یہ شام بکھر جائے گی (ابرار احمد)
ہمیں معلوم ہے یہ شام بکھر جاے گی اور یہ رنگ۔۔۔۔ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے یہ…
ابرار احمد 1980ء سے شعر کہہ رہے ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ایک نظموں کا مجموعہ "آخری دن سے پہلے" (1997)، اور دوسرا غزلوں کا مجموعہ "غفلت کے برابر" (2007)۔ ان کی شاعری میں وجودی کرب، زندگی کی لایعنیت، فریب کی پردہ کشائی اور نقل مکانی کے موضوعات کو چھیڑتی ہے۔
 
                    ہمیں معلوم ہے یہ شام بکھر جاے گی اور یہ رنگ۔۔۔۔ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے یہ…
 ابرار احمد                                
4 مئی، 2019
                                
ابرار احمد                                
4 مئی، 2019 
                    ابرار احمد: پہلے ۔۔۔میں رنگین شیشوں اور گھنیرے کمروں والے اس گھر میں رہتا تھا جسے میرے باپ نے تعمیر…
 ابرار احمد                                
18 مارچ، 2018
                                
ابرار احمد                                
18 مارچ، 2018 
                    ابرار احمد: میں ایک خواب سے دوسرے خواب میں اس شام سے گزر کر جانا چاہتا ہوں تم کہاں ہو…
 ابرار احمد                                
18 فروری، 2018
                                
ابرار احمد                                
18 فروری، 2018 
                    بہت یاد آتے ہی چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ، فراموش کردہ تعلق اور پرانی چوٹوں کے نشان - —-اولین…
 ابرار احمد                                
6 فروری، 2018
                                
ابرار احمد                                
6 فروری، 2018 
                    ابرار احمد: تمھاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے وقت اور تم پر اختیار کے سوا
 ابرار احمد                                
30 نومبر، 2017
                                
ابرار احمد                                
30 نومبر، 2017 
                    ابرار احمد: آگے بڑھنے والے نہیں جانتے کہ آگے بڑھا جا ہی نہیں سکتا
 ابرار احمد                                
29 اکتوبر، 2017
                                
ابرار احمد                                
29 اکتوبر، 2017 
                    ابرار احمد: تم جو آتے ہو تو ترتیب الٹ جاتی ہے دھند جیسے کہیں چھٹ جاتی ہے
 ابرار احمد                                
1 اکتوبر، 2017
                                
ابرار احمد                                
1 اکتوبر، 2017 
                    ابرار احمد: دریچے، آنکھیں بن جاتے ہیں ایک اجنبی باس الوہی سرشاری سے ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے…
 ابرار احمد                                
19 اگست، 2017
                                
ابرار احمد                                
19 اگست، 2017 
                    ابرار احمد: آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے پڑے رہتے ہو عقب کے اندھیروں میں، لمبی تان کر…
 ابرار احمد                                
15 جولائی، 2017
                                
ابرار احمد                                
15 جولائی، 2017 
                    ابرار احمد: مٹی میں اترے ہوئے پانی کی طرح میرا شہر میری مٹی بن گیا ہے
 ابرار احمد                                
2 جولائی، 2017
                                
ابرار احمد                                
2 جولائی، 2017 
                    ابرار احمد: تم نے ٹھیک سمجھا ہر تعلق ایک ذلت آمیز معاہدہ ہے تھکے ہارے دلوں کا ، اپنے ارادوں…
 ابرار احمد                                
23 جون، 2017
                                
ابرار احمد                                
23 جون، 2017 
                    ابرار احمد: اور وہ بھی تم ہو گے جو کبھی ۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے اپنی نمناک…
 ابرار احمد                                
10 جون، 2017
                                
ابرار احمد                                
10 جون، 2017 
                    ابرار احمد: تو پھر لکھتے رہو بیگار میں بیکار میں لکھتے رہو کیا فرق پڑتا ہے
 ابرار احمد                                
25 مئی، 2017
                                
ابرار احمد                                
25 مئی، 2017 
                    ابرار احمد: جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا…
 ابرار احمد                                
2 مارچ، 2017
                                
ابرار احمد                                
2 مارچ، 2017 
                    ابرار احمد: اور اگر تم کہتے ہو ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے تو ہم چپ رہ سکتے ہیں…
 ابرار احمد                                
17 فروری، 2017
                                
ابرار احمد                                
17 فروری، 2017