پرانے روزنامچے میں اونگھتے دن

انامیکا!

اگر ان ہی دنوں ہم سے خدا بھی پوچھتا
—————-تو ہم فقط اپنی لِکھت کی ہی قسم کھاتے
ہمیں پورا یقیں تھا
——–جو بھی لکھیں گے فلک پر کہکشاں بن کر ہمیشہ مسکرائے گا
مکاں کے حافظے میں اور زماں کی لوح پر
————ازلوں تلک وہ جگمگائے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اس موسم کا قصہ ہے
————کہ جب اندھے یقیں کی عمر کا نشّہ
————جوانی کی امنگ
اور دل کے کہنے پر سبھی کچھ کر گزرنے کا
——————–کوئی لاوا رگ وپے میں دھڑکتا تھا
صحیفے، آسماں، یہ کائناتیں اور خدا
——–ہم کو سبھی کچھ ہیچ لگتا تھا
فقط اپنا ہی ہونا آخری سچ تھا
گو ایسا تھا
کہ اک افلاس کا تپتا ہوا سورج ہمارے سر پہ رہتا تھا
ہمیں بس بے کراں سی بھوک تھی
——–اتنے بڑے عالم میں پلتی ایک اک شے کی
کوئی خفگی، کوئی غصہ، کوئی ناراضگی بے دید سی شے سے
——————–جسے ہم جانتے کب تھے؟
کوئی بے شکل سی، بے نام سی اک آرزو کا سحر تھا
——–جس میں ہمیشہ ڈوبے رہتے تھے
——————–جسے ہم مانتے کب تھے؟
کسی آدرش میں بھیگی ہوئی اک تابناکی تھی
کہ اپنے خون سے اس ساری دنیا کو نیا پھر سے بنائیں گے
فلک کو چومتے کہسار جیسا اک ارادہ تھا
——–کہ جو لکھے ہوئے لفظوں کی شریانوں میں بہتا تھا
قلم بارود کے دریا اگلتا تھا
تخیل پر دہکتی آبشاریں راج کرتی تھی
فقط تاراجیٔ دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
فقط بربادیٔ ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
مگر اک خوبصورت سی نئی دنیا بسانے کو
—————-نیا انساں بنانے کو
سو ہم کو یہ یقیں تھا جو بھی لکھیں گے
——–فلک پہ کہکشاں بن کر ازل تک مسکرائے گا

انامیکا!
مگر یہ وقت کا پتھر قلم کی ضرب سے کس طور ٹوٹے گا!!

غارِثور سے کائنات کا نظارہ

انامِکا ! سن
میں کیسے تاریخ کے وہ سارے رجسٹروں کو ہی پھاڑ دیتا
پھر ان کے ٹکڑے گئے زمانوں کے کوڑے دانوں میں پھینک آتا
اور اپنی مرضی سے اک نئے دودھیا ورق پر پھر اپنا ماضی بکھیر دیتا
یہ ایسا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

سو کیا میں کرتا
کہ میں جو تاریخ کی شرارت
اسی کی شوخی کا شاخسانہ
خدا کی مٹھی سے دھیرے دھیرے پھسلتی جاتی کوئی کہانی؟
——————–کہ نامکمل سی کوئی تمثیل؟
میں اس کی عِلت ہوں یا نتیجہ؟
میں اس کا فنکار ہوں کہ فن ہوں؟
ازل سے جاری کسی ڈرامے کا کوئی ہیرو
——–کہ بس اضافی سا کوئی کردار

انا مِکا! بات ایسی آسان بھی نہیں تھی
سو میں اٹھا
——–اور ہاتھ جھاڑے
—————-ذرا سا چو گرد میں نے دیکھا
——————–بیاض تھامی
بڑی خموشی سے اس زمان ومکاں کے جھنجھٹ سے لوٹ آیا

ادھورے خواب کا نوحہ

انا میکا!
کہانی گھومتی پھرتی اسی نقطے پر آئے گی
——–جہاں پر بے یقینی کے گھنے جنگل
——–وساوس اوڑھ کر چپ چاپ بیٹھے ہیں
ادھورے عہد میں ایمان کی تکمیل کیا ہوتی؟
——–یہاں تو خود خدا بھی نامکمل ہیں
تو پھر کیسے میں اپنی ذات کی تیرہ حدوں سے بھاگ سکتا تھا؟
مری سوچوں کی لوحوں پر
——–مری ماں نے وہی کندہ کیا تھا
جو اسے اجداد نے اپنی وارثت میں تھمایا تھا
انا میکا!
تمہارے واسطے میں کوئی خوشخبری نہیں لایا
جھلستی رہگزاروں سے میں کیسے پھول لے آتا؟
اندھیروں کے جہنم سے میں کیسے روشنی لاتا؟
ابھی برفیں نہیں پگھلیں
——–نہ ساحل پر پڑے دریاؤں کی نیندیں ہی ٹوٹی ہیں
مگر پھر بھی
——–میرے اس آرزوؤں کے ہرے آنگن میں چڑیاں چہچہاتی ہیں
——————–(وہ تم لے لو)
میں اپنی ناک پر خوش فہمیوں کی کوئی عینک رکھ نہیں سکتا
مگر کم تو نہیں، پھر بھی تمہارے ساتھ ہنستا ہوں
تمہارے قہقہوں کی بارشوں میں بھیگ جاتا ہوں
——–کہ شاید اک نہ اک دن میں بھی اس شہرِ سبا کا بھید پا لوں
——–جس کے بارے میں
——–مرے اجداددن بھر کی مشقت کاٹ کر مجھ سے یہ کہتے تھے:
————"سنو اک روز ایسا آئے گا
————جب تم بہاروں کے نگر میں پھول بن کر مسکراو گے”
پہ کتنی ان گنت صدیاں سلو موشن کے پنگوڑے میں بیٹھی ہیں
اور اب تو میرے بالوں میں بھی چاندی کا بسیرا ہے
نگاہیں آج بھی ان آرزوئوں کے کھنڈر میں گشت کرتی ہیں

سوچوں کے ہینگر پہ ٹنگی آنکھیں

انا میکا!
ذرادیکھو
——–کہ سورج کتنے جنموں سے مری گلیوں میں ٹھہرا ہے
مگر ایسی سیاہی تو کبھی دیکھی نہیں ہو گی
سیہ سورج
سیہ گندم
سیہ آنسو
سیہ پرچم
سیہ اوراق بھی تم نے کبھی دیکھے نہیں ہوں گے
انامیکا! جنم بھومی ہے یہ میری
——–جہاں عیسیٰ صلیبِ شہر کا ہمزاد ہو بیٹھا
پھر اس کے بعد سے جو دن چڑھا
——–وہ لب پہ گالی، ہاتھ میں پستول لے کر سر پہ آ بیٹھا
یہاں جب رات بھی آئی
——–تو سر میں مقتلوں کی راکھ، آنکھوں میں لہو لائی
مرا ٹیچر تو کہتا تھا :
——–"محبت مر نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
——–شعوروآگہی بھی بک نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
پہ میرے شہر میں ہمدم!
——–شعوروآگہی حرص وہوس کارزق بنتے ہیں
(وہ شاید سچ ہی کہتا تھا
——–کہ وہ اس وقت ٹیچر تھا، میں اک معصوم سا بچہ)
مگر جب مکتبوں سے ڈگریاں لے کر میں لوٹا تھا
اسی دن سے
——–مرا یہ شہر تو اندھے سرابوں کے
——–کسی لامنتہا جنگل میں رہتا ہے
اور اب تو اپنے ماضی کے ہزاروں بت تراشے
——–مسجدوں میں گونجنے والی اذانوں پر وہ اٹھتا
——————————–اور سوتا ہے
شکستہ یاد کی سیڑھی پہ بیٹھا
——–ہاتھ میں تسبیح کے دانے گھماتا اور کہتا ہے کہ
——–اب لوحِ مقدر پر لکھا مٹ ہی نہیں سکتا!!
انا میکا!
مری سوچوں کے ہینگر پر ٹنگی آنکھیں یہ کہتی ہیں :
——–"ستارے کیوں نہیں چمکے؟
——–سویرے کیوں نہیں مہکے؟
——–چوراہے میں کھڑے برگدکی آنکھیں کیوں نہیں برسیں؟
——–زبانوں پر لگے چپ کے یہ تالے کیوں نہیں ٹوٹے؟
——–خیالوں میں تنے مکڑی کے جالے کیوں نہیں اترے؟”
انا میکا!
تمہیں شب کے کناروں پر نیا سورج بنانا ہے
تمہیں اندھے نگر کے ہاتھ پر آنکھیں بنانی ہیں
——–صداقت امر کرنی ہے!

کائنات سے باہر گری وقت کی کترن

امر لمحہ
(کہ جیسے ہو کسی ویرانے میں اک اونگھتا معبد)
ہزاروں سال پہلے مضطرب گوتم کے من میں آن ٹھہرا جو
گزشتہ کل صحن کی ادھ گری دیوار کے نزدیک
——–جس پر جنگلی بیلیں دسمبر کی سنہری دھوپ
——–میں مدہوش لیٹی ہیں
——–مرے اندر اتر آیا تھا دھیرے سے
یہ ساری کائناتیں جم گئی تھیں یوں
کہ جیسے ہوازل کے بیکراں ساگر میں ٹھہری شانتی کا نم
ہوا، خوشبو، خموشی، رنگ
——–جو تھے اس زمیں کے اولیں باسی
——–مجھے پہلی دفعہ ملنے کو آئے تھے
یہ شاید وقت اس لمحے ہی جنما تھا
وہ جس کی دوڑ سے ناآشنا
——–ماچس کی ننھی تیلیوں کے کھیل میں گم سم انا میکا
—————-اسی لمحے میں جیتی ہے
سو اس کے سامنے مغرور سایہ وقت پیچ وتاب کھاتا یوں کھڑا ہے
—————————-جیسے بے بس ہے

انامیکا!
بچارے وقت کو بس دوڑنے
——–اور ہانپنے
یا بیت جانے کے سوا
————آتا ہی کیا کچھ ہے؟

Leave a Reply