Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

قینچی چپل-دوسری قسط

test-ghori

test-ghori

25 فروری, 2016
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
قسط نمبر-2
“بکواس بند کرو، یہ طریقہ ہے افسروں سے بات کرنے کا؟ تُم مولوی لوگ یہاں ڈسپلن کے ساتھ زنا کرتے رہو اور ہم اسلام سمجھ کے نظر انداز کر دیں تو چل نکلا فوج کا کام تو۔۔۔ دفع ہو جاو یہاں سے اور وردی پہن کے مُجھے رپورٹ کرو۔۔۔”عثمان چلّایا تو احسان نے آگے بڑھ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

 

“Ottoman please” احسان نے عثمان کا شانہ دبایا۔

 

“جوان تُم جاو اور صاحب جو کہتے ہیں، کرو” احسان نے آہستہ سے سیلر کو حُکم دیا اور عثمان کا ہاتھ پکڑ کر آفیسرز میس کی طرف چل دیا۔ آفیسرز میس تک وہ دونوں خاموش چلتے رہے۔ عثمان کے کمرے میں جاتے ہوئے عثمان پہلے سیڑھیوں پر چڑھا۔

 

“عثمان یار عقل سے کام لیا کرو، تُم پہلے بھی اس حوالے سے کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتے ہو پھر دوبارہ مولویوں کے ساتھ پنگا لینے کی کوشش؟؟؟ کہاں کی دانائی ہے یہ؟ یہ اکیڈمی نہیں ہے جہاں تمہاری ہر طرح کی بارکنگ سُنی جاتی تھی، اور بالخصوص ایسے نازک معاملے پر۔۔۔” احسان نے کمرے میں آتے ہی کتابوں کی الماری کے سامنے کھڑے ہو کر عثمان کو ‘لتاڑنا’ شروع کر دیا۔

 

سول کپڑے پہن کر چھاونی میں ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں جیسے منڈی میں آئے ہیں اور میس جیسی مقدس جگہ۔۔۔ اُف خُدایا، اپنے گُل محمد ڈرائیور ہوٹل سا ماحول بنا دیا ہے
“بھائی آپ کو نہیں اندازہ، نئی نسل کے سولجر میں پہلے سی فوجی آداب کی پاسداری کس طرح ختم ہو چکی ہے۔ سول کپڑے پہن کر چھاونی میں ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں جیسے منڈی میں آئے ہیں اور میس جیسی مقدس جگہ۔۔۔ اُف خُدایا، اپنے گُل محمد ڈرائیور ہوٹل سا ماحول بنا دیا ہے” عثمان نے تولیے سے اپنا چہرہ رگڑ کر پونچھتے ہوئے کہا۔

 

“تو عثمان میاں، یہ تُم افسروں کی کمزوری ہے، لیکن معاملہ یہ نہیں۔۔۔ سروس کے بدلتے ہوئے ماحول کو دیکھو۔۔۔ اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کیا ہو گا۔۔۔ وہ ہم لوگ ائر فورس میں جسے جنرل ایپلی کیشن کہتے ہیں۔۔۔ وہ کیا ہوتی ہے جب ایک سپاہی اپنے افسر کے رویّے کی شکایت کرتا ہے کمانڈ سے۔۔۔” احسان نے بات کرتے ہوئے حافظے پر زور دیتے ہوئے اپنی کنپٹی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا۔

 

“جی، وہ سروس افیئر کی درخواست” عثمان نے لقمہ دیا۔

 

“ہاں، وہ سروس افیئر۔۔۔ تو یہ حافظ صاحب تمہارے خلاف سروس افیئر کی درخواست لکھ مارے گا۔۔۔ اور پھر بُھگتنا۔۔۔” احسان نے حتمی انداز میں کہا اور کچھ دیر تک دونوں خاموش کھڑے رہے۔

 

“یار عثمان تمہارا نظریہ بالکل درست ہے کہ سروس کو اپنے کلاسیکل ڈسپلن اور روایات برقرار رکھنے چاہئیں لیکن اس کا اظہار تم غلط انداز میں کر رہے ہو۔ اب اس معاملے میں مذہبی آ پڑے ہیں تو دیکھو کہ اب تمہارے آس پاس واسکو ڈی گاما کی تقلید میں نیول فیشن والی کوئی ڈاڑھی نہیں ملے گی بلکہ ساری سچی سُچی اسلامی ڈاڑھیاں ملیں گی۔ عثمان میاں نیوی میں یہ ڈاڑھیاں تینوں مسلح افواج سے زیادہ ہیں” احسان نے صبح کی پچکی پانی کی بوتل سے ایک گھونٹ پی کر کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔

 

“بھائی صورتحال اتنی گھمبیر نہیں ہے جتنی آپ بنا رہے ہیں” عثمان نے بیڈ پہ نیم دراز ہوتے ہوئے اور اپنی سفید وردی اور سفید بیلٹ کو ڈھیلا کرتے ہوئے کہا۔

 

“نہیں میرے بھائی، ایسا ہی ہے۔ سروس میں نظامت تعلیمات اسلامی کے شعبے کے لوگ نظریاتی طور پر پہلے سے زیادہ بااختیار ہو گئے ہیں۔ دیکھ یار، ابھی چند سال پہلے تک نئے جہازوں کی افتتاحی تقریب میں جہاں کنواری لڑکی عرشے پر شراب کی بوتل توڑ کر جہاز کا افتتاح کرتی تھی، اب وہاں ایک چیف خطیب صاحب قرآن خوانی سے افتتاح کر رہے ہوتے ہیں اور جہاز کا پہلا کروز جدّے کا ہوتا ہے جو کہ کوئی بُری بات نہیں لیکن تمہارے سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ وہ سینکڑوں سال پُرانی روایات ڈاکیارڈ کے ایک خطیب صاحب کی مداخلت پر ختم ہو گئی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ان مُلّاوں کے کہنے پر۔۔۔ عثمان بچے، ہم ایک مسلمان نیوی یا فضائیہ کی حیثیت سے اپنی جو شناخت بنا رہے ہیں، وہاں اب ہمیں بہت سی نئی چیزوں کو برداشت کر کے سروس کے آداب کے کلاسیک برٹش مفہوم بھلانے پڑیں گے اور مولوی طبقے کے ساتھ بنا کر رکھنی پڑے گی، خواہ وہ ہمیں پیک کیپ کی جگہ عربوں والے عقل چوس ہی کیوں ناں پہنا دیں” احسان نے عرب رکاف کے لئے وضع کردہ اصطلاح کی وضاحت کے لئے ساتھ ساتھ ہاتھوں سے اپنے سر پر ایک خیالی رکاف بناتے ہوئے اپنی تقریر جاری رکھی۔ عثمان ایک بچے کی طرح سر ہلانے لگا۔

 

“لہٰذا” احسان پھر سے گویا ہوا۔

 

ابھی چند سال پہلے تک نئے جہازوں کی افتتاحی تقریب میں جہاں کنواری لڑکی عرشے پر شراب کی بوتل توڑ کر جہاز کا افتتاح کرتی تھی، اب وہاں ایک چیف خطیب صاحب قرآن خوانی سے افتتاح کر رہے ہوتے ہیں
“اگرچہ مجھے پتہ ہے کہ مذہبی ذہن ہمیں ملٹری ٹریڈیشن اور روایات کا کوئی ماڈرن متبادل نہیں دے سکتا۔ خیر، سرِ دست کام کی بات یہ ہی کہ تُم حافظ کو واجبی سی سزا ضرور دو تاکہ سروس ڈسپلن کا تقاضہ پورا ہو جائے لیکن کوئی ایسی ویسی بات ناں کہہ دینا جیسی پہلے بک دی ہیں تم نے، بونگے کہیں کے۔۔۔” احسان نے مُربّیانہ انداز میں کہا تو دونوں ہنس دیئے۔ عثمان کو اندازہ تھا کہ احسان کا اس کے پاس اتنا آنا جانا ضرور تھا کہ وہ نیول مزاج کو سمجھنے لگ پڑا تھا اور وہ اس سے قطع نظر مسلح افواج کے دیگر ماحول کو بھی گہرائی میں سمجھتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں کمرے سے نکلے اور دفتر کی طرف چلے جہاں عثمان کو بطور آفیسر آف دی ڈے بیٹھنا تھا۔

 

دفتر کے سامنے چھوٹا پریڈ گراونڈ تھا جس کے ایک کونے میں حافظ ناصر وردی پہنے ہُشیار باش کی حالت میں کھڑا پیٹی افسر خان زمان کے سوالات کے جوابات دیئے جارہا تھا۔ عثمان ان دونوں کے سلیوٹ نظرانداز کرکے دفتر میں آ بیٹھا۔ احسان صوفے پر نیم دراز ہو کر کچھ گنگنانے لگا۔

 

“دو کولڈ ڈرنک۔۔۔ لیمونیڈ۔۔۔ یہاں بھیج دو” عُثمان نے کچن کا فون ملا کر کہا اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے میز بجانے لگ گیا۔ وہ احسان کی طرف دیکھ کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن احسان کی توجہ اس طرف نہ تھی۔ “سر، حافظ ناصر اسٹور اسسٹنٹ باہر موجود ہے۔۔۔ کیا حُکم ہے اس کے بارے میں؟”پیٹی افسر خان زمان نے دروازے میں آ کر سلیوٹ داغتے ہوئے کہا۔

 

“چیف صاحب، آپ کو معاملہ بھگتانے کی جلدی ہے یا یونہی سپاہیوں کے حق میں مدرٹریسا بنے پھرتے ہیں؟؟” عثمان نے مصنوعی ناگواری سے کہا تو خان بغلیں جھانکنے لگا۔

 

“اس کی چارج شیٹ بنا کر لے آئیں میرے پاس، میس میں ناموزوں لباس پہننے اور افسرِ بالا سے بدتمیزی کے الزامات میں” عثمان نے سگریٹ سُلگاتے ہوئے کہا تو خان زمان سلیوٹ کر کے پیچھے مُڑا۔

 

“چیف صاحب” عثمان نے اچانک کچھ یاد آنے پر اس دوبارہ آواز دی تو وہ ایک بار پھر مُڑا ۔

 

“سر” خان اُس کی طرف جھُکا ۔

 

” اُسے باہر دھوپ میں کھڑا رکھیں، تاحُکمِ ثانی۔۔۔” عثمان نے حُکم دیا اور اٹھ کر غسل خانے چلا گیا۔ کولڈڈرنک آچکے تو احسان ایک بار پھر اپنے صبح والے موضوع کی طرف آیا۔

 

“اوٹومین، تو ذرا وہ کتاب پڑھ میرے بھائی۔۔۔” وہ عثمان کو اکثر اوٹومین ہی کہہ کر پکارتا تھا۔

 

“بریگیڈیر جیمز ہارگیسٹ کی آپ بیتی ہے۔ وہ دوسری جنگِ عظیم میں اطالوی قید سے فرار ہونے والے چند سینئر ترین افسروں میں سے تھے۔ وہ چند جرنیل تھے جو ایک ہی کیمپ میں رکھے گئے تھے۔۔کمال کہانی ہے یار۔۔۔” احسان نے سگریٹ مانگنے کے لئے دو انگلیوں کا وکٹری سائن بناکر بڑھایا جس میں عثمان نے سگریٹ ٹھونس دی۔

 

چیف صاحب، نیک لڑکا ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ سروس ڈسپلن کے ساتھ اغلام کرتا پھرے اور افسروں سے سینگ لڑائے؟ آپ یہ بات اُسے سمجھا دیجئے گا پلیز
“جیمز ہارگیسٹ؟ وہ کون تھا بھلا؟” عثمان نے دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے پوچھا۔

 

“یار ایک پارلیمنٹ ممبر تھا، پہلی جنگ عظیم میں بھی لڑ چکا تھا، تمہاری عمر میں تو لیفٹیننٹ کرنل تھا وہ۔۔۔ اس کی کہانی میں کمال کی بات یہ ہے کہ قید میں انہوں نے جعلی دستاویزات خود کس طرح تیار کر لیں، دستیاب وسائل میں۔۔۔” احسان نے سگریٹ بجھا کر کولڈ ڈرنک کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے اتنا ہی کہا تھا کہ عثمان کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی ۔

 

“ہیلو” عثمان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تو احسان مسکرا دیا۔ دوسری طرف سے سلام ہوا تو عثمان پہچان گیا ۔ یونٹ کے چیف خطیب قاری عبدالصبور صاحب تھے۔

 

“چیف صاحب، ارشاد ہو، کیسے یاد فرمایا” اگرچہ عثمان کسی حد تک بھانپ گیا تھا کہ صبور صاحب کس کام سے فون کر سکتے ہیں لیکن اس نے مصنوعی خوش اخلاقی سے کہا۔

 

“سر ہمارا عزیز ہے، حافظ ناصر۔۔۔ سُنا تھا آپ کو ناراضی ہوئی ہے اس سے۔ سر میں نے اسے کہہ رکھا ہے کہ میری غیر موجودگی میں نماز کی امامت کروا دیا کرے، سو اکثر مسجد میں ہوتا ہے، میں نے اس کی ڈیوٹی واچ بھی معاف کروا رکھی ہے۔ سر آپ بھی مہربانی کر کے جانے دیجئے، بڑا باعمل اور نمازی بچہ ہے”چیف صبور نے بڑے شیریں لہجے میں کہا۔ لاوڈ اسپیکر پہ احسان بھی سُن رہا تھا۔

 

“چیف صاحب، نیک لڑکا ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ سروس ڈسپلن کے ساتھ اغلام کرتا پھرے اور افسروں سے سینگ لڑائے؟ آپ یہ بات اُسے سمجھا دیجئے گا پلیز”عثمان نے ناگواری سے کہا اور فون بند کر دیا۔

 

“یار اوٹومین، پھر وہی حماقت۔۔۔” احسان نے بھنویں تن کر کہا۔

 

“یہ جو خطیب صاحبان ہیں ناں، ان سے جرنیل بھی ذرا مہذب یعنی غیرفوجی زبان میں بات کرتے ہیں اور تُم ہو کہ۔۔۔ اچھا دفع کرو” احسان نے سر جھٹک کر اپنا گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔ عثمان اٹھ کر آئینے میں دیکھ کر اپنے بال درست کرنے لگا۔

 

“یہ جو چیف صبور ہے ناں، اس نے نیول ہیڈ کوارٹر میں سروس کے دوران ایک شیعہ کیپٹن کے بارے میں اُڑائی تھی کہ وہ قادیانی ہے، ایک بار تو سوشل لائف تباہ کر کے رکھ دی تھی اس بےچارے کی ۔۔۔لیکن یہ ایڈمرل سعید اللہ کا خاص تعلق دار ہونے کی وجہ سے محاسبے سے بچ گیا” احسان نے رزادارانہ انداز میں کہنا شروع کیا۔

 

“تمہیں تو یاد نہیں رہتا۔ ابّو ایک بار رائے ونڈ گئے تھے سہ روزہ لگانے۔۔۔ یہ چیف صبور اور ایڈمرل سعیداللہ بھی وہیں تھے۔ ابّو ان کے بارے میں خوب جانتے تھے۔ یہ مکتبِ فکر تعداد میں بے شک کم ہے لیکن فوج کی ‘ریلیجس برانچ’ یا جسے تم ۔۔۔ کیا کہتے ہو۔۔۔ نظامتِ تعلیماتِ اسلامی، اُس میں قریب قریب سارے افسر اور خطیب اسی پارٹی کے ہیں کاکا۔۔۔” احسان ہمیشہ عثمان کو ڈرانے کے لئے ایسی باتیں سمجھاتے ہوئے بڑا گھمبیر لہجہ طاری کر لیتا تھا تاکہ وہ ان کا اثر لے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان کے خاندان کا واحد کمیشنڈ افسر کسی احمقانہ حرکت کی وجہ سے کسی مصیبت میں پڑے۔

 

حافظ ناصر کو آفیسر آف دی ڈے کے دفتر کے سامنے باوردی دھوپ میں کھڑے ہوئے ایک گھنٹہ بیت چکا تھا ۔
“اچھا چھوڑیں بھی، آپ بتا رہے تھے، کسی ناول کے بارے میں۔۔۔”عثمان نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔

 

“جی ہاں، الوداع کیمپ نمبر بارہ۔۔۔ کمال کہانی ہے یار یہ”احسان نے چونک کر اس ناول کا ذکر دوبارہ چھیڑا جو پہلے چیف صبور صاحب کا فون آنے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا لیکن اسی لمحے دروازے ہی ہلکی سی دستک ہوئی اور ساتھ ہی پیٹی اافسر خان زمان نمودار ہو ا۔

 

“سر یہ رہی چارج شیٹ، حافظ ناصر باہر کھڑا ہے” خان زمان نے لمبے اوراق والی ایک کتاب سی کھول کر سامنے رکھ دی اور بال پین جیب سے نکال کر عثمان کو تھمایا۔

 

“ٹھیک ہے، اس لڑکے کو کہو کہ جب تک میری اجازت نہ ہو، یہیں کھڑا رہے، یہاں سے ہلا تو میں ایلیفنٹائز کر دوں گا۔۔۔ ایلیفنٹائز تو سمجھتے ہیں ناں چیف صاحب؟؟؟” عثمان نے چارج شیٹ پر دستخط کرتے ہوئے سختی سے کہا۔ خان زمان نے ہلکے سے مسکرا کر “یس سر” کہا اور سلیوٹ کر کے کتاب بغل میں ڈالے باہر چلا گیا۔ ہاتھی کے عضوِ مخصوص کا ذکر ڈسپلن کے نفاذ کی مد میں کئی فوجی ایک آلہ کار کے طور پر کرتے رہتے ہیں۔

 

“اوٹومین، یارا چلیں خٹک کی کینٹین پر ، سموسے کھاتے ہیں۔۔۔”احسان نے اچانک تجویز پیش کی۔

 

“یہیں ناں منگوا لیں؟”عثمان نے ناک چڑھا کر کہا۔

 

“نئیں یار۔۔ چل اُٹھ، وہیں چلیں” احسان نے حتمی لہجے میں کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ عثمان بھی کندھے اچکا کر اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں دفتر سے باہر نکل گئے۔

 

حافظ ناصر کو آفیسر آف دی ڈے کے دفتر کے سامنے باوردی دھوپ میں کھڑے ہوئے ایک گھنٹہ بیت چکا تھا۔ پسینے کے قطرے اس کی پیشانی، چہرے اور ڈاڑھی پر سے، جو ٹھوڑی اور رخساروں پر کہیں کہیں، بے ترتیبی سے اُگی تھی، اور ناک کے پھننگ سے ٹپک ٹپک کر وردی پہ گر رہے تھے۔وہ زیرِ لب کچھ بڑبڑائے جا رہا تھا۔

 

“حافظ، تُم یہاں کس چکر میں؟؟؟”عقب سے اسے ایک جانی پہچانی آواز آئی۔ یہ لیڈنگ اللہ نواز خان نیازی تھا جس کاتعلق نیول انٹیلی جنس سے تھا اور بوٹ کیمپ کے دنوں سے، جب ناصر کی مسیں پوری طرح نہیں بھیگی تھیں، اُس پر “کافی” مہربان تھا۔ وہ اکثر سول کپڑے پہنے گھومتا پھرتا اور ادھر اُدھر کے دیگر متعلقہ اور غیر متعلقہ معاملات کی خبریں لیتا اور چغلیاں کھاتا رہتا تھا۔

 

نیازی چونکا اور اس کے اندر کے جاسوس نے انگڑائی لی۔ اس کی معاش ہی انہی چھوٹی چھوٹی جاسوسیوں اور چغل خوریوں کے ساتھ وابستہ تھی اور اس میں اس کا چنداں قصور نہ تھاکہ اس کو اس کے ادارے کی طرف سے یہ عادت بصد فخر ڈالی گئی تھی
“سر جی، وہ انگریز بہن چود ہے ناں، اُس نے سزا دے رکھی ہے” حافظ ناصر نے سخت ناگواری سے کہا۔ نیازی کو خبر تھی کہ لیفٹیننٹ عثمان کو سیلر لوگ پیٹھ پیچھے انگریز کے نام سے ہی پکارتے تھے۔

 

“بھڑوا۔۔۔ اسلام کے ارکان کے بارے میں ایسی بکواسیں کر رہا تھا کہ کیا بتاوں آپ کو سرجی۔۔۔”حافظ نے نیازی کے ساتھ بے تکلفی کے مراسم سے شہ پاکر لیفٹیننٹ عثمان کی روح کو گالیاں ہدیہ کرتے ہوئے کہا۔

 

“اچھا؟؟؟” نیازی چونکا اور اس کے اندر کے جاسوس نے انگڑائی لی۔ اس کی معاش ہی انہی چھوٹی چھوٹی جاسوسیوں اور چغل خوریوں کے ساتھ وابستہ تھی اور اس میں اس کا چنداں قصور نہ تھاکہ اس کو اس کے ادارے کی طرف سے یہ عادت بصد فخر ڈالی گئی تھی، اس کی سوچ کو اتنا ہی پروان چڑھنے دیا گیا تھا۔ حافظ ناصر اپنے الفاظ میں کہانی سُنا چکا تھا، اسی اثناء میں نیازی نے اشاروں میں ہی خان زمان سے دعا سلام کرلی تھی اور حافظ سے بات کرنے کی اجازت بھی لے لی تھی۔

 

 

چوتیا انسان ناں ہو تو” نیازی نے نفرت کے ساتھ ایک اور گالی ہولے سے داغ دی۔
“حافظ، تم اس کے خلاف سروس افیئر کی درخواست لکھو، یقین کرو اس کی پھٹ کے گلے میں آجائے گی، تم لکھو کہ اس نے اسلامی شعائر اور سُنّت کے بارے میں گستاخانہ باتیں کی ہیں، پھر دیکھنا تماشہ”نیازی نے رازداری سے کہا ۔ ناصر کے چہرے پر ایک شریر سی فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نیازی نے حافظ کا شانہ تھپتھپایا اور چلتا بنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“یہ کیا ہے۔۔ ۔سگنل ہے کوئی کمانڈر کراچی کے۔۔۔” عثمان اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے، میز پر پڑے فیکس کی طرف دیکھتا دیکھتا رُک گیا۔

 

“Horseshit!!!” اس نے وہ فیکس پڑھ کر ایک طرف رکھ دی۔

 

“بھائی، ایک تو میں وار آن ٹیرر والے ناٹک سے بہت تھک گیا ہوں۔ دُشمن ہمارے چاروں طرف ہے، موت سر پر منڈلا رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم زمانہء امن میں ہیں اور آپریشن تو بس سرحد میں کہیں ہو رہا ہے۔۔ پھر اچانک موت آ پڑتی ہے کسی ایسی جانب سے کہ کسی کو گمان بھی نہیں گزرتا” عثمان نے فیکس پڑھ کر ایک نیا موضوع چھیڑ لیا۔
“کیا ہے اس میں؟” احسان نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔

 

چار مارشل لاء، طالبان کا جنم، بدبودار قسم کا سیاسی کردار اور اس طرح کے داغ ہیں خاکی وردی پر، جنہیں فوجی نے تن تنہا خون سے دھونا ہے خواہ دُھلنے میں کئی سال لگیں۔
“وہی روز روز کی تنبیہ کہ ہمارے یونٹ اور گردو نواح کی ائر فورس کی تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ ہے، محتاط رہیں، یہی ہدایات وغیرہ۔۔۔” عثمان نے فیکس اُٹھا کر عثمان کی طرف اچھال دیا۔ وہ آئے روز اس طرح کی دھمکیا ں پڑھ پڑھ کے اُکتا گیا تھا اور حقیقی خطرے اور متوقع خطرے کے درمیان کی حدِ فاصل سے دُور نکل آیا تھا۔۔۔
“ہم وہ بد قسمت لوگ ہیں یار ۔۔۔ بے وقوف قوم کہوں تو بہتر رہے گا یار۔۔۔کہ ہمارا خون رائیگاں بہہ رہا ہے اور ہم ابھی تک دشمن کو دشمن ہی نہیں سمجھ رہے، اس جنگ کو اپنی جنگ تو کیا، محض ایک جنگ ہی تسلیم نہیں کر رہے تو لڑیں گے کیا؟”احسان نے چکنے سے کاغذکو گود میں لے لیا اور لمبی سانس لے کر بولا۔

 

“کس کا ذہن مانتا ہے کہ یہ اتنی بڑی جنگ ہمارے دشمن تخریب کار ، امریکا اور بھارت کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔۔۔ بھارت ہماری اندرونی تباہی سے کوئی فائدہ اٹھانے سے تو یقیناً باز نہیں آئے گا لیکن یار وہ ہم سے اتنی بڑی انگلی نہیں لے سکتا” عثمان آہستہ سے بولا۔

 

“یارا، امریکا اور بھارت، کتنے ہی بد خواہ اور بد طینت ہوں، پاکستان کو اس حد تک تباہ حال کرنا بھی نہیں چاہتے جس حد تک یہ مادرچود طالبان اور دیگر شدت پسند ہمیں تباہ کرنے پہ تُلے ہیں۔ پھر یہ دشمن تو واضح طور پر وہی لوگ ہیں جن کی ایک بڑی تعداد خود ہمارے ہاتھوں کی پلی ہوئی ہے۔ اب تُم اور میں ایک جھنڈے کے نیچے لڑ رہے ہیں جبکہ یہ جنگجو فری لانس ہیں، جو کوئی ان سے پراکسی جنگ لڑوانا چاہے، انہیں ڈالر یا ریال دے اور لڑوا لے۔۔۔ لیکن کھیل اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ خیر، بے شک کوئی بھی لڑ رہا ہو، اگر ہمیں ان کی شناخت نہیں بھی ہو رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے لڑنا ہمارا قومی فریضہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ان سے نہ صرف لڑنا ہے اور بالخصوص ہم فوجیوں کو یہ بات ذہن نشین کرکے لڑنا ہے کہ ہمارے کارناموں کو کوئی سراہنے والا نہ ہو گا بلکہ ہمارا بہتا ہوا خون مکافاتِ عمل کی ستم ظریفی گردانا جائے گا کہ یہ طالبان کا بیج بھی تو پہلے کے جرنیلوں کا بویا ہوا ہے۔ عُثمان، ابھی دیکھنا ہم نے کتنے سر بھینٹ چڑھانے ہیں لیکن یہ بات بھی یارہے کہ اس جنگ سے کوئی عزیز بھٹی پیدا نہیں ہوگا۔۔۔ مطلب اُس سے بھی دلیر لوگ مریں گے لیکن یاد کسی کو نہیں رکھا جائے گا۔ ایسے میں یہ بھی بڑی بات ہے کہ ہم، فوجی لوگ، اگلے ایک دو سال تک لڑ لیں اور گھٹنے نہ ٹیکیں اور یہی امتحان ہوگا ہماری عظیم اور شہرہء آفاق سپاہ کا۔۔۔” احسان کو پتہ ہی نہ چلا کہ اُس کی آواز بلند ہو گئی۔

 

ہمارے دشمن کے پاس جو ہتھیار ہے اور جسے وہ ہمارے خلاف شدت سے استعمال بھی کر رہا ہے، ہم خود اس ہتھیار کی محبت میں مبتلا ہیں۔ وہ ہے مذہب۔
“لیکن گلوری اور عظمت کی خود فریبی کے بغیر ہم کس طرح لڑ سکتے ہیں جبکہ آپ کے خیال میں یہ سارے ویٹرن حرفِ غلط کی طرح مٹ جائیں گے؟”عثمان نے احسان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔

 

“یہ ہونا ناگزیر ہے۔ چار مارشل لاء، طالبان کا جنم، بدبودار قسم کا سیاسی کردار اور اس طرح کے داغ ہیں خاکی وردی پر، جنہیں فوجی نے تن تنہا خون سے دھونا ہے خواہ دُھلنے میں کئی سال لگیں۔ ایسے میں ان قربانیوں کو قوم قبول نہ بھی کرے تو ہم کیا کہہ سکیں گے؟ ہمارا دوسرا بڑا سردرد یہ ہے کہ۔۔۔” احسان صوفے پر نیم دراز ہو کر بولا۔

 

“ہمارے دشمن کے پاس جو ہتھیار ہے اور جسے وہ ہمارے خلاف شدت سے استعمال بھی کررہا ہے، ہم خود اس ہتھیار کی محبت میں مبتلا ہیں۔ وہ ہے مذہب۔ چلو مجھ پر تو تم دہریت کا فتویٰ لگانے سے بھی باز نہیں آتے لیکن تم خود تو اسلام کے ساتھ لگاو رکھتے ہو، تاریخ اسلام اور فروعاتِ دین کے بھی قائل ہو، تُم خود انصاف سے دیکھو کہ اسلام کے نام پر ہمارے ساتھ کیسے کیسے دھوکے ہوئے ہیں۔ ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ کا جو نعرہ ہم نے اپنے سپاہی اور مجاہدکو کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لئے سکھایا تھا، آج ہمارے گلے میں ایسا پھنسا ہے کہ ہم سے یہ نعرے سیکھنے والے آج ہم سے ذیادہ متقی اور مجاہد بن کر اب ہم پر اپنا قانون اور حُکم لگانے کی سوچ رہے ہیں۔۔۔”اسی اثناء میں خان زمان ایک بار پھر نمودار ہوا۔

 

“سر وہ لڑکا نماز پڑھنے کے لئے جانا چاہتا ہے”خان زمان نے حافظ ناصر کے بارے میں حُکم طلب کیا۔

 

“سزا تو ناں ہوئی، کرکٹ میچ ہو گیا ناں” عثمان نے نے غصے سے کہا، پھر گھڑی پہ وقت دیکھا۔

 

“اس وقت کون سی نماز ہوتی ہے، اُسے کہو بکواس بند رکھے”عثمان سے حکم پا کر خان زمان باہر چلا گیا۔

 

تھوڑی دیر تک کمرے میں خاموشی رہی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو وہ دونوں اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ واپس آئے تو خان زمان نے بتایا کہ حافظ ناصر بغیر اجازت کے ہی بیرک میں چلا گیا تھا اور اس نے عثمان کا کوئی مزید حُکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

 

“Bloody Bugger” عثمان نے سر جھٹک کر اپنی ناگواری کا اظہارکیا۔

 

(جاری ہے)