پتھر کی زنجیر
کیسے چھیڑوں ہاتھوں سے میں
چیخوں کا یہ ساز
شاہی در پر کیا اپناؤں
فریادی انداز
جنبش کا احساس نہ کوئی
مدھم سی آواز
ٹھہرے لمحے کے قصے میں
آخر نہ آغاز
شورش گر آغاز کرے تو
منصف کرے سوال
پوچھے تو میں کھولوں سارے
ظالم شب کے راز
راز کھلیں تو شاید اپنی
کھل جاۓ تقدیر
لیکن بےحس عادل گھر میں
ایک وہی تاخیر
مدت سے ہے یہ بھی ساکن
اور میں بھی تصویر
منصف کے گھر پر آویزاں
پتھر کی زنجیر!
چیخوں کا یہ ساز
شاہی در پر کیا اپناؤں
فریادی انداز
جنبش کا احساس نہ کوئی
مدھم سی آواز
ٹھہرے لمحے کے قصے میں
آخر نہ آغاز
شورش گر آغاز کرے تو
منصف کرے سوال
پوچھے تو میں کھولوں سارے
ظالم شب کے راز
راز کھلیں تو شاید اپنی
کھل جاۓ تقدیر
لیکن بےحس عادل گھر میں
ایک وہی تاخیر
مدت سے ہے یہ بھی ساکن
اور میں بھی تصویر
منصف کے گھر پر آویزاں
پتھر کی زنجیر!
Image: Oswaldo Guayasamin