۔

سب کچھ جیوں کا تیوں رکھ دیا لیکن جیسے ہی یہ آفس گئے کہ میں دھم سے چارپائی پر گر پڑی اور جب ہوش آیا تو پایا کہ میں اس طرح رو رہی ہوں جیسے یا تو مجھے کسی نے مارا ہو یا میرے گھر سے کسی کی موت کی خبر آئی ہو۔’ تو انھوں نے آفس کے پتے پر خط منگایا۔ اسے لکھا ہو گا کہ بیرو لڑتی ہے۔ کیا سوچا ہو گا اس نے کہ ابھی آ ئے مہینہ نہیں گزرا اوربیوی نے لڑنا بھی شروع کر دیا۔پتا نہیں میرے خلاف اور بھی کیا کیا لکھا ہو گا۔ خوب خوب شکایتیں لکھی ہو ں گی کہ دن بھر منہ پھلائے رہتی ہے۔۔۔ ہر وقت لڑتی ہے۔ اسے قطعی پسند نہیں کہ تم مجھے خط لکھو، اس لیے آفس کے پتے پر لکھا کرو۔‘ مجھے ہر بار لگتا تھا راجندر کہ دیکھو انھوں نے سب کچھ اوپر ہی اوپر کر لیا اور مجھے ہوا تک نہیں لگنے دی۔

اس دن نہ تو میں نہائی، نہ کچھ کھایا۔ پہلے خط کا آنا مجھے ایسا لگتا تھا، جیسے بھری محفل میں کسی نے مجھے تھپڑ مارا ہو، وہ میری تمناؤں کی، میرے وجود کی اور میرے مرتبے کی تحقیر تھی اور یہ میرے ساتھ دھوکا ہے،دھوکا ۔۔۔دھوکا۔راجندر، سچ کہتی ہوں، یہ لفظ اس ساری کیفیت کے لیے مجھے اتنا بامعنی، خوبصورت اورجامع لگا کہ مجھے خود دھکا لگا۔۔۔ تو شروع سے ہی میرے ساتھ دھوکا کیا جاتا رہا۔ میں نے اسے سمجھا اب ہے، اس لفظ کے ذریعے سے۔ اگر انھیں اس سے پیار تھا تو مجھے لانے کی ضرورت ہی کیاتھی؟ماں باپ کو منع نہیں کر سکتے تھے؟ ٹھیک ہے، بابو جی نے شادی کی جلدی مچائی تھی لیکن کس لڑکی کے گھر والے جلدی نہیں مچاتے؟ اگر اس بات کا کسی بھی طرح یہ اشارہ بھی کرا دیتے تو اماں، بابو جی چاہے بی اے کے بعد پڑھنے دیتے یا نہ پڑھنے دیتے، میں یہاں تو شادی نہیں کرتی۔ اس کالے کلوٹے تھانے دار کے ساتھ چلی جاتی۔ کم سے کم یہ سب تو ۔۔۔میں آج ہی چلی جاؤں گی۔ رہیں یہ اور ان کی دپتی جی۔
وہ شام آنے تک کا وقت میں نے کیسے چھٹ پٹ چھٹ پٹ کر کے کاٹا ہے، میں ہی جانتی ہوں۔

یہ آکر بیٹھے۔سائیکل کے کلپ نکالے اور پنکھا کرتے رہے۔ میں نے بہت فطری ضبط کے ساتھ چائے لا کر دی۔ اور جب پسینہ سوکھ گیا تو نہایت ہی تند آواز میں پوچھا:’’بتاؤ، تم نے میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا؟‘‘
’’دھوکا؟‘‘یہ اچ کچا اٹھے۔

’’ہاں، ہاں، بنو مت، دھوکا ہی تو کیا۔شروع سے تم میرے ساتھ دھوکا ہی کرتے آ رہے ہو۔ میں کیا سمجھتی نہیں ہوں؟‘‘ اس دھوکا لفظ کو بار بار دہرا کر جیسے میں اپنی بات کومؤثربنا دیناچاہتی تھی۔

’’کون سا دھوکا ؟ کیسا دھوکا؟ ‘‘اس بار لگا یہ سمجھ گئے لیکن انجان بنے رہے۔

میں نے بناوٹی نرم سختی سے کہا:’’دیکھو مجھے بناؤ مت۔۔۔ ایسا ہی ہے تو تم اپنی دپتی کو یہاں لے آؤ۔ جہاں میرا دل ہو، مجھے جانے دو۔ کم سے کم اس سب سے پیچھا چھوٹے گا کہ تم مجھے دھوکا دو، اپنے کو دھوکا دو اور اسے جھوٹ موٹ لکھو۔ اس بے چاری کو کبھی آفس کا پتا دو، کبھی گھر کا۔‘‘میں نے یہ ساری باتیں کچھ ایسی سنجیدگی سے کہیں جیسے یہ باتیں مصدقہ حقائق اور طے شدہ ہیں۔ من ہی من بولی۔’جیسے بھی ہو گا، میں بی ٹی کر لوں گی۔‘

اس بار انھوں نے مسکرا کر (میں سمجھتی ہوں نقلی مسکراہٹ کے ساتھ ) کہا:’’اوہ۔۔۔ تو وہ بات ہے۔ بھائی اگر وہ یہاں لکھے تو تم ناراض ہوتی ہو۔ خود تم پریشان ہوتی ہو اور مجھے پریشان رکھتی ہو۔ یہی سوچ کر میں نے لکھ دیا کہ خط آفس کے پتے پر بھیج دیا کرو۔ ا س میں دھوکے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ چونکہ تم میری بیوی بن کے آئی ہو، اس لیے اپنے سارے پہلے کے دوستوں، جاننے والوں یابے تکلف شناساؤں سے تعلق توڑ لوں، نہیں تو وہ دھوکا ہو گا۔ یہ بات، بیرو! نہ تو میری سمجھ میں تب آئی تھی اور نہ اب آتی ہے۔‘‘

’’اور میری سمجھ میں عورت آدمی کی دوستی کا یہ مطلب نہیں آتا جس میں ڈارلنگ وغیرہ لکھا جائے۔‘‘ میں نے بھی اتنی تیزی سے کہا۔

’’یعنی عورت آدمی کی دوستی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘

’’تب ٹھیک ہے اور مجھے کچھ بھی نہیں کہنا ہے۔ جو تمھاری سمجھ میں آئے سوکرو۔‘‘اس بارانھوں نے سخت لہجے میں کہا اور کپڑے بدلنے اندر چلے گئے۔ میں جیوں کی تیوں بیٹھی رہی۔ جب یہ باہر نکلے تو ہاتھ میں پیتل کی چھوٹی سی بالٹی تھی۔ بنا کچھ بولے یہ دودھ لینے چلے گئے اور تب ایک دم مجھے لگا جیسے میں اچانک ہی ٹوٹ گئی ہوں۔ جیسے آج مجھے واضح لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ کوئی اور ہے جو مجھ سے بڑی ہے، اس لیے مجھے یہاں چھوٹی بن کر ہی رہنا پڑے گا۔

جھٹکے سے اٹھی اور بنا کچھ بولے، بنا روئے اندر ہی چارپائی پراوندھی جا لیٹی۔ پٹی پر تین چار بار ماتھا زور سے کوٹا۔ نہ درد محسوس ہو تا تھا، نہ رونا آتا تھا۔(شاید سینما کے پردے پہ ہوتی تو جھٹکے سے ماتھے کا سندور پونچھتی اور بانسری بجاتی بھگوان کی مورتی کے سامنے جا کر رونے لگتی یا ایک گانا گاتی ہوئی سمندر پر جھولتی ہوئی چٹان سے چھلانگ لگانے کا انداز بنائے کھڑی رہتی کہ گانا پورا ہو تو کودجاؤں)۔

مرنے کی بات تو نہیں لیکن اپنی زندگی کی کم مائیگی کی بات کو لے کر ان دنوں راجندر، میں نے کیا کیا نہیں سوچا۔میری زندگی کے معنی کیا ہیں؟کیوں جیوں؟ کبھی میں دیکھتی، وہ آئی ہے۔ یہ لوگ مجھے چھوڑ کر اکیلے سینما دیکھنے چلے جاتے ہیں۔۔۔ گھومنے صبح کے نکلے ہیں اور رات بارہ بجے تک آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔۔۔ صبح دپتی تو یہ کہہ کر جاتی ہے کہ مجھے دلی میں اپنے کسی رشتے دار سے ملنا ہے اور یہ آفس کے بہانے نکل جاتے ہیں اور باہر جا کر ملتے ہیں۔۔۔ میں یہاں اکیلی پڑی پڑی گھٹ رہی ہوں، رو رہی ہوں۔۔۔ یا دیکھتی کہ یہ لوگ اندر والے کمرے میں ہیں، اندر سے کواڑ بند کر لیے جاتے ہیں، ہنسنے کھلکھلانے کی آوازیں آ رہی ہیں اور باہر کھردری چارپائی پر لیٹی میں یا تو پلو منہ میں ٹھونسے رو رہی ہوں یا چوکے میں ان کے لیے روٹیاں ٹھوک رہی ہوں۔ ٹپا ٹپ آنسو گالوں سے ڈھلکتے چلے جاتے ہیں، کہانی یاد آتی ہے، راجہ نے رانی کو گندی سی ساڑھی دی اور کاگ اڑانے والی بنا کر چھت پر بٹھا دیا۔میں دیکھ رہی ہوں کہ اسے ڈبے کی ڈبے کی ساڑھیاں دلائی جارہی ہیں۔۔۔ اسے ٹیکسیوں میں گھمایا جا رہاہے۔۔۔ سکوٹر میں دونوں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے بیٹھے ہیں۔ کم تنخواہ اور پیسوں کا رونا تو میرے ہی لیے ہے۔ اب کہاں سے دنادن نکلا چلا آ رہا ہے۔ اسے تکلیف نہ ہو، اس لیے بجلی آ گئی ہے۔ پنکھا ریڈیوسبھی آ گئے ہیں۔ اس پل میں نے اپنے کو لاکھ لاکھ شاباش دی کہ کوئی بچہ نہیں ہے ورنہ ماں کے ساتھ سوتیلی ماں کے ہاتھوں اس بے چارے کی بھی جانے کیسی درگت ہوتی۔ کڑکتی رات میں بیٹھا برتن مانجھ رہا ہوتا۔

ہوش آیا تو اپنے اس سوچنے پر جھنجھلاہٹ ہوتی کہ ہر بات کو سوچتے سوچتے انتہا پر پہنچا دینے کی میری عادت آخر کب چھٹے گی؟ اس سارے حصے میں بجلی ہی نہیں ہے جو یہ اپنی اس پدمنی کواتنا کچھ منگوا دیں گے۔

لیکن اچانک ایک بات کی طرف میرا دھیان گیاتو اپنی یہ ساری شکایتیں بے وجہ نہیں لگیں۔ اتنی لڑائیاں ہوئیں،اتنا سب کچھ کہا سناگیا لیکن ایک بار بھی انھوں نے کبھی نہ تو دپتی کا خط دکھانے کی خواہش ظاہر کی اور نہ یہ کہا کہ میں اسے نہیں لکھوں گا۔ اس بات سے میرا یقین اور بھی پکا ہو گیا کہ یہ صرف مجھے دھوکا دے رہے ہیں۔ کب تک چلے گا اس طرح؟کب تک میں ایک بن بلائے گلے پڑے شخص کی طرح رہوں گی۔کیوں نہیں میں اپنے کو سمیٹ لیتی؟

راجندر یہ بات اب میری نس نس میں سما گئی ہے، میں اسے کسی بھی طرح نہیں نکال پا رہی ہوں کہ میں یہاں کسی کی جگہ ہوں، میں نہیں اس گھر کی اصلی مالکن تو کوئی اور ہے۔ یہ کچھ بھی سوچتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ دپتی کی ہی بات سوچ رہے ہیں۔ کھانا کھاتے لگتا کہ ان کے دماغ میں یہی بات ہے کہ اگر میں یہاں نہ ہوتی تو یہاں دپتی ہوتی۔ کپڑے پہنتے وقت، رات کو سوتے وقت مجھے ایک جھٹکے سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں دپتی کی جگہ سو رہی ہوں، جیسے میں دپتی کے کپڑے پہن رہی ہوں۔ کبھی کبھی یہ کوئی بات کہتے کہتے میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ نہیں، یہ مجھے نہیں میرے پار دپتی کے چہرے کو دیکھ رہے ہیں، یا انھیں وہ لمحہ یاد آرہا ہے جب ایسے ہی انھوں نے کبھی دپتی کو دیکھا ہو گا۔ حالت یہاں تک آ گئی ہے راجندر کہ میں شیشے میںچہرہ دیکھتی ہوں تو مجھے اچانک لگتا ہے کہ مان لو، میں یہاں نہ ہوتی تو اس لمحے دپتی ہی یہ چہرہ دیکھ رہی ہوتی۔

دپتی کی جگہ اپنے ہونے کا یہ خیال اب میرے من میں اتنا گہرا اتر گیا ہے کہ لگنے لگا ہے کہ وہ میرا حصہ نہیں، میں ہی اس کا حصہ کھا رہی ہوں، گناہگار وہ نہیں، میں ہوں۔ یہ جو پرایا پرایا سا محسوس کرتے ہیں، اس کے پیچھے میں ہوں۔ ان میں اور مجھ میں دوری ہے۔ (جیسے میں بیرو نہیں کوئی اور ہوں)اس کی صرف میں ہی ایک وجہ ہوں۔ یہ مکھیاں، یہ گھٹن، یہ بدبو میری ہی وجہ سے ہے۔ اگر ’’میں ‘‘،’’وہ ‘‘ہوتی تو سبھی کچھ کتنا صاف ستھرا ہوتا۔ تب’’ ہم لوگ‘‘ یوں ایک دم بیگانوں اور اجنبیوں کی طرح تھوڑے ہی رہتے۔

اور اس کھچاوٹ اور دوری کے تناؤ بھرے ماحول میں کل جو ایک بات ہو گئی۔ اسے تمھیں بتانا ضروری ہے۔ یوں بات بہت معمولی ہے لیکن ایک طرف تو میری سمجھ میں اس کا مطلب نہیں آرہا، دوسری طرف ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس ساری کیفیت کو ایک با معنی نام دیتی ہے۔

یہ آفس سے آئے ہی تھے اور بازو اوپر اٹھا ئے قمیض کو الٹ کر اتار رہے تھے۔ بولے:’’آج شاید ہوا ادھر کی ہی ہے۔بڑی بدبو آ رہی ہے۔ کیسے رہتی ہو گی تم سارے دن؟‘‘

’’کیا کریں؟ ہمیں تو رہنا یہیں ہے۔‘‘ کہنے کو تو کہہ دیا، لیکن سوچا، وہ تو ہم ہیں، سو ڈال رکھا ہے۔ ہوتی کہیں اگر وہ آپ کی وہ دپتی جی، تو دوسرے دن ہی گھر بدل لیا ہوتا۔ مجھے اچانک لگا جیسے بو کا ایک جھونکا ادھر سے گزر گیا ہو۔

’’یہ بدبو بھی بڑی عجیب سی ہے۔ بڑی سڑی سڑی سی ہے۔‘‘وہ ناک سکوڑ کر بولے۔

میں نے سادگی سے کہا:’’یہ تو ہمیشہ ہی آتی رہتی ہے۔ ہمیں تو عادت ہوتی جا رہی ہے لیکن۔۔۔پہلے تو سہا نہیں جاتا تھا لیکن یہ بو بڑی ہی عجیب سی ہے۔ ہے نا؟ جیسے کوئی مر گیا ہو۔‘‘

’’کون؟‘‘ وہ غیر فطری انداز میں چونک کر بولے۔

ان کی غور سے دیکھتی نگاہیں اپنے چہرے پر محسوس کر کے مجھے لگا کوئی نہایت نازیبا بات کہہ دی ہو۔’’جیسے ۔۔۔ جیسے صندوق کے پیچھے کبھی چوہا مر جاتا ہے تو بد بو آتی ہی رہتی ہے نا، ویسی ہی سڑاند ہے۔‘‘

وہ پیٹ تک بنیان اٹھائے، پنکھا گھماتے دوسری طرف چلے گئے اور میں انھیں ایسے دیکھتی رہی جیسے میری اس شخص سے کبھی کوئی شناسائی نہیں رہی ہے۔ آج جو خط آیا ہے، وہ ضرور ان کی جیب میں رکھا ہو گا۔ لیکن نہ تو اس سے میرا مستقبل بندھا ہے اور نہ حال۔ اورمیں نے کسی ماضی میں اپنی من چاہی زندگی کے سپنے نہیں سجائے۔

اچھا بتاؤ تو! اس تجربے کو تم کیا معنی دینا چاہو گے؟
اب بس کرتی ہوں، باقی اگلے خط میں لکھوں گی۔

نیک خواہشات!
بیرو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *