Laaltain

اور راستہ کھل گیا

14 دسمبر، 2024
Picture of فروا شفقت

فروا شفقت

جب میں کالج جایا کرتا تھا، ماں کی تمنا تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا افسر بن جاؤں۔ سماج میں کچھ کام کروں، نام کماؤں اور گھر کی بھی بگڑی حالت سنواروں۔ دوسری طرف میری خواہش تھی کہ میں ایک بدھ بھکشو بن جاؤں، بدھ فلسفے کا گہرا مطالعہ کروں اور سب کو بتاؤں کہ بدھ کا حقیقی گیان کیا ہے، جو آج بھارت کا عام آدمی نہیں جانتا۔ جیسے، بدھ کا گھر بار تیاگنا، ان کا عدم تشدد اور درمیانی راستہ وغیرہ۔ بدھ مت باہر کے ملکوں میں تو آج بھی دن دگنا رات چوگنا پھل پھول رہا ہے۔ لیکن بدھ کی اپنی جائے پیدائش پر وہ آج بھی اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پایا۔ پر من کی من میں ہی رہ گئی۔ من اور خواہشات کو مار کر میں نے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر بڑی محنت اور لگن سے کئی امتحانات میں بیٹھا، تب کہیں جا کر ایک انتظامی افسر بن سکا۔ گھر کی دال روٹی بھی لگ بھگ ٹھیک سے چلنے لگی۔

کچھ سالوں تنخواہ سے پیسہ بچا کر جمع کیا اور منصوبہ بنایا کہ اپنا آبائی مکان ٹھیک کر لیا جائے۔ کافی پرانے ہونے کی وجہ سے مکان کی حالت بھی خراب ہو چکی تھی۔ سو اسے ڈھاہنا اور مکمل بنوانا ہی اچھا سمجھا۔ بس دفتر سے ایک ماہ کی چھٹیاں لے کر کام میں جٹ جانا چاہا۔ ہمارے اس مکان کا دروازہ مشرق کی طرف تھا۔ اب سوچا، مکان کے ٹھیک پیچھے لگ بھگ آٹھ فٹ کی ایک گلی ہے، کیوں نہ اس طرف راستہ کھول لیا جائے! گلی عوامی ہے۔ مکانوں کی بھیڑ بھاڑ، شہروں میں بڑھتی آلودگی اور مکان میں صاف ہوا کی آواجائی کے لیے گلی کی طرف ہی راستہ کھولنا لازمی اور ضروری تھا۔ سو اگلے دن سے کام شروع کروا دیا۔

مکان بنانے کے وقت آس پاس کے لوگ اکثر پوچھ لیا کرتے تھے، “شریمان، مکان کا دروازہ کدھر کھولو گے؟” تب میں کہتا، “بھیا یہ گلی کب کام آئے گی۔ کچھ دن ہم بھی تو استعمال کر لیں اس کا!” وہ کہتے، “گلی تو سبھی کی ہے۔ دروازہ کھول لو گے تو شاید گلی میں گندگی بھی نہیں رہے گی۔” میں کہتا، “سبھی لوگ اتحاد کریں تو محلے کے سارے مسائل کا حل دھیرے دھیرے ہو جائے گا۔” “کیوں نہیں، کیوں نہیں، محلے کی ترقی ہونا بھی تو ضروری ہے!” وہ کہتے اور چلے جاتے۔ بات آئی گئی ہو جاتی۔ ویسے مکان ڈھانے کے بعد سے ہم نے راستہ گلی میں بنا لیا تھا۔

صبح کے لگ بھگ 8:30 تک راج مستری اور بیل دار کام پر آ جاتے تھے۔ اس دن بھی ویسا ہی ہوا۔ لگ بھگ دو گھنٹے ہی کام پر بیتے ہوں گے کہ ایک راج مستری کو کوئی اپنے گھر میرے پڑوس میں بلوا لے گیا تھا۔ میں اس وقت سامان لینے بازار گیا ہوا تھا۔ واپس آنے پر مستری نے مجھے مذکورہ واقعہ بتایا۔ مستری نے بتایا کہ وہ آدمی کہہ رہا تھا، “گلی کی طرف دروازہ کھول لیا تو، خون خرابہ ہو جائے گا۔” اس نے آگے اس کی بولی میں ‘گالڈ (گلی) مہاری ]ہماری[ سے۔ سیور ہم نے بنوایا نالی ہم نے پکی کرائی، دیکھیں بھلا یو [یہ] چمار کا، کُکر ]کیسے[ مہاری گالڈ میں اپنا دروازہ لگائے گا، راستہ کھولے گا۔’ مستری کی یہ باتیں سن کر ایک بار تو میری نسوں میں خون کی گردش اور تیز ہو گئی۔ جی میں آیا کہ سالے کو اس کا جواب ابھی دے دوں۔ دیکھ لوں اس کی جاتی کا رعب۔ پر تھوڑا دماغ سے کام لیا۔ کہیں یہ راج مستری بھی تو ہمیں لڑوانا چاہتا ہو۔ یہ سب باتیں اپنی طرف سے تو نہیں کہہ رہا! اسے سمجھاتے ہوئے کہا، “کوئی بات نہیں، ہو گا سو دیکھا جائے گا۔ بس تم منصوبے کے مطابق اپنے کام میں لگے رہو اور کوشش کرو کہ یہ کام اپنے مقررہ وقت میں ہی پورا ہو جائے۔ بس میری آپ سبھی سے یہ عرض ہے۔” یہ سننے کے بعد ان سب لوگوں میں بھی جرات جاگ گئی جو کچھ پہلے اس آدمی کی دہشت سے خوفزدہ سے تھے۔ ویسے مستری نے جو حلیہ بتایا اس سے سمجھ گیا تھا کہ یہ بُھوسا کمہار کی حرکت تھی، جو میرا پڑوسی تھا۔ میں بھی پھر اپنے کام میں لگ گیا۔

لیکن ایک فکر رہی کہ ایک پچھڑی جاتی کا آدمی جس کا ہندو سماج اور دھرم میں کوئی خاص مقام، احترام نہیں ہے، جو ہندو ذات پات کے نظام میں خود چوتھے نمبر پر آتا ہے، غلام ہے۔ وہ دلت کی جدوجہد کو سراہنے سے رہا، الٹے دلت کو اس سماجی، سیاسی، مذہبی لڑائی میں کمزور کرنے میں اپنی شان سمجھتا ہے، بلکہ ایک اہم کردار نبھاتا ہے۔ اور خود غلام بنا رہتا ہے۔ دلتوں کے لاکھ جدوجہد کرنے پر بھی تحریک نہیں لیتا۔ یہ کچھ سوال میرے، دماغ میں باربار اٹھتے تھے اور من کو دکھی کر رہے تھے۔

شام کے وقت میرے ایک دوست نے مجھے خبر دی کہ بُھوسا کمہار لُوکھا جاٹ کے گھر گیا تھا اور میرے بارے میں خوب چغلیاں کیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ لُوکھا جاٹ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھا تھا۔ ہم دونوں باتیں کر رہے تھے کہ گلی میں شور سا کچھ سنائی پڑا۔ شور کو سن کر میں اور دوست، دونوں باہر آئے تو دیکھا کہ لُوکھا جاٹ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گلی میں آ دھمکا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ وہ ایک پیر سے لنگڑا تھا۔ اپنی چھڑی سے وہ گلی کو ناپنے لگا۔ ایک، دو، تین، چار۔۔۔۔۔ دوسرے ساتھی سے بولا، “بُھولے، اور گالڈ تے پوری سے۔ آٹھ فٹ کی۔” بُھولے—’ٹھیک سے۔’ پھر گلی کے بیچ میں کھڑا ہو کر بُھولے سے، “بُھولے یو گالڈ میرے باپ نے چھوڑی تھی مہارے لکڑن کھاتر، نہ تے یو زمین مہاری تھی۔ ایب بول یو گالڈ مہاری ہوئی نا۔ پھر یہ کے مانگ مانگے سے مہارے تے۔ بھائی جمین مہاری، گالڈ مہاری، ار بھائی مہاری اس گالڈ میں جو اپنا راہ کھولے گا، میں تے اس کے سر نے پھوڑ دوں۔” میں اس کی یہ باتیں سن کر مشتعل تو بہت ہوا۔ غصہ اتنا آیا کہ اسے ابھی بتا دوں کہ گلی کس کی ہے، کس کی نہیں ہے۔ مگر میرے دوست نے سمجھایا، “یہ غصے کا وقت نہیں ہے، لڑائی کا بھی نہیں، کیونکہ تمھارا ابھی کام پورا نہیں ہوا۔ ابھی وقت کا انتظارکرنا ہی مناسب ہے۔ کیونکہ یہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ تم لڑائی میں لگ جاؤ اور مکان کا کام ادھورا رہ جائے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمیں نقصان ہی نقصان ہو گا اور ہم کمزور کے کمزور بنے رہیں گے۔ اور سنو، سماج کی مدد بھی نہیں لے سکیں گے۔ سماج بھی اسی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کر سکتا ہے۔ ہمت رکھتا ہو۔ اس وقت ہمیں دھیرج کی ضرورت ہے۔” پھر میں تھوڑا شانت ہو گیا دوست کی صلاح پر دھیان دیا۔ اور دونوں انھیں دیکھتے رہے۔ تبھی بُھوسا کمہار بھی آ گیا تھا۔ لُوکھا کے ساتھیوں کو بُھوسا اپنے گھر کی طرف لے گیا۔ ہمیں ایسا لگا جیسے وہ لوگ میرے خلاف کوئی بڑی سازش رچنے جا رہے ہوں۔ قریب گھنٹے بھر بعد پھر شور سنائی دیا۔ تب ہم دونوں گھر میں بیٹھے تھے۔ لُوکھا جاٹ بڑے ڈرامائی انداز میں بولا، جو ہمیں سنائی دے رہا تھا۔ “کیوں رے موہر تیرا لڑکا تے مہاری بات بھی سننے راجی نا سے پر تو کان نے کھول کے سن۔ یو گالڈ مہاری سے، اپنے آگے پچھے نے دھیان میں رکھ کے کام کروی یے، نہ تے مانس مرن میں کے گاڈی جڑے سے۔” اور سب لوگ وہاں سے چلے گئے۔ میرے من میں ابھی بھی غصہ ہی بھرا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ ان سے کچھ سوال کروں کہ یہ زمین جس کی تم دعوی داری کر رہے ہو یا جس میں رہتے ہو، کیا تمھارے باپ نے بھی کبھی خریدی تھی؟ لیکن وہ اب جا چکے تھے۔ سو میں اور دوست آپس میں باتیں کرنے لگے۔ دوست نے کہا، “خریدی تو ان میں سے کسی کے باپ نے نہیں ہے۔ لیکن کہتے ہیں نہ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ پچھڑی جاتی کے لوگ تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے۔” میں نے کہا، “لیکن ان جاتی پچھڑوں کے پاس ہی کون سی زمین ہے۔ کون سی جائیداد ہے۔ کون سے حقوق وغیرہ ہیں۔” دوست نے بات کاٹتے ہوئے کہا، “یہ تو سب ٹھیک ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ کو بہتر مانتے ہیں۔ اور یہی حالت دیگر مذاہب، جیسے مسلمان، سکھ اور عیسائی مذہب کے پچھڑوں کی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہندو مسلمان، ہندو سکھ اور ہندو عیسائی کی لڑائی ہو جاتی ہے تو وہ فرقہ وارانہ دنگا تو بن جاتا ہے لیکن زمین، صنعت اور طاقت میں حصہ داری کا سوال آج بھی جوں کا توں ہے۔ اسی طرح ہندو مسلمان، سکھ اور عیسائی کے ساتھ ہوئی لڑائی کو فرقہ وارانہ دنگا مانا جاتا ہے۔ مگر دلتوں کے ساتھ ہونے والی لڑائی کو کبھی فرقہ وارانہ نہیں مانا جاتا۔ پتہ نہیں کیوں؟ جبکہ دلت کے ساتھ ان تمام مذاہب کے لوگ نسل پرستی کا سلوک رکھتے اور کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ میں سبھی غیرقانونی سلوک کرتے ہیں۔ تعصب رکھتے ہیں۔ یہ کیسی فرقہ واریت کی تشریح ہے، میری تو سمجھ میں نہیں آتا۔ بھائی کبھی اس کا جواب ملے تو ضرور بتانا۔” اس پر دونوں ہنس پڑے۔ اور دوست چلا گیا اپنے گھر۔ میں کھانا کھانے بیٹھ گیا۔ تھوڑا بہت کھانا کھایا پِتاجی نے بلا لیا۔ ہاتھ منھ دھو کر میں ان کے پاس گیا۔ من میں غصہ رہ رہ کر آ رہا تھا کہ پِتاجی نے صلاح دی کہ لڑائی ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا، “پتا جی اگر میں نے لڑائی پہلے کر لی ہوتی، تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔” پِتاجی خاموش تھے۔ میں نے پھر سوال کیا، “پِتاجی اس گاؤں میں ہمارا کوئی حق ہے کہ نہیں۔” پِتاجی نے کہا، “حق کیوں نہیں ہے۔ ہم بھی تو گاؤں کے ہیں۔” میں نے پھر سوال کیا، “جب حق ہے تو ہمارے پاس جوتنے بونے کی زمینیں کیوں نہیں ہیں؟ آزادی کے پچاس سال ہونے جا رہے ہیں اور سبھی لوگ اس پر خاموش ہیں۔ کیوں؟ پِتاجی اس خاموشی کی وجہ سے ہی تو ہم لوگ بےزمین ہو گئے اور یہ مٹھی بھر جاتیاں زمین دار۔” پِتاجی “ہاں بیٹا، ہم یہ سوال کیسے اٹھاتے؟ یہ جاتیاں طاقتور ہیں، لڑاکی ہیں اور ہم کمزور لوگ۔ ان کے لوگ پولیس میں ہیں، سرکار میں ہیں، انتظامیہ میں ہیں۔ ہماری کون سنتا ہے۔” میں نے ]اب کی بار غصے سے، مگر طنز کے انداز میں[ “پِتاجی، یہ لوگ لڑاکے ہیں، طاقتور ہیں، تو پھر ملک کئی بار غلام ہوا اور صدیوں تک غلام بنا رہا، کہاں گئی تھی ان کی طاقت اور لڑاکا پن! اور پِتاجی بھارت کی آزادی سے پہلے تو زمین زمینداروں، نوابوں کے پاس تھی۔ یہ ٹُکڑخورے کوئی زمیندار تھوڑی تھے۔ بلکہ یہ تو کاشتکار بھی نہیں تھے۔ لیکن تھوڑی سی ہمت نہ ہونا۔۔۔۔۔” میں بڑا پس و پیش میں پڑا تھا کہ کسی نے مجھے آواز دی۔ میں نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو ایک پرانے دوست تھے۔ راجے پِپل۔ وہ میری طرف چلا آ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، “کیوں یہاں کیسے۔” (تھوڑا سا وچاروں کو اہم اور بناوٹی سا بنا کر) وہ بولا، “میں تو اکثر آیا کرتا ہوں، لیکن تمھارے درشن نہیں ہوتے شریمان ۔ کیوں کیا بات ہے؟” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، میں نے اپنی ساری داستان اسے سنا دی، کیونکہ میں تو چاہتا تھا کہ کوئی میری بات سنے اور حل کا کوئی راستہ نکلے۔ داستان سن کر وہ بولا، “یار کچھ تو کرنا ہی چاہیے۔ آج تو یہ دروازے کی بات ہے۔ کل تو یہ ہمارے گھروں پر قبضہ کر لیں گے۔” پھر وہ بولا، “میں ٹھہرا سماجی خدمت گار پولیس اور انتظامیہ سے آئے دن جھڑپ ہو جاتی ہے۔ چلو اب کی بار تمھارے لیے کھڑکاتے ہیں ان کے کان۔ بھائی ایک بات بتا دوں۔ پولیس اس کی بات سنتی ہے جس کا پلڑا بھاری ہو۔ چاہے دھن سے چاہے پہنچ سے، چاہے دباؤ سے۔ نہیں تو وہ نہیں سنتی اپنے باپ کی بھی۔ پولیس کمزوروں اور عورتوں کی مدد نہیں کرتی۔ اس لیے ہی تو ان دونوں کو پولیس سے ڈر لگتا ہے۔ اور انصاف بھی نہیں مل پاتا۔ ان کا استحصال کرتی ہے۔ اگر ہم جیسے سماجی خدمت گار نہ ہوں تو یہ استحصال اور بھی زیادہ ہو گا۔ خیر چھوڑ، (بات کو بدلتے ہوئے) تو کل میرے گھر آ جا۔ پھر چلیں گے پولیس اسٹیشن۔” پھر دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے اور کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر چلا گیا۔

اگلے دن ہم دونوں پولیس اسٹیشن گئے۔ سادے کاغذ پر ایک نامزد رپٹ لکھ دی اور ایک کاپی پر وصولی کرنے والے کے دستخط اور تھانے کی مہر لے لی۔ پھر دونوں اپنے اپنے کام سے چلے گئے۔ دوست کے اس تعاون سے من کو راحت ملی اور دہشت کی فکر بھی جاتی رہی۔ میں نے مزدوروں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ کام زور شور سے ہونا چاہیے۔ کس کے بھی کچھ کہنے پر کام نہیں بند کرنا ہے۔ اس سے کہنا کہ مالک سے بات کر لیں۔ اور مکان بنانے کا کام زور شور سے چلتا رہا۔ بُھوسا کمہار ایک دن تھوڑی دیر کے لیے میرے مستری کو اپنے یہاں کام کے بارے میں لے گیا۔ کچھ دیر بعد جب وہ لوٹا تو مجھ سے بولا، “آپ کے یہاں کام میں لفڑا ہی لفڑا ہے۔” میں نے پوچھا کیسا اور کیوں لفڑا ہے۔ اس نے کہا، بُھوسا کہہ کر رہا تھا “یا تو اس کا کام چھوڑ دے نہیں تے تیری بھی پٹائی ہوویں گی اور اس نے ]میرے لیے[ تیں ہم سبق سکھا ہی دیویں گے۔” میں نے مستری سے کہا، “اب جب بھی وہ ملے تو اسے سمجھا دینا، بُھوسا تجھ میں تو مجھ سے لڑنے کی ہمت ہے ہی نہیں۔ رہی بات اس کے حمایتی کی، ان سے بھی کہہ دینا اینٹ کا جواب پتھر سے نہ ملے تو میرا نام بدل دینا۔ یہ گیدڑ بھبھکی کسی اور کو دینا۔ یار تو سر پر کفن باندھ کر چلتا ہے۔ کھلے عام۔ لیکن مستری جی تمھیں ڈرنے کی یا فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” اور سب لوگ کام پر لگ گئے۔

اس دن سوموار تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ مستری نے کہا، “آج دروازہ اور کھڑکی لگانی ہے۔ آپ گھر پر ہی رہنا۔” میں نے کہا، “گھر میں ہی رہوں گا۔ لیکن تمھیں کسی طرح کے ڈرنے کی بات نہیں ہے۔ اپنا کام کرو اور احتیاط سے کرو۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔” لگ بھگ دو گھنٹے بعد مستری نے لکڑی کی چوکھٹ گلی کی طرف لگا دی۔ اور راستہ گلی میں کھول دیا۔ کچھ عورتیں آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ “بس اب جھگڑا ہو جائے گا۔ لُوکھا جاٹ اپنے ساتھیوں کو لائے گا اور اس چوکھٹ کو اکھاڑ دیں گے۔” کچھ لوگ کہہ رہے تھے، “کون سی ان سالے جاٹوں کی خریدی ہوئی زمین ہے جو جھگڑا کریں گے۔” کچھ کہہ رہے تھے، “جھگڑے سے کیا ہو گا؟ بیر بندھ جائے گا۔ کیوں نہ انھیں بھی شانتی رہنے دے اور یہ بیر کی بات ختم کریں۔” اور اسی طرح تناؤ میں شام ہو گئی۔ سب لوگ کام ختم کر کے جا چکے تھے۔ سب کچھ معمول سے تھا، بلکہ آج کچھ اور بھی زیادہ شانت۔ لیکن ایک بات خاص تھی کہ بُھوسا اینڈ پارٹی کے لوگ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ پِتاجی روز کی طرح چارپائی بچھا کر سامان کے پاس حقہ پی رہے تھے۔ تبھی میرے وہی دوست راجے آ گئے۔ میں بھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ راجے پِپل کرسی پر بیٹھ گئے۔ تب میں نے کہا، “کیوں بھائی، لڑاکے، طاقتور آج بزدل کیسے بن گئے۔” راجے پِپل “یہ لوگ کمزوروں کے لیے طاقتور ہیں۔ دلیر ہیں۔ لیکن طاقتور کے لیے اس کے وفادار کتے ۔ سالے دھوکے باز، اجڈ مویشی۔ یہ کیا لڑیں گے سالے۔ بزدل۔ کیسے کبڑے زمینداروں کے۔ بُھوسا کبڑوں کا کبڑا، حوالی موالی ۔” اور دونوں ہنس پڑے۔ پِتاجی حقے کا کش کھینچ رہے تھے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *