Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

سوختہ درختوں کی خاموش سسکیاں

test-ghori

test-ghori

02 جون, 2016
کل صبح گھر سے نکلا تو سورج میرے گھر سے باہر جانے سے پانچ گھنٹے اور بیس منٹ پہلے ہی طلوع ہو چُکا تھا۔ آج کل تو اسے کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے۔ بمشکل کہیں رات گزارتا ہے کہ پَو پھٹتے ہی پورے زور سے آن چوکڑی مارتا ہے۔ جدھر چلو ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہے۔ کل کا سورج بھی ویسا تھا کہ جس طرح کے سورج کے بارے میں ہمارے بچپنے کے برسوں میں ہمارے گاؤں کی وہ بُڑھیا اپنی سیدھی کھری پنجابی میں کہتی ہوتی تھی:

“اج فیر کَڑما لوہاراں دے گھروں نِکلیا ایہہ، رب لوکاں دے ڈھور ڈنگر، پَٹھے دَھتھے دی خیر کرے!”

گاؤں کے بالکل بازو سے بہتی بڑی نہر بھی تھی۔ یہ نہر گو کہ سیراب تو کہیں دور دراز کے اضلاع کی زمینوں کو کرتی تھی لیکن اپنے آس پاس کے دیہاتوں کو اپنی لہروں کے بوسے سمیٹے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا تحفہ ضرور نذر کرتی تھی۔
ہم بچے بالے لوہاروں کے گھر اور سورج کی آگ کے مابین لوک دانش کے اس ربط پر بلند قہقہے کے شور میں اُس وقت کے سورج کی حدت کو کچھ کم کر لیتے تھے؛ باقی ایک دو اور سہولتیں بھی تو تھیں نا: گاؤں تھا، بہت سارے درخت بھی تو تھے۔ گاؤں کے بالکل بازو سے بہتی بڑی نہر بھی تھی۔ یہ نہر گو کہ سیراب تو کہیں دور دراز کے اضلاع کی زمینوں کو کرتی تھی لیکن اپنے آس پاس کے دیہاتوں کو اپنی لہروں کے بوسے سمیٹے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا تحفہ ضرور نذر کرتی تھی۔ درخت اس ٹھنڈی ہوا کو اپنے پتوں سے کئی گُنا اور زیادہ ٹھنڈا بنا دیتے تھے۔ الغرض لوہاروں کے گھر سے نکلے اس سورج کے خلاف فطرت کی چھتریوں کی ٹھاہر (عارضی پناہ گاہ) موجود تھیں،انسانوں اور چرند پرند کے لئے پناہیں ہاتھ کے ہاتھ مل جاتی تھیں۔

لیکن کل کی صبح اسلام آباد ایک کی صبح تھی، یہ شہر جو میرے آبائی گاؤں سے بیسیوں میلوں کے فاصلے پر ہے۔ یہاں نہر تو نہیں ہے پر جا بہ جا درخت موجود رہے ہیں۔ یہ درخت اسلام آباد کے رہنے والوں کے دوست تھے، ابھی بھی کچھ کچھ باقی ہیں۔ لیکن دوسرے بڑے شہروں کی طرح یہاں بھی کچھ ترقی کے بالادست سوداگر ہیں۔ اِن ترقی کے سوداگروں اور ان بے یارو مددگار درختوں کا باہم مِل جُل کر رہنا موقوف ہوتا جا رہا ہے۔

ابھی کوئی پندرہ برس پہلے میں جب اسلام آباد میں نیا نیا آیا تھا، تو مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے اس وقت کے ایک کلاس فیلو کے ساتھ جب ہم فیض آباد کے فلائی اوور کے نیچے سے مری روڈ راولپنڈی سے آتے تھے۔ ایک سڑک کو اپنے کندھوں پر اٹھائےاس پُل کے نیچے سے گزرتے ہی فوری طور پر انہی درختوں کے طفیل ایک راحت افزاء ہوا کا جھونکا آنے والوں کا استقبال کرتا تھا۔ اس جھونکے کا لطف سائیکل اور موٹر سائیکل سوار زیادہ اچھے طریقے سے محسوس کر سکتے تھے کیونکہ یہ زمین اور تازہ ہوا کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔

لفظوں کی اس بڑھتی آبادی کے دوران یاد پڑتا ہے کہ جنرل مشرف صاحب کی حکومت میں اُن کی “بہترین اقتصادی حکمت عملی” سے کافی زیادہ دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی تھی۔ چیزیں بیچ بچا کر کافی پیسے جمع ہورہے تھے۔ وقت کے اہلیانِ اقتدار نے سوچا بھلا وہ کیسی ترقی ہوئی جس میں سڑکیں نا بنیں۔ سو جب سڑکیں بنانا منظور ہوا تو بدیہی بات تھی کہ سڑکوں کو بھی تو پاؤں رکھنے کے لئے زمیں چاہئے تھی۔ اور زمین پر پاؤں تھے درختوں کے! سڑکوں کے حواری صاحبانِ اقتدار اور ٹھیکیدار تھے، جبکہ درختوں اور زندگی کے دوست کتابی آدرشی کمزور لوگ تھے۔ جی رَن تو پڑا لیکن گھمسان کا نہیں۔

ترقی ہوتی گئی، کس نے زمین پر پاؤں رکھنا ہے اور کس نے چولہے کے نیچے اپنے بازو جلوانے ہیں اس کا فیصلہ ترقی کے پیغمبر دَم ہی دَم میں کرتے جا رہے تھے۔
کاٹنے والے افضل تھے اور منع کرنے والے با آسانی قرار پائے ملکی ترقی کے دشمن! فیض آباد کے پاس والے درختوں کو ملکی سلامتی کی اہم علامت 23 مارچ کی پریڈ کے لئے شہید ہونا پڑا، ٹھیکیداروں کی خُمریات، سڑکوں کے لئے درختوں کو اپنے پاؤں کٹوانے پڑے۔ بیچارے زمین پر آ گِرے۔ بہت روئے چِلائے لیکن وہ بڑی دھاڑیوں، کُھلے کُھلے شلوار قمیضوں اور تیز کلہاڑیوں والے انہیں اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں میں قیمہ کر کے کہیں دور لے گئے۔ شہر میں کئی اور جگہوں پر سے بھی درختوں کی گردنیں قلم کر دی گئیں۔

ترقی ہوتی گئی، کس نے زمین پر پاؤں رکھنا ہے اور کس نے چولہے کے نیچے اپنے بازو جلوانے ہیں اس کا فیصلہ ترقی کے پیغمبر دَم ہی دَم میں کرتے جا رہے تھے۔ نا جانے ان ترقی کے پیغمبروں کی سانسیں اپنے شجر کُش فیصلوں کی برق رفتاریوں سے یا اپنے گُھٹنوں پر گرتے جاتے درختوں کے خلاف تیز پیش قدمی سے پُھولی جاتی تھیں، وہ اپنی ذہنی مصروفیت اور یکسُوئی میں جان نا پائے۔

سورج آج کل کے دنوں سے پہلے بھی لوہاروں کے گھر سے نکلتا تھا۔ لیکن فرق یہ تھا کہ کچھ غمگسار تھے جو اس کی تمازت کو اپنے سر لے کر انسانوں کو ٹھنڈک دے دیتے تھے۔ اب وہ کم ہو گئے ہیں۔ اب لوہاروں کے گھر سے نکلتا سورج اسلام آباد میں راج کرتا ہے۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں سے اس کا راج مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اس لوہاروں کے گھر سے نکلے سورج اور کولتار، سیمنٹ، سریے، بجری کے سوداگروں کا اس سے اتحاد پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔

مشرف دور کے ترقی کے سوداگر لاہور سے کسی کامران لاشاری کو لائے تھے، اور پچھلے کچھ برسوں سے تو اسلام آباد پر حکومت ہی لاہور والوں کی ہے۔ سُنا ہے، دیکھا ہے، بھالا ہے اور اپنی سانسوں میں جھیلا ہے کہ ان لاہور والوں کو تو درختوں سے کوئی اللہ واسطے کا بیر ہے۔ نا لاشاری صاحب نے کم گھاؤ ڈالے نا اب کی بار کے لاہور والوں نے کچھ کم کیا ہے۔ کہو تو کہتے ہیں، ” کیا ہوا، منفی سوچ والو، ملک تو ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بس تم دیکھ ہی نہیں سکتے ہماری کارکردگی!” ہم کچھ اور نہیں کہتے بس اتنا عرض کرتے ہیں کہ ہم ایسوں کو وہ مری روڈ راولپنڈی سے اسلام آباد داخل ہونے پر اس راحت افزاء ہوا کو بوسہ واپس لوٹا دو؛ ہم اس تازگی کے احساس کو پھر سے روح میں اتارنا چاہتے ہیں۔ جی ہم بہت عیاش طبع ہیں!

کچھ بوڑھے شجر جنہوں نے اسلام آباد کی تین نسلوں کے تنفس کے لئے صاف آکسیجن دی تھی، آج جَڑوں سے اکھڑے پڑے تھے، اوندھے مُنھ، بے یارو مدد گار
گو اب ہوا کا وہ ٹھنڈا جھونکا تو میسر نہیں، کہ اسلام آباد پر لاہوریوں نے پھر سے اپنی ترقی کا ماڈل نافذ کیا ہے، لیکن کچھ انسان دوست درخت ابھی بھی کہیں کہیں نظر میں آ پڑتے ہیں، چُھپ کے، سہمے ہوئے! ان میں سے دو کے ساتھ کل صبح پروفیسر فیاض ندیم صاحب کے گھر جانے کے دوران علیک سلیک ہوئی۔ بے چارے سخت آزردہ تھے، غور سے دیکھا تو صرف آزردہ نہیں تھے بلکہ ان کے تو آدھے تن بدن سوختہ تھے۔ وہ خود کچھ نہیں بولے کہ انہیں پتا ہے ہم اسلام آباد کے احسان فراموش اپنے دوستوں کی کب سُنتے ہیں۔ مزید دھیان دینے پر آنکھ پھڑک اٹھی کہ ان دو درختوں کے آس پاس کی گھاس پر بمطابق جناب ونسٹن چرچل کی سگریٹ کی تمثیل کے کسی احمق نے اپنی جلتی پھینکی، یا کچھ اور ہو گیا۔ وجہ جو بھی بنی دو ڈھائی مرلے پر اُگی گھاس بغیر کسی مقصد کے سُپردِ نار ہو گئی اور ان دو مزید معصوموں کو جو کنکریٹ کے تاجروں کے دستِ بُرد سے کچھ میٹر دور دُبکے بیٹھے تھے کے بازو جل گئے۔ اور اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ کوئی ان سوختہ جانوں کے پاس رُکا تک نہیں، کسی نے اپنے ان پُرانے غریب رشتے داروں کا حال نہیں پُوچھا! جی ہاں، سانس، سایہ اور سرور بھلا زرِمبادلہ تو نہیں ہوتے نا! اور مزید کسر اِسی شام کی آندھی نے نکال دی ہے؛ ان مظلوموں کے بازو اور ٹانگیں توڑ کر انہیں ان کی پرانی دشمن سڑک کے اوپر دے مارا ہوا ہے۔

ابھی ابھی کسی کام سے پاکستان سیکریٹیریٹ جانا ہوا تو جا بہ جا ان معصوموں کے لاشے پڑے ہوئے تھے: کچھ بوڑھے شجر جنہوں نے اسلام آباد کی تین نسلوں کے تنفس کے لئے صاف آکسیجن دی تھی، آج جَڑوں سے اکھڑے پڑے تھے، اوندھے مُنھ، بے یارو مدد گار! یوں تو سبھی کے لاشے کسی بھی صاحبِ دل کی روح سے نوحے در نوحے کشید کرا سکتے تھے لیکن وہ دو درخت تو میری آنکھوں میں جھڑی بن کر برس پڑتے ہیں، جونہی میں ان کے بارے کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں۔ یہ کون سے دو بوڑھے شجر ہیں؟ یہ زیرو پوائنٹ سے فیصل مسجد کی طرف جاتے ہوئے پِمز کے قریب والے انڈر پاس کے دائیں جانب والے وہ دو درخت ہیں جو آج تک سڑک کے کنارے پر بچوں کے پارک کے اندر ترقی کے تاجروں کے دستِ بُرد سے بچے ہوئے تھے: یہ دو درخت بچوں کے لئے لگے جُھولوں اور ایک سِی سا پر کسی سگی ماں کی طرح اپنا سایہِ دامن دراز کر رہے تھے۔ یہ ماں جیسے درخت رات کی آندھی میں مر گئے۔

مجھے ابھی تک ٹیلی ویژن پر کوئی ٹِیکر پڑھنے کو نہیں ملا جو یہ بتائے کہ آیا کسی حافظ سعید نے ان درختوں غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی ہو! جی ہاں، سانس، سایہ اور سرور بھلا زرِمبادلہ تو ہر گز نہیں ہوتے اور نا ہی یہ مقدس جہاد ہے۔

صبح کو سورج برسا، دن میں وہ دو درخت کسی اشرف المخلوقات کی سگریٹ کی پروردہ آگ میں سوختہ ہو گئے، رات کو آندھی نے پرانے دوستوں، غریب رشتے داروں، ان اسلام آباد کے بوڑھے اشجار کا قتل کیا ہے۔ کیا ہم اپنے دوستوں کو اب بھی پہچان سکتے ہیں کہ نہیں؟ یا کہ ہم شہر والوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اندر سسک سسک کر مرنا اپنے اوپر فرض کر لیا ہے؟