گلیڈی ایٹرز

ناصرہ زبیری: تو ہوئے کیا مری تاریخ پہ پھیلے وہ محبت کے الوہی قصے دردِ انساں کے زمینی دعوے وہ ترے عشق میں ڈوبے نعرے

کاری

ناصرہ زبیری: اندھے، بہرے، مردہ، بے چہروں کی اس بستی کے بیچ زندہ ہے پھر بھی دیکھو میری صاف بصارت بھی میری تیز سماعت بھی

پکچر پزل

ناصرہ زبیری: یہ اپنے ٹکڑوں کو جب سمیٹے اور ان کو پھر جوڑنے کا سوچے تو پچھلی ترتیب بن نہ پائے یہ اپنی پہچان بھول جائے

پتھر کی زنجیر

ناصرہ زبیری: کیسے چھیڑوں ہاتھوں سے میں چیخوں کا یہ ساز شاہی در پر کیا اپناؤں فریادی انداز