Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

مولاناکچھ ذمہ داری تو بنتی ہے

test-ghori

test-ghori

04 دسمبر, 2014
جنید جمشید کے کچھ کہنے یا سننے کا وقت گزر چکا ہے، معافی مانگنے کے باوجود ان سے متعلق تین ہی خبروں کا اندیشہ ہے؛قانونی کاروائی ،ملک سے فرار، یا کسی نئےممتاز قادری کے ہاتھوں کسی اندوہناک سانحہ کا سامنا۔ امید ہے کہ جنید جمشید تو بہت جلد قصہ ماضی ہوجائیں گے اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے سلجھ جائے گا مگر یہ سوال کافی عرصہ تک لوگوں کو پریشان کرتا رہے گا کہ کیا JJ’s کے کرتے پہننا جائز ہے یا نہیں۔ امید ہے لوگ جنید جمشید کی نعتوں کی سی ڈیز خریدنے سے قبل بھی اب ایک بار ضرور سوچیں گے۔ جنید جمشید کے معاملہ سے قطع نظر مولانا طارق جمیل سے بصد احترام یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ ذمہ داری تو آپ کی بھی بنتی ہے۔ جنید جمشید کو بارہا اپنی دریافت قرار دینے والے مولانا طارق جمیل کو بری الذمہ قرار دینا مشکل ہے۔
مولانا سے متاثر ہونے والے مشہور افرادکی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے دوستوں کی زندگی بھی اسی طرح تبدیل ہوجائے اسی لیے یہ اپنے دوستوں کو مولانا سے ملوانے کو بے تاب رہتے ہیں ۔
مولانا طارق جمیل سے میرا غائبانہ تعارف بہت چھوٹی عمر میں ہوا، جب میں اپنی پرانی ٹیپ پر ان کے بیانات سنا کرتا تھا، مولانا کی زبان میں اللہ نے عجیب تاثیر رکھی ہے کہ جب وہ بیان دیتے ہیں تو بات دل میں اتر جاتی ہے،آج بھی مولانا کے بیانات کوسننا ایک عجیب روحانی کیفیت کا سبب بنتا ہے۔ وہ ڈاکٹری چھوڑ کر دین کی راہ میں آئے ہیں اورچونکہ ایسی مثالیں کم کم سننے میں آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا کی شخصیت میں کشش بڑھ جاتی ہے۔ مولانا کا یہی پس منظر انھیں روایتی علماء سے دور رہنے والے پڑھے لکھے ،کامیاب ،متمول اور متوسط طبقات میں قابل قبول بناتا ہے۔یہ مولانا کے خلوص کا ہی نتیجہ ہے کہ کئی مشہور شخصیات جن میں جنید جمشید،شاہد آفریدی، انضمام الحق وغیرہ شامل ہیں کھل کر کہتی ہیں کہ وہ مولانا سے عقیدت رکھتی ہیں۔ ان شخصیات کا دعویٰ ہے کہ مولاناکی وجہ سے ہی ان لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آیا ہے اور وہ دین کے قریب آگئے۔مولانا سے متاثر ہونے والے مشہور افرادکی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے دوستوں کی زندگی بھی اسی طرح تبدیل ہوجائے اسی لیے یہ اپنے دوستوں کو مولانا سے ملوانے کو بے تاب رہتے ہیں ۔اس امر کی ایک نمائندہ مثال شاہد آفریدی کا عامر خان کو حج کے موقع پر مولانا سے ملوانا بھی ہے،اس ملاقات میں مولانا نے کوشش کی کہ کسی طرح عامر خان فلم انڈسٹری چھوڑ کر دین کی راہ میں آجائے۔ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد عامرخان بھی فلم انڈسٹری چھوڑ کر داڑھی رکھ لے اور تبلیغی قافلوں کا حصہ بن جائے۔ مولانا کی ہی کوششوں کی وجہ سے وینا ملک نے برقعہ پہن لیا ہے اور ہزاروں لوگ دین کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے دوردراز علاقوں میں دین پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں غرضیکہ مولانا عوام اور خواص میں یکساں مقبول ہیں۔
مجھے مولانا کی جو بات سب سے زیادہ پسند ہے وہ ان کا تمام فرقوں کے بارے غیر متعصب رویہ ہے جو ہمارے مذہبی طبقے میں کم کم ہی نظر آتا ہے لیکن کل مولانا کا جنید جمشید کے معاملے پر بیان سن کر مجھے افسوس ہوا۔مولانا نے کہا کہ میں جنید جمشید سے برآت کا اظہار کرتا ہوں،اور جنید جمشید کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بیان اس کا ذاتی عمل ہے ۔مولانا طارق جمیل کے مطابق جنید جمشید کے متنازعہ بیان کا تبلیغی جماعت کی تعلیمات اور تربیت سے کوئی واسطہ نہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ جنید جمشید کا ذاتی عمل ہے یا بحیثیت استاد مولانا کو بھی ان کی تربیت میں کوتاہی پر ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔
جنید جمشید کے طرز عمل کو سمجھنے کے لیے آپ کو تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ اور مبلغین کو سمجھنا ہوگا۔ تبلیغی جماعت میں شامل ہونے والے افراد عام طور پر میری اور آپ کی طرح دین کے معاملے میں انتہائی مخلص مگر سادہ لوح مسلمان ہوتے ہیں ۔یہ لوگ اپنی زندگی اپنے فہم دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی اسی فہم کے تحت دین کی دعوت دیتے ہیں جن میں عموما نماز روزہ کی پابندی شامل ہوتی ہے۔ ان کے بیانات میں دین کو بہت ہی سادگی سے پیش کیا جاتا ہے اور فرقہ وارانہ گفتگو سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
تبلیغی جماعت کے اراکین زیادہ تر فضائل اعمال اور فضائل صدقات سے واقعات پڑھ کر سناتے ہیں اسی لیے جو شخص بھی تبلیغی جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ بہت جلد تبلیغ کرنا بھی شروع کردیتا ہے ۔لیکن اس طریقہ کار میں مسئلہ یہ ہے کہ تبلیغ کرنے والے عالم دین نہیں ہوتے بلکہ دیگر شعبہ جات کے لوگ ہوتے ہیں جن کا دینی علم بہت ہی محدود اور مذہبی معاملات پر بات کرنے کے آداب اور تربیت محدود تر ہوتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہےکہ جس شخص کو دین کی کوئی بھی سنی سنائی بات آدھی پوری یاد ہو وہ اپنے موقف کی حمایت میں سنا دیتا ہے،مثلا ایک صاحب نے نیک لوگوں کی کرامات کا یہ واقعہ بھی سنا دیا کہ دلی میں ایک ولی اللہ تھے جو بہت ہی صاحب نظر تھے جس پر نظر ڈالتے تھے وہ صاحب حال ہوجاتا تھا،ایک دن ایک کتے پر نظر ڈال دی اور وہ کتا صاحب حال ہوگیا۔
تبلیغی جماعت کے اراکین زیادہ تر فضائل اعمال اور فضائل صدقات سے واقعات پڑھ کر سناتے ہیں اسی لیے جو شخص بھی تبلیغی جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ بہت جلد تبلیغ کرنا بھی شروع کردیتا ہے ۔
سب سے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب قرآن پاک کی کسی آیت یا حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کم علمی کی وجہ سے مطلب اور مفہوم بگاڑ دیا جاتا ہے،ایسے مواقع پر آدمی کا تبلیغی جماعت کے خلوص پر تو نہیں لیکن اس کے تبلیغی پیغام سے دل اٹھ جاتا ہے۔جنید جمشید بھی اسی سسٹم کی پیداوار ہیں اور لگتا ہے کہ عورت کی فطرت کے بارے میں بات کرنا اور اسے کمتر ثابت کرنا ان کا پسندیدہ موضوع ہے ۔وہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے اکثرا حادیث یا ان کے مفہوم کو توڑ موڑ کر اور عامیانہ انداز میں پیش کرتے ہیں تاکہ ان کا مؤقف لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔ان کی اسی کوشش کے باعث ان کے ام المومنین ضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق ان کے بیان کو توہین امیز قرار دیا گیا ہے۔اگرچہ وہ اپنے اس عمل پر معافی مانگ چکے ہیں تاہم ان پر مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں ۔خیر اب یہ تبلیغی جماعت کے اکابرین کے اوپر ہے کہ وہ اپنے تبلیغی بھائیوں کی تربیت کے لیے کیا بندوبست کرتے ہیں یا وہ صرف علماء کو ہی تبلیغ کی اجازت دیتے ہیں۔