Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

بلدیات، بلدیاتی انتخابات اور چند خامیاں

test-ghori

test-ghori

19 دسمبر, 2015
بلدیاتی نظام کا آخری مرحلہ بھی خدا خدا کر کے مکمل ہوا اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے دعوے کو اب حقیقت کا جامہ پہنانے کے عمل کا آغاز قریب ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے دعوے کس قدر سچ ہیں اور کس قدر مبالغہ، اس کا فیصلہ تو آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا جب منتخب نمائندے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے حکومت سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں واپس جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کی تکمیل خوش آئند امر ہے لیکن اس سارے ععمل میں چاروں صوبوں کے بلدیاتی نظام کی خامیاں ایک مرتبہ پھر عیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

ضابطہ اخلاق میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ پولنگ اسٹیشن کے احاطے میں یا اس کے قرب و جوار میں ہونے والے جھگڑوں پر کون کارروائی کا حکم دے گا۔
راقم کو خود حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تین انتخابی حلقوں کے مشاہدے کا موقع ملا اور کم و بیش ہر جگہ حالات ایک طرح کے نظر آئے۔ جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مرتبہ پھر شفاف اور منصفانہ انتخابات کروانے میں بہت حد تک ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پولنگ افسران کے لیے جو حفاظتی اہلکار تعینات کیے گئے تھے ان کے لیے ایک ضابطہ اخلاق نمبریF.4(10)/2015-LGE(P) جاری کیا گیا جس کے تحت ریٹرننگ افسران اور پریزائڈنگ افسران کسی بھی نازک صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو طلب کرنے کے مجاز تھے۔ یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کے اختیار میں تھا۔ لیکن شاید انہیں اپنے اختیارات کا پتا نہیں تھا یا ان کی تربیت ہی نہیں کی گئی تھی کہ بلدیاتی امیدواروں کے انتخابی نمائندے بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ ان سے الجھتے رہے اور انتخابی عملہ بے بس نظر آیا۔

مذکورہ بالا ضابطہ اخلاق میں ایک شق تھی کہ کسی بھی ہنگامے یا افراتفری کے حوالے سے سیکیورٹی اہلکار پریزائڈنگ افسر کے طلب کرنے پر قانونی کارروائی کریں گی۔ ضابطہ اخلاق میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ پولنگ اسٹیشن کے احاطے میں یا اس کے قرب و جوار میں ہونے والے جھگڑوں پر کون کارروائی کا حکم دے گا۔ پولنگ اسٹیشن زیادہ تر سرکاری سکولوں میں بنائے گئے۔ پریزائڈنگ افسر ایک مخصوص کمرے میں انتخابی مراحل کی نگرانی کر رہا ہے تو ایسی صورت میں سکول کے احاطے میں ہونے والے ہنگامے پر وہ کس طرح کارروائی کے احکامات دے گا۔ یہ بظاہر چھوٹی سی خامی ہے لیکن اس کا اثر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک جگہ دو مخالف دھڑوں کے درمیان سکول کے اندر ہاتھا پائی ہو گئی۔ لیکن صورت حال قابو کرنے میں اتنا وقت صرف ہو گیا کہ ووٹ ڈالنے کے منتظر لوگ شدید پریشانی کا شکار ہوئے۔

سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے جو ضابطہ اخلاق جاری ہوا اس کی شق 4 میں ایک جگہ درج ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن کی حدود کے 200میٹرکے اندر کسی کو قائل نہیں کریں گے۔ لیکن راقم جس پولنگ سٹیشن پر بھی گیا وہاں نہ صرف تمام امیدوار موجود تھے بلکہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر انتخابی مہم بھی جاری تھی۔
اسی طرح پولنگ ایجنٹس کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا اور اس ضابطہ اخلاق کی شق 3 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹس پولنگ اسٹیشنوں کے اندر یا باہر 400 میٹر کی حدود تک کسی ووٹر کو اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کا نہیں کہہ سکتے ۔ لیکن اس کے برعکس پولنگ ایجنٹس پولنگ اسٹیشن کے اندر انتخابی عملے کے سامنے بھی ووٹروں کو نشانات دکھا کر یاددہانی کراتے نظر آئے۔ اس ضابطہ اخلاق کی شق 4 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹ ہر اعتراض کے عوض مبلغ 50 روپے پریزائڈنگ افسر کے پاس جمع کروائے گا۔ اور شق 5 میں یہ درج تھا کہ غیر ضروری اعتراضات کی اس لیے ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کہ اس سے انتخابی عمل متاثر ہو گا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ امیدواران اس مقصد کے لیے سمجھدار، شریف اور دیانت دار افراد کا انتخاب کرتے لیکن حیران کن طور پر تمام امیدواروں نے چن کر وہی لوگ اپنے پولنگ ایجنٹ نامزد کیے جو علاقے میں جھگڑالو مشہور تھے۔ یہ ایجنٹ ہر ووٹر پہ اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اسی لیے ہر پولنگ اسٹیشن پر ہر تھوڑی دیر بعد توتکار ہوتی رہی۔ شق 6 میں کہا گیا کہ پولنگ ایجنٹ کے لیے لازم ہے کہ وہ اعتراض کرتے ہوئے مہذب رہے اور پریزائڈنگ افسر سے بات کرتے ہوئے لہجہ دھیما رکھے۔ لیکن پولنگ ایجنٹ تو کجا امیدواروں کے حامی بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ سوار نظر آئے۔

سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے جو ضابطہ اخلاق جاری ہوا اس کی شق 4 میں ایک جگہ درج ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن کی حدود کے 200میٹرکے اندر کسی کو قائل نہیں کریں گے۔ لیکن راقم جس پولنگ سٹیشن پر بھی گیا وہاں نہ صرف تمام امیدوار موجود تھے بلکہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر انتخابی مہم بھی جاری تھی۔ شق 5 کے مطابق کسی بھی پولنگ ایجنٹ یا امیدوار کے لیے پولنگ اسٹیشن کی 100میٹر کی حدود میں ووٹر کو راغب کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا بینر، اشتہار یا نشان لگانا ممنوع تھا۔ لیکن اس کے برعکس پولنگ اسٹیشن کے اندر ایسی گاڑیوں کی بھرمار تھی جن پر امیدواروں کے اشتہارات آویزاں تھے۔ بعض مقامات پر پولنگ ایجنٹس بھی قواعد کے برعکس نشان بتاتے رہے۔
ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی پوسٹر کا سائز 24 x 23 انچ جب کہ بینر کا سائز39×24 انچ سے تجاوز کرنے کی ممانعت تھی اور ہورڈنگز پر مکمل پابندی تھی۔ لیکن حیران کن طور پر 25×50جسامت کے بینر بھی آویزاں تھے۔ اور بل بورڈ، سائن بورڈز اور روڈ سائڈ ہورڈنگز کا سہارا بھی لیا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ پہلے ہورڈنگز انتخابی مہم کی تھیں اور اب ان کے بعد اسی جسامت کے شکریے کے بینر اور ہورڈنگز نصب ہیں اور ضابطہ اخلاق پر عمل کروانے والے خاموش تماشائی ہیں۔

کسی بھی قسم کا ضابطہء اخلاق صرف اس صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس پر عمل در آمد کا پورا ایک نظام موجود ہو اور عام عوام کو اس ضابطہ ء اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی فوری طور پر رپورٹ کرنے کا شعور ہو۔
شق 16 کے مطابق انتخابی امیدواروں اور ان کے حامیوں پہ لازم تھا کہ وہ تنقید صرف کام اور پالیسیوں پہ کریں لیکن تمام امیدواران ایک دوسرے کی ذات کے بخیے ادھیڑتے نظر آئے۔ جہاں تک تعلق ہے شق17 کا کہ خاندان کے افراد کے علاوہ ووٹر کو اپنی گاڑی میں لانا ممنوع تھا تو شاید پورا حلقہ ہی امیدواروں کا خاندان ہوتا ہے۔ شق 20 کے مطابق یونین کونسل چیئرمین اور وائس چیئرمین 10 لاکھ اور یونین کونسل کے ممبران کو 20 ہزار روپے تک کے انتخابی اخراجات کرنے کی اجازت تھی لیکن ایک کونسلر کی سطح پہ بھی لاکھوں خرچ کیے گئے۔

یہ کہنا بے جا نہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیا گیا ضابطہء اخلاق محض کاغذ پر سیاہی کی صورت رہا ورنہ عملی سطح پر ہر جگہ ضابطہء اخلاق کی دھجیاں اڑتی ہی نظر آئیں۔ یا تو ووٹروں کو اپنے حقوق کا پتا نہیں تھا یا پھر وہ جان بوجھ کر انجان بنے بیٹھے تھے۔ امیدواران الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی کسی شق کو خاطر میں نہیں لائے۔ اس بارے میں بھی ابہام ہی رہا کہ آیا سرکاری ملازمین کسی امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ پولنگ ایجنٹ بلا جھجھک ضابطہء اخلاق کے برعکس کام کرتے نظر آئے۔ امیدوار نہ صرف پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود رہے بلکہ انتخابی مہم بھی زوروں پہ رہی۔

کسی بھی قسم کا ضابطہء اخلاق صرف اس صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس پر عمل در آمد کا پورا ایک نظام موجود ہو اور عام عوام کو اس ضابطہ ء اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی فوری طور پر رپورٹ کرنے کا شعور ہو۔ سنتے آئے ہیں کہ انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے ایک کنٹرول روم بنایا جاتا ہے لیکن آج تک اس کنٹرول روم کا حدود اربعہ نامعلوم ہی رہا ہے۔ اس کنٹرول روم کا مقصد کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے یہ بھی کبھی پتہ نہیں چلا۔ راقم کی طرح ہزاروں لوگوں نے لاکھوں خلاف ورزیاں دیکھی ہوں گی لیکن ان کو کسی ایسے نظام سے آگاہی نہیں تھی جس کی مدد سے ان خامیوں اور خلاف ورزیوں کو اعلیٰ سطح پر رپورٹ کیا جا سکے۔ جب تک عوام میں یہ شعور نہیں بیدار کیا جائے گا کہ وہ کسی بھی سطح کی خلاف ورزی کو رپورٹ کر سکتے ہیں اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کے نظام کو جب تک سہل نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک کوئی ضابطہ حقیقی معنوں میں نافذالعمل نہیں ہو سکتا ہے۔ وگرنہ چہرے بدلتے رہیں گے، نام بدلتے رہیں گے، لیکن نظام صرف اس وقت ہی تبدیل ہو گا جب ہم تبدیل کرنا چاہیں گے۔