ایک تالاب ہے
جس کے چاروں طرف
نرگسی پھول ہیں
اس کے پانی پہ لرزاں
چمکتا ہوا
یہ مرا عکس ہے

یہ مرا عکس ہے
جس کا ہر ایک خط
جاذب و دل بریں
“دلنشیں، دلنشیں
آفریں، آفریں”

ایسا ساحر ہوں میں
جو کہ مسحور ہے
خود پرستی کے ہاتھوں
جو مجبور ہے
میَں تحیرزدہ
منجمد، منجمد
خود میں سہما ہوا
منفرد، منفرد

میں کہ مبہوت ہوں
میں اپنی انا
اور اپنی ثناء
اور اپنی محبت کا
تابوت ہوں

Leave a Reply