زرد صحافت اور سنسنی خیزی

ہر چینل ایک کارپوریٹ ادارہ ہے جو پیسہ کمانا چاہتا ہے، یہ پیسہ، اشتہارات کی بدولت کمایا جاتا ہے۔ اشتہار چلانے والی کمپنیاں یہ نہیں دیکھتیں کہ کیا 'دِکھ' رہا ہے، وہ تو بس یہ پوچھتی ہیں کتنا 'دِکھ' رہا ہے۔

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

تقریباً ہر چوتھا بندہ آئی-ایس-پی-آر کے نغمے کے پیچھے پڑ گیا ہے کہ کیا پڑھانا ہے؟ کیوں پڑھانا ہے؟ پہلے اپنے بچوں کو پڑھائو! تقریباً دو دن اس نغمے کو غور سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر ہنچا ہوں کہ پیغام امن کی تعلیم کا دیا جا رہا ہے۔

مجبور

"اس لوڈشیڈنگ نے تو پریشان کر رکھا ہے۔ روزانہ 12 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ " "ایسا کیوں ہے؟ "

نام

یہ چوکیدارکاحصہ،یہ اسلم کا۔۔۔ کون اسلم؟ہمارےآفس میں ملازمہے،اسنےکہہرکھاتھا۔

میری مرضی

ووگ نامی جریدے نے بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم، تشدد کے واقعات اور امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے بامعنی اشتہارات بنانا شروع کیے ہیں۔ اس سلسلے کے اب تک دو اشتہارات نشر ہوچکے ہیں، پہلے کا عنوان لڑکے رلاتے نہیں ہیں تھااور دوسرے کا عنوان ہے مائی چوائس۔

ایک سیاسی جماعت کیسی ہو

میرا دل چاہتا ہے کہ دو ڈیڑھ سو ٹی-وی چینلز ہوں، اِدھر اُدھر ڈرون کیمرے اڑ رہے ہوں، اخبارات کے نمائندے ہوں، صحافی ہوں، میں اسٹیج پر جلوہ افروزہوں اور گرج گرج کر اپنا موقف سب کے گوش گذار کروں۔

چلو انقلاب لاتے ہیں

انقلاب کے موضوع پر گزشتہ برس ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران میں نے حاضرین سے جب یہ پوچھا کہ ’آپ میں سے کتنے لوگ سول نافرمانی پر یقین رکھتے ہیں؟‘ تو کوئی ایک فرد بھی اس سوال کا جواب ہاں میں دینے پر آمادہ نہیں تھا۔

انسانی ترقی اور معاشی منصوبہ بندی

صنعتوں اور معاشی سرگرمیوں کے آغاز سے ہی انسانوں کو تولنا و مولنا شروع کردیا گیا تھا، رعیت و غلام تو ہم پہلے ہی سے تھے،سرمایہ داری کی آمدانسانوں کو بھی انسانی وسائل(Human Resource and Capital) قرار دے کر ان کی قیمت مقرر کرنا شروع کردی۔