جوناتھن جونز کا یہ مضمون دی گارڈین میں شائع ہوا تھا۔ لالٹین قارئین کے لیے اسے اردو قالب میں ڈھالنے کا فریضہ ابو بکر وجودی نے سرانجام دیا ہے ۔

ترجمہ: ابوبکر وجودی
فنون لطیفہ نے ذہنی عارضے کو نامانوس اور حقارت آمیز جاننے کی بجائے اسے انسانی حالت کا ایک حصہ سمجھنے کی راہ ہموار کی ہے یہاں تک کہ اسے مثبت اور کارآمد بھی سمجھا گیا ہے۔ فنون ِ جدید میں تو ذہنی عارضے نے تخلیقی مہم جوئی کی سی پذیرائی حاصل کی ہے۔ نفسیاتی جدیدیت کا یہ باب ونسنٹ وین گوخ کی "دیوانگی” سے شروع ہوتا ہے جس میں بعد ازاں مریضوں کی تخلیقات کو نئی قسم کا فن سمجھا گیاتاہم اس جدیدیت کی تاریخی وجوہ اس سے گہری ہیں۔ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے مصوروں اور رومانوی مصوروں کو بھی خبطی قرار دیا جاتا رہا ہے ،البریخت ڈیورر نے "نابغے” کا خاکہ ایک سوادئی کی صورت میں بنایا۔
یہ جاننا شاید چنداںمشکل نہیں کہ فن کاروں نے اس امر سے جسے معاشرہ بیماری سمجھتا ہےہمدردی کا اظہار اس لیے کیا ہے (کیوں کہ) تمام تخلیق غیر عقلی پرواز ہے ۔ خود سے ماورا ہو کر ہر شے کو ایک نئے انداز سے دیکھنا کا خیال شاید اتنا ہی پرانا ہے جتناکہ غاروں میں بسنے والے مصوروں کامشعلوں کی روشنی سے فروزاں تخیل۔ یونانی فلسفی افلاطون نے شاعرانہ سرمستی کو الوہی سچائی کا واحد منبع سمجھتے ہوئے کہا؛ "دیوانگی خدا کا تحفہ ہے”۔

 

1۔ ویتورے کارپاچیو – ریالٹو (پل) پر آسیب زدہ کی مسیحائی(c. 1496)

پندرہویں صدی عیسوی کے وینس کی روزمرہ زندگی کو واضح کرتی یہ تصویر ظاہر کرتی ہے کہ زمانہ وسطیٰ میں ذہنی عارضے کو کیسے سمجھا اوراس کا کیوں کر علاج کیا جاتا تھا۔ اس تصویر کو کبھی کبھی "دیوانے کا علاج (اندمال)” بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ذہن کے بارے میں عصری نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے دیوانے کی بجائے معمول ( آسیب زدہ) سمجھا جانا چائیے۔ تصویر میں ایک پادری ریالٹو پُل کے انسانی ہنگام کے بیچ ایک آسیب زدہ شخص کی معجزانہ مسیحائی کر رہا ہے اس لیے اس شخص کا مرض نہ تو طبی نوعیت کا ہےاور نہ ہی سماجی بلکہ ایک مذہبی تجربہ ہے۔

 

2۔ متیا س گرونیوالڈ- سینٹ انتھونی کو بہکایا جانا۔(1512-16)

3

عہد وسطیٰ کے متاخر فن کار عیسائیت کے دور اول کے راہب سینٹ انتھونی کی اس کہانی سے بہت مسحور تھے جس میں شیاطین راہب کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گرونیوالڈ کے ہاں یہ خیال ہوش و حواس کھو دینے کے خطرے سے دوچار آدمی کی صورت میں ایک ذاتی اور نفسیاتی خوف میں بدل جاتا ہے۔ تصویر میں شیاطین کی نہایت خوفناک شکلیں بگڑے ہوئے خیالات کے مانند ہیں۔ یہ تصویر رحمدلانہ جذبے سے ایسن ہائیم کی قربان گاہ کے لیے بنائے گئے فن پاروںکا حصہ ہے جسے ایک ایسے خانقاہی ہسپتال میں لگایا گیا جہاں بد ہئیت کرنے والے امراض کے شکار افراد کا علاج کیا جاتا تھا۔ متورم خاکستری جلد والے شیطان کی تصویر جو اسی سلسلے کے دیگر فن پاروں میں بھی ہے اس مرض کا تاثردیتی ہے جس کا یہاں علاج کیا جانا ہے۔ تو کیا تصویر کا یہ پر ہجوم منظر ہوش مندی کو شدید جسمانی تکلیف سے درپیش خطرے کی نشاندہی کرتا ہے؟ یہ تصویر جرمن علامتیت (Expressionism)پر اثر انداز ہوئی اور آج تک ایک خوفزدہ ذہن کا شاہکار عکس سمجھی جاتی ہے۔

 

3 ۔ البریخت ڈیورر۔ شکستہ دلی (1514)

4

فن مصوری کا یہ نمونہ جہاں آج کل بیماری سمجھے جانے والے ذہنی عارضے (دل شکستگی/افسردگی)کی تشخیص ہے وہیں اس عارضے کے جراتمندانہ انداز سے منانے کا اظہار بھی ہے۔ قرون وسطیٰ(Middle ages) میں دل شکستگی (Melancholia) کو ذہن کی وہ تاریکی سمجھا جاتا تھا جو جسمانی رطوبتوں( خون،بلغم،زرد صفرااور سیاہ صفرا) کے عدم توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تاریکی ڈیورر کے بنائے افسردگی کی مریضہ کے سوچ میں ڈوبے چہرے پر واضح نظر آتی ہے۔ مریضہ کو اس کےاوزاروں کے باعث ریاضی ، علم ہندسہ(Geometry)اور فن تعمیر(Architecture) کا ماہر سمجھا جانا چاہیے جو نشاۃ ثانیہ میں کسی بھی نابغہ روزگار شخص کی خوبیاں سمجھی جاتی تھیں۔ ان علامات کے ذریعے ڈیورر اپنی داخلی زندگی کی خاکہ آرائی کرتا ہے اور ذہنی کشاکش پر اپنے وجدان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی نگاہ میں دل شکستگی ایک نابغہ روزگار شخصیت کی علامت ہے،جان سکنے کی خواہش اور تخلیق کرنے کی تمنا کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اچانک قنوطیت اور نا امیدی سے دوچار ہو جائے۔ ڈیورر کے نزدیک نا آسودگی ایک اعلیٰ وصف ہے ۔ یہ تصویر بجا طور پر جدید نفسیات کا آغاز ہے۔
4۔ ولیم ہوگارتھ-پاگل خانے کی ایک جھلک (1733)
شیکسپئیر اور کیروانٹس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈورر کے اس وجدان کی کہ ذہنی تاریکیاں بھی انسانی زندگی کا حصہ ہیں لندن کے بیتھلم ہسپتال کے بانیوں نے کچھ قدر نہ کی۔یہ بدنام زمانہ پاگل خانہ قرون وسطیٰ میں قائم ہوا اورشاید چودہویں صدی تک ذہنی امراض کے علاج میں مہارت حاصل کر چکا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں جب ہوگارتھ نے ایک نوجوان کاخاکہ بنایا جسے قمار بازی اور فضول خرچی نے یہاں لا چھوڑا تھا ،تب یہ ہسپتال ایک ایسی جگہ تھی جہاں لندن کے باسی آ جا سکتے تھے اور "پاگلوں” کو ملاحظہ بھی کر سکتے تھے۔ ہوگارتھ تصویر میں پاگل پن کے اس نظارے جہاں کوئی خود کو بشپ تو کوئی بادشاہ سمجھتا ہے سے لطف اندوز ہونے والی دو "ذی فہم” عورتیں دکھاتا ہے، بلاشبہ ہوگارتھ کے خیال میں ہوشمندی اور پاگل پن کے درمیان اتنی واضح حد ہرگز نہیں ہے۔

 

5۔ فرانسسکو گویا لیوسینتیس- استراحتِ فہم عفریت پیدا کرتی ہے (1799)

5

گویا (Goya)نے اپنی "خوابیدہ شخص” ( فن کار) کی عکاسی میں جس پر رات کے عفریت حملہ کر چکے ہیں دراصل روشن خیالی کے نتیجے میں سامنے آنے والی عقلیت پسندی کے نقص کی عکاسی کی ہے۔ روشن خیالی اٹھارہویں صدی کی وہ عظیم تحریک تھی جس نے دنیا کو انسائیکلوپیڈیا ، سائنسی تشریح اور ابتدائی کار خانوں کے ذریعے بدلنا چاہا تھا۔ گویا کا قنوطی مگر دردمندانہ خیال یہ ہے کہ عقل ہمارے ذہن کے محض کچھ حصے کا ہی اختیار رکھ سکتی ہے،اسے ڈراؤ نے خوابوں کو بھی دنیا میں شریک کرنا ہوگا ۔ جدید دور کے آغاز پر بنائی جانے والی یہ تصویر نے سینٹ انتھونی کو بہکانے والی ان ترغیبات کی شبیہوں کی بازگشت بھی ہے جس پر حملہ کرنے والے شاید تاحال فنا نہیں ہو سکے۔

 

6۔ تھیوڈور گیری کالٹ۔ دیوانے کا خاکہ(1822)

6

رو مانوی عہد میں شدید حالت ِ ذہنی اور داخلی کرب شاعری اور آرٹ کا خام مال تھے۔ خودبینی (introspection) کا یہ مزاج گیری کالٹ (Gericault)کی تصویر "فاترالعقل” میں دماغی صحت پر نئے انداز سے روشنی ڈالتا نظر آتا ہے۔ اپنے دوست ڈاکٹرایٹین جین جارجٹ (Dr Etienne-Jean Georget) کے مریضوں کی عکاسی پر مشتمل گریکالٹ کی بنائی دس تصاویر میں سے پانچ اب بھی موجود ہیں۔زیر نظر تصویر میں ایک خاتون کے لئے دلی عزت اور انسانی ہمدردی ہے جس کا مرض اس کے چہرے کی گہری اداسی سے واضح ہے۔ موت اور تشدد سے متعلق فن پارے تخلیق کرنے والے اور خود کو دماغی عاضے کے قریب سمجھنے والے فن کار گریکالٹ نےاپنی تصاویر میں (اس دور کے) مروجہ مسبوکات (Stereotypes) اور تعصبات سے گریزکرتے ہوئے دماغی عارضے کو انسانی حالت کے ایک پہلو کے طور پر دکھایا ہے

 

7۔ گستاو کوربٹ ۔ ذاتی خاکہ ۔نراس شخص (c. 1843-45)

7

کوربٹ (Courbet)نے رومانوی مسرت کے کسی لمحے میں اپنا خاکہ "دیوانے” کے طور پر بنایاجس کے چہرے سے وارفتگی اور خوف ظاہر ہے۔ اس کی نراسیت (Desperate) کسی شرمناک بیماری کی بجائے فنکارانہ غرور کاامتیازی نشان ہے۔ ڈیورر کی تصویر "دل شکستگی”سے شروع ہونے والی روایت رومانوی عہد میں مزید مستحکم ہو چکی تھی کے تسلسل میں کوربٹ نے ذکاوت کو دیوانگی کے مساوی لا کھڑا کیا۔ یہ نراس چہرہ انیسویں صدی کے فنکارانہ تجرباتی دانش کا چہرہ ہے جس نے اپنی دیوانگی اور بیماری کو خطرے میں ڈالنے یہاں تک کہ اس میں غرق کرنے کی حد تک شراب اور منشیات کے ساتھ بھی دیکھا۔ کوربٹ اپنی اس تصویر میں ایڈگر ایلن پو کی منظوم کہانیوں کا ایسا کردار معلوم ہوتا ہے جواپنی ذہن کے منکشف ہونے پر دور جدید کے اولین مصوروں ہی کی طرح حیران ہے۔

 

8۔ ونسنٹ وین گوخ۔ کان پر پٹی باندھے ذاتی خاکہ(1889)

8

ونسنٹ وین گوخ انیسویں صدی کی ایک تصویر ” ہیوگو وین ڈر گوز کا پاگل پن” The Madness of Hugo van der Goes سے بہت متاثر تھا۔ اس تصویر میں عہد وسطیٰ کے ایک مصور ہیوگو وین ڈر گوزجسے ذہنی عارضے کے باعث ایک خانقاہ میں داخل کرایا گیا تھا کو انتہائی کرب میں دکھایا گیا ہے جب کے آس پاس کے لوگ اس کی اذیت میں کمی لانے سے قاصر ہیں۔ ونسنٹ وین گوخ نے لکھا کہ وہ کبھی کبھی اس تصویر میں اپنے آ پ کو دیکھتا تھا۔ اپنے کان کی لو کاٹنے کے بعد وہ اس تصویر میں اپنا جائزہ اسی تکلیف زدہ آدمی کے طور پر لے رہا ہے۔لیکن کیا ہ واقعی ایسا ہے ؟ ونسنٹ کی آنکھیں بالکل نیلی ہیں اور وہ نوکیلی اور چبھ جانے والی ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے، وہ اپنے زخمی چہرے پر گہری سچائی کے ساتھ معروضی نظر ڈالتا ہے۔ نہ تو وہ دانا ہے اور نہ ہی دیوانہ بلکہ ایک عام انسان ہے جو ہم سے دوٹوک اور دیانت سے باتیں کرتا ہے ۔

 

9۔ ایڈورڈ منچ ۔ چیخ (1893)

9

اس فن پارے میں جدید دور کی حالت کو پاگل پن کے طور پر دکھایا گیا ہے جو علت و معلول کے قضیے کی طرح واضح ہے۔ یہ "چیخ” آفاقی ہے۔ منچ (Munch)کے خیال میں آج کل زندگی ہمیں ایسی ہی محسوس ہوتی ہے۔کسی اذیت کیش کے برعکس لڑکھڑاتے ہوئے آسمان کے نیچے کرب اور تنہائی کے عالم میں چلا اٹھنا دراصل دنیا کی خرابی کا ایک معقول جواب ہے۔ منچ نے دماغی عارضے کی اس فنکارانہ تعبیر جو روشن خیالی کے دور کی پیداوار تھی کواپنے منطقی انجام تک پہنچایا یعنی دنیا کے سوا کوئی اور پاگل خانہ نہیں ہے ۔
10۔ جوزف فورسٹر ۔ پرنزہارن مجموعہ کی بے عنوان تصویر ( بعد از 1916)
منچ اور وین گوخ نے پاگل پن کو جدید آرٹ میں ایک مثبت قدر اور تخیلاتی حقیقت کا راستہ سمجھا۔ اس سے کچھ ہی عرصہ بعد معالجین نے بھی نے آرٹ اور ذہن کے درمیان نئے رشتے تلاش کرنا شروع کیے۔ ڈاکٹر ہانس پرنز ہارن Dr Hans Prinzhorn نے 1933 میں اپنی وفات سے قبل دماغی مریضوں کی تخلیقات کا ایک مجموعہ مرتب کیا جو "خارجی مصوری”(Outsider art) کی ابتدا تھی۔ "پاگل پن”جسے کبھی مصور تصویر کیا کرتے تھے اب بذات خود طبع زاد فنکاری کا سبب بن چکا ہے۔

Leave a Reply