بدن کی حمایت میں
شہزاد نیر: کچھ نہیں، کچھ نہیں آنکھ کی کھیتیوں سے پرے کچھ نہیں ہے
شہزاد نیر: کچھ نہیں، کچھ نہیں آنکھ کی کھیتیوں سے پرے کچھ نہیں ہے
شہزاد نیر: سو میرے سوچنے والے بیٹے ! تم نے خاموش رہنا ہے تمہاری خاموشی میں تمہاری زندگی ہے
شہزاد نیر: آج بھی خون کی ندّی میں نہایا سورج آج پھر اس کی شعاعوں میں لہو کاری ھے
اپنے من کے اندر چھپ کر جب بھی تجھ سے ملنے نکلوں باتیں کرتی ہوا سے مل کر شاخیں شور…
خواہشیں جنگلوں میں اگے پیڑ ہیں تیرے جسمی حقائق گھنی خواہشوں کی جڑیں کاٹتے ہیں گلِ خشک کو کون تازہ…
جامع مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مولانا کا خطبہ جاری تھا۔ الفاظ بجلی کے کوڑوں کی طرح…