عرضِ مترجم: اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب ‘وقت کی مختصر تاریخ’ کا اردو ترجمہ محترم ناظر محمود صاحب، علیم احمد صاحب، یاسر جواد صاحب اور دیگر احباب نے اپنی اپنی جگہ نہایت ہنر مندی اور سلیقے سے کیا ہے، مزید برآں ہاکنگ کی تازہ ترین کتاب “بڑے سوالوں کے مختصر جواب” کا ترجمہ بھی حال ہی میں شائع ہو چکا ہے۔ تاہم ہاکنگ کی نہایت اہم اور طویل عرصہ تک نیو یارک ٹائمز بیسٹ سیلر رہنے والی کتاب Black Holes and Baby Universe کا ترجمہ ان نامور مترجمین کی جانب سے ہنوز نہیں کیا گیا، اور یہ اعزاز لالٹین ڈاٹ پی کے کے حصے میں آ رہا ہے جو نہ صرف باعثِ فخر ہے بلکہ سائنسی کتب کے تراجم کی دم توڑتی روایت کو از سرِ نو زندہ کرنے کی ایک شاندار کاوش بھی،جو ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔ احباب سے درخواست ہے کہ ہاکنگ کی اس شاندار تحریر کو زیادہ سے زیادہ احباب بالخصوص سائنس کے طلباء کو مطالعے کے لئے تجویز فرمائیں۔
کتاب چودہ ابواب پر مشتمل ہے۔ جنہیں ادارہ ہفتہ وار شائع کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ط ع
پیش لفظ
از اسٹیفن ہاکنگ
یہ کتاب اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے1976 اور 1992 کے درمیان (مختلف اوقات میں) لکھے۔ ۔ ان مضامین کا دائرۂ کار خود نوشتہ خاکوں اور فلسفۂ سائنس سے لے کر اپنے اس جوش و ولولے کو بصراحت بیان کرنے کی کوشش ہے جو میں سائنس اور کائنات کے متعلق محسوس کرتا ہوں۔ کتاب کا اختتامیہ Desert Island Discs نام کےپروگرام کا تحریری قالب ہے جس میں مجھے مدعو کیا گیا۔ یہ برطانوی ٹیلی ویژن انڈسٹری میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا پروگرام ہے جس میں مہمان سے کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو ایک صحرائی جزیرے میں خستہ حال بھٹکتا ہوا تصور کرے، اور پھر آٹھ میں سے کسی ایک ریکارڈ کا انتخاب کرے جو وہ rescue کئے جانے تک (مسلسل) سنے گا۔ (خوش قسمتی سے مجھے صحرا سے واپس آنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔)
چونکہ یہ مضامین سولہ برس کے (طویل) دورانیے کو محیط ہیں لہذا یہ اس عرصے میں میری علمیت کی بتدریج ترقی کے عکاس بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے مضمون تحریر کرنے کی تاریخ اور جگہ، ہر مضمون کے اختتام پر درج کی ہیں۔ چونکہ کتاب کا کوئی بھی مضمون دوسرے سے متصل نہیں ہے، لہذاٰ کچھ نہ کچھ باتوں کا اعادہ یقینی ہے۔(اگرچہ) میں نے (حتی المقدور) کوشش کی ہے کہ ایسا نہ ہو، اس کے باوصف کچھ جگہوں پر repetition دیکھنے میں آئے گی۔
کتاب کے اکثر مضامین کا خاکہ کچھ یوں تھا کہ یہ پڑھ کر سنائے گئے تھے۔ (لیکن) میری آواز اس قدر غیر واضح ہوتی تھی کہ بالعموم مجھے سیمینار اور خطابات اپنے محقق (researcher) طالب علم کی مدد سے دینا پڑتے تھے۔ ، ایسا طالب علم جو مجھے سمجھ سکتا تھا اور میری لکھی ہوئی تحریر بھی پڑھ سکتا تھا۔ تاہم 1985 میں میرا وہ آپریشن ہوا جس سے میری قوتِ گویائی مکمل طور پر سلب ہو گئی۔ کچھ وقت کیلئے تو میرے پاس کسی بھی قسم کی گفتگو کا ذریعہ نہیں تھا۔ بالآخر مجھے ایک کمپیوٹر سسٹم اور ایک نادر قسم کا speech synthesizer دیا گیا۔ مجھے (از حد) حیرت ہوئی کہ ( اس کی مدد سے)میں ایک کامیاب پبلک سپیکر بن سکتا تھا، اور بہت سے سامعین سے بیک وقت مخاطب بھی ہو سکتا تھا۔ مجھے سائنسی امور کی وضاحت کرنے اور سوال و جواب سے لطف حاصل ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مجھے اس میں (سائنسی امور کی وضاحت اور سوالات کے جوابات دینے میں) بہتری لانے کیلئے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے، لیکن میرا خیال ہے مجھ میں بہتری آبھی رہی ہے۔ آپ اس بارے میں فیصلہ آئندہ صفحات کو پڑھ کر از خود کر سکتے ہیں
میں اس نظریے سے متفق نہیں کہ کائنات ایک پر اسرار بھید ہے، ایک ایسی شے جس کے بارے میں ہم وجدانی آراء تو رکھ سکتے ہیں لیکن کبھی مکمل طور پر اس کا تجزیہ کرنے یا اسے سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ میرا احساس ہے کہ یہ نظریہ اس سائنسی انقلاب سے انصاف نہیں کرتا جو قریب چار سو برس قبل گلیلیو سے شروع ہوا اور جسے نیوٹن نے دوام بخشا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کے کم از کم کچھ حصے لا یعنی یا الل ٹپ انداز میں کام نہیں کرتے بلکہ حتمی ریاضیاتی قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔ اور پھر برسوں پر محیط (محنت سے) ہم نے گلیلیو اور نیوٹن کے کام کو کائنات کے تقریباً ہر حصے تک توسیع دی ہے۔ اب ہمارے پاس ریاضیاتی قوانین ہیں اور ہمارے احساسات میں آنے والے تمام تجربات ان قوانین کے تابع ہیں۔ یہ ہماری کامیابی کا معیار ہے کہ اب ہمیں اربوں ڈالر خرچ کر کے دیو ہیکل مشینیں بناتے ہیں ٍ تا کہ ہم ذرات کو اس قدر توانائی پہنچا سکیں کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ (اتنی توانائی رکھتے ہوئے) ان کے آپس میں ٹکراؤ سے کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔ ذرات کی یہ غیر معمولی توانائی زمین پر عام حالات میں وجود نہیں رکھتی، اور عین ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ گمان گزرے کہ ان کے مطالعہ پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنا غیر ضروری ہے۔ لیکن (ان ذرات کا اس سطح کی توانائی رکھتے ہوئے ٹکراؤ) عین ممکن ہے ماقبل تخلیقِ کائنات ہوا ہو، لہذاٰ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کائنات اور ہم کس طرح وجود میں آئے تو یہ جاننا لازم ہو گا کہ اس سطح کی توانائی رکھنے والے ذرات کا باہمی تعامل کس نوعیت کا ہوتا ہے۔
کائنات کے بارے میں ہنوز بہت کچھ ایسا ہے جو ہم جانتے ہیں نہ ہی اس کا فہم رکھتے ہیں۔ لیکن ہم نے جو حیران کن ترقی، بالخصوص گزشتہ سو برسوں میں کی ہے، اس سے ہمیں یہ حوصلہ ملتا ہے کہ شاید کائنات کا مکمل فہم ہماری طاقت سے باہر نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ اندھیرے میں نہیں بھٹکیں گے۔ (اور) عین ممکن ہے ہم کائنات کی ایک مکمل تھیوری وضع کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یقیناً ہم Masters of the Universe کہلائیں گے۔
اس کتاب میں سائنسی مضامین اس یقین کے ساتھ لکھے گئے تھے کہ ہم کائنات کو ایک نظم کے تحت چلانے والے قوانین کا ضمنی ادراک رکھتے ہیں اور غالب امکان ہے کہ مستقبل قریب میں ہم ان کا مکمل ادراک کر پائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ یہ امید ایک سراب ہو؛ ہو سکتا ہے کہ کوئی مطلق تھیوری وجود نہ رکھتی ہو، اور اگر ہے بھی تو ہم اسے وضع کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ لیکن کائنات کے مکمل ادراک کی کوشش ، انسانی ذہن کے مستقل نا امید رہنے سے یقیناً بہتر ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ
31 مارچ 1993