Laaltain

غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر پابندی لگانا اور انہیں گرانا

16 جون، 2018
Picture of لالٹین

لالٹین

[blockquote style=”3″]

مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلموں (یا ایسے مسلم فرقے جنہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا جاتا) کے خلاف مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک، نفرت آمیز تحریر و اشاعت اور قتل و غارت معمول ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلامی نظام کے داعی عموماً یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات اسلامی خلافت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مسلم مبلغین یہ تاثر بھی عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام غیر مسلموں کو مکمل تحفظ اور حقوق عطا کرتا ہے۔ تاہم یہ نقطہ نظر اسلام کے ابتدائی دنوں کے ان واقعات سے مطابقت نہیں رکھتا جن میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر پابندیاں عائد کی گئیں بلکہ انہیں نقصان بھی پہنچایا گیا۔ درحقیقت تمام شہریوں کی برابری اور مساویانہ حقوق کا تصور ایک جدید قومی ریاست کا تصور ہے، مسلم خلفاء کے زمانے میں غیر مسلموں (یا جنہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا جاتا) کو دوسرے درجے کا فرد ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یقیناً بعض مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کو عہدے بھی دیئے اور مراعات بھی، تاہم اسلام کا غیر مسلموں سے متعلق حکم انہیں سماجی، سیاسی اور مذہبی اعتبار سے مسلمانوں سے کم تر خیال کرنے کا ہی ہے۔ ذیل میں دیئے گئے حوالے اس ضمن میں اہم اور چشم کشا ہیں اور یقیناً ان واقعات کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسلام کو ایک سیاسی نظام یا حکومت کی بنیاد خیال بنانا تمام انسانوں کی مساوی حیثیت اور تمام شہریوں کے یکساں حقوق کے اصول کے کس قدر برعکس ثابت ہو سکتا ہے۔ ان واقعات کو شائع کرنے کا مقصد مسلمانوں کی دل آزاری نہیں بلکہ تاریخ کو اس کے درست تناظر میں پیش کرنا ہے۔

[/blockquote]
1) حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ “زمانہ جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذوالخلصہ، کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: “کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟” میں ایک سو پچاس سوار لے کر گیا۔ اسے ہم نے توڑ پھوڑ دیا اور اس کے مجاوروں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سارا قصہ بیان کیا تو آپ نے ہمارے اور قبیلہ احمس کے لئے دعا فرمائی۔”
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ ذی الخلصۃ، حدیث 4355)

دوسری روایت میں ہے: “”ذوالخلصہ یمن میں قبیلہ خثعم اور بجیلہ کا ایک گھر تھا جس میں بُت نصب تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی۔، اسے کعبہ کہا جاتا تھا۔ حضرت جریر نے اسے آگ لگا دی اور گرا دیا۔”
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ ذی الخلصۃ، حدیث 4357)

2) عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے دریافت کیا گیا: کیا مشرکین کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ عرب کی سرزمین پر اپنے عبادت خانے بنائیں؟ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: جو شہر مسلمانوں کے ہیں، اُن میں کوئی عبادت خانہ یا گرجا گھر یا آگ کا عبادت خانہ یا صلیب نہیں بنائے جا سکتے۔ وہاں بوق نہیں بجایا جا سکتا، وہاں ناقوس نہیں بجایا جا سکتا۔ ان میں شراب یا خنزیر کو نہیں لایا جا سکتا۔ (ہاں) جب کسی علاقے کے (غیر مسلم) لوگوں کے ساتھ مصالحت ہو گئی ہو تو مسلمانوں پر یہ بات لازم ہے کہ انہوں نے ان کے ساتھ جو صلح کی ہے اسے پورا کریں۔” (راوی) بیان کرتے ہیں: مسلمانوں کے علاقے کی وضاحت یہ ہے کہ جو علاقے عرب کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں یا مشرکین کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہوں اور (مسلمانوں نے) انہیں مقابلہ کر کے حاصل کیا ہو۔
(مصنف عبدالرزاق، 60/6، کتاب اہل الکتاب، باب هدم كنائسهم وهل يضربوا بناقوس؟، رقم 10002)

3) حرام بن معاویہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ہمیں خط لکھا کہ “تمھارے علاقہ میں کوئی خنزیر نہ آنے پائے اور نہ ہی تمھارے علاقہ میں صلیب کو بلند کیا جائے۔۔۔۔”
(مصنف عبدالرزاق، 60/6، کتاب اہل الکتاب، باب هدم كنائسهم وهل يضربوا بناقوس؟، رقم 10003)

4) وہب بن نافع بیان کرتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عروہ بن محمد کو خط میں لکھا کہ وہ مسلمانوں کے علاقوں میں موجود گرجا گھروں کو منہدم کر دیں۔ راوی بیان کرتا ہے: مَیں عروہ بن محمد کے پاس موجود تھا، وہ سوار ہو کر گرجا گھر کے پاس گئے، پھر انہوں نے مجھے بلایا، مَیں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خط کے بارے میں گواہی دی تو عروہ نے اُس گرجا گھر کو منہدم کر دیا۔
(مصنف عبدالرزاق، 59/6، کتاب اہل الکتاب، باب هدم كنائسهم وهل يضربوا بناقوس؟، رقم 9999)

5) مشہور امام حسن بصری سے مروی ہے کہ “سنت یہ ہے کہ شہروں میں موجود پرانے یا نئے تمام گرجا گھروں کو منہدم کر دیا جائے۔”
(مصنف عبدالرزاق، 60/6، کتاب اہل الکتاب، باب هدم كنائسهم وهل يضربوا بناقوس؟، رقم 10001)

6) اسماعیل بن امیہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ وہ (مشہور تابعی) ہشام کے ساتھ حدہ سے گزرے، جہاں ایک نیا گرجا گھر بنا تھا، انہوں نے اسے منہدم کرنے کے بارے مشورہ لیا اور پھر ہشام نے اسے منہدم کروا دیا۔
(مصنف عبدالرزاق، 59/6، کتاب اہل الکتاب، باب هدم كنائسهم وهل يضربوا بناقوس؟، رقم 10000)

ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو ہرگز ان کے عبادت خانے بنانے یا اپنے مذہبی شعائر بجا لانے کی اجازت حاصل نہیں تھی۔ اسی طرح مسلمانوں کے ہاں غیر مسلموں کے عبادت خانوں کو گرانے اور ڈھانے کا عام معمول تھا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ عیسائیوں کے گرجا گھروں کو ڈھانے کے بارے میں فرماتے ہیں: “مسلمانوں میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس پر انکار کرے کہ مفتوحہ علاقوں کے گرجا گھروں کا گرانا جائز ہے، اگر اس میں مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ ہو۔” (مسألة في الكنائس، 122-123)

دیگر معاشرتی و سماجی پابندیوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے عبادت خانوں کی اس تباہی سے صرف وہی علاقے مستثنیٰ تھے جہاں دیگر اقوام نے اسی شرط پر مسلمانوں سے صلح کی تھی۔

7) عمر بن میمون بن مہران بیان کرتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خط میں لکھا کہ شام میں موجود عیسائیوں کو ناقوس بجانے سے منع کر دیا جائے۔ کہا: انہیں اس بات سے بھی منع کر دیا گیا کہ وہ (بالوں کی) مانگ نکالیں یا پیشانی کے بال کاٹیں یا اپنے مخصوص قسم کے پٹکے باندھیں۔ وہ زین پر سوار نہیں ہو سکتے، وہ پٹیاں نہیں پہن سکتے۔ ان کے عبادت خانوں کے اوپر صلیب کو بلند نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی (غیر مسلم) شخص اس میں سے کسی جرم کا مرتکب ہو اور اس سے پہلے اس کی طرف حکم آ چکا ہو تو جو شخص اس پر حملہ کرے گا، اس کا ساز و سامان حملہ کرنے والے شخص کو مل جائے گا۔ کہا: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان (غیر مسلموں) کی عورتوں کو اس بات سے منع کر دیا جائے کہ وہ پالکیوں پر سوار ہوں۔
عمر بن میمون بیان کرتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان لوگوں کے عبادت خانے ڈھانے کے بارے مجھ سے مشورہ کیا تو مَیں نے کہا: “انہیں منہدم نہ کریں کیونکہ اس پر ان کے ساتھ صلح ہوئی تھی تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس (ارادے) کو ترک کر دیا۔
(مصنف عبدالرزاق، 61/6، کتاب اہل الکتاب، باب هدم كنائسهم وهل يضربوا بناقوس؟، رقم 10004)

معلوم ہوا کہ غیر مسلموں پر ناقوس بجانے، بالوں کی مانگ نکالنے، کاٹھی و زین وغیرہ پر سواری کرنے حتیٰ کہ ان کی عورتوں کے پالکیوں پر سوار ہونے تک کی پابندی عائد تھی اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے لئے یہ افعال جرم سمجھے جاتے تھے جس کی خلاف ورزی پر کسی کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ اس کے مرتکب غیر مسلم پر حملہ آور ہو اور اس کا ساز و سامان لوٹ لے۔ یہاں یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ہمارے ہاں پانچویں خلیفہ راشد مانے جاتے ہیں اور انتہائی رحمدل اور انصاف پسند اسلامی حکمران کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں شام یا کچھ دیگر علاقوں میں غیر مسلموں کے عبادت خانوں کو گرانا ترک کیا گیا یا انہیں قائم رہنے دیا گیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے مسلمانوں سے اس پر صلح کی تھی۔ مگر اس میں بھی پابندی تھی کہ وہ نئی عبادت گاہیں نہیں بنا سکتے اور اپنے پہلے سے موجود پرانے عبادت خانوں پر ہی اکتفا کریں گے حتیٰ کہ پرانے اور خستہ ہونے پر ان کی مرمت تک نہیں کر سکتے۔

8) چنانچہ حضرت عمر کے دور میں اہل شام کے محاصرے کے بعد ان کے ساتھ جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا، ان میں سرفہرست ان سے یہ شرائط لکھوائی گئی تھیں:
★ ہم اپنے ان شہرں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔
★ مذہبی عبادتگاہوں اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو پرانے ہو کر گرنے والے ہیں ان کی مرمت نہیں کریں گے۔
(تفسیر ابن کثیر: تحت سورۃ توبہ آیت 29، إرشاد الفقيه لابن کثیر: 340/2، المحلی لابن حزم: 346/7، الاحکام الصغریٰ لعبدالحق الاشبیلی: 600، أحكام أهل الذمة: 1149/3)

یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ غیر مسلموں کے لئے اگر پرانی ہوتی خستہ حال اپنی عبادت گاہوں کو درست کرنے اور ان کی مرمت کرنے پر بھی پابندی عائد تھی تو پھر اس کا نتیجہ بھی بالآخر ان کے گرنے اور تباہ ہونے کی صورت میں ہی نکل سکتا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *