Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

شانتا راما باب 9: بہاؤ کے الٹ

test-ghori

test-ghori

04 اپریل, 2020

’’شانتاراما‘‘ برصغیر کی فلم انڈسٹری کے بانیوں میں شامل وی شانتا رام کی آپ بیتی ہے جو انھوں نے اپنی آخری عمر میں مراٹھی میں بول کر لکھوائی اور چھپوائی تھی۔ بعد میں اس کا ہندی روپ شائع ہوا۔ شانتارام جن کا پورا نام شانتارام راجارام وانکودرے تھا، 18 نومبر 1901 کو پیدا ہوے اور کو پیدا ہوے اور 30 اکتوبر 1990 کو وفات پائی۔ مہاراشٹر کے شہر کولھاپور میں، جو برٹش راج کے دور میں ایک رجواڑے یا نوابی ریاست کا صدرمقام تھا، انھوں نے خاموش فلمیں بنانے سے آغاز کیا اور بعد میں پونا اور بمبئی میں مراٹھی اور ہندی کی بےشمار فلمیں بنائیں۔ اس طرح شانتارام کی لمبی پیشہ ورانہ زندگی کی دلچسپ داستان اس خطےکی فلمی دنیا کی تاریخ بھی ہے۔ اس تاریخ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے کرداروں میں مختلف علاقوں، ذاتوں، زبانوں، طبقوں اور پیشوں کے لوگ شامل ہیں جنھوں نے مل کر ایک رنگارنگ منظرنامہ تیار کیا جس کی جھلکیاں اردو میں سعادت حسن منٹو کی ان تحریروں میں ملتی ہیں جن کا پس منظر 1940 کی دہائی کا بمبئی شہر اور وہاں کی فلمی دنیا ہے۔ ’’شانتاراما‘‘ میں اس دنیا کے رفتہ رفتہ بننے اور پھیلنے کی کہانی بڑے بےتکلف اور دلچسپ اسلوب میں بیان کی گئی ہے۔ شانتارام کی معروف ہندی فلموں میں سے چند کے نام یہ ہیں: ’’ڈاکٹر کوٹنِس کی امر کہانی‘‘ (1946)، ’’امر بھوپالی‘‘ (1951)، ’’جھنک جھنک پایل باجے‘‘ (1955)، ’’دو آنکھیں بارہ ہاتھ‘‘ (1957)۔ ’’شانتاراما‘‘ کا اردو روپ ہندی متن کی بنیاد پر فروا شفقت نے تیار کیا ہے جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
…………………..

‘گوپال کرشن’کو غیرمتوقع کامیابی ملنے کی وجہ سے ساری کمپنی میں جان آ گئی۔ کمپنی کا کام بھی بڑھ گیا۔ آج تک ساری خط و کتابت میں ہی دیکھا کرتا تھا، لیکن اب کام بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے خط و کتابت کی طرف کافی دھیان دینے کی فرصت مجھے نہیں مل پا رہی تھی۔ ایک دن بابوراؤ پینڈھارکر سے ملاقات ہو گئی۔ مہاراشٹر فلم کمپنی سے ناطہ توڑنے کے بعد انھوں نے بمبئی جاکر ‘وندے ماترم’ نامی فلم بنائی تھی۔ لیکن سینسر کی قینچی نے اس کی ایسی درگت بنا دی تھی کہ وہ ایک دم فیل ہو گئی۔ لہٰذا اس وقت وہ بالکل بے کار بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، “کیا آپ ‘پربھات’ میں مینیجر کا کام قبول کریں گے؟” انہوں نے بےکار کی بحث میں نہ پڑ کر فورا ‘ہاں’ کہہ دی۔ بابوراؤ پینڈھارکر ہمارے مینیجر بن کر روز سارا کاروبار دیکھنے لگے۔ خط و کتابت کی بھی فکر مجھے نہیں رہی۔

‘گوپال کرشن’ کولھاپور میں ریلیز ہونے جا رہی تھی۔ ہم چاروں کی خواہش تھی کہ بابوراؤ پینٹر اسے دیکھ کر ہمیں دلی آشیرواد دیں۔ ہم چاروں انھیں مدعو کرنے گئے۔ اس وقت صحت خراب ہونے کی وجہ سے بابوراؤ پینٹر اسپتال میں بھرتی کیے گئے تھے۔ ہم نے اپنی خواہش ظاہر کی۔ ہمیشہ کی طرح وہ خاموش رہے۔
فتے لال جی نے پھر صبر کے ساتھ پوچھا، “تو آپ صحت حاصل کر لینے کے بعد تو آئیں گے نا؟”

پھربھی کوئی جواب نہیں ملا۔ ہم لوگ بڑی امید سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے،اور ایک وہ تھے جو کہیں اور دھیان لگائے خاموش پڑے تھے۔ کچھ لمحوں بعد انتہائی ناراض ہو کر، ‘اچھا’، کہہ کر ہم لوگ چلے آئے۔

اس کے دوچار دن بعد بابا گزبر سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا، “بابوراؤ کا رویہ بھی کتنا عجیب ہے! آپ لوگ انھیں مدعو کرنے گئے تھے، اس کے کچھ ہی وقت بعد میں ان کے پاس گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، پربھات فلم کمپنی کےمالک آئے تھے، میں زندہ ہوں یا مر گیا، دیکھنے کے لیے۔” اور اس کے بعد انہوں نے جو کہا اسے سن کر میں ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا۔ انھوں نے کہا تھا، “یہ لوگ مجھ سے جو کچھ سیکھ کر گئے تھے، سارا ایک ہی فلم میں ختم کر بیٹھے ہیں! اب دیکھتے ہیں، آگے کیا کر پاتے ہیں!”

اب آئندہ فلم کیا ہو؟ اس کے لیے کہانی کیا چنی جائے؟ ‘گوپال کرشن’ کو ریلیز کرنے بمبئی گیا تھا، تب وہاں میں نے ایک ماردھاڑ والی فلم جان بوجھ کر دیکھی تھی، جو بمبئی کے ایک اولین پروڈیوسر نے بنائی تھی۔ ماردھاڑ سے بھرپور اسٹنٹ فلم میں ہیرو کا کام،مہاراشٹر فلم کمپنی میں میرے تحت ایڈیٹنگ کاکام کرنے والا وِٹھل ہی اب ماسٹر وٹھل کے نام سے کرتا تھا۔ مہاراشٹر فلم کمپنی میں تلواربازی، ڈنڈے بازی کی جو تربیت اسے ملی تھی،اس کا پورا استعمال کرتے ہوئے ماسٹر وٹھل اس زمانے کے ناٹکوں کے لیے ضروری ہو چکا تھا۔ اسٹنٹ فلموں میں مصنوعی اور مشکل منظروں کی بھرمار ہوا کرتی تھی اور ناظرین کو سستی تفریح مہیا کرنا ان کا مقصد ہوا کرتا تھا۔ زوردار تلوار چلا کر ایسی فلموں کا ہیرو دشمن کے بیس پچیس سپاہیوں کو ڈھیر کر دیتا تھا۔ زمین سے بارہ پندرہ فٹ اونچی دیوار پر نیچے سے چھلانگ لگا کر وہ آرام سے بھاگ نکلتا تھا۔ اُن دنوں ایسی فلم کے لیے لوگوں کی دلچسپی بہت بڑھ گئی تھی۔

اتنے سستے جوش کی اس فلم کو دیکھنے پر مجھے تو گھن سی آنے لگی۔ میں ‘ساوکاری پاش’ جیسی آدرشی فلم بنانے والی مہاراشٹر فلم کمپنی کے سنسکاروں (اقدار) میں پلا بڑھاتھا۔ مجھ جیسے شخص کو ناچار ایسا لگنے لگا کہ بھونڈی شہرت کے پیچھے پڑ کر صرف پیسہ کمانے کے خیال سے بنائی جانے والی فلموں کا منہ توڑ جواب ایک بہترین فلم تیار کر کے دیا جائے۔

‘گوپال کرشن’ بناتے وقت فلم میکنگ میں رائج دھارا(روایت) سے بڑی صفائی سے، تیزی سے ہٹ کر میں نے اوروں کی توقع سے آگے جانے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش میں کہیں دوچار ہاتھ کچھ مختلف سمتوں میں آڑے ٹیڑھےچلا دیے تھے۔ ‘گوپال کرشن’ میں،میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن اب سستی مقبولیت کی کشش مٹا کر اپنی پوری طاقت کے ساتھ دھارا کی مخالف سمت میں تیرتے ہوئے ایک اچھی سی سٹنٹ فلم بنانے کا میں نے فیصلہ کیا۔ دل و دماغ کو نہ بھانے والے جھوٹ موٹ کے منظروں کو بڑھاوا نہ دیتے ہوئے، ناظرین کے جوش کو ہر پل بڑھاتے ہی جانے والی فلم کا میں تصور کرنے لگا۔ اس کا ایک منصوبہ تیار کیا۔ کہانی کی رچنا اس طرح کی کہ اس اسٹنٹ فلم کے ناظرین تھریلڈ ہوکر حیران رہ جائیں۔ لیکن سٹنٹ فلموں کو ہی پسند کرنے والے ناظرین کو مسحور کرنے کے لیے میں نے اس فلم کا نام رکھا ‘خونی خنجر’، اس بھڑکیلے نام رکھنے پر مجھے تب بھی بڑی ہنسی آتی تھی۔

اس فلم میں میں نے ڈائریکشن کے کچھ خاص ‘ٹچِز’ دکھائے تھے۔ ایسے منظروں میں ایک تھا :کھل نائک (ولن) ہیروئین کو پکڑ کر اپنے محل میں لے آتا ہے۔ وہ اس سے زیادتی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زیادتی کا یہ منظر میں نے پٹے پٹائےاسٹائل سے ولن اور ہیروئن میں ہاتھاپائی دکھا کر نہیں لیا۔ میں نے دکھایا، کھل نائک(ولن) نائکا (ہیروئین )کی طرف جانے لگتا ہے۔ نائکا ڈر کے مارے دیوار کی اور منھ پھیر کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ولن میان سے تلوار کھینچ لیتا ہے اور اس کی نوک سے نائکا کی چولی کے پیچھے کے بند کاٹ دیتا ہے۔ نائکا اپنے سینے کو ہاتھوں سے ڈھک کر پیٹھ دیوار سے ٹکا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ بڑھ جاتی ہے۔ ولن پھر اس کے پاس آتا ہے اور تلوار سے اس کی ٹانگ پر سے ساڑھی پھاڑ دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساڑھی کے پھٹے دونوں حصے الگ ہو کر گر جاتے ہیں اور دکھائی دیتی ہے اس کی گوری گوری ٹانگ اور پیر، جیسے کیلے کے پیڑ کا ملائم نزاکت بھرا تنا ہو۔

اس ڈھنگ سے فلمایا گیا یہ منظر سنسر کو اتنا شہوت انگیز معلوم ہوا کہ انھوں نےہمیں اسے پورا کا پورا نکال دینے کا حکم دیا۔ ہم نے انھیں کافی سمجھا کر بتایا تب جا کر کہیں اس منظر کو فلم میں رکھنے کی اجازت انھوں نے دی۔ لیکن اس کی لمبائی کافی کم کر دی۔

اسی فلم میں ایک شاٹ بہت ہی لمبا لیا گیا تھا۔ فلمی دنیا کی آج کی اصطلاح میں اسے ’لِنگرِنگ شاٹ’ کہا جاتا ہے۔فلم کا ہیرو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ہے۔ کمرے میں وہ اکیلا ہی دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کی لمبائی چوڑائی ناپتا پھرتا ہے۔ یہ شاٹ کافی لمبا چلانے میں میرا ارادہ تھا ہیرو کا اکیلاپن اور نہ کٹنے والا، بور کر دینے والا وقت، ایک ساتھ ناظرین کو متاثر کرے۔ اس کا اثر بھی ناظرین پر اچھا دیکھا گیا۔ ‘خونی خنجر’ میں زیادتی کا وہ سین اور کمرے کا وہ لنگرنگ شاٹ آگے چل کر میرے سٹائل کے خاص ‘ٹچز’ مانے گئے۔

‘خونی خنجر’ کی ہدایتکاری کرتے وقت میں نے اس بات کی احتیاط برتی تھی کہ میں پھر وہ ہی غلطیاں نہ کر بیٹھوں، جو ‘گوپال کرشن’ میں رہ گئی تھیں۔ لیکن اس بار میں نئی غلطیاں کر بیٹھا۔ اس بار بھی مجھے ضرور لگا کہ میں تھوڑا زیادہ چوکنا رہتا یا زیادہ سوچ کر کام کرتا، تو ان غلطیوں کو روکا جا سکتا تھا۔ یہی حال ہے، تو پھر میرے سے ایسا کیوں ہو جاتا ہے؟ میرے وچاروں میں، کام میں کہیں نہ کہیں کچھ کمی کیوں رہ جاتی ہے؟ یہ سوچتے سوچتے پھر آنسو بہانے کا وہی موقع آ پڑا! لیکن اس بار مجھے روتا دیکھ کر وِمل ہنسنے لگی۔ مجھے اس پر بڑا غصہ آیا۔ اس نے کہا، “آپ کی پہلی فلم کی غلطیاں کسی کے بھی دھیان میں نہیں آئی تھیں، تو اس فلم کی غلطیوں کو بھی کوئی پکڑ نہیں پائے گا!”

“کوئی نہ پکڑ پائے تو اپنی بلا سے، مجھے جو وہ دکھائی دے رہی ہیں؟” اس پر وِمل نے کچھ نہیں کہا۔ ایک بڑا سا رومال صرف میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے پوچھا، “یہ کس لیے؟”شرارتی ہنسی ہنستی ہوئی بولی، “آنکھیں پونچھنے کے لیے!” میں نے اس کے گال پر ایک کس کے چانٹا لگا دیا۔ روتے روتے وہ مجھ سے دور ہو گئی۔ یہ بھی خوب رہی، میں بعد میں سوچنے لگا۔ غلطیاں کروں میں، اور چانٹا کھائے وِمل؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ لیکن یہ خیال میرے من میں اس رات نہیں، دوسرے دن آیا!

سویرے میں جب سٹوڈیو گیا، تب کولھاپور دربار کا ایک سپاہی ایک لفافہ لے کر آیا۔ اس کے اندر جو لکھا تھا، اسے پڑھ کر میں سر پکڑ کر رہ گیا۔ میرے باقی ساتھی پوچھنے لگے، ‘بات کیا ہے؟’ میں نے انھیں بتایا، ہمیں ‘گوپال کرشن’فلم کے لیے جن گایوں کی تلاش تھی، وہ گائیں ہمیں دینے کے لیے مہاراجہ صاحب نےحکم دے دیا ہے!” یہ جان کر ہنستے ہنستے سبھی لوٹ پوٹ ہو گئے۔ تب تک تو ہماری ‘گوپال کرشن’ ریلیز ہو چکی تھی اور اب دوسری فلم ‘خونی خنجر’ بھی جلد ہی بمبئی میں ریلیز ہونے جا رہی تھی!

بمبئی میں ‘خونی خنجر’ ریلیز ہو گئی۔ وہ چلی بھی خوب۔ اس فلم کو طوفانی کامیابی ملی۔ نتیجتاً دوسرے پروڈیوسروں کی بنائی اسٹنٹ فلموں میں بھی مصنوعی پن کم ہونے لگا۔ خالص تفریح کے لیے بھی ‘خونی خنجر’ آئندہ کئی فلموں کی ایک طرح سے innovation بن گئی۔

خونی خنجر’ کو ملی کامیابی کی وجہ سے ہم لوگوں کا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا۔ اب کچھ نئی اور ایکشن فلمیں بنانے کا وچار میرے من میں آیا۔ ‘گوپال کرشن’ کے اس ‘تلی لیلی’ والے منظر کی وجہ مقبولیت بنے اننتیا کو اہم کردار دےکر ایک فلم بنانے کا میں نے طے کیا۔ اننتیا اس وقت پانچ سال کا تھا،اس کا فلمی نام ہم نے رکھا ‘بجربٹو’۔

اس فلم کو میں پریکٹیکل فلم اس لیے مانتا ہوں کہ ایک ننھے سے بچے کو خاص کردار دے کر بنائی گئی وہ پہلی ہی فلم تھی۔ میرے دوسرے خالہ زاد بھائی بھالاجی پینڈھارکر کہانی لیکھک اور ناٹک کار تھے۔ انہیں میں نے اپنا یہ وچار بتایا، جو انھیں بھی بہت پسند آیا۔ انھوں نے جلد ہی میرے خیال کے مطابق ایک بڑھیا کہانی لکھ دی۔ اس فلم کا نام تھا ‘رانی صاحبہ’۔

اس فلم کو بھی لوگوں نے خوب پسند کیا۔ ‘پربھات’ فلم کمپنی کا نام اب لگ بھگ ہر زبان پر آنے لگا تھا۔

سال ڈیڑھ سال کا ہی وقت گزرا تھا، پربھات کی مالی حالت روز بہ روز بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ اب ہم میں سے ہر ایک کے لیے گھریلو خرچ کے لیے ہر ماہ ڈیڑھ سو روپے لینا ممکن ہو گیا تھا۔ کمپنی کے سبھی نوکروں کی تنخواہ بھی ہم لوگوں نےبڑھا دی۔

آئندہ فلم کو اور بھی بہتر ین کیسے بنایا جائے، اسی کی فکر ہم لوگ کرنے لگے۔ وہ زمانہ تھا مہاتما گاندھی کی آزادی تحریک کا۔ اس تحریک کی ہوا پورے ملک میں زوروں سے بہنے لگی تھی۔ کیا مرد، کیا عورتیں، ہاتھوں میں کانگریس کا جھنڈا لیے سرِعام سڑکوں پر آتے اور پولیس کا کھل کر سامنا کرتے تھے۔ ان پر لاٹھی چارج ہوتا، کئی بار تو گولی بھی چلائی جاتی تھی۔ کئی لوگ گھائل ہوتے تھے۔ ریاست ہونے کی وجہ سےکولھاپور میں اس تحریک کی آنچ اتنی نہیں پہنچتی تھی۔ لیکن تحریک کا سارا حال اخبارات سے ہمیں بھی معلوم ہوجاتا تھا۔ تحریک کی خبریں پڑھ سن کر مجھے تو بہت ہی جوش آتا تھا۔ من میں آیا کہ کیوں نہ اسی ریاستی تحریک کی عکاسی کرنے والا موضوع ہی ہماری آئندہ فلم کے لیے چنا جائے؟ میں نے طے کر لیا کہ کسی تاریخی موضوع کی اوٹ سے اسی نشانے کو سادھا جائے۔
ہم مہاراشٹر کے لوگوں کے لیے شواجی مہاراج ایشٹ دیوتا کی مانند پوجنے کےقابل ہیں۔ اب تک جتنی بھی تاریخی فلمیں بنائی گئی تھیں، ان میں شواجی مہاراج کو لڑائی کے احکامات دینےوالے رہنما کے روپ میں ہی فلمایا گیا تھا۔ بہروپیا پردے پر پیش کی گئی شواجی کی یہ مورتی مجھے قطعی قبول نہیں تھی، اس لیے میں نے ایک ایسی کہانی کا انتخاب کیا، جس میں ویر شواجی کوجان کی بازی لگا کر اپنےآپ کو لڑائی کے میدانوں میں جھونک دینےوالا، دشمن پر وِجے پانےوالا، ہوا سے باتیں کرنے والے گھوڑے کو ایڑ لگانے والا غصیلا جوان لیڈر دکھایا جا سکتا تھا۔ شواجی نے کچی عمر میں اپنے ساتھیوں کی مدد سے تورنا قلعہ جیت لیا اور وہاں آزادی کی بنیاد رکھی۔ اس انتہائی جوش دِلانے والے موضوع پر پہلی تاریخی فلم بنانے کا ہم لوگوں نے فیصلہ کیا۔ سب کی درخواست تھی کہ اس فلم میں شواجی کا کردار میں ہی کروں۔

مہاراشٹر فلم کمپنی میں تلواربازی، گھڑدوڑ وغیرہ کی مجھے اچھی خاصی مشق ہو گئی تھی۔ شواجی مہاراج کی تاریخی کالی گھوڑی کی طرح ہی دِکھنے والی ایک جوان اور تیز کالی گھوڑی جت ریاست کے راجا صاحب سے ہم نے حاصل کر لی۔شواجی مہاراج کا وادھیا نامی ایک لاڈلا کتا تھا، ایسا ہم لوگوں نے تاریخ میں پڑھا تھا۔ میں نے اس ایماندار کتے کا بھی اپنی فلم میں استعمال کرنے کا طے کیا۔ ٹھیک ویسا ہی ایک کتا جت ریاست کے ہی ایک گڈریے کے پاس ہمیں مل گیا۔ سارا انتظام ٹھیک کر کے ہم نے شوٹنگ شروع کی۔

ظاہر ہے کہ مجھے شواجی کا کردار اور ڈائریکشن دونوں کام کرنے پڑتے تھے۔ کئی بار باہر شوٹنگ کے وقت میں گھوڑی پر سوار ہو کر شواجی کا کردار نبھاتے نبھاتے کیمرے کے پاس پہنچ جاتا اور سین کیسے لینا ہے، اس کے بارے میں ضروری ہدایت دیتا۔ دوسرے کرداروں کو بھی اداکاری کے بارے میں ہدایات دیتا۔ اس کے بعد وہ سین میری ہدایت کے مطابق برابر لیا جاتا ہے، اسے دھائبر دیکھتے تھے اور فتح لالجی کیمرا چلاتے تھے۔ فلماتے وقت ہم لوگ ایک ساتھ دو کیمرے الگ الگ سمتوں میں رکھتے تھے۔ اپنی جان کی ذرہ بھر پروا نہ کر میں اس کالی گھوڑی کو اتنی زور سے ایڑ لگا کر دوڑاتا کہ اس پر نظر بھی نہیں ٹھہر پاتی تھی۔ آئیمو کیمرے پر گھوڑے کے ساتھ ہی فولو کیے شاٹس تو بےپناہ، بہت ہی پُراثر آئے تھے۔

فلم میں کام کرنے کے لیے ہم لوگوں نے گڈریے کےجس کتے کو چنا تھا، وہ توایک دم انجان ہوتے ہوئے بھی اتنا چالاک اور سمجھدار تھا کہ اس کا ہر ایک شاٹ اس نے بتائے گئے ڈھنگ سے ایک دم سمجھدار آدمی کی طرح کیا۔ اسے واقعی شیواجی مہاراج کا ہی کتا مان کر ہم سب لوگ وادھیاہی کہنے لگے تھے۔

اس فلم کا نام ہم نے ‘سوراجیاچے تورن’ (آزادی کا وندنوار) رکھا۔ فلم کے پہلی ٹرائل ریلیز کے بعد میں ہمیشہ کی طرح اندر ہی اندر ٹوٹ گیاتھا۔ اس بارہمیشہ کی مانندکچھ زیادہ کیونکہ ہیرو بھی میں اور ڈائریکٹربھی میں ہی تھا۔ ‘گوپال کرشن’ کی ریلیز کے بعد اگلی فلم کی ریلیزکےوقت میں بمبئی نہیں جاتا تھا۔ مکتب کے طالب علم جس طرح اپنے امتحان کے نتیجہ کا انتظارکرتارہتا ہے، اسی طرح میں کولھاپور میں ہی لوگوں کا ردعمل جان لینے کے انتظار میں بیٹھا رہتا۔ اس بار بھی میں فلم کے ساتھ بمبئی نہیں گیا تھا۔ سنسر کے ایک ممبرنےفلم دیکھی اور کہا کہ جب تک سنسر بورڈ کے سبھی افراد اسے دیکھ نہیں لیتے، اسے عام نمائش کے لیے ریلیزنہیں کیا جا سکتا۔ انگریز سرکار ‘سوراج’ لفظ کے لیے بہت ہی خائف ہو گئی تھی۔ اسی لیے باوجود اس کے کہ سنسرکاممبر مہاراشٹری تھا،فلم کوقبولیت عطا کرنے کی ذمہ داری وہ اپنےپر نہیں لینا چاہتا تھا۔

کولھاپور میں یہ خبرملتے ہی میں فورا بمبئی گیا۔ اسی دن صبح سنسربورڈ کے سبھی ممبر میجسٹک سنیما میں فلم دیکھنے کے لیے آئے، سنسر بورڈ کے چیئرمین انگریز تھے اور ممبئی کے پولیس کمشنر بھی۔ باقی سبھی ممبر بھارتی تھے۔ آڈیٹوریم میں جانے سے پہلے کمشنر نے تھئیٹر کے باہر لگے ‘سوراجیا چے تورن’ کے پوسٹر اور فوٹو دیکھے تھے۔ ایک تصویر میں شواجی جھنڈا پھاڑتے دکھائے گئے تھے۔ اسے دیکھتے ہی انگریز کمشنر ایک دم آگ بگولا ہو گئے۔ وہ لگ بھگ چلّائے، ’’نو، نو! دس کانٹ بی پاسڈ’! اور اسی جھلاہٹ میں وہ تھئیٹر میں آ کر فلم دیکھنے کے لیے بیٹھ گئے۔

میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ فلم دیکھ کر سبھی لوگ باہر آئے اور چلےبھی گئے۔ میں ان کی آمد اور باہر چلے جانے کی طرف کسی کٹھ پتلی کی طرح گردن اِدھر سے اُدھر ہلا کر دیکھتا رہا۔ سب کے بعد سنسر ممبر میرے پاس آئے اور سر جھکا کر بولے، “دی پکچر از بینڈ!” میں دھم سے وہیں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ ہاتھ پاؤں میں کوئی جان نہیں رہی۔ ہمارے ڈسٹری بیوٹر بابوراؤپینڈھارکرممبر سے باتیں کرتے کرتے دروازے تک انھیں چھوڑنے گئے۔

تھوڑی دیر بعد لوٹ کر بابوراؤ پینڈھارکرکہنے لگے، ان لوگوں کا اصرار ہے کہ سب سےپہلے ہمیں اپنے فلم کا ‘سوراجیاچے تورن’ نام بدلنا ہوگا۔ کچھ سین اور ٹائٹلز کے کچھ جملوں کو بھی بدلنا پڑے گا۔ جھنڈا پھاڑنے کا آخری سین تو پورا ہی نکال دینا ضروری ہے!

میں بینچ پر بیٹھا تھا، اچھل کر کھڑا ہو گیا اور غصے میں کہنے لگا، “میں کوئی بھی سین کاٹنے کو تیار نہیں ہوں! فلم جیسی بنی ہے، ویسا ہی دکھانے کی اجازت ملنی چاہیے!” میرا غصہ دیکھ کر بابوراؤ اس وقت کچھ بولے نہیں۔

شام کو میرا غصہ کافی اتر گیا تھا، بابوراؤ پینڈھارکر پھر میرے پاس آ کر بیٹھے۔ مجھے سمجھانے لگے، “سنسرکی خواہش کےمطابق ہم فلم میں تبدیلی نہیں کرتے ہیں توفلم کی عام نمائش ناممکن ہونے والی ہے۔ ”

“اس طرح اسے بےسرپیر کاٹنے میں کیا دھرا ہے؟ اگر جیسا ہے، ویسا ہی اسے ریلیز نہیں کرنے دیا جاتا، تو میرا سجھاؤ ہے کہ فلم کو ڈبے میں بند رہنے دیں۔ ہمارا دیس جب آزاد ہو گا، تبھی ہم اس کو ریلیز کریں گے!” میں بھی ہٹیلے بچے کی سی ضد پر اتر آیا۔

بابوراؤ پے نے پھر کہا، “پتا نہیں سوراج(آزادی) ملنے کے لیے ابھی کتنے سال رکنا پڑے گا! تب تک اس فلم کو ڈبے میں بند رکھ کر ہمارا کام کیسے چلے گا؟ اچھا، ایسا کرتے ہیں، آزادی ملنے کے بعد آپ اسی موضوع کو لے کر اپنی مرضی کے مطابق نئی فلم بنائیے۔ آج فلم کا نام بدلنے سے اس کی کہانی تھوڑاہی بدل جائےگی! شواجی تو شواجی ہی رہےگا نا؟ جھنڈا پھاڑنے کا وہ آخری سین نکال بھی دیا، تب بھی تورنا قلعہ جیت کر شواجی نے سوراج کی بنیاد رکھی، یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آ ہی جائے گی۔”

میں سوچنے لگا، میں چاہتا تھا کہ سوراج کے حصول کے لیے شواجی مہاراج نے جو کوشش کی، اس کا اثر اس زمانے کے عوامی ذہن پر پڑے اور اس کے کامیاب روپ سے عوامی بیداری ہو۔ میری یہ خواہش اس فلم کو ریلیز کرنے سے ہی پوری ہو سکتی تھی۔

میں نے چپ چاپ ‘سوراجیاچے تورن’ کی فلم لے کر واپس کولھاپور جانا ہی مناسب سمجھا۔

سنسر کی ساری کہانی اپنے سبھی ساتھیوں کو میں نے بتلا دی اور ہاتھ میں قینچی لئے سنسر کی خواہش کے مطابق فلم میں کاٹ چھانٹ شروع بھی کر دی۔ آخر وہ جھنڈا پھاڑنے کا سین آیا۔ اسے کاٹنے کی میری ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ لگتا تھا،جیسے اپنے بچے پر قینچی چلا رہا ہوں! میں قینچی پھینک کر کھڑا ہو گیا۔ آنکھیں بھرآئیں۔ سبھی ساتھی کسی بچےکوسمجھانے احساس سے مجھے سمجھانے لگے۔ آخراس سین کو کاٹنے کا کام میں نے دھائبر کو سونپ دیا۔ دھائبر نے اس سین کو کاٹ کر فلم سے الگ کردیا۔

سب کی رائے سے فلم کا نیا نام ‘ادےکال’طے کیا گیا۔ اس کے مطابق ٹائٹلز لکھ کر فلم میں جوڑ دیئے گئے۔ ‘ادےکال’ کی کاپی لےکر کوئی بمبئی گیا۔

فلم میں کی گئی بھاری چھنٹائی کے کارن اس کے لیے میرا کوئی چاو نہیں رہا تھا، نہ ہی کوئی جوش۔ لوگوں کے ردعمل کے بارے میں کوئی خاص خواہش بھی میں نے نہیں رکھی تھی۔لیکن بمبئی سے حاصل ہونے والی خبریں بہت ہی حوصلہ افزاء تھیں۔ فلم کا نام بدل دئیے جانے اورکئی منظروں کو نکال دیئے جانےکے باوجود عوامی ذہن پر اس کا اچھا اثر پڑ رہا تھا۔ فلم میں متحرک،طاقتور، نوجوان شیواجی کی مورتی لوگوں کے ذہن پر صحیح روپ میں نقش ہو رہی تھی۔ نئے آئمو کیمرے سے لئے گئےتیز گھڑدوڑکےشاٹس پر تو لوگ بےحد خوش تھے، طوفانی رفتار سے گھوڑے دوڑتے چلے جانےکے سین آتے ہی لوگ تالیوں کے ساتھ جوش کا اظہارکرتے تھے۔ وادھیا کتے کا کام بھی لوگوں کو بہت پسند آیا تھا۔ ان اطلاعات کےکارن میرے من پر چھایا ڈپریشن دھیرے دھیرے چھٹ گیا۔ ہم سب لوگ بڑی خوشی سے کمپنی میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔۔۔

اندھیرا کب ہو گیا، پتہ بھی نہیں چلا کہ کمپنی کا ایک نوکر دوڑتاچلاتاآیا اور روتے روتے کہنے لگا، “وادھیا اک جھٹکا دے کے بڑی تیزی سے پتہ نہیں کتےبھاگ گوا۔ وا کے پیچھے پیچھے ہم بڑی دور تک بھاگت رہن، پر چکما دے کے وہ کتے گائب ہوئی گوا، واکو کوئی پتہ نہ ملو ہے۔”(واڈیا اک جھٹکا دے کر بڑی تیزی سے پتہ نہیں کہاں بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے ہم بڑی دور تک بھاگتے رہے، پر چکمہ دے کر وہ کہاں غائب ہو گیا، مجھے کوئی پتہ نہ ملا)۔

ہم نے کولہاپر کی سبھی سمتوں میں وادھیا کو ڈھونڈ لانے کے لئے آدمی بھیجے۔ اخباروں میں اشتہار دے کر اس کی فوٹو شائع کرائی اور اسے ڈھونڈ کر لانے والے کو مناسب انعام دینے کا بھی اعلان کیا۔ یہ سوچ کر کہ کہیں وادھیا اپنے پرانےمالک کے پاس نہ چلا گیا ہو، ہم نے جت کو بھی ایک آدمی بھیج دیا۔ وادھیا خاص کر مجھ سے کافی ہل مل گیا تھا۔ اس کے اس طرح یکایک چلے جانے سے مجھے تو کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ ‘ادےکال’ میں نہیں نہیں، ‘سوراجیاچےتورن’ میں اس نے تو ایک سدّھے ہوئے اداکار کی طرح کام کیا تھا۔ ہمارے دیگر فنکاروں کی طرح عام لوگ بھی اسے چاہنے لگے تھے۔ میں تو یہ بھی سوچنے لگا تھا کہ وادھیا کو اہم کردار دےکر کوئی فلم بنائی جائے۔ لیکن سب تباہ ہو گیا! بھیجے گئے سبھی آدمی واپس آ گئے۔ کسی کو وادھیا نہیں ملا تھا۔

معجزوں پر میرا قطعی یقین نہیں، لیکن اس وقت پر بس ایسا بھی وچارمن میں آیا که ہو نہ ہو، شایدشواجی مہاراج کا وادھیا ہی اس فلم میں کام کرنے کے لئے آیا تھا اور کام ہوتے ہی وہ واپس چلا گیا!

لیکن شاید ہماری دن دوگنی رات چوگنی بڑھتی ترقی کو نظر لگانے کے لئےہی، یا کہیں اس کامیابی نشے میں چور ہوکر ہمارا دماغ خراب نہ ہو جائے،اس لئے ہی، ہماری فلم ‘جلم’ (ظلم) ایک دم فیل ہو گئی۔ اس کی ڈائریکشن دھایبر نے کی تھی۔ پھر بھی میں نے اور ہمارے سبھی ساتھیوں نے اس کے لئےپوری لگن سے کام کیا تھا۔ میں ڈائرکٹرنہیں تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھاکہ اس فلم سے میرا کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں دھایبر کی ڈائریکشن میں مدد کرتاتھا۔ ظلم کی ناکامی کے لئے ہم سبھی ذمہ دار تھے۔

“جلم” کی ناکامی سے ہمیں دکھ دکھ ہوا، لیکن ہم امید نہیں ہارے۔

ہماری پہلی تینوں فلمیں چھوٹے بڑے شہروں میں دھوم مچا رہی تھیں اور اس لئے ہمارےسامنے کوئی معاشی کٹھنائی نہیں تھی۔ میری ڈائریکٹ کی گئی فلم کی کامیابی کے باعث میرے سبھی ساتھیوں نے میرے اسٹائل اور موضوع کے انتخاب کی سمجھ بوجھ کی بہت تعریف کی، سراہا بھی اور ان معاملوں میں وہ مجھ پر پورا بھروسہ کرنے لگے۔

شواجی مہاراج تورنا کے بعد ایک کے بعد ایک گڑھ جیتتے چلے گئے تھے ہماری’پربھات’ کمپنی بھی ایک کے بعد ایک، ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب فلموں کو بنا کرکر لوگوں کے دلوں کو جیتتی گئی۔ اسی بیچ ہمیں کولہاپر میں خبریں ملی کہ اب سنیما ‘بولنے’ بھی لگا ہے، ‘گانے’ بھی لگا ہے۔ بمبئی میں کسی امریکی کمپنی کی
‘جیز سنگر’ نامی ایک بولتی فلم لگی ہے۔ مغربی تہذیب کی گرفت میں آئے اپر کلاس کے لوگ اس پر مرے جا رہے ہیں۔لہذا میں، داملے، فتے لال اور دھائبر بولتی فلم دیکھنے بمبئی گئے۔

وہ فلم ایک امریکی ناٹک پر مبنی تھی۔ اس لئے ایسا لگتا تھا جیسےہم کوئی ناٹک ہی دیکھ رہے ہیں۔ ایک امریکی اداکار نے کالے نیگرو کا میک اپ کرکے ہیرو کا کام کیا تھا۔ آخرمیں اس نے ایک گانا بھی گایا تھا۔ آج تک فلموں میں حرکات، اداکاری اور پریکٹس پر کافی زور دیا جاتا تھا۔ ان کے ماحول میں صرف بک بک ہی کئے جانے والی اس بولتی فلم کا میرے من پر تو کوئی اثر نہیں پڑا۔

لگ بھگ اسی وقت ایک اخبار نے میرا انٹرویو شائع کیا۔ اس میں انٹرویو کرنے والے نےبولتی فلموں کے بارے میں مجھ سے اپنے تاثرات ظاہر کرنے کے لئے کہا تھا۔ اس نے درست تاثرات مانگے تھے۔ میں نے بھی بالکل صاف لفظوں میں بتا دیا، “چونکہ بولتی فلم ایک نیا تجربہ ہے، ناظر آج اس پر مرا تو جا رہا ہے، لیکن ان کا نیاپن ختم ہوتے ہی وہ لوگوں کو خاص مسحور نہیں کر پائےگا۔ فلمی دنیا میں خاموش فلموں کوآج جو فنکارانہ مقام حاصل ہے، وہ میری رائے میں پکا ہے اور آگے بھی اسی طرح رہےگا، اس میں مجھے ذرا بھی شبہ نہیں ہے۔”اور اسی طرح بغیر کسی شبہ سے ہم نے اپنی ‘پربھات’ کمپنی کی ایک نئی فلم کا منصوبہ بھی بنا لیا۔ لیکن چونکہ مقابلہ بولتی فلموں سے تھا، ہم نے اپنی خاموش فلم کو ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے ایک حیرت انگیز اور نفیس دیومالائی کہانی کاانتحاب کیا۔ رام چندر جی پاتال میں اہراون مہراون نامی دو راکھشس بھایئوں کی ریاست میں جاتے ہیں۔ وہاں کی راج کماری ان پر فدا ہو جاتی ہے۔ یک زوجیت کا احترام کرنے والے رام جی پرایک آفت ہی آ جاتی ہے۔ ہنومان جی کے حکم سے راج کنیا چندرسینا کا پلنگ کپڑے کے ذریعے ایک دم کھوکھلا بنا کر رکھا جاتا ہے اور رام چندر کی اس مصیبت سے نجات ہو جاتی ہے۔ آخر میں رام جی ان دونوں راکشسوں سے جنگ کرتے ہیں۔ جنگ میں زخمی ہوئے اہراون اور مہراون کے تن سے رسنے والے خون کی ہر بوند سے ہزاروں اہراون مہراون پیدا ہوتے ہیں۔ آخر میں رام چندر جی ان سب کو ختم کر دیتے ہیں،اس فلم کی شوٹنگ کے لئے ہم لوگوں نے میسور ریاست کی ہاسپیٹ نامی جگہ پر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں شاہی وجےنگر کے کچھ تاریخی کھنڈرات ہیں۔ ہماری دیو مالا فلم کے ماحول کے لئے وہ بہت مفید معلوم ہوئے۔ ہم سب کو وہاں لے جانے کے لئے دو خاص بسوں کا انتظام کرنا پڑا۔ بسوں میں داملے، میں، فتے لال،دھائبر، بابوراوپینڈھارکر،کاسٹیوم ڈیزائنر شری پتی راو کاکڑے، میک اپ کرنےوالے لوگ، فن کار وغیرہ شوٹنگ کے لئے ضروری سبھی سامان کے ساتھ سوار تھے۔ بسیں جنوبی سمت چل رہی تھیں۔ میری بیوی وِمل مولت کرناٹک کی تھی۔ بیاہ کے بعد آج تک میں اسے کولہاپورکے باہر کبھی نہیں لے جا سکا تھا۔لہذا سوچا، اس بار اسے بھی ساتھ لے جاؤں۔ لیکن میں صرف میں اپنی ہی بیوی کو ساتھ لیتا چلوں، یہ بات ٹھیک نہیں لگی۔ اس لئے میں نے سجھاؤ دیا کہ داملے، فتےلال، دھائبر بھی اپنی اپنی بیویوں کو ساتھ لیتے چلو۔سب کو میری بات جچ گئی لیکن فتےلال جی مسلمان تھے اور ان کی پتنی ہمیشہ پردے میں رہتی تھی اور داملےجی کی بیوی کسی گھریلو کام کی وجہ سے آ نہیں پائی۔ اس طرح ہمارےسفرمیں میری پتنی ومل اور دھائبر کی پتنی ہی ہمارے ساتھ ہو لی تھیں۔

سفرشروع ہوا۔ علاقہ نیا تھا۔ لہٰذا ہماری بسیں صحیح راستے پر صحیح سمت میں چلیں، اس لیے میں نے اپنے ساتھ راستے کی رہنمائی کرنے والا ایک نقشہ بھی رکھ لیا تھا۔ سکول میں جغرافیہ میرا پسندیدہ مضمون رہا تھا، اس لیے نقشہ دیکھ کر راستہ بتانے کا کام میں نے بڑی شان سے لے لیا تھا۔ کئی بار دوراہے یا تراہے آتے تو ہماری بسیں رک جاتی تھیں۔ پھر میں نیچے اترتا۔ نقشہ کھول کر بتاتا، کس سمت میں جانا مناسب ہو گا۔ ایک تراہے پر میں بھی الجھ گیا۔ تینوں میں سے کون سا راستہ صحیح ہو گا، میری بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں نے داملے جی کو بھی اترنے کے لیے کہا اور پھر ہم دونوں نے مل کر طے کیا کہ ہماری بسیں کس راستے جائیں۔

بسیں پوری رفتار سے بھاگتی رہیں۔ ایک گھنٹہ ہو گیا، دوسرا بھی بیت گیا۔ لیکن نقشے میں ہم نے اگلے پڑاؤ کا جو گاؤں دیکھا تھا، وہ آنے سے رہا۔ پھر فتے لال جی نے بسوں کو روکنے کا حکم دیا۔ “مجھے لگتا ہے، شاید ہم لوگ غلط راستے پر آ گئےہیں۔ شانتارام باپو،نقشہ دیکھتے وقت آپ نے اسے کہیں الٹا تو نہیں پکڑا تھا؟ اسی طرح چلتے رہے تو ہمپی کے بجائے ہم لوگ کولہاپور واپس پہنچ جائیں گے!” بس میں سبھی لوگ اس بات پر زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں جھینپ گیا اور پھر نقشہ کھول کر دیکھنے لگا۔ تبھی کوئی راہگیر ادھر سے گزر رہا تھا۔ فتے لال جی نے اس سے پوچھا، “بابا، ہم لوگ کدھر جا رہے ہیں؟” اب وہ بچارا کیسے بتاتا، ہم کدھرجا رہے تھے! وہ تو منھ کھولے ہم لوگوں کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ فتے لال جی نے اس سے پھر وہی سوال کیا۔ تب وہ آدمی بولا، “اجی میں کیا جانوں تم لوگ کس طرف جا رہے ہو؟” اتنا کہہ کر ہنستے ہنستے وہ چلا گیا۔ حقیقت میں یہ راستہ کہاں جاتا ہے؟ ایسا اس سے پوچھنا چاہیے تھا، یہ بات بعد میں ہمارے دھیان میں آئی۔
تبھی مجھے بھی اپنی غلطی معلوم پڑ گئی۔ ہم راستہ بھول گئے تھے۔ بسوں کو پھر واپس موڑ لیا اور پھر اسی تراہے پر آنے کے بعد صحیح راستہ لے کر ہمارا آگے کا سفر جاری رہا۔ بیچ میں پنگھٹ پر رک کر سب لوگ سکون کے ساتھ جوار کی روٹی اور پیاز کا بیسن کھاتے تھے۔ اس طرح اتنی لمبی یاترا ہم لوگوں نے ہنستے کھیلتے پوری کر لی۔ آخر ہم لوگ ہاسپیٹ پہنچ گئے۔ بابوراؤ پینڈھارکر نے یہاں ہم سب کے رہنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ بھوجن کا بھی انتظام تھا۔ ہاسپیٹ سے ہمپی گاؤں بالکل پاس تھا۔ دوسرے دن سویرے ہی ہم ہمپی پہنچ گئے۔

راستے کے دونوں طرف کھلے میدان میں طرح طرح کے پتھر بےشمار بکھرے پڑے تھے۔ کچھ بڑی بڑی چٹانیں چھوٹے پتھروں کے سہارے ساکت کھڑی تھیں۔ دیکھنے سے تو ایسا لگتا تھا کہ ذرا سا دھکا لگا اور یہ وشال(عظیم) چٹانیں نیچے لڑھکیں گی لیکن اسی حالت میں وہ چٹانیں سینکڑوں سالوں سے آندھیوں طوفانوں کے تھپیڑے کھا کر دھوپ اور بارش میں اپنا توازن سبھالے کھڑی تھیں۔ جیسے خود کھڑی ہوں۔ میں نے جھاڑ جھنکاڑ کے ایک سے زیادہ جنگل دیکھے ہیں، لیکن پتھر چٹانوں کا یہ سامراجیہ جیون میں پہلی بار دیکھ رہا تھا!

وہاں سے ہم لوگ وجےنگر کے تاریخی کھنڈر دیکھنے کے لیے گئے۔ دیکھ کرحیران رہ گئے ہم لوگ۔ کیا کیا نہیں تھا وہاں؟ پتھر پر نزاکت سے نقاشی کھدے مکان، دروازے، بازار، راستے وغیرہ، ماضی کی شان کے گواہ کھنڈر!اتنی شاندارکلاکاری کے وہ نمونے، ان کے کلاکاروں کوشاہی سرپرستی دے کر ان سے ایسی فنکارانہ تخلیق کروا لینے والے فیاض راجا کی فنکاری دیکھ کر ماضی کی یاد سے من میں جذبات کا جوار سا اٹھا۔ وجےنگر کے ان آثار قدیمہ اور کھنڈروں کو دیکھتے دیکھتے شام ہو گئی۔ فلم کے کس سین کی شوٹنگ کہاں کرنی چاہیے، اس کا فیصلہ کر ہم لوگ اپنے ٹھکانے پر لوٹ آئے۔

دوسرے دن شِوراتری تھی۔ کسی کی زرخیر عقل میں وچار آیاکہ شِوراتری کے دن بھنگ چھنے۔ مجھے تو ایسے پروگراموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، معلوم اتنا ہی تھا کہ بھنگ پینے سے بھی نشہ چڑھ جاتا ہے۔ داملے اور فتےلال کبھی کسی ناٹک کمپنی میں پردے پینٹ کرنے کا کام کرتے تھے، تب شِوراتری پر کہتے ہیں بھنگ پینےکا رواج تھا، اس کے مطابق ان دونوں نے تھوڑی تھوڑی چھانی تھی۔ بابوراؤ پینڈھارکر اور کیشوراؤ دھایبر ایسے کاموں میں ہمیشہ پہل کرتے تھے۔ جب سبھی نے شِوراتری پر بھنگ چھاننے کا طے کر ہی لیا، تو ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنا مجھے نامناسب لگا۔

بھنگ چھن کر تیار ہو گئی۔ سبھی نے “بم بھولے” کہہ کر چڑھا لی۔ مجھے بھی اس میں شامل کرنے کے لیے سب نے مل کر ایک سازش کی۔ کسی کو ٹھنڈائی کا گلاس دے کرمیرے پاس بھیج دیا۔ لانے والے نے کہا، “اس میں اور کچھ بھی نہیں، صرف دودھ، بادام اور دوسری ایسی ہی چیزیں ملائی گئی ہیں۔” میں نے اس آدمی کو ڈپٹ کر پوچھا، “کیوں، اس میں کہیں بھنگ بھی تو گھول کر نہیں لائے؟” وہ خوفزدہ ہو گیا، ڈر کے مارے اس نے اصل بات مجھے بتا دی۔ اس کے بعد اس نے میرے لیے جسے بھنگ کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو، ایسی ٹھنڈائی کا گلاس لا کر دیا۔ میں سب کے سامنے اسے پی گیا۔ سب کا خیال تھا کہ میں نے بھی جے شنکر کر لیا ہے۔ اس دن ہماری پارٹی کے ہر ایک فرد نے مالک سے لے کر معمولی نوکر تک بھنگ کا آکنٹھ پان کیا، صرف عورتوں نے بھنگ کو چھوا تک نہیں۔

اس کے بعد ہم کچھ چنندہ لوگ شوٹنگ کے مقام پکے کرنے کے لیے بس میں بیٹھے۔ بس ابھی ہاسپیٹ کی حدود سے باہر نکل ہی رہی تھی که کچھ لوگوں کو زور کی الٹیاں ہونے لگیں۔ ڈرائیور بھی بیچ بیچ میں سر لٹکانےلگ گیا۔ میں نے چلا کر اسے گاڑی روکنے کا حکم دیا۔ اسے ہٹا کراس کی جگہ پر میں گاڑی چلانے بیٹھا۔ واپس ہمارے کیمپ آ گیا۔ سب کو جیسے تیسے بس سے اتارا۔ سب لوگ باہر کے صحن میں ہی سو گئے۔

نوکر چاکر سبھی نے کھل کر بھنگ پی تھی، لہٰذا پانی لانے کے لیے بھی کوئی پاس میں نہیں تھا۔ آخر میں نے ومل سے پانی منگوا لیا۔ سب کو پانی پلانے کے لیے ان کے پاس گیا اور دیکھا کہ سبھی لوگ ایک دم لاش سے پڑے تھے۔ سب کے چہروں پر چھائی مردنی دیکھ کر میں بہت ڈر گیا۔ ایک پڑوسی کو میں نے ڈاکٹر بلانے کے لیے روانہ کیا۔ مسز دھائیبر تو بہت ہی ڈر گئی تھیں۔ وِمل کے چہرے پر بھی ڈر صاف ابھر آیا تھا۔ اسے شک تھا کہ شاید میں نے بھی بھنگ چڑھا رکھی ہے اور کچھ ہی لمحوں میں میں بھی سب کی طرح نڈھال ہوکر گرنے والا ہوں۔ مجھے لگا کہ کولھاپور سٹوڈیو کو تار دے کر ان سب لوگوں کے خاندان کو پہلی گاڑی سے بلا لوں۔ تار کے فارم نکالنے کے لیے میں وِمل سے میرا بیگ لے آنے کو کہا۔ بیگ میرے ہاتھ میں دیتے وقت اس نے بھی کچھ ہچکچاتے پوچھا، “آپ کو تو کچھ ہو نہیں رہا؟”

“نہیں میں نے بھنگ پی ہی نہیں ہے۔” میں نےکہا۔ سن کر اسے بڑی راحت محسوس ہوئی ہو گی۔ پھر بھی اس نے کہا، “شریمتی دھایبر کہہ رہی تھیں، شانتارام باپو کا واقعی کمال ہے۔ ہمارے وہ (یعنی دھائبرجی) بھی آڑے پڑ گئے ہیں، لیکن لگتاہے شانتا رام نے بھنگ ہضم کر لی ہے۔ شاید ان کو نشہ پانی کرنے کی عادت ہے۔” سن کر مجھے ہنسی آ گئی۔ مجھے بالکل پورے ہوش میں دیکھ کر شریمتی دھائبر کو ومل سے حسد ہونا بھی فطری تو تھا!

تبھی ڈاکٹر آ گئے۔ اتنے سارے لوگوں کی حالت جانچ کر انھیں انجکشن وغیرہ دیتے دلاتے چار پانچ گھنٹوں کا وقت نکل گیا۔ میں نے فکرمند ہو کر ڈاکٹر سے پوچھا، “کیا ان لوگوں کے گھروالوں کو بلوانے کی ضرورت ہے؟”

“بالکل نہیں۔ یہ لوگ چوبیس گھنٹوں کے بعد اپنے آپ ٹھیک ہو جا ئیں گے۔ چنتا (فکر) کرنے کی کوئی بات نہیں،” ڈاکٹر نے دلاسا دیا۔ میری جان میں جان آ گئی۔ ومل نے میرا بستر لگوا دیا۔ وہ باربار مجھے کچھ آرام کر لینے کی صلاح دیتی رہی،اصرارکرتی رہی، لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی، رات بھر میں صحن کی لمبائی ناپتا رہا۔

کاسٹیوم ڈیزائنر شری پت راؤ کاکڑے کو سب سے پہلے ہوش آیا۔ شاید انھوں نے کچھ کم لی تھی۔ پھر بھی ان کا نشہ پوری طرح سے اترا نہیں تھا۔ بھنگ کے نشے میں آدمی ایک ہی بات کو لگاتار کرتا جاتا ہے۔ ہنسنے لگا تو پھر ہنستا ہی رہتا ہے، رونے لگا تو روتا ہی جاتا ہے۔ اب ان کاکڑے صاحب کو لگ رہا تھا کہ میں نے بھی بھنگ چڑھا رکھی ہے، اس کے نشے میں لگاتار میں اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر چکر کاٹ رہا ہوں اور اب بس دھڑام سے کہیں گرنے ہی جا رہا ہوں۔ اس لیے میں جدھر جاتا، ادھر ہی کاکڑے اپنے دونوں ہاتھ میری دونوں بانہوں سے کچھ دور تان کر میرے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا، تاکہ وہ مجھے گرنے سے بچا سکے۔
دوسرے دن سویرے سبھی لوگ تھوڑی تھوڑی ہلچل کرنے لگے۔ شام تک سب کو ہوش آ گیا۔ میرے من کا بھاری بوجھ اتر گیا۔ میں کافی تھک چکا تھا۔ اس دن شام کوجو سویا تو دوسرے دن سویرے ہی جاگا۔ جاگ کر دیکھتا کیا ہوں، سبھی لوگ میری طرف کافی فکرمند ہو کر دیکھ رہے تھے۔ فتےلال جی نے کہا، “ہم نے سوچا کہ آپ کو چوبیس گھٹے دیری سے بھنگ کا نشہ چڑھا اورآپ بےہوش ہو کر گر پڑے ہیں۔ لیکن نہیں، آپ تو گھوڑے بیچ کر سو گئے تھے۔” اس پر سب لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ومل دروازے پر کھڑی تھی۔ صرف اپنا پتی بھنگ سے اچھوتا رہا، اس کا فخریہ احساس اس کے چہرے پر مسکرا رہا تھا۔

سب لوگ مکمل چنگے ہو گئے۔ لیکن ہمارا میک اپ مین شنکر گوڑ بچارا ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ بھنگ اسی نے چھانی تھی۔ سب کو دینے کے بعد نیچے بھنگ کا جو گاڑھا نچوڑ رہ گیا، شنکر اسی کو پی گیا تھا۔ یوں بھی بھنگ کا نشہ ہوتا ہے کڑک، اس پر یہ مہاشے نیچے کا گاڑھا گاڑھا پی گئے، وہ تو اور بھی ظالم ہو گا۔ دو تین دن بیت جانے پر بھی شنکر ہوش میں نہیں آ رہا تھا۔ ڈاکٹر کو پھر بلوایا۔ شنکر کا علاج شروع کروایا۔ چوتھے دن جا کر کہیں اسے ہوش آیا۔ لیکن وہ پاگل جیسا کرنے لگا۔ آگے چل کر میک اپ کا کام وہ کرتا تو تھا، لیکن اس کے دماغ پر جو اثر ہو گیا، وہ مستقل تھا۔ شنکر ہمیشہ کے لیے بے کارہو گیا تھا۔

وجےنگر کے کھنڈروں میں اور میدان میں باہر شوٹنگ پوری کر سب لوگ محفوظ کولھاپور لوٹ آئے، شنکر گوڑ کا ایک دلی ڈیپریشن ساتھ لیے!

اس کے بعد کتنی ہی شِوراتری آئی اور گئی، کسی نے بھنگ کا پروگرام کرنے کا نام بھی نہیں لیا۔

اس ‘چندرسین’ فلم میں داملے اور فتےلال نے اپنی ساری مہارت داؤ پر لگا دی تھی اور کئی سین اتنے حیرت انگیز اور عظیم بنائے تھے، پوشاک اتنی زیادہ دیدہ زیب بنائی تھی کہ ان کی آرٹ ڈائریکشن بھی اس فلم میں ایک بڑی کشش بن گئی تھی۔

میں نے بھی طے کیا تھا کہ ڈائریکشن کے شعبے میں کچھ نئی کرامات کروں گا۔ پچھلی بارجب ممبئی گیا تھا، وہاں منروا میں ایک جرمن فلم دیکھی تھی “ورائٹی”، اس میں کیمرہ چلتی پھرتی ٹرالی پر رکھ کر شوٹنگ کی گئی تھی۔ شاٹس کی وہ رفتار دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔ ٹرالی کا استعمال کرتے ہوئے کچھ شاٹس خود لینے کی خواہش جاگ اٹھی تھی۔ اس لیے میں نے بھی اپنے تخیل سے ایک چار پہیوں والی ٹرالی بنوا لی۔ فتح لال جی نے ٹرالی پر کیمرہ رکھ کر اسے آگے پیچھے، آڑا ترچھا چلاتے وقت کیمرے کا ہینڈل گھماتے رہنے کی پریکٹس کی۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس فلم کے ممبئی میں ریلیز کی تاریخ پہلے سےہی طے ہو گئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سارا کام نبٹانے میں اتنی جلدبازی ہوئی کہ کیمیائی عمل کے بعد “چندرسین” کے کچھ آخری منظروں کی فلم سُکھانے کے لیے بھی کافی وقت نہیں رہا۔ لہٰذا ہم لوگوں نے پونے تک تیسرے درجے کا ایک پورا ڈبہ گاڑی میں اپنے لیے بک کرا لیا اور اس میں پوری فلم کھول کر اسے سُکھاتے سُکھاتے پونے پہنچ گئے۔

چندرسین ‘ تو اتنا چلا کہ اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ان دنوں ٹرالی کے استعمال کی بات ہماری فلمی دنیا کے لیے ایک دم نئی تھی۔ ناظرین کی تو کیا، بڑے بڑے لیجنڈری فلمی ناقدین کی سمجھ میں وہ تکنیک نہیں آئی۔ انھوں نے اخباروں میں “چندرسین” کی تنقید میں لکھا کہ اس فلم میں سین کبھی آگے، کبھی پیچھے تو کبھی آڑے چلتے دیکھ کر ناظر دنگ رہ جاتا ہے۔ ناقدین کے اس نتیجے سے ہم سبھی کا اچھا خاصا منورنجن(تفریح) ہوا، ‘چندرسین’ نے پربھات کی شہرت میں چار چاند لگا دیے۔ نہ صرف بھارت میں، بلکہ برما میں بھی ‘چندرسین’ نے خاموش فلموں سے ہونے والی آمدنی کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔

ہم سب لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ بولتی فلموں کے بارے میں ایک سنسنی خیز خبرآئی۔ بمبئی کی امپیریل کمپنی نے اردیشر ایرانی کی ڈائریکشن میں ‘عالم آرا‘ نامی ایک بولتی فلم بنائی ہے اور سماج کی مختلف طبقوں کے پرھے لکھے، ان پڑھ سبھی ناظرین نے اسے سر پر اٹھا رکھا ہے۔ سپر ہٹ خاموش فلموں کا چار ہفتے چلنے کا ریکارڈ کہیں پیچھے چھوڑ کر یہ بولتی فلم اب آٹھویں ہفتے میں بھی بے پناہ بھیڑمسحور کیے جا رہا ہے!یعنی؟ کیا بولتی فلموں کے بارے میں میرا اندازہ غلط ہو گیا؟بولتی فلم کامقابلہ کرنے کےلیےزیادہ تعداد میں خاموش فلمیں بنائی جائیں ایسامجھے ایمانداری سے لگتا تھا، میرے دیگر ساتھی بھی یہی چاہتے تھے۔ لیکن بمبئی سے دوسری خبر آئی۔ مدن اینڈ کمپنی کا بنائی ہوئی’لیلیٰ مجنوں‘ بولتی فلم ویلنگٹن تھئیٹر میں لگی ہے اور وہ بھی ‘عالم آرا’ کی طرح ہی دھوم مچا رہی ہے!
یہ خبرسن کرمیری سوچنے کی طاقت کو زبردست دھچکا لگا۔ پربھات فلم کمپنی کےآغاز سے لے کر آج تک فلم کے بارے میں میرے سبھی اندازے لگ بھگ صحیح نکلے تھے۔ ان فلموں کو ملی زبردست کامیابی کی وجہ سے میری خود اعتمادی بھی بڑھی تھی۔ لیکن اس خبر نے تو اس خود اعتمادی کو ہی گہنا دیاتھا۔ میں نے ہر پہلو پر وچار کیے بنا ہی بولتی فلموں کے لیے اپنی رائے اخباروں میں جابرانہ طور پر ظاہر کی تھی۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہونے والا تھا؟ بولتی فلم کا جو شاندار سواگت(استقبال) ہو رہا تھا، وہ فلمی دنیا کی نظر سے اہل ہے یا نا اہل اس کا وچار کرنے کے لیے وقت بھی کہاں بچا تھا؟ بمبئی سے ایک کے بعد ایک،لگاتار خبریں آنے لگی تھیں:بولتی فلموں کا زمانہ آ گیا ہے۔ بولتی فلموں کی لہر شدت سے اٹھ رہی ہے ۔۔۔۔