پہلا سبق: خوب صورت ترین نظریہ
کارلو رویلی
ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک
اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی جوانی کے ابتدائی سالوں میں البرٹ آئن سٹائن نے ایک سال فارغ رہ کر گزارہ۔ ایسا کرنا ضروری بھی ہوتا ہے کہ آپ وقت ضائع کیے بنا کسی مقام پر نہیں پہنچتے. افسوس کہ یہ بات ہمارے نوجوان بچوں کے والدین نہیں سمجھتے۔ آئن سٹائن اپنے ہائی سکول کی روائتی تعلیمی سختی برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے جرمنی میں تعلیم کو خیر باد کہہ کراب اپنے والدین کے ساتھ اٹلی کے ایک چھوٹے سے شہر پاویہ (Pavia) میں رہ رہا تھا۔
یہ بیسویں صدی کے ابتدائی سال تھے.اٹلی میں صنعتی انقلاب کا آغاز تھا۔ آئن سٹائن کا باپ ایک انجینئر تھا اور ان دنوں پادان (Padan) کے کھیتوں میں برقی توانائی کے پلانٹ نصب کر رہا تھا۔ آئن سٹائن ان دنوں فلسفی کانٹ (Kant) کو پڑھا کرتا تھا. وہ یونیورسٹی آف پاویہ میں بطور طالب علم رجسٹر ہوئے اور امتحانات کا سوچے بغیر یوں ہی کبھی کبھارمحض نشاطِ دل کی خاطر لیکچر لے لیا کرتا تھا۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے آپ آزاد سوچ پیدا کرتے ہیں اورسائنس دان بنتے ہیں۔
اس کے بعد آئن سٹائن نے زیورخ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور باقاعدہ طورپرفزکس پڑھنے میں مگن ہوگیا۔ کچھ برس میں ہی اس نے تین تحقیقی مقالے لکھےاوراس وقت کے فزکس کے سب سے بہترین جریدے”اینلز دی فزکس” میں شایع کرنے کے لئے بھیجے. یہ تحقیقی مقالےعلمی سطح پراس قدرعمدہ تھےکہ ان میں سے ہرمقالہ نوبل انعام کا مستحق تھا۔ پہلا مقالہ یہ بتاتا ہے کہ جواہرحقیقتاً اپنا وجود رکھتے ہیں، دوسرا کوانٹم میکانیات کی بنیاد فراہم کرتا ہے جس کو میں اگلے باب میں بیان کروں گا اور تیسرامقالہ آئن سٹائن کے اضافیت (Relativity) کے نظریے کو بیان کرتا ہے جو”نظریہ خاص اضافیت” (Special Theory of Relativity) کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کیسے وقت حتمی نہیں اورہر ایک کے لیے ایک جیسا نہیں گزرتا، کہ کیسے دو جڑواں بھائیوں کی عمر میں فرق آ جاتا ہے اگران میں سےایک ساکن رہے جب کہ دوسرا حرکت میں ہو۔
اپنے تحقیقی مقالوں کی اشاعت کے بعد آئن سٹائن راتوں رات اہم سائنس دان بن گیا اوربہت سی یونیورسٹیاں اسے ملازمت کی پیش کش کرنے لگیں۔ لیکن کسی شئے نے اسے بے چین رکھا۔ نظریہ اضافیت اپنی فوری قبولیت کے باوجود نظریہ تجاذب (Law of Gravitation) جو ہمیں یہ بتاتا ہے کی اشیا کیسے ایک دوسرے کی طرف کشش محسوس کرتی ہیں، کے ساتھ مکمل سائنسی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ آئن سٹائن نےایسا اس وقت محسوس کیا جب وہ ایک مقالے میں اپنے نئے نظریہ اضافیت کا خلاصہ بیان کررہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ قانونِ ہمہ گیر تجاذب(Law of Universal Gravitation) پر، جسے جدید طبیعیات کے بانی آئزک نیوٹن نے خود ترکیب دیا تھا،نظریہ اضافیت کے ساتھ سائنسی مطابقت پیدا کرنے کے لئے نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔آئن سٹائن پوری دل جمی کے ساتھ اس مسلے میں غرق ہو گیا اور اسے حل کرنے میں اسے دس سال لگے۔ دس سال، متعدد کوششوں، غلطیوں، غلطی بھرے مضامین،بہت سے شانداراورغلط تصورات کے دس سال۔
بالاخرسن1915ع میں اس نے ایک مضمون شایع کیا جس میں اس نے تجاذب(Gravitation) کے مسلے کا ایک نئے نظریے کی شکل میں مکمل حل فراہم کیا۔اس نے اسے عمومی نظریہ اضافیت (General Theory of Relativity) کا نام دیا۔ جو اس کا سائنسی شاھکار اور روسی طبیعیات دان لیو لنڈاو(Lev Landav) کے مطابق خوبصورت ترین نظریہ ہے۔
کچھ ایسےعلمی و فنی شاھکار ہوتے ہیں جو ہم پر بہت گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ جیسا کہ موزارٹ کی ریقویم (Requiem of Mozart)، ہومر کی آڈیسی(Odyssey of Homer) سسٹین چیپل اور کنگ لیئر۔ ان کی خوبصورتی کو مکمل سراہنے کے لیے لمبی شاگردی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کا اجر خالص خوبصورتی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہماری آنکھیں دنیا کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنے لگتی ہیں۔ آئن سٹائن کا گوہر–عمومی نظریہ اضافیت– بھی اسی درجے کا شاھکار ہے۔
مجھے وہ برانگیختگی اب بھی یاد ہے جب میں نے اس کا مطلب سمجھنا شروع کیا تھا۔ وہ گرمیوں کا موسم تھا۔ اپنی یونیورسٹی کے آخری سال کے دوران میں کیلبریا(Calabria) میں کونڈوفری(Condofuri) کے ساحل پر بحیرہ روم کے سورج کی دھوپ میں ڈوبا تھا۔ پڑھائی اورامتحانات کے بوجھ سے مضطرب ہوئے بنا سب سے بہتر چھٹیوں میں پڑھا جاسکتا ہے۔ میں ایک ایسی کتاب پڑھ رہا تھا جس کے کنارے چوہوں نے چبا ڈالے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امبرین(Umbrian) پہاڑی کے دامن میں جہاں میں بولوگنا(Bologna) میں یونیورسٹی کی کلاسوں سے تھک کر ایک خستہ حال گھر میں پناہ لیتا تھا، میں اس کتاب سے اس بدقسمت مخلوق کے بلوں کوبند کر دیا کرتا تھا۔ کبھی کبھار میں کتاب سے نظریں اٹھاتا اور دمکتے سمندر کو دیکھتا۔ ایسا لگتا جیسے میں زمان و مکان کے انحنا(Space Time Curvature) کو دیکھ رہا ہوں جس کا تصور آئن سٹائن نے پیش کیا تھا۔ جیسے کسی جادوئی طرح سے ایک دوست میرے کان میں ایک پوشیدہ سچ بتا رہا ہو۔جیسے سچائی کا پردہ ہٹا کر ایک سادہ اور عمیق ترتیب کو ظاہر کر دیا جائے۔ جب سے ہم نے دریافت کیا ہے کہ زمین گول ہے اور ایک جنونی لٹو کی طرح گھومتی ہے، تب سے ہم سمجھ گئے ہیں کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ ہر بارجب ہم اس کے کسی نئے پہلو کا نظارہ کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک عمیق اور جذباتی تجربہ ہوتا ہے۔ ایک اور پردہ ہماری آنکھوں سے ہٹ جاتا ہے۔
ان بہت ساری جستوں میں جو ہم نے کائنات کے بارے میں اپنی فہم کو بڑھانے کے لیے لیں، شاید کوئی بھی آئن سٹائن کی علمی اور تخیلاتی جست کے برابر نہیں ہے۔ کیوں؟
اول یہ کہ جب آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ(نظریہ) کیسے کام کرتا ہے، اس میں دم بخود کر دینے والی سادگی ہے۔ میں یہاں اس کا مرکزی خیال پیش کروں گا۔
نیوٹن نے یہ توضیح کرنے کی کوشش کی کہ چیزیں کیوں گرتی ہیں اور سیارے کیوں گھومتے ہیں۔ اس نے ایک ایسی قوت کا تصور کیا جو تمام مادی اجسام کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے۔ اس نے اسے کششِ ثقل یا گریوٹی کا نام دیا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک دوسرے سے دور مادی اجسام جن کے درمیان کوئی اور شئے موجود نہیں ہوتی، یہ قوت کیسے عمل کرتی ہے۔ نیوٹن نےاس کے بارے میں کوئی مفروضہ پیش کرنےسے بھی گریز کیا۔ اس نے یہ فرض کیا کہ اجسام خلا میں حرکت کرتے ہیں اور یہ خلا ایک بہت بڑے ڈبّےکی مانند ہے۔ ایک ایسا ڈبّہ جس نے ساری کائنات کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ایک بہت بڑی ساخت جس میں اجسام اس وقت تک سیدھے حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کوئی قوت اس کے خطِ مرمی(Trajectory) کو منحنی (Curved) نہ کردے۔ نیوٹن یہ نہ بتا سکا کہ یہ خلا– یہ ڈبّہ جو اس نے فرض کیا–کس چیز کا بنا ہوا ہے۔ لیکن آئن سٹائن کی پیدائش سے کچھ سال قبل دو برطانوی سائنسدانوں، فیراڈے اور میکسویل، نے نیوٹن کی سرد دنیا میں ایک نہایت ہی اہم جزو، برقی مقناطیسی میدان(Electromagnetic Field) کا اضافہ کردیا۔
یہ برقی مقناطیسی میدان ایک حقیقی شئے ہے جس اس خلا میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ ندی کی سطح کی طرح مرتعش واہتزاز (Vibrate and Oscillate) پذیرہوسکتا ہے اورریڈیائی امواج اوربرقی قوت کی ترسیل کرسکتا ہے۔ اپنے بچپن ہی سے آئن سٹائن نے اس برقی مقناطیسی میدان کے تصورات میں بہت دلچسپی محسوس کی. اس کا مشاہدہ اس نے پادان(Padan) میں کیا جہاں یہ برقی مقناطیسیت اس کے باپ کے تعمیرکیےہوئے برقی توانائی کے پلانٹ میں روٹروں(Rotors) کو گھماتی تھی. جلد ہی اس نے سمجھ لیا کہ برق کی طرح تجاذب کی ترسیل بھی ایک میدان (Field) کے ذریعے ہوتی ہے۔ایک برقی میدان کی طرح تجاذبی میدان کا بھی لازماً وجود ہونا چاہیے۔ اس نے یہ سمجھنے کا ارادہ کیا کہ یہ تجاذبی میدان کس طرح کام کرتا ہے اوراسے ریاضی کی مساواتوں کی زبان میں کس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بہت ہی شاندار خیال اس کے دماغ میں آیا کہ “تجاذبی میدان خلا میں پھیلا ہوا نہیں ہے بلکہ تجاذبی میدان بذاتِ خود خلا ہے”۔ یہ ‘عمومی نظریہ اضافیت’ کا مرکزی خیال ہے۔ نیوٹن کا خلا جس کے ذریعے چیزیں حرکت کرتی ہیں اور تجاذبی میدان درحقیقت ایک ہی چیز ہیں۔
یہ ایک آگہی کا لمحہ ہے، دنیا کی ایک شاندار توضیح۔ خلا اورمادہ دو جدا اشیا نہیں ہیں بلکہ یہ دنیا کا ہی ایک مادی جزوہیں۔ ایک ایسی شئے جس میں ہلکورے(Ripples) پیدا ہوسکتے ہیں، جو کھنچ سکتی ہے،منحنی ہو سکتی ہے اور جس میں بل پڑ سکتے ہیں۔ ہم کسی ٹھوس، غیر مرئی (Invisible) نوعیت کے بنیادی کائناتی ڈھانچے میں موجود نہیں ہیں بلکہ یوں سمجھیں کہ ہم کسی بہت بڑے گھونگھے(Snail) کے لچک دارخول میں موجود ہیں۔ سورج اپنے اردگرد خلا کو منحنی کرتا ہے اور زمین اس کے گرد کسی قوت کے زیرِ اثر نہیں گھومتی بلکہ وہ توایک ایسے خلا میں سیدھا جانا چاہتی ہے جو منحنی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک پتھر قیف میں لڑکھتا ہے۔ قیف کے مرکز پر کوئی نامعلوم قوت پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ اس قیف کی دیواروں کی منحنی ساخت ہے جو اس کو لڑکھنے پرمجبور کرتی ہے۔ سیارے سورج کے گرد گھومتے اور چیزیں اس لیے گرتی ہیں کیوں کہ خلا بذات خود منحنی ہے۔
ہم خلا کے انحنا کو کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ انیسویں صدی کے سب سے ممتاز ریاضی دان کارل فریڈرک گاش (Carl Fredrick Gauss) نے جو “ریاضی کا بادشاہ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دو ابعادی (Two Dimensional) سطحوں جیسا کہ پہاڑوں کی سطح ہوتی ہے کو بیان کرنے کے لیے ریاضی کا ایک کلیہ لکھا۔ اس نے اپنےایک ذہین طالب علم کو یہ کہا کہ وہ اس کلیے کی اس طرح تعمیم (Generalization) کرے کہ یہ تین یا اس سے زیادہ ابعادی خلا کا بھی احاطہ کرے۔ اس طالب علم نے جس کا نام برنارڈ ریمان (Bernhard Riemann) تھا، ایک ایسا اثر انگیز مقالہ لکھا جو بالکل بے کار دکھتا تھا۔ ریمان کے مقالےکا نتیجہ یہ تھا کہ کسی بھی منحنی خلا (Curved Space) کی خصوصیات کو ایک خاص ریاضیاتی شئے سے بیان کیا جا سکتا ہے جو ریمانی انحنا(Riemann Curvature) کہلاتی ہے اوراسے انگریزی کے حرفِ تہجی R سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن نے ایک مساوات لکھی جو یہ کہتی ہے کہR مادہ کی توانائی کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں مادہ موجود ہوگا وہاں خلا منحنی ہو جائے گا۔ یہ مساوات آدھی لائن میں سما سکتی ہے اوراس میں اورکچھ بھی نہیں ہے۔ ایک خیال کہ خلا منحنی ہو جاتا ہے، ریاضی کی ایک مساوات بن گئی۔ لیکن اس مساوات کے اندر ایک کائناتی ذخیرہ موجود ہے. یہاں اس نظریے کی شادابی پیش گوئیوں کی تعبیرمیں کھلتی ہےجوبظاہر ایک دیوانے کی بڑ کے مشابہہ لگتی ہے . لیکن بالاخروہ تمام کی تمام سچ ثابت ہوتی ہیں۔
یہ ریاضیاتی مساوات بتاتی ہے کہ ایک ستارے کے اردگرد خلا کیسے منحنی ہوتی ہے۔ اس انحنا کی وجہ سے نہ صرف سیارے اس کے گرد گھومتے ہیں بلکہ روشنی بھی اپنے راستے سے منحرف ہو جاتی ہے۔ آئن سٹائن نے پیش گوئی کی کہ سورج اپنے قریب سے گزرنے والی روشنی کو اس کے راستے سے منحرف کردیتا ہے۔ سن 1919ع میں اس انحراف کی طبعی پیمائش کی گئی جس سے اس پیش گوئی کی تصدیق ہوگئی۔ دراصل صرف خلا ہی منحنی نہیں ہوتا بلکہ وقت بھی منحنی ہوجاتا ہے۔ آئن سٹائن نے پیش گوئی کی کہ وقت زمین کی سطح کی نسبت بلندی پرزیادہ تیزی سے گزرتا ہے۔اس کی پیمائش کی گئی اورنتیجہ بالکل صحیح نکلا۔ اگرایک شخص جو ہمیشہ سطح سمندرپررہا ہو، اپنے جڑواں بھائی سے ملے جو پہاڑوں میں رہا ہو تو وہ دیکھے گا کہ اس کا بھائی اس کی نسبت زیادہ بوڑھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت ایک غیرحتمی شے ہے جو نظریہ اضافیت کے مطابق جڑواں بھائیوں کے لئےالگ الگ جگہوں پررہنے کی وجہ سے الگ طرح سے گزرتا ہے. اور یہ تو ابھی حقیقت کے مشاہدے کی صرف شروعات ہے۔
ایک ستارہ جو اپنا سارا ایندھن (ہایئڈروجن) استعمال کر چکا ہوتا ہے اپنے ہی وزن کے تحت منہدم ہو کرخلا میں اتنا انحنا پیدا کر دیتا ہے کہ اس سے خلا میں ایک حقیقی سوراخ بن جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جلنے سے پیدا ہونے والا دباؤ اس انہدام کو روکنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔ یہ سوراخ مشہورِ زمانہ بلیک ہول کہلاتے ہیں۔ جب میں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا، ان کو ایک خفیہ سے نظریے کی قابلِ یقین پیش گوئی گمان کیا جاتا تھا۔ آج ان کا آسمانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں مشاہدہ کیا جا چکا ہےاور ہیت دانوں نے کافی تفصیل میں ان کا مطالعہ کیا ہے۔
بات ابھی ختم نہیں ہوئی.سارا کا سارا خلا پھیل اورسکڑسکتا ہے۔ مزید آئن سٹائن کی مساوات یہ بتاتی ہے کہ خلا جامد نہیں رہ سکتا۔ یہ لازماً پھیل رہا ہے. سن1930ع میں کائنات کے پھیلاؤ کا حقیقتاً مشاہدہ کیا گیا۔ یہی مساوات یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ پھیلاؤ ایک دھماکے کی صورت میں ایک نہایت چھوٹی، سکڑی ہوئی اور گرم کائنات سے شروع ہوا جس کو اب ہم بگ بینگ (Big Bang) کے نام سے جانتے ہیں۔ پہلے پہل اس پر کسی نے بھروسہ نہیں کیا. لیکن اس کا ثبوت کونیاتی پس منظری شعاعوں (Cosmic Background Radiations) کے طورپرجوکہ اصل دھماکے سے پیدا ہونے والی تپشی شعاعوں کی مدھم باقیات ہیں، جمع ہوتے رہے۔ آئن سٹائن کی مساوات کی بنیاد پرکی گئی پیش گوئی سچ ثابت ہو گئی۔ ابھی بھی یہ نظریہ کہتا ہے کہ خلا سمندر کی سطح کی طرح حرکت کرتا ہے۔ ان ثقلی امواج (Gravitational Waves) کا مشاہدہ آسمان میں موجود جڑواں ستاروں(Binary Stars) کے زریعے کیا گیا .اس مشاہدے کا نتیجہ حیران کن حد تک اس نظریے سے درست مطابقت رکھتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ یہ نظریہ ایک رنگا رنگ اور متحیرکر دینے والی دنیا کو بیان کرتا ہے۔ جہاں کائنات پھٹتی ہے، خلا ایک بے تہاہ سوراخ میں منہدم ہوتا ہے، وقت ڈھیلا پڑ کر سیارے کے قریب سست ہو جاتا ہے اور بین النجوم پھیلے بے انتہا خلا میں ہلکورے پڑتے ہیں جو سمندر کی سطح کی طرح لہراتے ہیں. یہ سب کچھ جو ایک چوہوں کی چبائی گئی کتاب سے ظاہر ہوا، کسی مجنوں کی حالت جنون میں سنائی گئی کوئی داستاں نہیں تھی اور نہ ہی کیبلریا کے سمندر یا بحیرہ روم کے جلتے سورج کا فریبِ نظر۔ یہ حقیقت تھی۔ یا پھراس حقیقت کی ایک جھلک جو ہمارے روز مرہ کے دھندلے اورعام نقطہ نظر سے کم پوشیدہ ہے۔ ایک حقیقت جو بالکل اسی مواد سے بنی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس سے ہمارے خواب بنے ہیں۔ لیکن یہ ہمارے دھندلے خوابوں کی نسبت زیادہ حقیقی ہے۔
یہ سب کچھ ایک بنیادی وجدان کا نتیجہ ہے کہ خلا اور تجاذبی میدان درحقیت ایک ہی شئے ہیں۔ اورایک سادہ سی مساوات جس کویہاں لکھے بنا میں نہیں رہ سکتا اورشاید ہی آپ اس کے ریاضیاتی معنی سمجھ پائیں، لیکن پھر بھی پڑھنے والا اس کی حیران کن سادگی کا ضرور معترف ہو جائے گا۔
یقیناً اس مساوات کو پڑھنے اور اطلاق کرنے کے لیے آپ کو ریمانی ریاضی کی تیکنیک کو سمجھنا ہوگا۔ اس کے لیے تھوڑی سی کوشش اورعزم کی ضرورت ہے. لیکن یہ اس عزم اور کوشش سے کم ہے جوآپ کو بیتھوون کی سٹرنگ کوارٹٹ کو سمجھنےاورسراہنے کے لئےدرکارہے۔ دونوں صورتوں میں اس کا اجر انتہائی خوبصورتی کے مکاشفے اور دنیا کو دیکھنے کی ایک نئی بصارت کا حاصل ہونا ہے۔