ایک معمولی سا منظر
تھمی ہوئی ہے دیر سے بارش
دیر سے اک کاغذ کی کشتی
تیر رہی ہے پانی میں
کشتی جس کاغذ سے بنی ہے
اس پر کوئی پھول بنا ہے
پھول جو اس دنیا کا نہیں ہے
دو چینٹے کشتی کے مسافر بنے ہوئے ہیں
ڈگمگ ڈگمگ
ڈگمگ ڈگمگ
کاغذ اب گلنے بھی لگا ہے
کشتی، سائیڈ اسٹینڈ والی اک سائیکل جیسے
ایک طرف کو جھکی ہوئی ہے،
ایک بھی جھونکا
اس کشتی پر ایک ایک قیامت لا سکتا ہے
اک تتلی
جو جبر بہار سے بچی ہوئی ہے
پھول دیکھ کر
(پھول جو اس دنیا کا نہیں ہے)
اس کشتی پر آ بیٹھی ہے
جیسے بادباں کھلتے ہیں نا
اس نے اپنے پر کھولے ہیں
ڈوبتی کشتی سنبھل گئی ہے
چینٹوں کی جاں بچی ہوئی ہے
Coffee Cup Reading
اسے میسیج تو بھیجا ہے
کہ کافی پر ملو مجھ سے
وہ آ جائے گی تو اچھا !!
میں پہلے صرف دو کافی منگاؤں گا
میں کیپچینو پیتا ہوں
وہ کیسی کافی پیتی ہے
اس کا اندازہ تو اس کے آنے پر ہو گا۔ ۔ ۔
ہمارے پاس تو باتیں بھی کم ہیں
سو کافی جلد پی لیں گے
جو اس کے کپ میں تھوڑا جھاگ کافی کا بچا ہو گا
میں اس کی ‘شیپ’ کو پڑھ کر اسے ‘فیوچر’ بتاؤں گا
بتاؤں گا اسے میں
کیسے وہ مجھ سے جیسے اک لڑکے کی دنیا کو بدل دے گی۔ ۔ ۔
(اسے معلوم ہوگا کیا؟ کہ کافی کپ کی ریڈنگ کا تریقہ یہ نہیں ہوتا)
میں کیفے آ چکا ہوں۔ ۔
وہ بھی رستے میں کہیں ہو گی
بہت سے لوگ کیفے آ کے پڑھتے لکھتے رہتے ہیں
محمّد علوی کی نظمیں تو میں بھی ساتھ لایا ہوں
یہ ہو گا تو نہیں پھر بھی۔ ۔ ۔ وہ آئی ہی نہیں تو پھر
انہیں لوگوں کے جیسے میں بھی پڑھ کر وقت کاٹوں گا۔ ۔ ۔
اسے آنے میں دیری ہو رہی ہے
میں اک کافی تو تنہا پی چکا ہوں
ذرا سا جھاگ کپ میں ہے جسے دیکھو تو لگتا ہے
کہ اک لڑکا اکیلا بیٹھ کر کچھ پڑھ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔
تسلّی دے رہا ہوں اب میں خود کو
یہ میری شام کا فیوچر نہیں ہے
کہ کافی کپ کی ریڈنگ کا طریقہ یہ نہیں ہوتا۔ ۔ ۔
Boredom Eating
شام کا وقت ہے اور خالی ہوں میں
دو دو کپ چائے پی کر بھی راحت نہیں خالی پن سے مجھے
خالی پن کو کسی کے جو پُر کر سکے
اب تک ایسا کوئی زائقہ آدمی کو ملا ہی نہیں
ہاں مگر ایسے اک زائقے کی ضرورت تو ہے
ورنہ اُس زائقے کے تعاقب میں ہم
خالی پن کو کسی طرح بھرنے کی اس دائمی کھوج میں
ساری دنیا کو کھا جائیں گے ایک دن
شام کا وقت ہے اور خالی ہوں میں
تیسری چاۓ ہے اب مرے سامنے۔ ۔ ۔ چار نمکین بسکٹ بھی ہیں ساتھ میں۔ ۔ ۔