مرزاؔ، صاحباںؔ کی محبت کے گُل ولالہ کھیوہ، ضلع جھنگ کی جس مٹی میں اُگے تھے، اسی کے پہلُو میں ایک گاؤں خانوانہ کے نام سے بھی آباد تھا جس کی قسمت میں محبتوں کے گیت گانے والی ایک لازوال آواز کو جنم دینا لکھا تھا۔۔۔ یہ دھرتی مہر و محبت کی لڑی میں ہر رنگ کے موتی پروتی چلی آئی ہے۔۔۔
خانوانہ کی مٹی سے طالب حسین نے جنم لیا اور اپنی آواز اور محبتوں کی زمزمہ پردازی سے ساری روہی، بار اور پوٹھوہار میں لوک موسیقی کے دلدادگان کا ہردلعزیز بنا اور ان کے سوا بھی جس جس نے جھنگ اور جھنگ کی بولی سے دل لگایا، وہ طالب حسین کا طالب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔
کلاسیکی موسیقی میں اُستاد سلامت علی خاں اور استاد نذر حسین سے تحصیلِ فن کے بعد 70 کی دہائی میں لوک موسیقی کے میدان میں قدم رکھنے اور پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان پر 80 کی دہائی میں ’’اساں ماڑے سرکار تُساں چنگے او‘‘ گا کر پاکستان بھر میں شہرت حاصل کرنے والے طالب حسین دردؔ کو لوک موسیقی میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ لوک گیت کی صنف ’’جوگ‘‘ کو اپنے بامِ عروج تک پہنچا کر اس میں وہ کمال حاصل کیا کہ پھر طالب کے ہوتے ہوئے اور اُن کے بعد بھی کوئی ان کی ہمسری نہ کر سکا!
’’جوگ‘‘ کے فنکار ان سے قبل بھی تھے اور ان کے کمالِ فن کا بھی شہرہ تھا لیکن طالب حسین دردؔ نے ’’جوگ‘‘ میں وہ میعار قائم کر لیا کہ ان کی زندگی میں ہی واضح ہو گیا تھا کہ طالب جوگ کے فن میں حرفِ آخر ہو کر اس دُنیا سے جائے گا اور پھر یہ فن شاید کسی سے سنبھالا نہ جائے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ طالب کے شاگردوں اور ان کے فن کے وارث، اُن کے بیٹے عمران طالب سے بھی جوگ کا وہ میعار مسخر نہیں ہو سکا جو طالب نے قائم کر دیا تھا۔ یہ اعزاز کم ہی اساتذہ کو ملتا ہے۔ دراصل یہ فن جس قدر ریاضت کا متقاضی تھا، اس کا متحمل شاید متاخرین میں سے کوئی نہ ہو سکتا تھا۔ ریاضت طلب فنون کی اب شائقین میں بھی کہاں طلب اور قدر شناسی ہے؟؟ اگرچہ اس رو میں طالب نے شائقین کی عامیانہ پسند کا بھی خیال رکھا اور شادی بیاہ کے موقعے پر خلافِ مزاج بھی کافی کچھ گایا لیکن یہ گانے اُن کی حقیقی پہچان نہیں ہیں۔۔عارفانہ کلام، کافیا ں اور ’’ہِمڑیاں‘‘ گاتے ہوئے طالب اپنی حقیقی شکل میں نظر آتے ہیں، اور پھر ان کے قدر شناس بھی انہیں ڈُوب کر سنتے ہیں۔ طالب حُسین کی فنی شخصیت کے یہ دو پہلو باہم متضاد ہیں کہ ایک طرف تو وہ جوگ گاتے ہوئے سامعین میں کسی کا بولنا بھی پسند نہ کرتے تھے اور ایک یہ کہ شادی بیاہ کے موقعوں پر گیت گاتے ہوئے مَلکوں اور اعوانوں کی رائفلیں سر ہونے کی آوازیں بھی برداشت کر جاتے تھے۔۔۔
جھنگ کی خالص زبان اور خالص لب ولہجے میں جھنگوچی قدروں کا دُکھ طالب حسین دردؔ کے گیتوں کی پہچان تھا۔ دردؔ کے گیتوں میں رسمِ وفا ختم ہو جانے، نامِ دوستی دُنیا سے اُٹھ جانے، غریب پروری کی جگہ امارت پرستی کے ہر سُو پنجے گاڑنے، بے لوث محبت کے بجائے خود غرضی اور مطلب پرستی کے فرمانِ امروز بن جانے، ذلیل اور فرومایہ لوگوں کے ہاتھوں میں اختیار آجانے اور شرفأ کے زوال کا نوحہ سُنائی دیتا ہے۔ اور یہی طالب حسین دردؔ کے گیتوں کا خاص اُسلوب رہا۔اور ان کی اپنی زندگی بھی ان اقدار کی پاسداری کا نمونہ رہی۔
جہاں سرائیکی وسیب کے مشہور اور لافانی گائیک منصور علی ملنگیؔ مرحوم نے اپنی ذاتی دلچسپی اور کسی قدر ایک ابھرتے فیشن کی تقلید میں جھنگ کی خالص بولی میں اُردو کے ’’قابلِ تحلیل‘‘ الفاظ کو شامل کیا اور جہاں اللہ دتہ لُونے والا نے مادری زبان سے دور بھاگنے والی جھنگ کی نئی پَود میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے جھنگوچی گیت لاہوری لائلپوری پنجابی کے لہجے میں گائے، وہاں طالب حُسین دردؔ نے جھنگوچی زبان پر کوئی سمجھوتہ کیا نہ اپنے خالص لب و لہجے پر۔ جہاں منصور علی ملنگیؔ مرحوم نے گیت پر غزل کا واضح رنگ چڑھایا (اور یہ رنگ ان پر جچتا بھی خوب رہا)اور اللہ دتہ لُونے والا نے تو قبولِ عام کیلئے نہائیت عامیانہ رنگ بھی قبول کیا، وہاں طالب حُسین دردؔ نے فقط میعاری شعر، سرائیکی، جھنگوچی کے رنگ میں ہی گایا۔ دوہڑا جو کہ سرائیکی زبان میں چہار مصرع کی مشہور ترین صنف ہے، طالب حُسین دردؔ کی خاص مہارت تھا لیکن دردؔ نے کسی عامیانہ سے دوہڑے یا کسی غیر سنجیدہ شاعر کے کلام کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ نُور سمند سرگانہ، غلام محمد دردؔ، مشتاقؔ، ظِل شاہ، ابرارؔ، تاجؔ، رب نواز ہاشمیؔ، مہر ریاض بھڑانہ سیال، عاقبؔ ستیانوی، حیات ؔ بھٹی، قاسمؔ شاہ، اور رأ سائیں جیسے اساتذۂ فن کے دوہڑے طالب حُسین دردؔ کی اولین ترجیح ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں کئی چھوٹے شاعروں کے اچھے دوہڑے بھی طالب حُسین دردؔ نے کبھی فرمائش پر، کبھی بنامِ دوستی گائے لیکن زبان اور موضوع کا ایک میعار قائم رکھا جس کی سزا بھی طالب حسین دردؔ نے بھگتی۔ ماں بولی کے حوالے سےاحساس کمتری کا شکار جھنگ کی ایک پوری پود اور طبقے نے طالب کو پہچاننے اور سمجھنے سے انکار کر دیا اور اسے دردؔ کے بجائے ’’سردرد‘‘ تک کہا کیونکہ طالب کی خالص زبان اور لب و لہجہ اس پود کیلئے باعثِ ننگ و عار تھا۔
یہی وجہ تھی کی جب2010 کے صدارتی اعزازات اور تمغوں کی فہرت جاری ہوئی تو لوک فنکاروں میں جھنگ اور اس کے جوار کی نمائیندگی فقط ایک نام کررہا تھا؛ اللہ دتہ لُونے والا!! اور اللہ دِتہ لُونے والا (اور اُس کا بیٹا ندیمؔ) اس دھرتی کی زبان اور لب و لہجے سے نابلد نہیں بھی تو دانستہ منکر ہے۔ طالب حُسین دردؔ کے ہوتے ہوئے صدارتی تمغۂ حُسنِ کارکردگی ایک ایسے ’’جیونئیر‘‘ فنکار کو ملنا جو اس وسیب کے کلچر اور زبان کی نمائیندگی ہرگز نہیں کرتا، ایک ایسی غلط بخشی تھی جس میں اللہ دتہ لونے والا کا ہرگز قصور نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار راقم الحروف اُن لوگوں کو سمجھتا ہے جو اس کلچر سے تعلق رکھنے والے اور اس زبان کے بولنے والے ہیں، بالخصوص جھنگ کے وہ اہلِ اختیار جو بیوروکریسی میں بڑی تعداد میں بیٹھے ہیں اور جھنگ کی زبان، کلچر اور تشخص کے بارے میں ہر سطح پر موجود غلط فہمیوں کو درست کرنے اور اعلیٰ حُکام کے سامنے واضح کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ جھنگوچی کلچر اور زبان صرف ایک ضلعے کی چار تحصیلوں تک محدود نہیں ہے، اس کی جڑیں پورے پنجاب میں پھیلی ہیں۔ جھنگ، چنیوٹ، مظفر گڑھ، خانیوال، اوکاڑہ، لیہ، ڈیرہ جات، منڈی بہاوالدین، حافظ آباد، سرگودھا، چکوال، تلہ گنگ، میانوالی اور خوشاب کے علاقوں میں طالب حسین دردؔ کے مداحوں کا تو شمار ہی ممکن نہیں بلکہ یہ لوگ جہاں جہاں وطنِ عزیز کے طول و عرض میں اور ملک سے باہر تلاشِ رزق میں جاتے ہیں، طالب حُسین دردؔ کو پنجابی بولنے اور سمجھنے والی دُنیا میں متعارف بھی کرواتے ہیں جس وجہ سے ان کے مداحوں کا حلقہ بہت وسیع ہے جنہیں طالب حسین کی وفات کا بجا طور پر صدمہ ہے۔
لوک موسیقی میں طالب حسین دردؔ نے کئی شاگرد چھوڑے جن میں اللہ دتہ پنچھیؔ، اللہ دتہ لِٹی، ظہور لوہار اور اشرف لِٹی جیسے کئی مقامی لوک گائیک ہیں۔ مگر ’’جوگ دا شہنشاہ‘‘ کا جو تاج اہلِ جھنگ نے طالب حسین دردؔ کے سر پر رکھا، وہ کسی اور کے حصے میں آسکا ہے، نہ آسکے گا۔
یہاں غفار میوزک سنٹر لاری اڈا خوشاب، رحمت گراموفون ایجنسی، پاک گراموفون ایجنسی لائیلپور، بھٹی میوزک سنٹر جھنگ اور زُلفی میوزک سنٹر لاری اڈا کوٹ شاکر کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے طالب حُسین دردؔ کے گیتوں کو ان کے مداحوں تک پہنچانے میں بے مثال اور انتھک کردار ادا کیا۔ اس انڈسٹری کے عروج و زوال پر ایک الگ موضوع درکار ہے۔۔۔
جھنگ کے جو باسی تلاشِ رزق میں دیس پردیس کے سفروں میں اپنی عمریں گزار دیتے ہیں، ہمیشہ طالب حسین کے گیتوں میں اپنی ماں بولی اور مٹی کی خوش بُو محسوس کر کر کے خود کو اپنی دھرتی کے قریب تر ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور وہ اسی سہارے تلاشِ رزق کی جلاوطنیاں کاٹتے رہے ہیں اور وہ طالب کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ لیکن جھنگ کا وہ باحیثیت طبقہ جو اقتدار کے ایوانوں سے لے کر بڑے شہروں کے دفتروں کی بڑی کرسیوں اور بنگلوں کا باسی ہو کر اپنی آئیندہ نسل کو اس حقیقت سے بھی بے خبر رکھنا چاہتا ہے کہ وہ ’’جانگلی‘‘ تھے، وہ مٹھی بھر مگر با حیثیت طبقہ جو جھنگ والی پہچان مٹانے کیلئے ماں بولی کا منکر ہو رہا ہے، طالب حُسین کی آواز اور اس کے گیتوں میں چھپے شہر آشوب کو سمجھ جاتا تو اس زبان اور کلچر کا بھلا ہو جاتا؛ اس عظیم گائیک کو حکومتی سطح پر پذیرائی ملتی تو جھنگ کی زبان اور لوک موسیقی اس زوال سے بچ جاتی جو اب نوشتہ دیوار نظر آرہی ہے۔۔۔