چند برس اُدھر کا قصہ ہے کہ سینٹ پیٹرزبرگ میں دو جرنیل صاحبان رہتے تھے۔اب یہ جرنیل سرکاری نوکری میں کچھ سویلین خدمات پر ہی دفتری زندگی گزار کر بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور نتیجتاََ انہیں دفتری فرائض کے معمولات کی زندگی سے پرے کسی شے کا پتہ بھی نہ تھا۔ ان کا تمام ذخیرہ ء الفاظ بھی ”فقط آپ کا نیازمند” جیسے شبدوں تک سمٹ چکا تھا۔ وہ دونوں اپنی میعا د پر پنشن یافتہ ہوئے، دونوں نے ایک ایک خانساماں نوکر کیا اور ”خیابانِ سُرخ فیتہ” پر رہائش اختیار کر کے عمرِ آخر کی آسائش میں پڑ رہے۔
ایک صبح جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ہی بستر پر براجمان ہیں۔ “یور ایکسی لینسی! رات میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا!” ایک جنرل صاحب بولے۔
“مجھے در حقیقت یوں لگا جیسے میں ایک ریگستانی جزیرے پر رہ رہا ہوں”ابھی اس نے یہ بات مکمل ہی تو نہیں کی تھی کہ یکے بعد دیگرے وہ دونوں جرنیل اپنے بستر سے اچھل کر اُٹھے۔ “خُدایا! اس کی کیا تعبیر ہے؟ اور یہ ہم کہاں ہیں؟” انہیں بیک وقت دونوں باتوں پہ تحیر ہوا۔ پھر وہ ایک دوسرے کے چٹکیاں کاٹنے لگے کہ یقیناََ وہ ابھی عالمِ خواب میں تھے مگر وہ باوجود کوشش کے اپنے تئیں یہ باور نہ کرا سکے کہ یہ فقط خواب تھا۔ ماسوائے زمین کے ایک ٹکڑے کے جو ان کے عقب میں تھا، وہ ہر طرف سے سمندر میں گھرے ہوئے تھے۔ جب سے دفتر کی نوکری چھوٹی تھی، تب سے اب تک پہلی بار وہ دونوں جرنیل کسی بات پر رو دئیے۔ جب انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو باور ہوا کہ وہ دونوں شب خوابی کے چُغوں میں ملبوس تھے۔ اگرچہ ان چُغوں کے گلے میں بھی ایک ایک تمغہ لٹک رہا تھا۔
“ایک کپ کافی کا ہو جائے تو کیا ہی اچھا لگے!” ایک جنرل صاحب نے کہا۔ مگر اس لمحے جب ان کی توجہ اپنی اس پتلی حالت پہ گئی تو صاحب کے آنسو پھوٹ پڑے۔
“اب کیا کریں” صاحب نے سسکیاں لیتے ہوئے بات جاری رکھی۔ “اس پہ تو مفصل رپورٹ لکھنے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا!”
“بات سنیے!” دوسرے جرنیل نے کہا۔ “آپ مشرق کی جانب جائیے، میں مغرب کی جانب جاؤں گااور رات پھیلے سے ہم اسی جگہ واپس لوٹ آئیں گے۔ عین ممکن ہے ہم کچھ دریافت کر پاویں”۔ مگر اب افتاد یہ پڑی کہ انہیں سمتوں کا بھی علم نہ تھا کہ مغرب کس طرف ہے اور مشرق کس جانب؟ پھر انہیں یاد آیا کہ ایک بار کسی اعلیٰ افسر نے انہیں بتایا تھا کہ اگر مشرق اور مغرب کی سمتوں کا تعین کرنا ہو تو شمال کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائیں تو آپ کے دائیں جانب مشرق ہو گا اور بائیں جانب مغرب۔ اب دونوں نے شمال کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس کے لئے انہوں ہر ممکن سمت کی طرف رُخ کیا مگر ان کا افق بھی تو سرکاری دفتر کے درودیوار میں محدود رہا تھا! وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
“ایسا کریں، آپ دائیں جانب چلے جائیں اور میں بائیں جانب، اس سے بھی مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے”۔ ان میں سے ایک جنرل جو کسی زمانے میں لڑکوں کے ایک اسکول میں لکھنا سکھاتے رہے تھے اور کچھ عقلِ سلیم رکھتے تھے، بولے۔
جو جنرل صاحب دائیں جانب گئے تھے، انہوں نے پھلدار درخت دیکھے لیکن جب انہوں نے ان سے لٹکے سیب توڑنے کی کوشش کی تو انہیں اپنی پہنچ سے دور پایا۔ جب انہوں نے درخت پر چڑھنے کی کوشش کی تو اپنا چُغہ تار تار کر بیٹھے اور کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے بعد جنرل صاحب ایک ندی کنارے پہنچے جو کہ مچھلیوں سے اس طرح بھری ہوئی تھی جیسے نہر فونتاکا کے کنارے کی مچھیرے کی دکان۔
“اگر یہ مچھلیاں ہی پکا لی جائیں!” جنرل صاحب نے شدید بھوک کے عالم میں خود کلامی کی۔ پھر ان صاحب نے ایک جنگل میں بٹیر، جنگلی مرغ اور خرگوش دیکھے مگر انہیں پکڑنے کی کوئی سبیل نہ تھی سو انہیں خالی ہاتھ ہی اپنے مقامِ روانگی کی طرف لَوٹنا پڑا۔ دوسرے جنرل صاحب پہلے ہی وہاں موجود تھے۔
“کوئی اچھی خبر یور ایکسی لینسی؟”
“مجھے ماسکو گزٹ کی ایک پرانی کاپی کے سوا کچھ نہیں ملا”
دونوں جرنیل لیٹ گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے مگر بھوک انہیں کہاں سونے دیتی تھی، پھر انہیں اپنی پنشن کی فکر ستانے لگی۔
“یور ایکسی لینسی، کوئی کیونکر تصور بھی کر سکتا ہے کہ کھانا بھی اپنے اولین مرحلے پر پانی میں تیر رہا ہوتا ہے، فضا میں اُڑ رہا ہوتا ہے یا درختوں سے لٹک رہا ہوتا ہے!”
جنرل صاحب نے جو مچھلیاں، پرندے اور پھل دیکھے تھے، ان کا خیال آتے ہی بولے۔
“لہٰذہ جب کوئی تیتر کھانا چاہے تو پہلے اسے پکڑے، پھر ذبح کرے، پھر اس کے بال و پر اتار پھینکے اور پھر اسے پکائے۔ مگر یہ سب کچھ کیسے کیا جائے؟”
“بالکل! بھلا کیونکر کیا جائے؟” دوسرے جنرل صاحب نے بھی تائید کی۔
“مجھے تو اتنی بھوک لگی ہے کہ میں اپنے بوٹ کا چمڑا ہی کھا جاؤں گا!”
“دستانہ بھی بُرا نہیں ہے!” دوسرے جنرل صاحب بولے۔
“بالخصوص جب وہ پہن رکھے ہوں” اچانک دونوں جرنیلوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ان کی آنکھوں میں ایک چنگاری بھڑکی، دانت بھنچ گئے، ان کے نرخرے سے ابھرنے والی آوازیں منہ سے پھٹ پڑیں اور اگلے ہی لمحے وہ باہم گھتم گتھا، لڑ رہے تھے۔ ان کے کراہنے کی آوازوں اور ٹوٹ کر اڑتے بالوں سے فضا بھر گئی۔ سوءِ اتفاق کہ جو جنرل صاحب کسی زمانے میں اسکول کے استاد رہے تھے، انہوں نے دوسرے جنرل صاحب کے گلے کا تمغہ ہی نگل لیا۔ خیر، جب ایک دوسرے کا خون دیکھا تو دونوں نے ہوش کے ناخن لئے۔
“اس کے بعد تو ہم ایک دوسرے کو کھانے لگیں گے!”
“ہم اس دن تک کیسے پہنچے!”
“یہ ہم کس شیطانی بغض کے جھانسے میں آ گئے تھے!”
دونوں نے ایک دم ہم خیال ہو کر کہا۔
“یور ایکسی لینسی، ہمیں کچھ خوشگوار سوچنا چاہیئے ورنہ ہم قتل کر بیٹھیں گے” دوسرے جنرل نے کہا۔ “مثال کے طور پر آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ سورج پہلے غروب کیوں ہوتا اور بعد میں طلوع کیوں ہوتا ہے بجائے اس کے کہ اس سے برعکس ہوا کرے؟”
“کیا احمقانہ سوال ہے جناب! کیا آپ خود صبحدم بیدار نہیں ہوتے؟ پھر دفتر جاتے ہیں، لکھائی پڑھائی کرتے ہیں اور آخر کار تھک ہار کر آرام کرنے کو گھر آتے ہیں!”
“لیکن جناب اس کے بر عکس کیوں نہ کہا جائے؟ میں پہلے بستر کو جاتا ہوں ناں، نیند میں بھانت بھانت کے خواب دیکھتا ہوں پھر جاگ اٹھتا ہوں”
“شاید جب میں نے سرکاری نوکری کی تھی تو ہمیشہ صبح کو ہی آغاز کے طور پر سوچا۔ پھر شام کا ہونا اور پھر رات کا کھانا اور پھر بستر پہ جانا” رات کے کھانے کے ذکر نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کر کے ان کی بھوک کی ٹیسیں تازہ کر دیں۔
“میں نے ایک بار کسی ڈاکٹر سے سُنا تھا کہ انسان محض اپنی جسمانی رطوبتوں پر ہی کئی دن زندہ رہ سکتا ہے” ایک جنرل صاحب نے بات چھیڑی۔
“واقعی؟”
“جی ہاں! اس سے لگتا ہے کہ ایک رطوبت سے دوسری پیدا ہوتی ہے مگر وہ ایک دوسرے کو پی جاتی ہیں اور بالآخر ساری ختم ہو جاتی ہیں”
“پھر؟”
“پھر اس کے بعد انسان کو کچھ کھانا چاہیئے”
درحقیقت اب جرنیل صاحبان جس موضوع پر بھی بات کر رہے تھے، بات کی تان ٹوٹتی تھی آ کر کھانے پر! اور اس سے ان کی بھوک بھڑک اُٹھتی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ باتیں چھوڑیں اور دوبارہ ماسکو گزٹ کی اس کاپی کو تفریح کی خاطر پڑھیں جو انہیں ملی تھی۔
“گزشتہ روز” ایک جنرل صاحب نے لرزتی ہوئی آواز میں پڑھنا شروع کیا۔ “ہمارے تاریخی دارالخلافہ کے گورنر نے ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں سینکڑوں مہمانانِ گرامی مدعو تھے۔ یوں لگتا تھا دنیا بھر کے باذوق خوش خوراک یہاں دعوت کے اہتمام کیلئے اکٹھے تھے۔ قفقاز کے شاہی تیتر، کیسپیئن کے ساحلوں سے ملنے والی بڑی بڑی مچھلیوں کے انڈوں سے بننے والا لذیذ اچار حتیٰ کہ اسٹرابیری جس کا فروری کے مہینے میں ہمارے شہر میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔”
“خُدارا! کیا دنیا میں کوئی اور موضوع نہیں ہے؟؟” دوسرے جنرل صاحب نے مایوسی میں کہا اور اپنے رفیق کار کے ہاتھ سے اخبار لے لیا اور خود پڑھنے لگے۔
“تولا سے نامہ نگار لکھتا ہے کہ دریائے اوپا سے ایک بڑی استرجن مچھلی پکڑے جانے کی خوشی میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ مذکورہ مچھلی کو ایک بڑے چوبی طشت میں پیش کیا گیا اور اس پہ کھیرے کی قاشوں کا ایک پہاڑ تھا جس کی چوٹی پہ ایک ننھا سا پھول گاڑا گیا تھا۔ ڈاکٹر ‘ر’ نے خصوصی تردد سے اس امر کو یقینی بنایا کہ تمام مہمانوں کو ان کا مناسب حصہ ملے۔ چٹنی تو اتنی لذیذ تھی کہ۔۔۔”
“مائی ڈئیر ایکسی لینسی! لگتا ہے آپ بھی بڑی جانبداری سے اخبار پڑھ رہے ہیں!” یہ کہہ کر جنرل صاحب نے دوبارہ اخبار ان سے لے لیا اور پڑھنے لگے۔
“ویاتکا سے ایک نامہ نگار لکھتے ہیں کہ ایک بوڑھے مچھیرے نے مچھلی کی حلیم بنانے کی ایک نئی ترکیب ایجاد کی ہے کہ ایک چپٹی (ٹربوٹ) مچھلی کو مگدر سے اتنا کُوٹیں کہ اس کا کلیجہ غضب سے سُوج کر۔۔۔” اب دونوں جرنیلوں کی حد ہو چکی تھی حتیٰ کہ ان کا اپنا ذہن بھی ان سے بے وفائی کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ لیکن پھر اچانک وہ جنرل صاحب جو کہ خطاطی کے استاد رہ چکے تھے، ان کے ذہن رسا میں ایک بات آئی۔
“یور ایکسی لینسی! کیوں ناں ایک دیہاتی ڈھونڈا جائے! ایک عام دیہاتی! جو بالیقین ہمارے لئے بٹیر اور وہ مچھلیاں پکڑے اور رول بنا کر ہمیں پیش کرنے کی استعداد رکھتا ہوگا”
“بہت خوب! مگر آپ کے خیال میں وہ دیہاتی کہاں سےملے گا؟”
“ارے وہ تو بہت آسان ہے! دیہاتی ہر جگہ پائے جاتے ہیں! اس جزیرے پر بھی ہو گا، بس ہمارا کام اسے تلاش کرنا ہے۔ ممکن ہے وہ یہیں کہیں چھپا ہو، کیونکہ وہ سست اور کاہل ہو گا اور کام چوری سے یہیں چھپ گیا ہو گا!” اس تجویز سے دونوں جرنیل صاحبان کو اتنی مسرت ہوئی کہ وہ اچھل کر اپنی جستجو میں نکل پڑے۔ کافی دیر تک کی ناکام تلاش کے بعد انہیں باسی کھانے کی بساند نے ایک درخت کی طرف متوجہ کیا تو وہ اس جانب گئے جہاں درخت کے نیچے ایک لمبے چوڑے جُثے کا دیہاتی لیٹا تھا اور واضح طور پر، نہایت بے ہودہ انداز میں کام سے جی چرائے سو رہا تھا۔ جرنیل صاحبان غصے سے لال پیلے ہو گئے۔ انہوں نے ایک جھٹکے سے اسے قدآدم کھڑا کر دیا۔
“تُم سو رہے ہو؟ ؟ اور دو جرنیل صاحبان نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا!! چلو اسی لمحے کام پہ لگ جاؤ!”
دیہاتی نے لمحے بھر کو تو فرار ہونا چاہا مگر دو جرنیلوں کے غیض و غضب کو دعوت دینا سنگین غلطی تھی۔
ابتداََ تو وہ درخت پر چڑھا اور جنرل صاحبان کیلئے درجن بھر اچھے اچھے سیب توڑے اور ایک نیم کچا سیب اپنے لئے رکھ لیا۔ پھر اس نے زمین کھود کر کچھ آلو نکالے اور لکڑیوں کی رگڑ والے طریقے سے آگ جلائی۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال کاٹ کر ان سے ایک پھندا بنایا اور ایک تیتر بھی پکڑ لیا۔ پھر اس نے یہ چیزیں اس عمدگی سے پکائیں کہ جنرل صاحبان کو یہ خیال بھی آیا کہ اس لذیذ کھانے میں سے کچھ اس کاہل بنجارے کو بھی دے دیا جائے۔ جرنیل صاحبان بھول گئے کہ وہ فاقہ کشی کرتے رہے تھے اور اب وہ اس احساسِ تفاخر سے بھر گئے کہ وہ جرنیل تھے جنہوں نے ہر طرح کے حالات میں اپنی برتری کا سکہ جما لیا تھا۔
“اب آپ مطمئن ہیں جرنیل صاحبان؟” کاہل دیہاتی نے پوچھا۔
“ہم تمہاری کاوش سے مطمئن ہیں پیارے دوست” جرنیلوں نے جواب دیا۔
“تو میں کُچھ آرام کر لوں؟”
“یقیناََ میرے بھلے مانس! مگر پہلے ہمیں ایک رسہ بنا کر دے دو”۔
دیہاتی نے فوراََ کچھ جنگلی پٹ سن اکٹھی کی، اسے بھگویا، اس کے لچھے بنائے اور شام ڈھلے تک وہ ایک رسہ بُن چکا تھا۔ اس رسے سے جرنیل صاحبان نے یہ کارِ خیر کیا کہ اس دیہاتی کو ایک درخت سے باندھ دیا تاکہ وہ کہیں فرار نہ ہو جائے۔ اس کے بعد وہ سو گئے۔ دن گزرتے گئے اور دیہاتی ایسا ماہر ہو گیا کہ کہیئے تو ہتھیلی پر یخنی پکا لے! جرنیل صاحبان خوش باش، صحتمند اور فربہ ہو گئے۔ انہیں احساس ہونے لگا کہ وہ کرہء ارض کے بہترین قطعے پر رہ رہے ہیں جبکہ سینٹ پیٹرزبرگ میں ان کی پنشن کی رقوم بھی اکٹھی ہو رہی تھیں۔
“یور ایکسی لینسی! یہ مینارِ بابل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ حقیقت ہے یا فقط دیومالا؟”
“یقیناََ سچ ہی ہو گا! ورنہ اتنی زبانوں کا وجود کس کھاتے میں ڈالیں گے؟”
“پھر تو طوفانِ نوحؑ بھی سچ میں آیا ہی ہو گا؟”
“بے شک آیا تھا! کیا ہمیں طوفان سے پہلے کے جانوروں کے وجود کا پتہ نہیں ہے؟ میں نے خود ماسکو گزٹ میں پڑھا تھا”
“چلیں پھر ماسکو گزٹ پڑھتے ہیں”
پھر وہ کوئی پرانا شمارہ لیتے، چھاؤں میں بیٹھ کر اول تا آخر پڑھتے۔ ماسکو اور تولا اور دیگر جگہوں پہ لوگ کیا کھا رہے ہیں، انہیں کوئی فرق نہ پڑتا تھا اور ظاہر ہے کہ رشک تو بالکل بھی نہ آتا تھا۔
لیکن انجامِ کار، جرنیل صاحبان زندگی کی یکسانیت سے اُکتا گئے۔ انہیں خیابانِ سُرخ فیتہ کے خوان اور خانساماں یاد آنے ہی لگے۔ حتیٰ کہ وہ خلوتوں میں آنسو بہانے لگے۔
“یور ایکسی لینسی، آپ کے خیال میں اس وقت خیابانِ سرخ فیتہ میں کیا ہو رہا ہو گا؟” ایک جنرل صاحب نے دوسرے سے پوچھا۔
“اس کا تذکرہ نہ کریں یور ایکسی لینسی” دوسرے جنرل صاحب نے جواب دیا “میرا دل بھلے وقتوں کی یاد میں بے قرار ہو رہا ہے۔ یہاں بڑی آسائش ہے، بہت آسائش۔۔۔ ہم شکوہ نہیں کر سکتے مگر یہ تنہائی تھکا دینے والی ہے۔۔۔ ہے ناں؟ پھر اس پہ یہ کہ مجھے اپنی وردی کی یاد آتی ہے”
“بے شک۔۔۔ اور بالخصوص جب وہ اعلیٰ درجے کی ہو۔۔ اس کے چمکیلے تسمے آنکھوں کو چندھیا دیتے ہیں” سو انہوں نے دیہاتی کو بڑے اشتیاق سے اصرار کیا کہ انہیں خیابانِ سُرخ فیتہ لے جائے۔ انہیں معلوم ہوا کہ وہ دیہاتی بھی وہاں جا چکا ہے۔
“تمہیں پتہ ہے! ہم خیابانِ سرخ فیتہ کے جرنیل ہیں!” جرنیلوں نے لہک لہک کر مسرت کا اظہار کیا۔
“اور میں ایک رنگساز جو کہ گھروں کے باہر لٹک کر رنگ روغن کرتا ہوں اور ایک منڈیر سے دوسری تک مکھی کی طرح اڑ اڑ کر جاتا ہوں، شاید کبھی آپ نے مجھے توجہ سے ملاحظہ فرمایا ہو!” یہ کہہ کر وہ جرنیل صاحبان کی ضیافتِ طبع کیلئے رقص کرنے لگا۔ ظاہر ہے، کیا اُن جرنیلوں نے اُس کاہل بنجارے کے ساتھ شفقت کا رویہ نہیں رکھا تھا؟ اور کیا اس کی معمولی خدمات پر سرپرستانہ مہربانی نہیں فرمائی تھی؟ سو اس دیہاتی نے ایک کشتی بنائی جس سے وہ سمندر پار کر کے خیابانِ سرخ فیتہ پہنچ سکتے تھے۔
“دھیان رہے! ہمیں ڈبو ہی نہ دینا!” جرنیلوں نے لہروں کے دوش پر ایک کمزور سی شے بل کھاتی دیکھی تو چِلا اُٹھے۔
“فکر مت کریں جرنیل صاحبان۔۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے!” دیہاتی نے کہا اور روانگی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ دیہاتی نے کشتی کے پیندے میں ہنس راج کے پر بچھائے اور ان پر جرنیلوں کو بٹھا دیا، ان پہ مقدس صلیب کا نشان بنایا اور سفر کا آغاز کر دیا۔ ہر طرح کے طوفانوں، بپھری ہواؤں نے ان کا راستہ کاٹا، جرنیل صاحبان جس خوف سے گزرے، ناقابلِ بیان ہے مگر دیہاتی کشتی کھینے سے پل بھر کو نہ رُکا، ماسوائے اُن وقفوں کے جب وہ اپنے ہمسفروں کو کھلانے کیلئے مچھلیاں پکڑتا تھا۔ بالآخر وہ نیوا پہنچے۔۔پھر نہرِ کیتھرین اور پھر عظیم الشان خیابانِ سرخ فیتہ وارد ہوئے۔
وہاں کے خانساماں اپنے جرنیل صاحبان کو اتنے فربہ، سرخ و سپید اور خوش مزاج دیکھ کر حیرت سے ہاتھ باندھے کھڑے تھے! جرنیل صاحبان نے کافی پی، مکھن کے ساتھ رول کھائے اور پھر اپنی وردیاں زیب تن کیں۔پھر وہ دونوں شاہی خزانے تشریف لے گئے اور قلم لکھنے سے قاصر ہے، زبان بیان سے معذور ہے کہ کتنی خطیر رقم ان دونوں نے وصول کی۔
لیکن ایسا نہیں کہ وہ اپنے غریب دیہاتی کو بھول گئے ہوں! ہرگز نہیں! انہوں نے اسے برانڈی کا ایک گلاس پیش کیا اور چمکتا ہوا پانچ کوپیک کا سِکہ!! ہمراہ ان تعظیمی الفاظ کے:
“تمہارا جامِ صحت! اے عظیم، احمق دیہاتی!”
میخائل سلتیخوف (1826-1889) روسی ادب میں سب سے بڑے طنز نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر ایک سول سرونٹ تھے اور نکولائی شیدرن کے قلمی نام سے لکھتے تھے۔ انہوں نے روسی معاشرے میں کرپشن، افسر شاہی کی نا اہلی، قابل لوگوں میں موقع پرستی کے رجحان،جبکہ عوام کی بے حسی اور بے عملی پہ طنز کی گہری چوٹیں کیں۔اس وجہ سے ان پہ حب الوطنی کی کمی کا الزام بھی لگایا گیا مگر انہوں نے روس کے ادبی طنز و مزاح میں ایک روایت کی بنیاد ڈالی جس نے روسی عوام میں طبقاتی کشمکش کے شعور کو ایک نئی راہ پہ ڈالا۔ مترجم ذکی نقوی
تبصرے
عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ ماسوائے ایک لفظ “شبد” کے، باقی سب سمجھ آیا ، اور پڑھ کر مزا بھی آیا۔ یہ شبد کس زبان کا لفظ ہے ؟