ساتواں باب: ہمارا وجود
کارلو رویلی
ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک

اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

اب تک دریافت کی جاچکی کائنات کی سرحدوں سے لے کر گہری خلاؤں کی بناوٹ جاننے اور دور دراز دنیاؤں کا سفر کرنے کے بعد اب میں انسانی وجود کی جانب واپس لوٹنا چاہوں گا۔ عصر حاضر کی جدید طبیعات اس وسیع دنیا کی جو منظر کشی کرتی ہے اس دنیا میں بطور انسان ہمارا کیا کردار ہے۔ انسان جو اِس دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے، ہنستا ہے، روتا ہے اس کے اپنے وجود کا کیا جواز ہے؟ اگر یہ دنیا محض مادہ اور مکاں کا ایک عارضی،سریع الزوال مجموعہ ہے، اگر یہ فقط مکاں اور اس کے بنیادی مادی ذرّوں کی ایک پیچیدہ پہیلی ہے تو پھر ہم کیا ہیں؟ کیا ہم بھی صرف ذرّات کاہی مجموعہ ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہماری الگ الگ شناخت اور شخصیت کی مخصوص انفرادیت کہاں سے آتی ہیں؟ پھر یہ ہماری اقدار، ہمارے خواب، ہمارے جذبات اور ہمارا انفرادی علم کیا ہیں؟ اِس لامتناہی اور روشن کائنات میں ہماری کیا حیثیت ہے؟

میں اس مختصر مضمون میں اس پیچیدہ سوال کا جواب دینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔یہ ایک مشکل سوال ہے۔مجموعی طور پر عصر ِ حاضر کی سائنس بہت سی چیزوں کے بارے میں علم نہیں رکھتی۔ اور جس چیز کے بارے میں ہمارا علم سب سے کم ہے وہ ہمارا اپنا وجود ہے۔ لیکن اس سوال کو نظر انداز کرکے یا اس سے چشم پوشی کرکے ہم علم کے ایک نہایت اہم پہلو سے غافل رہیں گے۔ اس کتاب میں میَں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جس دنیا کا ہم حصہ ہیں،سائنس کی روشنی میں یہ دنیا کیسی نظر آتی ہے۔

ٍ بطور انسان ’ہم‘ سب سے پہلے فاعل ہیں جو اِس کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور مل کر حقیقت کی اُس عظیم تصویر کو مکمل کرتے ہیں جو میں نے یہاں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل ہم اُن تبادلوں کے جال (Network of Exchanges) کی گرہیں ہیں جس کے توسط سے ہم مناظر، آلات، معلومات اور علوم کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اِس دنیا کا بھی لازمی جزو ہیں جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس دنیا کو فاصلے سے دیکھنے والے محض خارجی شاہد نہیں ہیں۔ ہم اس کے اندر موجود ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اِس کے اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ہم اُنہیں ایٹموں اور روشنی کے ذرّوں سے مل کر بنے ہیں جن کا تبادلہ پہاڑوں پر صنوبر کے درختوں اور کہکشاؤں میں ستاروں کے درمیان ہوتا ہے۔

جیسے جیسے ہمارے علم میں اضافہ ہوا، ہم نے سیکھا کہ ہم اس عظیم کائنات کا ہی ایک معمولی سا حصہ ہیں۔ گو یہ ادراک ہمیں صدیوں سے تھا لیکن گزشتہ صدی میں یہ مزید پختہ ہو ا ہے۔ کبھی ہمارا عقیدہ تھا کہ ہم ایسے سیّارے پر آباد ہیں جو کائنات کا مرکز ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔کبھی ہم یہ مانتے تھے کہ ہمارا وجود دُوسرے حیوانات کی نسلوں اور بناتات سے الگ ہے اور ہم ایک بالکل منفرد اور ممتازنوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ہم نے دریافت کیا کہ ہم بھی انہیں آبا کی نسلیں ہیں جس سے ہمارے ارد گرد کے دوسرے جاندار بنے ہیں۔ تتلیوں، دیودار کے درختوں اور ہمارے آباؤاجداد مشترک ہیں۔ ہم اس بچے کی طرح ہیں جسے بڑا ہونے پر احساس ہو تا ہے کہ دنیا صرف اس کے گرد گردش نہیں کرتی جیسا وہ بچپن میں سوچا کرتا تھا۔ اس کے برعکس اسے اب یہ سیکھنا ہے کہ وہ اس ان گنت خلقت میں سے ہی ایک ہے۔ دوسرے لوگوں اور دوسری اشیاء کے تعلق سے ہی ہم یہ جان پاتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔

جرمن مثالیت پسندی کے دور میں شیلنگ(Schelling) اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’ انسانیت‘‘ فطرت کا نقطہ عروج ہے جہاں حقیقت ’خود آگاہ‘ (Self-conscious) ہوجاتی ہے۔ آج جب ہم فطرت کے بارے میں اپنے موجودہ علم کی روشنی میں اس خیال کے متعلق سوچتے ہیں اور اس کی سادگی پر مسکرا دیتے ہیں۔ اگر ہم اس کائنات میں دوسری مخلوقات سے افضل ہیں تو صرف اسی طرح جس طرح ہر کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے جس طرح ہر بچے کو اپنی ماں دوسروں سے بہتر لگتی ہے۔ یقیناً فطرت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔

کہکشاؤں اور ستاروں کے اِس بے انت سمندر میں ہماری زمین دور درازایک کونے میں تیرتا ہوا معمولی نقطہ نما ہے۔ ان گنت، گنجلک منقّش اشکال جن پر کائنات کی حقیقت قایم ہے، ہم ان نقوش میں سے محض ایک معمولی نقش ہیں۔ اس کائنات کے بارے میں ہم جو بھی تصورات تشکیل دیتے ہیں وہ صرف ہمارے ذہنوں اور سوچوں میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ اپنے محدود ذرائع کی بنیاد پر قائم کردہ اِن قابل فہم تصورات اور اس حقیقت جس میں ہم موجود ہیں، کے درمیان ہماری لاعلمی، ہماری حسیا ت اور ذہانت کی محدودیت جیسی ان گنت مقطاریں یا چھاننیاں ہیں۔ بطور فاعل ہماری اپنی فطرت بھی ہمارے تجربات اور مشاہدات پر ایک طرح کی محدودیت عائد کرتی ہے۔

بہرحال یہ شرائط (جیسے کہ کانٹ نے تصور کیا تھا ) اس کے برعکس آفاقی نہیں ہیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اقلیدسی (Euclidean) تصور ِ مکاں حتیٰ کہ نیوٹن کی میکانیات بھی از خود عین سچائی ہونی چاہئے۔ دراصل یہ ہماری انواع کے ذہنی ارتقاء کا استغراق ہیں اور ہم مسلسل ارتقاء کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہم نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ ہم سیکھنے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ مسلسل اپنے خیالات اور تفہیم کے تصوراتی ڈھانچے (Conceptual framework) کو بھی تبدیل کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم سیکھتے ہیں خواہ وہ سست ہو یا تیز، اسی حقیقی دنیا کا حصہ ہے جس میںہم اور آپ رہتے ہیں۔ اس کائنات کی ساخت کے بارے میں ہم اپنے ذہنوں میں اسی طرح کی تخیلاتی تصاویر بناتے ہیں جو کم و بیش ہماری اس حقیقی دنیا کا ہی عکس ہوتی ہیں۔ ہم اس دنیا کو مزید بہتر طور پر بیان کرنے لیے ان تصورات سے رہنمائی لیتے ہیں۔

جب ہم بگ بینگ (Big Bang) یا سپیس(Space)کی بناوٹ / ڈھانچے کی بات کرتے ہیں تو ہم اُن فرضی کہانیوں کے تسلسل میں بات نہیں کرتے جو صدیوں سے داستان گو چاندنی راتوں میں الاؤ کے گرد بیٹھے بیان کرتے آئے ہیں۔ یہ ایک اور قِسم کے علم کا تسلسل ہے۔ جس طرح عہد رفتہ کے لوگ شکار کے لیے سورج کی پہلی ملگجی کرنوں میں گرد اَٹے وسیع میدانوں میں رات کو گزرے ہرنوں کے قدموں کے نشان ڈھو نڈتے تھے، اسی طرح یہ علم حقیقت کے ان گہرے پہلوؤں کی بلاواسطہ جانچ پڑتال ہے جنہیں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ فطرت کے عوامل کے چھوڑے گئے نشانات کے عمیق مشاہدات سے ان کاعلم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ خیال ہمیشہ ہمارے پیش ِ نظر رہتا ہے کہ اس کھوج میں ہم غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر ہمیں محسوس ہو کہ ہم غلط جانب چل رہے ہیں، ایسی صورت میں ہم کسی بھی وقت اپنی سمت درست کر سکتے ہیں۔ لیکن اگرہم صحیح سمت میں جارہے ہیں تو ہمیں یہ یقین رہتا ہے کہ ہم وہ حقیقت دریافت کرلیں گے جس کی ہمیں تلاش ہے۔یہی سائنس کی فطرت اور طریقہ ِتحقیق ہیں۔

انسان کے ان دومختلف علمی روّیوں یعنی فرضی قصے کہانیاں گھڑنا اور کسی واقعے کے رونما ہونے کے بعد اس کے نشانات کے ذریعے حقیقت کا کھوج لگانا،میں بظاہرجو تضاد اور تذبذب نظر آتا ہے اس کی بنیاد سائنسی علم کی کج فہمی اور اس پر عدم یقین ہے جو آج بھی ہمارے معاشرے میں کثیرحد تک پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں روّیوں میںنہایت معمولی فرق ہے۔ وہ ہرن جو عہد ِرفتہ کے انسان نے سورج کی پہلی ملگجی کرنوں میں شکار کیا، اس ہرن دیوتا سے دور نہیں جس کے بارے میں عہد ِرفتہ کا داستان گو چاندنی راتوں میں الاؤ کے گرد بیٹھا کہانیاں سناتا تھا۔

ان دونوں علوم کے درمیان ایک نازک مسام دارسرحد ہے۔ اساطیر سائنس کو قوت بخشتی ہے اور سائنس اساطیر کی پرورش کرتی ہے۔ لیکن علم کی قدر موجود رہتی ہے اگر ہم اس شکار کیے گئے ہرن سے مستفید ہو سکیں۔

ہمارا علم اس دنیا کا عکاس ہے۔ یہ ہماری اس دنیاکی کسی حد تک درست عکاسی کرتا ہے۔ اِس دنیا سے محض ہمارا ابلاغ ہمیں باقی فطرت سے ممتاز نہیں کرتا۔ہر شے ہمہ وقت ہر دوسری شے سے تعامل پذیر ہے۔ اس تعامل کے نتیجے میں ہر شے اپنے پیچھے ان تعاملات کے نشان چھوڑتی ہے۔ اس لحاظ سے فطرت میں موجود تمام اشیاء مسلسل معلومات کا تبادلہ کرتی رہتی ہیں۔

ایک مادی جسم دوسرے مادی جسم کے بارے میں جو معلومات رکھتا ہے وہ ذہنی یا نفسی نہیں ہوتیں۔ کسی بھی دو اجسام کی حالت اور ان کے تعاملات کی نوعیت محض طبیعات کے تعین کردہ ہوتے ہیں۔ بارش کا ایک قطرہ آسمان پر بادل کے موجود ہونے کی معلومات رکھتا ہے۔ روشنی کی ایک کرن اُس جسم کے رنگ کاعلم رکھتی ہے جس سے وہ منعکس ہو کر آئی ہے۔ ایک گھڑی دن کے اوقات کا علم رکھتی ہے۔ ہوا اُمڈتے ہوئے طوفان کی معلومات رکھتی ہے۔ زکام کا وائرس میرے ناک کی خرابی ِصحت کی خبررکھتا ہے۔ جسمانی خلیوں میں موجود ڈی این اے ہمارے جینیاتی کوڈ کی وہ تمام معلومات رکھتا ہے جو مجھے میرے والدین سے مشابہت دیتے ہیں۔ اسی طرح میرا دماغ اس معلومات سے بھرا ہوا ہے جو میرے تجربات سے اِس میں اکٹھی ہوئی ہے۔ ہمارے خیالات کا کلیدی عنصرجمع ہونے والی معلومات کا وہ وسیع ذخیرہ ہے جس میں مسلسل باہمی تبادلہ وتوسیع ہوتے رہتے ہیں۔

حتٰی کہ میرے کمرے کی برقی انگیٹھی پر لگا حرارت پیما (Thermostat)کمرے کے مناسب درجہ حرارت کا ـ’احساس ‘اور’ علم ‘رکھتا ہے۔ جب کمرہ ایک حد تک گرم ہو جاتاہے تو یہ خود بہ خود گرم انگیٹھی کو بھُجا دیتا ہے۔ تو پھر میرے اور اس خود کار حرارت پیما کے ’احساس ‘اور’ علم ‘میں کیا فرق ہے جب یہ اسی طرح گرمی بھڑ جا نے کا ادراک رکھتا ہے اور آزادانہ طور پرانگیٹھی بجھانے کا فیصلہ کرتا ہے؟ فطرت میں معلومات کا مسلسل تعامل اور تبادلہ کس طرح ’’ـہمیں ـ‘‘ـاور ہمارے شعور کو جنم دیتا ہے؟

یہ ایک واضح مسئلہ ہے جس کے کئی سنجیدہ حل زیر ِبحث ہیں۔ میرا یقین ہے کہ یہ سائنس کا سب سے زیادہ دلچسپ میدان ہے اور یہیں سے ایک بڑی علمی پیش رفت کی توقع ہے۔ آج نئے سائنسی آلات ہمیں دماغ میں ہونے والے عوامل کے گہرے مشاہدے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں اور ہم مکمل درستگی کے ساتھ ان عوامل کی انتہائی لطیف تفصیلات کی نقشہ کشی کر سکتے ہیں۔ چند سال پہلے 2014 ء میں یہ خبر آئی کہ ایک پستان دار جانور(Mammel) کے اندرونی دماغ کا مکمل اور تفصیلی نقشہ تیار کر لیا گیا ہے۔ اجسام کی معروضی ساختیں ہمارے شعور کے ذاتی و موضوعی تجربات سے کیسے میل کرتی ہیں ؟ یہ مخصوص خیالات نہ صرف فلسفیوں بلکہ اب ماہرین ِ دماغ کے بھی زیرِ بحث ہیں۔

مثال کے طور پر ایک اطالوی سائنس دان جیولو تونونی (Giulio Tononi) جو امریکہ میں کام کرتے ہیں، نے ایک دلچسپ ریاضیاتی نظریہ پیش کیا جس کا نام انہوں نے ’شعور کی مربوط معلومات کا نظریہ‘ (Integrated Information Theory of Consciousness) رکھا۔ تونونی نے اس نظریے میںشعور کے مقداری ڈھانچے کو وضع کرنے کی کوشش کی جس کی مدد سے یہ سمجھا جا سکے کہ ایک نظام کواپنا شعور رکھنے کے لیے کن خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کہ طبعی اور مادی سطح پرہمارے شعور کی ان دو حالتوں میں کیا فرق واقع ہوتا ہے جب ہم جا گ رہے ہوتے ہیں (حالت ِ شعور) اور جب ہم سو تو رہے ہوتے ہیں (حالت ِ غیر شعور)لیکن خواب نہیں دیکھ رہے ہوتے۔یہ تحقیق ابھی تک اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہمارے پاس ابھی تک ان سوالات کا قابل ِ یقین حل موجود نہیں ہے کہ ہمارا شعور کیسے تشکیل پاتا ہے۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دھند چھٹ رہی ہے۔
لیکن ایک سوال ایسا ہے جو ہمیں متحیّر کیے رکھتا ہے۔ اگر ہم فطرت کے پہلے سے متعین کردہ قوانین کی ہی تقلید کرتے ہیں اور اس سے منحرف نہیں ہو سکتے تو پھر اس بات کا کیا مطلب ہوا کہ ہم اپنی منشا کے تحت آزاد فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے احساس ِآزادی اور فطرت کے جبر کے درمیان تضاد نہیں ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میںفطری عوامل کیسے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ شاید ہم میں کوئی ایسی شے ہے جو فرار چاہتی ہے اور اپنی آزادی ِ تخیل کے ذریعے فطرت کے اِس تسلسل سے منحرف ہونے اور اسے تبدیل کرنے پر اکساتی ہے؟

نہیں، ہم میں ایسا کچھ نہیں ہے جو فطرت کے اصولوں سے فرار پا سکے۔ اگر ہم میں کوئی چیز فطرت کے قوانین سے انحراف کر سکنے کی صلاحیت رکھتی تو اب تک اسے دریافت کر چکے ہوتے۔ ہم میں ایسا کچھ نہیں جو فطرت کے عمومی رویے سے متصادم ہو۔ تمام جدید سائنسی علوم خواہ وہ طبیعیات ہو یا کیمیات، حیاتیات ہو کہ علم الاعصاب اس مشاہدے کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس الجھن کا حل کہیں اور موجودہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہیںتو یہ بات صرف اس حد تک درست ہے کہ ہمارے روّیے کسی خارجی قوت کے تابع نہیں بلکہ انہیں وہ واقعات متعین کرتے ہیں جو ہمارے اندر، ہمارے دماغ میں واقع ہوتے ہیں۔ آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے عوامل قوانین ِ فطرت کے تابع نہیں۔ در اصل اس کا مطلب ہے کہ یہ ان قوانین ِ فطرت کے تابع ہیں جو ہمارے ذہنوں میں عمل پیرا ہیں۔

ہمارے آزاد فیصلے اُن اربوں نیورونوں (Neurons) کے باہمی تعاملات کے نتیجے میں طے پاتے ہیںجو ہمارے دماغوں میں ہمہ وقت آزادانہ طور پر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے فیصلے اِسی حد تک آزاد ہیں جس حد تک ہمارے نیوران کے تعاملات ان کی اجازت دیتے ہیں۔ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ جب میں ایک فیصلہ کرتا ہوں تو وہ فیصلہ ’’میں‘‘ ہی کر رہا ہوں؟ ہاں، یقینا کیونکہ یہ کہنا لغو ہو گا کہ ’’میں‘‘اپنے دماغ میں ہونے والے ان نیورونوں کے پیچیدہ مجموعی تعاملات کے فیصلے سے ہٹ کر کوئی اور فیصلہ کر سکتا ہوں۔ اس معمے کو سترویں صدی میں معروف ولندیزی فلسفی بارُخ سپی نوزا (Baruch Spinoza) نے جس واضح انداز میں سمجھا، وہ بھی یہی ہے۔ یہ ـ’’میں‘‘ یا ’’ میرے دماغ کے نیورون‘‘ نہیں ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ فردایک عمل کا نام ہے: ایک پیچیدہ و مربوط نظام ِعمل۔

جب ہم کہتے ہیں کہ انسانی مزاج غیر متوقع یا ناقابل ِ پیش گوئی ہے تو ہم درست کہتے ہیں کیونکہ یہ اس قدرپیچیدہ عمل ہے کہ ہم سے اِس کی پیش گوئی کرنا نہایت مشکل ہے۔ہماری داخلی آزادی کا احساس جسے سپی نوزا نے بھی عمیق نظر سے دیکھا، اس حقیقت سے جنم لیتا ہے کہ ہمارے خیالات اور تصورات اس انتہائی پیچیدہ اور مفصل دنیا کے بارے میں خام اور سرسری ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ ہم اپنی ہی نظروں میں خود حیرتی کا شکار ہیں۔

ہمارے دماغ میں سینکڑوں ارب نیورون (Neurons) ہیں۔ اتنے جتنے کہ ہماری اس کہکشاں میں ستارے ہیں۔ ان نیورونوں کے درمیان باہمی رابطوں اور تبادلوں کے امکانات ان سے بھی کہیں زیادہ ہیں جن کے ذریعے یہ آپس میں تعامل کر سکتے ہیں۔ ہمیں ان سب کا شعور نہیں ہے۔ اس تمام انتہائی گنجلک پیچیدگی کا نتیجہ بذات خود ’’ہم‘‘ ہیں نہ کہ اس کا محض وہ محدودسا حصہ جس کا ہمیں ادراک ہے۔

ـ’’میں‘‘جو فیصلہ کرتا ہے، یہ وہی ’’میں‘ ہے جو اس درُوں بینی کے نتیجے میں جنم لیتا ہے(ایک پہلو سے یہ ابھی مکمل طور پر عیاں نہیں ہے لیکن ہم اس کی ابتدائی جھلکیاں دیکھنے لگے ہیں)۔یہ وہی ’’میں ‘‘ ہے جو مختلف اور متغیرپہلوؤں سے اس دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے اور خود نمائندگی اور خود فہمی کی تشریح کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔یہ اس حیرت انگیز ڈھانچے سے جو معلومات اکٹھی کرتا ہے اور ہمارے ہونے کی نمائندگی کرتا ہے اسے ہم دماغ کہتے ہیں۔ جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ’’یہ میں ہوں‘‘جو فیصلہ کرتا ہے تو ہم بالکل درست سوچ رہے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟

جیسے سپی نوزا نے بیان کیا کہ’ میںہوں‘ اوراس تمام پیچیدگی کے ساتھ میرے جسم اور دل و دماغ میں جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ بھی میں ہوں۔
میں نے ان چند صفحات میں جو سائنس کا نقطہ نظر پیش کیا ہے اوریہ ہمارے اپنے شعور ِ وجود سے متصادم نہیں ہے۔ یہ نقطہ ِ نظر ہمارے نفسیاتی اور اخلاقی تصورات سے بھی متصادم نہیں اور نہ ہی ہمارے جذبات اور احساسات سے۔ یہ دنیا بہت پیچیدہ ہے اور اس کی تشریح کرنے کے لیے ہمیں مختلف زبانیں درکار ہیں۔ زبان کا انتخاب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کس عمل کو بیان کر رہے ہیں۔ ہر پیچیدہ عمل کو مختلف زبانوں اور مختلف سطحوں پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ زبانیں فطری عوامل کی طرح ہی کہیں توآپس میں ملتی ہیں، کہیں قطع کرتی ہیں اورکہیں بہم ہو کر ایک دوسرے کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے جب ہم دماغ کی حیاتیاتی کیمیائ(Biochemistry) کو بھی اس مطالعے میں شامل کرتے ہیں اور انسانی دماغ کی ساخت اور افعال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح نظری طبیعات (Theoratical Physics) کو اُن جذبات اور جنون سے تقویت ملتی ہے جو ہماری روز مرہ زندگی میں کارفرما ہوتے ہیں۔
ہماری اخلافی اقدار، ہمارے جذبات اور ہماری محبتیں اس فطری دنیا میں دوسری تمام مخلوقات کی طرح حقیقی ہیں اور یہ اسی ارتقائی عمل کے تحت متعین ہوتی ہیں جس سے ہماری انواع کروڑوں سال سے گزرتی آئی ہیں۔ اس ارتقائی عمل کی بدولت یہ زیادہ قابل ِ قدر اور حقیقی ہیں۔ یہ وہ پیچیدہ حقیقت ہے جس نے ہماری تشکیل کی ہے۔ہماری حقیقت آنسو ؤں اور قہقہوں، ایثار و تشکّر، وفاؤں اورفریبوں، خوف اور طمانیت پر مبنی ہے۔ ہماری حقیقت ہمارے سماج کی پیداوار ہے۔ یہ ان خوبصورت جذبات سے تشکیل پائی ہے جو موسیقی سے متاثر ہیں اور اس مشترکہ علم کے مربوط سلسلے کا حصہ ہیں جو ہم نے مل کر تعمیر کیا ہے۔ یہ سب اسی فطرت کا حصہ ہے جس سے ہم بنے ہیں اور جسے ہم بیان کرتے ہیں۔ ہم بذات ِ خود فطرت ہیں۔ اس فطرت کے لامحدود اور بے شمار تغیر پذیر اظہاروں میں سے ایک اظہار۔ ہم نے اپنے مسلسل بڑھتے ہوئے علم سے اس دنیا کے بارے میںابھی تک یہی سیکھا ہے۔

وہ خصوصیت جو ہمیں باقی انواع سے منفرد کرتی ہے اور ’انسان‘ بناتی ہے وہ فطرت سے الگ نہیں ہے بلکہ وہ بذات ِخود اس فطرت کا حصہ ہے۔یہ اس سیارے پر فطرت کی وہ خود ساختہ شکل ہے جو اس کے مختلف حصوں اور پہلوؤں کے مابین تبادلہ ِ معلومات اور باہمی تعلقات کے نامختتم کھیل کے نتیجے میں بننے والی تراکیب سے پیدا ہوئی ہے۔ کون جانتا ہے کہ ہمارے علم سے باہر کائنات کی لامتناہی وسعت میں کیسی کیسی غیرمعمولی اور ناقابل ِ تخیل پیچیدگیاں موجود ہیں۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ یہ سوچنا بچگانہ ہوگاکہ ہماری معمولی سی کہکشاں کی سرحد پر واقع اس زمین میں کوئی چیز یکتا و منفرد ہے۔اس کائنات میں کیا کیا امکانات موجود ہیں، سیارہ زمین اُس کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ ہماری روح اس کی محض ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔

زمین پر واقع انواع میں سے بشری انواع قدرتی طور پر متجسس واقع ہوئی ہیں۔ اِن بشر نما جانداروں (Genus Homo)کی درجن بھر انواع میں سے صرف انسان ہی زندہ بچا ہے۔ اس بشری گروہ کی باقی انواع نابود ہوچکی ہیں۔ ان میں سے ایک نوع نینڈر تھل (Neanderthals) ماضی قریب میں کوئی تیس ہزار سال پہلے ناپید ہوئی ہے۔ جھگڑالو اور درجہ بندی کرنے والے بن مانس/ چمپانزی (Chimpanzee) کے مشابہہ اس بشری گروہ کی نسلوں کا ارتقاء افریقہ میں ہوا۔ بلکہ زیادہ درست طور پر نوع ِ بشر بنوبس (Bonobos) کے زیادہ قریب ہے جو چھوٹے قدکے قدرے پرُ امن، خوشگوار حد تک مساوات پسند اور مخلوط طبع چمپانزی ہیں۔ بشری انواع کایہ گروہ نئی دنیا ؤں کی تلاش میں بارہا افریقہ سے باہردور دراز علاقوں تک گیا۔ اتنی دور تک کہ پاتاگونیا (Patagonia)پہنچ گیا۔ مزید دور تک کہ بالآخر چاند پر پہنچ گیا۔

متجسس ہونا فطرت کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ عین ہماری فطرت ہے۔غالباً اسی تجسس کی وجہ سے لاکھوں سال پہلے نوعِ بشر نے نئی دنیاؤں کو جاننے اور نئے میدانوںکی تلاش میں افریقہ کو خیر آباد کہا۔ ایک رات ہوائی جہاز میں سفر کے دوران افریقہ کے اوپر سے گزرتے ہوئے میں نے سوچاکہ ہمارے اِن دور دراز کے آباؤ اجدادجنہوں نے نئے جہانوں کی تلاش میں صدیوں پہلے شمال کی سمت سفر کیا، ان میں سے کسی نے سر اٹھا کرآسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچاہوگا کہ ان کی صدیوں بعد کی اولادیں وہاں آسمانوں میںمحو ِ پرواز ہوں گی اور اُسی طرح متجسس چیزوں کی ماہیئت پر غور و فلر کر رہی ہوں گی۔

میرا ماننا ہے کہ نوعِ بشر ہمیشہ زندہ نہیں رہے گی۔ یوں لگتا ہے کہ انسان اس مواد سے نہیں بنا جس نے مثلاً کچھوؤں کو کم و بیش بغیر کسی بڑی تبدیلی کے کروڑوں سال سے قایم رکھاہوا ہے۔ کچھوؤں کی نوع کا روئے زمین پر یہ عرصہ انسان کے وجود میں آنے سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ طویل ہے۔ ہم قلیل الحیات انواع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری نوع کی رشتے دار تمام انواع نابود ہو چکی ہیں۔ مزید یہ کہ ہم اس زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بے رحم موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں جو ہم نے خود پیدا کیں،ہمیں نہیں بخشیںگی۔ زمین کے لیے شایدیہ ایک معمولی تبدیلی ہو لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ ہم اس سے محفوظ رہ سکیں گے۔ خصوصاً جب عوامی اور سیاسی رائے عامہ ان خطرات کو نظر انداز کرنا بہتر سمجھتی ہو اور اپنے سر ریت میں دبائے بیٹھی ہو۔ شاید ہم زمین پر واحد نوع ہیں جو اپنی انفرادی موت کی ناگزیری کا شعور رکھتی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جلد ہی ہم وہ واحد نوع بن جائیں گے جو اپنی اجتما عی تباہی سے باخبر ہو گی اوراپنا اختتام دیکھے گی یا کم از کم اپنی اس تہذیب کی تباہی دیکھے گی۔

ہم کسی حد تک جانتے ہیں کہ ہمیں اپنی انفرادی موت سے کیسے نمٹنا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اپنی تہذیب کے اجتماعی زوال سے کیسے معاملہ کرنا ہے۔ یہ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ایسا یقیناً پہلی دفعہ نہیں ہوگا۔ بہت سی دوسری تہذیبوں کی طرح مایا (Maya) اور کریٹ (Crete) کے باشندوں نے اس کا بہت پہلے تجربہ کیا۔ ہم پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں، جس طرح ستارے پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر۔ یہی ہماری حقیقت ہے۔ ہمیں زندگی اس لیے پیاری ہے کہ یہ عارضی ہے۔ روم کے فلسفی اور شاعر لیوکریشس (Lucretius) نے کہا کہ ’ہماری زندہ رہنے کی بھوک ندیدہ ہے اور ہماری زندہ رہنے کی پیاس حریص ہے‘(De rerum natura, III, 1084)۔ لیکن اس فطرت میں پوری طرح ڈوبے ہوئے( جو ہمیں تشکیل دیتی ہے اور رستہ دکھاتی ہے)اِن دو دنیاؤں کے درمیان معطل ہم بے گھر نہیں ہیں۔ منقسم، لیکن ایک حد تک اس قدرت کا حصہ مگر اس سے بڑھ کر کسی اور چیز کے متلاشی۔نہیں : ہم اسی دنیاکا حصہ ہیں۔

فطرت ہمارا گھر ہے اور ہم اسی فطرت کا حصہ ہیں۔ یہ عجیب، کثیر رنگ حیران کن دنیا جسے ہم کھوجتے رہتے ہیں، جہاں سپیس (Space) ذراّت پر مبنی ہے، وقت ناموجود ہے، اور اشیاء کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایسے شواہد نہیں جو ہمیں اپنے حقیقی وجود سے بیگانہ کرتے ہیں۔بلکہ ہمارا تجسس اس دنیا کے بارے میں ہم پر ایسے انکشافات کرتا ہے۔ ان عناصر کو افشا کرتا ہے جن سے ہم بنیں ہیں۔ ہمارے اپنے وجود ستاروں کی اُسی گردسے بنے ہیں جن سے یہ تمام کائنات بنی ہے۔ جب ہم غم میں ڈوبے ہوتے ہیں یا بے انتہا خوشی محسوس کررہے ہوتے ہیں، اس لمحے ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتے جو ہم محض جسمانی طور پر ہیں، اسی مادی دنیا کا حصہ جس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔

لیوکریشس اس مشاہدے کو یوں بیان کرتا ہے:
۔۔۔ہم کائنات کے ایک ہی بیج کی پیداوار ہیں
ہم سب کا ایک ہی باپ ہے
جس سے دھرتی ماں ہمیں کھلاتی ہے
جس سے وہ شفاف بارش لیتی ہے
روشن اناج اگاتی ہے
اور درختوں کو سبزہ دیتی ہے
اور انسانی نسل
اور درندوں کی انواع
یہ سب اجناس کو بھوجن دیتی ہے
کہ وہ پھل پھول سکیں
خو ش کُن زندگی گزارنے کے لیے
اور اولادیں جننے کے لیے
(II, 991-7)

محبت کرنا اور مخلص ہونا انسانی فطرت ہے۔ زیادہ جاننے کی خواہش ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ دنیا کے بارے میں ہمارا علم مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ کئی میدانوں میں ہم سیکھ رہے ہیں اور ہمارے علم کی خواہش کو تقویت ملتی ہے۔ ہمارا علم سپیس (Space) کے نہایت لطیف ڈھانچے کی دریافت تک پھیلا ہوا ہے، یہ کائنات کے نقطہ آغاز تک موجود ہے، وقت کی ماہیئت جاننے میں ہے، بلیک ہولز میں موجودہے اور ہمارے اپنے خیالات کے عمل ِ تشکیل میں ہے۔ ہمارے علم کے سرحدوں پر جو نامعلوم کے وسیع سمندر کو چھوتی ہیں کائنات کا حسن اور اس کے راز موجود ہیں۔ اور یہ دم بخود کرنے والی حیران کن خوب صورتی ہے۔

Leave a Reply