خود کُش

شہزاد نیر: آج بھی خون کی ندّی میں نہایا سورج آج پھر اس کی شعاعوں میں لہو کاری ھے

رستہ سہل نہیں ہے

اپنے من کے اندر چھپ کر جب بھی تجھ سے ملنے نکلوں باتیں کرتی ہوا سے مل کر شاخیں شور مچاتی ہیں سڑکوں کی دو رویہ آنکھیں روشن ہوتی جاتی ہیں

Surrogation

خواہشیں جنگلوں میں اگے پیڑ ہیں تیرے جسمی حقائق گھنی خواہشوں کی جڑیں کاٹتے ہیں گلِ خشک کو کون تازہ کرے؟ بیضہ دانی کے خلیوں کی پہنائی میں طاقتِ بیضہ سازی نہاں امر سے سَلب کر لی گئی کیسے خواہش کو جسمِ حقیقت ملے؟

سیاہ تر حاشیے

جامع مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مولانا کا خطبہ جاری تھا۔ الفاظ بجلی کے کوڑوں کی طرح برس رہے تھے۔ نمازیوں میں جوش اُبل رہا تھا۔ اہلِ ایمان اور اہلِ کُفرکے جنگی معرکوں کا تذکرہ تھا۔