Laaltain

دل ہی تو ہے

29 مئی، 2025

اردو شعر و ادب میں “دل” ایک ہمہ گیر استعارہ ھے۔ جسم کے اس عضوِ رئیس کو عہدِ قدیم سے وہم و خیال کا منبع و ماخذ اور جذبات و احساسات کا مرکز و محور سمجھا جاتا ھے۔ ہم سب نے یہ جملہ بھی سن رکھا ھے “میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے۔” لیکن اس سے کہیں زیادہ ہمیں یہ سننے پڑھنے کو ملتا ہے “میرے دل میں ایک خیال آیا۔” اسی طرح “میرا دل پریشان ہے، یہ بات میرے دل کو نہیں لگی، فلاں دل کا صاف ہے، اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا” جیسے درجنوں فقرے ہمیں اس بات پر قائل کرتے نظر آتے ہیں کہ ناصرف خیالات و جذبات بلکہ نیت، کردار ، ارادہ، پریشانی، دکھ اور کئی مزید انسانی اوصاف و کیفیات دل سے وابستہ ہیں۔

ہر چند میڈیکل سائنس نے بتا رکھا ہے ان سب خیالات و کیفیات کا مسکن ہمارا ذہن ہے۔ ذہن ہمارے عصبی نظام کا ہیڈکوارٹر ہے جو جملہ افعال بدن کو کنٹرول کرتا ہے۔ دل کے پاس تو معدودے چند عصبی خلیات ہی ہیں جو محض دل کی سرگرمیاں کنٹرول کرتے ہیں۔ دھڑکن کی رفتار بڑھانے یا کم کرنے کے احکام قلب کے عصبی خلیات کو دماغ ہی سے موصول ہوتے ہیں جہاں ہماری جملہ بدنی سرگرمیوں اور ضروریات کا ادراک و احساس پایا جاتا ہے۔ یہ جو خوف، تجسس یا خوشی کے عالم میں ہمارا دل تیزی سے دھڑک اٹھتا ہے (یا ورزش کے ہنگام بھی) تو اس کا سبب یہی ہے کہ خوف، تجسس وغیرہ کا ادراک کر کے ذہن دل کو تیز دھڑکنے کا حکم جاری کرتا ہے تاکہ بدن کو خون کی ترسیل (نتیجتاً توانائی) بڑھ سکے جو آنے والے ممکنہ خطرے میں کام آئے۔

یہیں سے لوگوں نے سمجھا کہ شاید سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دل میں پائی جاتی ہے۔

لیکن صاحب، سائنسی انکشافات و اکتشافات کی اپنی دنیا ہے اور زبان و شعر وادب کا اپنا ہی عالم۔ زبان کے قدیمی اظہارات بھلا جمعہ جمعہ آٹھ دن کی سائنسی دریافتوں سے بدل سکتے ہیں! ہرگز نہیں جناب۔

سائنس کچھ بھی کہہ لے، ہمارا محبوب دل میں ہی بسے گا، ذہن میں نہیں۔ محبت کا مرکز دل ہی ہے۔ دل لینا، دل دینا یونہی رہیں گے۔ محبوب سے ملاقات کے لیے کوئے ملامت کو جانے پر دل ہی اکسائے گا وہ بھی پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے۔ محبوب دلبر و دلدار کہلاتا رہے گا۔ اس کی جدائی میں دل بھر آئے گا اور اس کی جفا پر ہم دل گرفتہ ہوں گے نہ کہ ذہن گرفتہ یا دماغ گرفتہ۔ دراصل زبان کے بہت گہرے اور قدیم روابط تہذیب و ثقافت اور فکریات سے ہوتے ہیں۔ جب پیار محبت سمیت سبھی جذبات و احساسات کا مسکن دل ہی کو مانا گیا ہے تو ایسا ہی چلے گا۔ دوسری جانب عقل، خرد، دانش اور تفکر کو ذہن سے منسوب تو کیا گیا لیکن تفوق دل کو حاصل رہا جو عشق کا مسکن ہے اور عقل تو ابھی لب بام، محو تماشا ہے۔ ایسے میں یہ بالکل اہم نہیں رہ جاتا کہ دیگر اعضائے جسمانی کی طرح دل بھی ایک عضو ہے جس کا کام خون کو دھکا دینا ہے۔

ویسے بھی تو گھروں میں اب برقی الات سے روشنی ہوتی ہے لیکن شاعری میں اور مزاروں پر چراغ ہی جلتے ہیں۔ سامانِ حرب میں سے تیر و تلوار نکل چکے لیکن غزلوں میں موجود۔ اب بھلا بندوق، پستول، توپ، بم غزل میں اچھے لگیں گے!

تو صاحبو، زمانہ چاہے قیامت کی چال چل جائے، زبانیں اپنی چال چلتی ہیں۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی زبان کی شاعری دل کے ذکر سے خالی ہو گی۔

دل بدست آرد کہ حج اکبر است۔

از دل خیزد بر دل ریزد

دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال: جدید حسیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات و پس ساختیات اور ساخت شکنی کے ذکر اذکار میں کیا کہیں یہ امکان موجود ہے کہ زبان کامل سائنسی منہاج پر قائم ہو جائے اور جدید سائنسی اکتشافات کی روشنی میں زبانوں میں پائے جانے والے خلافِ عقل و حقیقت محاورات و استعارات متروک ہو جائیں یا پھر ایسا نہیں ہو گا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *