سوختہ جسم کا لباس

فیصل عظیم: لباس جل کر مرے بدن پر چپک گیا ہے جلی ہتھیلی کی پشت سے ٗ بھولے بھٹکے شعلے کہیں سے جو سر اُٹھا کے باہر کو جھول جاتے ہیں ٗ اُن کو خود ہی دبا رہا ہوں

آخری موسم

فیصل عظیم:زینے سے آنے والے کی صورت دھُند میں کھو جاتی ہے یخ بستہ سانسوں کے سنّاٹے کا منتر چُپ کا جادو کرتے کرتے سو جاتا ہے

غلام گردش

فیصل عظیم:خوشی! عدم کے کسی جھروکے کی اوٹ سے جھانکتی نظر کا فریب کوئی

پرندے کے پیر پر

اندیشہ لیکن آنکھوں میں گھس کر دہرائے جاتا ہے "منظر بدلا تو کیا ہو گا خواب ہوا تو ٹوٹ کے اور بھی کرچیں آنکھوں میں بھر دے گا خواب نہیں تو دھو لینے پر شاید سوزش بڑھ جائے گی

گورا قبرستان

اُٹھے ہوئے ہاتھ ٗ گردنیں تو صلیب و گنبد میں ڈھل رہے ہیں نئے نئے سائے تازہ قبروں سے بے خودی میں نکل رہے ہیں اور اس دھوئیں کی کثافتوں میں تمام منظر پگھل رہے ہیں