کچھ مرنے کے لیے زندہ چھوڑ دیے گئے ہیں
نصیر احمد ناصر: موت کسی کے دل میں نہیں تھی لیکن مارے گئے جو بچ گئے وہ کیمپوں میں مرنے…
نصیر احمد ناصر پاکستانی اردو شاعری کا نمایاں اور رحجان ساز نام ہے۔ آپ کی شاعری دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ وہ چکی ہے۔ آپ 'تسطیر' کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالتے رہے ہیں۔
نصیر احمد ناصر: موت کسی کے دل میں نہیں تھی لیکن مارے گئے جو بچ گئے وہ کیمپوں میں مرنے…
نصیر احمد ناصر: لفظوں اور منظروں کی خود کشی کے بعد زندگی کو چُپ سی لگ گئی ہے
نصیر احمد ناصر: آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے لیکن ایک…
نصیر احمد ناصر: میں اِس رات کی صبح دیکھنا، اور پرندوں کی طرح تمھارے ساتھ طلوع ہونا چاہتا ہوں
نصیر احمد ناصر: لاشیں ترتیب سے رکھی گئیں شناختی نشانوں کے ساتھ روزنامچے میں دن، تاریخ اور وقت درج کیا…
نصیر احمد ناصر: میں نے قتل کیا ہے ایک مرد کو جو میرے جسم میں چھید کرنا چاہتا تھا
نصیر احمد ناصر: مکمل سپردگی سے پہلے کسی اور نشانی کا انتظار مت کرنا انسانی ادوار میں محبت کا مرنا…
نصیر احمد ناصر: تم نے شاید صبح کا اخبار نہیں دیکھا گوتم کو اب نوکری کی ضرورت نہیں رہی اس…
نصیر احمد ناصر: بچپن کی سنی ہوئی آوازیں عمر بھر سنائی دیتی ہیں!
نصیر احمد ناصر: شاعری زمین کا پھول ہے آسمانوں پر رہنے والے شاعر نہیں ہوتے
نصیر احمد ناصر: مجھے مت پہنو! میں تمہاری مٹی جیسا شفّاف اور تمہارے ریشم جیسا نرم نہیں
نصیر احمد ناصر: سرحد کے اُس پار سے آنے والے بادلوں کی کلانچیں اور بارش کے چھینٹے بتا رہے ہیں…
نصیر احمد ناصر: رات کا سوناٹا ختم ہونے سے پہلے مجھے خواب کے اُس سرے کی طرف جانا ہے
یہ راز نہیں حقیقت ہے کہ تنکا اپنے باطن میں آگ کے علاوہ نمی بھی رکھتا ہے
نصیر احمد ناصر: اگر موت کو کہیں اور جانے کی جلدی نہ ہوئی تو اُسے ڈھیر ساری نظمیں سناؤں گا…