ادب کھیل تماشا نہیں، نہ ہی تفنن طبع ہے۔ ادب ایک ذمہ داری ہے، ہر اس پڑھنے والے کے لیے جو اس کے مسائل پہ غور کرتا ہے، جو جاننا چاہتا ہے کہ ادب کی ماہئیت کیا ہے؟ اس کے وجود میں آنے کی اسباب و علل کیا ہیں اور اس کے قائم اور دائمی ہو جانے کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ خواہ بادی النظری میں تفنن طبع معلوم ہو، مگر اس کی جہات اور شقوں پر غور کیا جائے، اس کے مقاصد اور اثرات کو سنجیدگی سے جانچا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کے تفنن میں کاری گری اور فکر و نظر کی جلوہ سامانیاں پائی جاتی ہیں۔ میرا موضوع اس مضمون کی حد تک افسانہ ہے، افسانے کا وجود، اس کی ترسیل، اس کی تحلیل، میرا اس سے رشتہ اور میرے اطراف میں افسانے کا پھیلاو وغیرہ۔لیکن اس پر گفتگو کرنے سے قبل میں چند ایک باتیں واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کن سوالات سے میرے افسانوی استفہامے کا رشتہ جڑتا ہے اور کیوں میں اس خیال کے بھنور میں خود کو پھنسا پاتا ہوں کہ افسانے کی شعریات سے الجھوں اور اس کے وجود اور اپنے وجود کے رشتے کی گتھیوں کو ظاہر کروں۔
ادب ہی اس مضمون کا پیش خیمہ ہے۔ ادب جس کا وجود اور جس کے اثرات مجھے پریشان کرنے میں گذشتہ دس برس سے مستقل لگے ہوئے ہیں۔ شاعری، نثر، تخلیق، تنقید، تحقیق یہ سب کیا ہے اس کے ہونے سے ہمیں کیا حاصل ہو رہا ہے۔ اس پر مستقل غور کرنے سے ہمارا کیا نفع ہے اور کیا نقصان ہے یا کون سی شئے ہے جو مجھے سر گرم رکھتی ہے ادب کی تحصیل میں۔ میں اکثر اپنے دوستو ں سے اس بات کا تذکرہ کرتا ہوں کہ ادب وہ خواہ شاعری ہو یا نثر ایک مسلسل عمل ہے، ظاہری نہیں بلکہ باطنی، اس عمل کو روایتی زبان میں بیان کیا جائے تو واردات کا لفظ اس کے لیے خاصہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ شعر ا س کی تکرار،اس کاجنون، اس میں پوشیدہ دل بستگی کا سامان، یہ سب معمہ ہے ان لوگوں کے لیے جو سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں کہ آخر یہ کون سی آوازوں کی تکرار ہے جو ہمیں زندہ رکھنے میں اور ہمارے تحرک میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ کاروباری نوعیت کے لوگ ہوں یا غور کرنے والے اذہان۔ سب اس کی گرفت میں ہیں۔ پھر مزید یہ کہ تخلیق کی سطح پر ہم صیقل کیوں ہو تے چلے آئے ہیں اور مستقل ہو رہے ہیں۔ ہمیں ابہام اور الجھی ہوئی گتھیاں لبھا رہی ہیں۔ نثر کی لٹھ چلاتی ہوئی تخلیقات اپنے حلقہ اثر میں لے رہی ہیں۔ موزونیت کے روز بروز نئے قائدے مرتب ہو رہے ہیں، مگر اس بلائے بے اماں سے ہمارا پیچھا نہیں چھٹ رہا ہے۔
موجودہ عہد پہ غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک انتشار کی لہر ہے جو زندگی کے بے شمار خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جو انسان کو انسان سے غیر متعلق کرنے میں کوشاں ہے۔ جو زندگی کے معمے کو حل کرنے کی جستجو میں، نئی دنیاوں، خلاوں اور کائناتوں کی تلاش میں سر گرم ہے۔ سیاسی بازار میں رقابتوں کا خونی کھیل جاری ہے، زمینیں تنگ ہو رہی ہیں، انسانی نفوس کے حلقوم پرمسائل کی مٹھیوں کی گرفت تنگ سے تنگ تر ہوتی چلی جا رہے، مگر انسان نے ایسے عالم میں بھی شعر، افسانہ، ناول اور تخلیق سے اپنا رشتہ غیر مستحکم نہیں ہونے دیا ہے۔ سب ہو رہا ہے اور یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہم خود غرضی کی چادر تلے انسان دوستی،امن و آتشی کے خواب دیکھنے کی آنکھیں نہیں بند کر پا رہے ہیں۔ مظالم اور افلاس کے نعروں میں جھوم جھوم کر آزادی کے ترانے گا رہے ہیں۔ ادب جی رہے ہیں اور اس کے حلقہ اثر کو جسے کم یا اب تک انسانی زندگی سے ختم ہو جانا چاہیے تھا اس کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کوئی لاکھ صرف نظر کرے مگر میں اپنے اطراف کی ایک اہم صنف ادب ایک فکری ترنگ کے مالہ و ما الیہ پہ غور کرنے پر مجبور ہوں اور خود سے اس طلسم بے فسوں کا تعلق ظاہر کرنے پہ آمادہ معلوم ہوتا ہوں۔ یہ کوئی فریضہ نہیں بلکہ جبر ہے، میرے باطن کا میری ذات پر اور میرے فسون دروں کا میرے اظہار پر۔ اس لیے افسانے کی شعریات سے میں الجھ رہا ہوں اور اس کے اصول و افتراق کو بیان کر رہا ہوں کہ اپنی ذات کی گتھیوں کو سلجھانے میں معاونت حاصل کر سکوں اور جان سکوں کہ افسانہ میرے درون ذات کی ظلمتوں میں تحلیل ہو کر مجھے کن سطحوں پر روشنی بخش رہا ہے۔
افسانے کی تخلیق کا عمل کب شروع ہوا یا کیوں شروع ہوا، یہ سوال میرے لیے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ایک پیرایہ بیان جو وجود میں آیا، جس نے ترقی کی، انسانی زندگی میں اپنی جگہ بنا لی، اس کے وجود میں آنے کی تاریخ جاننے سے یا اسکے اسباب جاننے سے اتنی دور آ کر ہم کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ مغرب اور مشرق کے جھگڑوں میں الجھنے سے یا یہ سمجھنے میں اپنا وقت صرف کرنے سے کہ اس کا وجوداول اول کن لوگوں کے درمیان پنپا۔ میں نے جس معاشرت میں آنکھ کھولی، جس ماحول میں پلا بڑھا وہاں افسانہ اپنی مکمل جامعیت کے ساتھ موجود تھا۔ اس کی گھنٹیوں کا شور چاروں جانب پھیلا ہوا تھا۔ کیا مغرب اور کیا مشرق اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے دیکھتے دیکھتے سرحدوں کی لکیروں کو اتنا مٹتے دیکھا کہ سب ایک دوسرے میں گھل مل گیے۔
یہ میرا بھی معمول رہا ہے کہ کبھی افسانے کی کسی کتاب میں ٹالسٹائی کا افسانہ پڑھ لیا، کبھی، منٹو وبیدی کا۔ کبھی کسی ہندی افسانوی متن میں کھو گئے تو کبھی بنگالی۔ کبھی ایڈگر کو اٹھا لیا تو کبھی بالکل ہی نامعلوم قسم کے کسی غیر معروف افسانہ نگا ر کو جس کا نام بھی کبھی نہیں سنا تھا۔ کسی بھی صنف کو پڑھنے کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا۔ لہذا اسی طرح افسانے سے ایک رشتہ قائم ہوا اور افسانے کی رنگینیوں کو جانا اس کے مختلف چوکھٹے دیکھے اور سمجھنے لگے کہ افسانہ ہماری صنف ہے، ہماری سے مراد ہماری طبیعت کے موافق اور اس میں واقعات کا جو سلسلہ ہوتا ہے اس کو جان لینے سے افسانے کی قرات کے مسائل خود بہ خود ہم پر روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ زندگی کا ایک ادنی واقعہ ہی تو ہے جو وحدت تاثر کی شکل میں ہم سے روبرو ہوتا ہے، ہم اس میں کھو جاتے ہیں اور آخر کی دو چار سطروں میں اپنے بدن میں اک جنبش یا تھرتھراہٹ محسوس کرتے ہوئے افسانے کے قفس مزینہ سے باہر آ جاتے ہیں۔ واقعی اس کی قرات کی قواعد پر کبھی غورنہیں کیا کہ آخر یہ گل بدن، شیشہ رو صنف جس کے جسم پر پتھر سے مینا کاری کی گئی ہے اس کا ہم سے کیا مطالبہ ہے۔ صنف کا مطالبہ تو تب سمجھ میں آتا جب ان حقائق سے آگاہ ہوتے کہ یہ بلا صرف لفظوں کی بازی گری نہیں اور نہ واقعے کی آماج گاہ ہے۔ یہ تو تہہ داری کاایک روشن سائبان ہے جس سے یکباری آنکھیں ملانا اپنی بینائی کو خیر باد کہنا ہے۔ جس کی تحلیل کے لیے ایک ریاضت درکار ہے۔ زندگی جس کے تنوع کو سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نہایت الجھی ہوئی ڈور کے ریشوں کو گننا۔ اس کا طریقہ کار جب تک نہیں آیا۔ اس وقت تک افسانے کی دیواروں سے سر مارتے ہی بنے گی۔
میں نے افسانے کا مطالعہ بے ترتیبی سے شروع کیا۔ اس کا ادراک مجھے اب ہوتا ہے کہ افسانے کی قرات کے قواعدِکا تعین اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم افسانے کا ماحصل صرف ظاہری واقعے کی مرتب کڑیوں کو ہی نہ سمجھیں۔ افسانہ میری ذاتی کوششوں سے مجھے اچھا نہیں لگا۔ یہ افسانے کا مجھ پر ایک غیر شعوری تاثر ہے کہ اس نے مجھے اپنی گرفت میں لینا شروع کیا۔ ایک کہانی، دوسری کہانی، ایک معاشرت کا بیان، ایک اور معاشرت کا بیان، کچھ نئے مسائل اور کچھ مختلف حالات یہی سب افسانے کا فسوں کدہ بنے۔ کرداروں کی کیفیت، ان کے ذاتی معاملات کا انشراح اور ان کا الجھاو اس نے مزید رسی ڈال کر اپنی طرف کھینچا۔ جب ذرا صاف اور دو ٹوک باتوں سے جی گھبرانے لگا تو کچھ نفسیاتی حالت نے اپنا اسیر بنالیا۔اس سے بھی کچھ اوبےتو علامت نے اپنے دام میں لے لیا۔ وہ بھی ناقص معلوم ہونے لگی تو واقعہ در واقعہ اور استعاراتی در استعاراتی تففن میں گرفتار ہونے لگے۔ سبھی کچھ دیکھ لیا تو پھر فن کے نام پر سادی اور اکہری تحریروں سے سر ٹکراکر خود کو جنون فسانہ شوقی کا مداح ٹھہرا لیا۔ یقیناً یہ ایک عمل ہے بہنے کا۔ جس میں سب بہتے ہیں۔ یہ ایک راہ ہے جس پر چلے بنا افسانے کی تفہیم تک پہنچنانا ممکن ہے۔ اس عمل سے مفر افسانے کی بساط سے مفر ہے۔ لیکن حاصل تو کچھ نہیں وہی ڈھاک کے تین پات۔ افسانہ ایک کان سے آتا ہے اور دوسرے سے نکل جاتا ہے۔ اب مان لیجئے کہ اسے کوئی افسانے کی قرات کا عمومی عمل کہے یا اسی کو سب کچھ سمجھ کر اس راستے پر سفر کرتا رہے اور دلیل یہ لائے کہ اس کے علاوہ کسی طرز عمل سے افسانے کی ماہئیت روشن نہیں ہو سکتی۔ قاعدے بے سود ہیں۔ یہ تخلیق کے لیے غیر ضروری اور خرافات کے لیے ناگزیر ہیں تو اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں کیوں کہ افسانے کی ترسیل اور تفہیم کوئی ایسا کام نہیں کہ جس سے شرعی قوانین متاثر ہو جائیں۔ انسانی زندگی تھم جائے اور ملکی اور بین الاقوامی منڈیوں کے دروازوں پر تالا پڑ جائے۔ یہ عمل ہے راست بازی کا یا فکر بسیار کا۔ اگر ماضی میں یہ نہ سوچا گیا ہو کہ افسانے کی قرات کا کوئی قاعدہ ہونا چاہیے تو حال یا مستقبل بھی اس خیال سے خالی رہے اس میں کچھ حسن تو نہیں۔ افسانے کی قواعد کا علانیہ اظہار عین ممکن ہے معیوب ہو، مگر جو اس صنف کی چہار دیواری میں سانس لیتی ہوئی کہانی کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے اور غور کرنا چاہتا ہے کہ انفرادی سطح کا قاعدہ وجود میں آئے، جس سے اظہار کے سوتوں کی رنگینی کا ادراک ہو۔ اس کی تحلیل و ترسیل کا مسئلہ حل ہو تو میری ذاتی رائے میں وہ حق بجانب ہے۔
افسانے کی مکاری اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اسے دام اثر میں لے پانا نہایت مشکل ہے۔ کہانی وہ بھی گڑھے ہوئے قصوں سے سجی ہوئی کہانی اپنا کوئی احاطہ نہیں بننے دیتی۔ وہ ایک نوع کی آزادی کی قائل ہوتی ہے۔ جس میں کلو اور نتھو بھی سما سکیں اور سیٹھ دینا ناتھ اور کروڑی مل بھی۔ ہم افسانے کا مطالعہ اپنے تجربات کی روشنی میں کرتے ہیں، ایک پس منظر بناتے ہیں، لفظوں کے معنی کا ایک خاص نظام قائم کرتے ہیں، کرداروں کی آوازوں کو اپنے ماضی کے انسانی لہجے عطا کرتے ہیں۔ بین السطور کو اپنی منشا کے مطابق سجا سنوار کر اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس سے افسانہ لکھنے والے کی مٹھی سے نکل کر ہماری مٹھی میں آ جاتا ہے۔ اس سے جو کچھ ہمیں اخذ کرنا ہے کیا اور اس کے متن کو اپنے اصول زندگی کا متن بنا کر اس کی خود پر ترسیل کے مرحلے سے گزر گئے۔ میں نے یوں بھی اکثر کچھ کہانیوں کی گہری قرات کے بعد یہ سوچا ہے کہ اگر اسے میں نہ پڑھتا تو کیا ہوتا اور اگر کبھی اس کہانی میں موجود کرداروں کی حالت مجھ پر ظاہر نہیں ہوتی تو میں خود کو اس کردار کے قالب میں کیسے ڈھالتا۔ میرے خیال کی معراج افسانے کی معنوی سطح کوایک حد تک لے جاتی ہے اور پھر اس کے متن کو بے سود بنا دیتی ہے۔ لہذا افسانے کے متعلق مجھے یہ خیال زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہ انفرادی مطالعے سے زیادہ اجتماعی مطالعے کی چیز ہے۔ کوئی پڑھے گا اور دس بارہ لوگ سنیں گے۔ سب کا اپنا ایک تاریخی شعور ہوگا، ماضی ہوگا، تجربے ہوں گے اور افسانے کی زمین کو کئی رنگوں کی ذہنیت سے رنگا جائے گا۔ ایک شخص کا کسی ایک نتیجے پر پہنچنا ممکن نہ ہوگا۔ یوں تو بعض معنوی گمراہیوں سے بچنے کا امکان قوی ہے۔ پھر یہ بھی ہوگا کہ افسانے کے درمیان موجود ظلم مجھے لبھائے گا نہیں اور نہ میں کسی ایک واقعے کو اپنی ملکیت سمجھ لوں گا کہ یہ وہ ہی کچھ ہے جو میری زندگی میں گذرا ہے اور گذر رہا ہے۔ میں نے افسانے کی اجتماعی قرات کبھی نہیں کی، البتہ دیکھا ہے کہ اس نئی معاشرتی فضا میں جب کبھی کوئی افسانہ نگار کسی بزم میں عزت و احترام سے بلایا گیا ہے تو وہ اپنا بستا کاندھے پر ڈال کر وہاں پہنچا ہے، لوگوں نے اس کی کہانیاں اس کے منہ سے سنی ہیں اور اسے افسانے سے جدا کر کے کہانی کی چاشنی سےلطف اندوز ہوئے ہیں۔ اجتماعی قرات میں لہجے سے مصنف یا قاری یہ کتنا ہی باور کرنے کی کوشش کیوں نہ کرے کہ افسانے کو اس کی آواز نصیب ہو رہی ہے اس لیے لفظوں کا زور بیان اسے اس کہانی کا نا نظر آنے والا بنیادی کردار بنا دے گا، مگرایسا ہو نہیں پاتا۔ لفظ سننے میں اور پڑھنے میں چھلاووں کے دو مختلف قائدے کام کرتے ہیں، ہم جب کسی کہانی کے متن کو سنتے ہیں تو اسے اپنی مرضی کے مطابق اس خوف کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ اطراف میں موجود اشخاص بھی اسے اپنی مرضی کے مطابق قبول کر رہے ہیں، اس نفسیاتی شعور کی بنا پر لفظوں کا دھاگا ذہن کی چادر پہ ویسے ہی نقش مرتب کرتا ہے جیسے اسے اجتماعی حالت کے ادراک کی صورت میں مرتب کرنا چاہیے۔ اس حالت میں نہ متن اپنا ہوتا ہے، نہ مصنف کا نہ اطراف میں موجود کسی شخص کا۔ کہانی کی فضا ایک سوالیہ کردار سے شروع ہو کر ایک نوع کی فرضی مخلوق تک ہی محدود رہتی ہے۔ جس کی تطبیق کسی پر نہیں ہوتی اور سب پر ہو جاتی ہے۔
(جاری ہے)