میں خود سے مایوس ہوں
جیسے سمندر مایوس ہوتا ہے
اپنی اتھاہ گہرائی اور جل تھل میں پنہاں تشنگی سے
خود میں اکیرنے کے لئے کچھ بھی نہیں
میں اس حالت سے مطمئن نہیں ہو سکتی
یہ ان ہنستے کھیلتے چہروں کا مقدر نہیں
میں
جیسے خلاء میں ٹھہرا ہو مردہ
جس کی سالمیت کسی حنوط کی محتاج نہیں
جس پر صدیوں کی سلیں بھی رکھ دی جائیں تو بھی وہ برقرار رہےگا
کیونکہ وہ سمئے چکر سے آزاد ہے
کیا بے کلی زندگی ہے
کیا میں مطمئن ہوں
اگر یہ آسودگی ہے
تو وحشتیں کیسی
سب نے یہ الزام لگایا
کہ یہ تمہارے جانے کی وجہ سے ہے
لیکن تم کبھی گئے ہی نہیں
تم فطرت تھے
جو ہر جگہ ہے
سبز سایوں کی وہ ٹھنڈک تھے
جس سے آنکھیں تسکین حاصل کرتی تھیں
تم وہ ہر حسین منظر تھے
جس سے کائنات میں دیدہ ور سیراب ہیں
لیکن اب
میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی
کہ نگاہیں اپنا خراج وصول کر چکیں ہیں
تمہاری حصول کی خواہش سے میں آزاد ہوں
میں ہر خوا ہش سے آزاد ہوں
کبھی کبھی ہنس لیا کرتی ہو ں
مگر اہل دل نے یہ فرمان سنایا ہے
کہ ہنسنا بے ضمیری کی علامت ہے
ضمیر کیا ہے
اس کی شناخت کے لئے وہ بے کلی چھوڑ گئے