The author teaches English at Model College for Boys Islamabad. In the past he was affiliated with Council for Social Sciences Pakistan. His translation of English poetry has recently been published as a book.
ڈبلیو ایچ آڈن: اسے اس سر زمین کے حصے بخرے کرنے کو بھیجا گیا
جس کو اس نے کبھی بُھولے سے بھی دیکھا نہ تھا
وہ ان دو قوموں کے درمیان منصفی کرنے کے محال کام سے دو چار تھا
جو باہم خطرناک حریف تھے
سورج آج کل کے دنوں سے پہلے بھی لوہاروں کے گھر سے نکلتا تھا۔ لیکن فرق یہ تھا کہ کچھ غمگسار تھے جو اس کی تمازت کو اپنے سر لے کر انسانوں کو ٹھنڈک دے دیتے تھے۔ اب وہ کم ہو گئے ہیں۔
ٹیڈ ہیُوز کی نگارشات میں بہت تنوُّع اور وسعت ہے۔ بڑوں کے لئے شاعری کے علاوہ آپ نے بچوں کے لئے بھی کہانیاں لکھیں۔ آپ نے دوسرے لکھنے والوں کی تصانیف کی ادارت بھی کی۔
واہ، حضرتِ آدم آپ کے فرزندان کے انصاف پہ حوا کو بس اب ہنسی آ سکتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ شرم و حیا جب پاؤں کی زنجیر بن جائے تو اسے توڑنا اچھا! اور یاد رکھیو کہ شاید تمہاری منصفی کو ہی اب سوال کی نوک پر رکھا جا نے لگا ہے۔
غادہ السّمان کی شاعری میں نئے عہد کی ایک توانا عورت کا شعور قدم بہ قدم موجود ہے۔ یہ شعور ان کی کمزوری نہیں بنتا بلکہ ان کو دِگر کرتے حالات سے ماوراء ہونے کی طاقت دیتے محسوس ہوتا ہے۔
اب عاجز صاحب کے ذہن میں کئی سوالوں کے نئے نقش ابھر رہے تھے کہ پاکستان میں ہر قومی یوم پر اسلحے اور ٹینکوں ہی کی نمائش کیوں ہوتی ہے: بھلے وہ کوئی المشہور "یومِ دفاع" ہو یا کوئی المشہور "یومِ پاکستان"؟
روشنیوں کا سفر اپنے اندر کی تاریکیوں کے شعوری ادراک سے ہی شروع ہوتا ہے۔ کتابیں، شاعری اور لائبریری اپنے اندر کی تاریکیوں کو جھانکنے میں معاون ہوتی ہیں۔
جو شعر در شعر کہے بہ راہے مدح سرائی
بہ اندازِ رعد خوش گذران مہینہِ جُون جب شجر ارغوان ہو پورا کِھلا،
لیکن یہ علم میری زبان گنگ کرائے کہ
تم لوگوں نے اسے کیسے اندازِ گراں قدر صنّاعی سے موزوں کیا ہوگا۔
سنہ 1997 میں شطرنج کے عظیم کھلاڑی، گیری کیسپروف، کی آئی بی ایم کے ڈیزائن کردہ سُپر کمپیوٹر 'ڈِیپ بلیو' کے ہاتھوں شکست نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے وابستہ امکانات کو پھر سے نئی زندگی لوٹا دی۔