پھیلتی ہوئی کائنات
کائنات کے متعلق ہماری موجودہ تصویر 1924 سے شروع ہوتی ہے جب ایڈون ہبل نے یہ ثابت کیا کہ کائنات میں ہماری کہکشاں کے علاوہ اور بھی بہت ساری کہکشائیں موجودہیں اور ان کے درمیان بہت زیادہ فاصلے ہیں۔یہ ثابت کرنے کے لیے ہبل کو ان کہکشاؤں کے فاصلے درکار تھے۔ چونکہ یہ بہت دور تھیں اس لیے اسے بالواسطہ طریقے استعمال کرنے پڑے۔کسی ستارے کی ظاہری چمک دو چیزوں پر منحصر ہوتی ہے۔ اول یہ کہ وہ ہم سے کتنا دور ہے اور دوئم یہ کہ وہ کتنی روشنی خارج کرتا ہے۔قریبی ستاروں کے لیے ہم ان کا فاصلہ اور ظاہری چمک ناپ سکتے ہیں۔لہٰذا ان کی دمک (Luminescence) معلوم کی جا سکتی ہے۔اس کے برعکس اگر کسی دوسری کہکشاں میں ہمیں کسی ستارے کی دمک معلوم ہو تو ہم اس کی ظاہری چمک سے اس کا فاصلہ ناپ سکتے ہیں۔اس نے معلوم کیا کہہ کچھ خاص طرح کے ستاروں کی دمک ایک جیسی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس نے دلیل دی کہہ اگر ہم ایسے ہی ستارے دوسری کہکشاؤں میں دھونڈ پائیں تو ان کی دمک سے ہم ان کا فاصلہ ناپ سکتے ہیں۔
اس طریقے سے ہبل نے نو کہکشاؤں کے فاصلے معلوم کیے۔اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں چند سو ارب کہکشاؤں میں سے ایک ہے اور اس کے ایک سرے سے دوسرے تک کا فاصلہ ایک لاکھ نوری سال ہے۔اور اس کے مرغولے (Spiral) بازوؤں میں موجود ستارے آہستہ آہستہ اس کے مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں۔ہمارا سورج ایک پیلا درمیانے سائز کا ستارہ ہے اور اس کے ایک مرغولی بازو کے اندرونی سرے پر موجود ہے۔
جب ستارے ہم سے اتنے دور ہیں کہ یہ ہمیں ایک نقطے کی طرح نظر آتے ہیں تو پھر ہم ان میں تفریق کیسے کر سکتے ہیں؟نیوٹن نے معلوم کیا کہ جب سورج سے آنے والی روشنی کو منشور(Prism) میں سے گزارا جاتا ہے تو وہ مختلف رنگوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔اس کو ہم طیف (Spectrum) کہتے ہیں۔ہم کسی بھی ستارے یا کہکشاں سے آنے والی روشنی کا طیف معلوم کر سکتے ہیں۔مختلف ستاروں سے آنے والی روشنی کا طیف مختلف ہوتا ہے۔لیکن مختلف رنگوں سے نکلنے والی روشنی کی اضافی چمک ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک سرخ دمکتے ہوئے جسم سے نکلنے والی روشنی کی۔اور اس کا انحصار اس جسم کے درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کسی ستارے کے روشنی کے طیف سے اس کادرجہ حرارت بتا سکتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختلف ستاروں کی روشنی کے طیف میں کچھ خاص رنگ موجود نہیں ہوتے اور یہ ہر ستارے کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہر کیمیائی عنصر کچھ خاص رنگوں کے سیٹ کو جذب کر سکتاہے۔ اس سے یہ پتالگایا جا سکتا ہے کہ کس ستارے کے کُرہ ہوائی میں کون سے عناصرموجود ہیں۔
1920 میں جب ہیت دانوں نے کہکشاؤں کے طیف کی جانچ شروع کی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے طیف میں بھی وہی رنگ غائب ہیں جو ہماری کہکشاں میں ہیں۔ لیکن وہ تمام کے تمام رنگ روشنی کے طیف کے سرخ سرے کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے ڈاپلر اثر (Doppler effect)کو سمجھنا ہو گا۔ ہمیں پتا ہے کہ روشنی برقناطیسی امواج پر مشتمل ہےاور مرئی روشنی ان امواج کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ہر موج کا ایک تعدد(Frequency) ہوتا ہے جو کسی کاص رنگ کو ظاہر کرتا ہے۔اگر روشنی کا ایک منبع ہم سے ایک مستقل فاصلے پر موجود ہے تو وہ جو امواج خارج کرے گا ان کا تعدد ہمارے لیے مستقل ہو گا۔یعنی ایک سیکنڈ میں ہم تک پہنچنے والی امواج کی تعداد مستقل رہے گی۔لیکن اگر منبع ہماری طرف حرکت کر رہا ہو تو یہ تعداد مستقل نہیں رہتی۔بلکہ ان کا تعدد بڑھنے لگتا ہے۔ اس وجہ سے جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے وہ طیف کے نیلے سرے کی طرف منتقل ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو نیلا انتقال (Blue Shift) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر منبع ہم سے دور جا رہا ہو تو روشنی سرخ سرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، اس کو سرخ انتقال (Red Shift) کہا جاتا ہے۔ رفتار اور تعدد کے درمیان اس تعلق کو ڈاپلر اثر کہا جاتا ہے۔
1929 میں ہبل نے یہ مشاہدہ کیا کہ وہ کہکشائیں جو ہم سے زیادہ دور ہیں وہ زیادہ رفتار سے ہم سے دور جا رہی ہیں۔یعنی کہکشاں کے فاصلے اور رفتار میں راست تناسب ہے۔اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کائنات ساکن نہیں ہے بلکہ پھیل رہی ہے۔
نیوٹن کے تجاذبی نطریے سے یہ بات آسانی سے اخذ کی جا سکتی تھی کہ کائنات پھیل رہی ہے لیکن ساکن کائنات کے بارے میں ہمارہ عقیدہ اتنا پختہ تھا کہ سب اس کے ساکن ہونے کی تاویلیں تلاش کرتے رہے۔حتیٰ کہ آئن سٹائن بھی ساکن کائنات کا حامی تھا۔حالانکہ اس کی عمومی اضافیت کی مساواتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے۔لیکن اس نے اس کو ساکن بنانے کے لیے ایک نئی ٹرم(Term) متعارف کرا دی جو کونیاتی مستقل (Cosmological Constant) کہلاتی ہے۔یہ ایک رد تجاذبی قوت ہے جو یہ بتاتی ہے کہ زمان و مکان میں خود سے پھیلنے کی خوبی موجود ہے۔ جو مادہ اور توانائی سے پیدا ہونے والی کشش کو منسوخ کرتی ہے اور نتیجتاً ہمیں ایک ساکن کائنات ملتی ہے۔ان سب میں صرف ایک بندہ ایسا تھا جو عمومی اضافیت کی مساواتوں کو ایسے ہی لے رہا تھا جیسا مطلب وہ بتاتی ہیں۔اس نے ان کی وضاحت کا ذمہ اٹھایا۔
فرائیڈ مین نے دو سادہ سے مفروضے فرض کیے۔ اول یہ کہ ہم جس سمت بھی دیکھیں کائنات ایک جیسی ہی نطر آتی ہے۔ اور دوئم یہ کہ ہم کائنات میں جس جگہ پر بھی کھڑے ہو کے دیکھیں ایسا ہی دکھے گا۔
حال ہی میں ان دونوں مفروضوں کے بہت زبردست شواہد ملے ہیں۔1965 میں دو سائنسدان، آرنو پینزیاس (Arno Penzias)اور رابڑٹ ولسن (Robert Wilson) ایک خرد موجی شناسندے(Detector) کی آزمائش کر رہے تھے لیکن اس میں بار بار ان چاہا شور(Noise) موصول ہو رہا تھا۔ جب انہوں نے تمام ممکنہ خامیوں کو بھی دور کر دیا تب بھی یہ شور یا سگنل ویسے ہی رہے۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ سگنل کُرّہ ہوائی کے اندر سے نہیں آرہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو اس وقت کم سگنل موصول ہوتے جب شناشندہ سیدھا اوپر کی جانب ہوتا بہ نسبت اس کے جب وہ افق کی طرف ہوتا کیوں کہ افق کی جانب سے آتے ہوئے ان کو زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا۔مزید یہ کہ یہ سگنل دن، رات، مہینے اور سال بھر ایک جیسے ہی تھے۔
اب ہم جانتے ہیں کہ چونکہ یہ سگنل ہر سمت سے ایک جیسے ہی موصول ہوتے ہیں لہٰذا یہ ساری مشاہداتی کائنات کا سفر طے کر کے آتے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات ہر سمت میں ایک جیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ آرنو پینزیاس اور رابڑٹ ولس کو اس دریافت پر 1978 میں نوبل انعام سے نوازہ گیا۔
فرائیڈمین کا پہلا مفروضہ اس بات کی طرف اشارہ دیتا ہے جیسے ہمارا کائنات میں کوئی خاص مقام ہو لیکن اس کی ایک متبادل تصریح بھی ہے کہ اگر ہم کسی اور کہکشاں سے دیکھیں تب بھی کائنات ایک جیسی ہی دکھے گی۔ جو کہ فرائیڈمین کا دوسرا مفروضہ ہے۔ہمارے پاس اس بات کو ماننے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ہم اس کو صرف عاجزانہ طو پر مانتے ہیں کہ کائنات ہر نقطے سے ایک جیسی ہی دکھے۔ یہ صورتحال ایک ایسے غبارے کی طرح ہے جس پر مساوی فاصلے پر نشانات لگے ہوں۔ جب ایسے غبارے کو پھلایا جائے گا تو ہر نشان دوسرے سے دور ہوتا جائے گالیکن کسی کو بھی مرکز نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ دو نقاط ایک دوسرے سے جتنے دور ہوں گے وہ اتنی ہی تیزی سے ایک دوسرے سے دور جائیں گے۔یعنی سرخ انتقال فاصلے کے راست متناسب ہے۔ اسی مظہر کو ایڈون ہبل نے بھی دریافت کیا۔
اپنے دو مفروضوں کو بنیاد بنا کر فرائیڈمین نے کائنات کا ایک ماڈل ڈھونڈا۔ لیکن حقیقت میں ایسا ایک نہیں بلکہ تین ماڈل ہیں۔
پہلے ماڈل میں کائنات پھیل رہی ہے لیکن اس کے پھیلنے کی رفتار وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔باالفاظ دیگر کہکشاؤں کے درمیان موجود کششِ ثقل ان کہکشاؤں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچنا شروع کرد ے گی۔ اس طرح کی کائنات میں کہکشائیں صفر فاصلے سے پھیلنا شروع کرتی ہیں پھر ان کے درمیان فاصلہ فاصل قیمت کو پہنچتا ہے اور پھر کم ہوتے ہوتے صفر کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی ماڈل فرائیڈ مین نے بھی دیا تھا۔
دوسری قسم کے ماڈل میں کائنات اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ کشِ ثقل کبھی اس کو روک نہیں پاتی۔ ایسی کائنات میں اجسام صفر فاصلے سے پھیلنا شروع کرتے ہی اور پھر یکساں رفتار سے پھیلتے ہی جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے ماڈل میں جیسے جیسے کائنات پھیلتی ہے اس کے پھیلنے کی رفتار بتدریج کم ہوتی جاتی ہے لیکن یہ کبھی بھی اتنی کم نہیں ہوتی کہ کششِ ثقل ان کو واپس صفر فاصلے پر کھینچ سکے۔
پہلے فرائیڈمین ماڈل کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں کائنات سپیس میں لامتناہی نہیں ہے۔اور نہ ہی سپیس کہ کوئی حدہے۔اس میں تجاذب اتنا قوی ہے کہ سپیس کو خود پر ہی منحنی کر دیتا ہےیہ بالکل زمین کی سطح کی طرح ہے جس پر اگر آپ ایک سمت میں چلنا شروع کر دیں تو واپس اسی جگہ پر پہنچ جائیں گے جہاں سے چلنا شروع کیا تھا۔ لیکن یہ سطح سہ جہتی ہے۔
پہلی طرح کے فرائیڈ مین ماڈل میں سپیس زمین کی سطح کی طرح بندہے لہٰذا یہ وسعت میں محدود ہے۔دوسری طرز کے ماڈل میں اس کی شکل زین (Saddle) کی طرح ہے اور لہٰذا یہ وسعت میں لامتناہی ہے۔تیسرے اور آخری فرائیڈمین ماڈل میں یہ مستوی ہے اور وسعت میں لامتناہی ہے۔
لیکن کون سا فرائیڈمین ماڈل ہماری کائنات کو بیان کرتا ہے یہ دیکھنے کے لیے ہمیں کائنات کے پھیلاؤ کی شرح اور اس کی اوسط کثافت کا پتا ہونا چاہیے۔اور اس کی کثافت ایک خاص قیمت (جس کا تخمینہ اس کی پھیلاؤ کی شرح سے ملے گا) سے کم ہوئی تو کششِ ثقل اس کو روکنے میں ناکام رہے گی اور یہ ہمیشہ پھیلتی جائے گی۔ اور اگر کثافت اس فاصل قیمت سے زیادہ ہوئی تو ثقل اس کو واپس کھینچ لے گی اور یہ منہدم ہو جائے گی۔
پھیلاؤ کی شرح کو ہم ڈاپلر اثر سے ناپتے ہیں کہ کہکشائیں ہم سے کس رفتار سے دور جا رہی ہیں۔ اس حساب سے کائنات ہر ایک ارب سال میں پانچ سے دس فیصد پھیلتی ہےتاہم اس کی اوسط کثافت میں غیر یقینیت بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم اپنی اور دوسری کہکشاؤں میں موجود ستاروں کی کمیت کو جمع کریں تو یہ کمیت پھلاؤ کو روکنے کے لیے درکار کمیت سے ایک سو گنا کم ہے۔ تاہم ہم جانتے ہیں کہ ستاروں اور کہکشاؤں کے درمیان تاریک مادہ موجود ہے اور اس کی کمیت کو بھی شامل کر لیا جائے تب بھی یہ کمیت پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درکار کمیت سے دس گنا کم ہے۔ لہٰذا ہمارا موجودہ اندازہ یہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔
فرائیڈمین کے تمام حل یہ بتاتے ہیں کہ آج سے تقریباً دس سے بیس ارب سال قبل کہکشاؤں کے درمیان فاصلہ صفر رہا ہو گا۔ اور کائنات کی کثافت اور سپیس کا انحنا لامتناہی ہو گا۔ اس کو اب بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ چونکہ ریاضی لامتناہی اعداد کا حساب نہیں لگا سکتی اس لیے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر عمومی اضافیت بذاتِ خود لایعنی ہو جاتی ہے۔اس نقطے کو ریاضی دان وحدانیت(Singularity) کا نام دیتے ہیں۔ہمارے تمام نظریات میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ زمان و مکان مستوی ہےاس کا مطلب یہ ہوا کہ وحدانیت پر یہ تمام لایعنی ہو جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ وہ تمام واقعات جو بگ بینگ سے پہلے وقوع پذیر ہوئے ان کا بگ بینگ کے بعد والے واقعات پر کوئی اثر نہ ہو گا۔یاپھر جو کچھ بگ بینگ کے بعد ہوا ہے اس کو استعمال کر کے یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ بگ بینگ سے پہلے کیا ہوا تھا۔ لہٰذا وہ تمام واقعات جو بگ بینگ سے پہلے ہوئے ان کو کسی تھیوری کا حصہ نہیں ہونا چاہیے لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ وقت کا آغاز بگ بینگ سے ہوا۔
بہت سارے لوگوں کو بگ بینگ کا تصور پسند نہ آیااس کی ایک مثال مستقل حالتی کائناتی نظریہ (Steady State Universe)ہے جو 1948 میں ہرمن بونڈی، فریڈ ہوئل اور ٹامس گولڈ نے پیش کیا۔ اس کے مطابق جیسے جیسے کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں ان کے درمیان نیا مادہ تخلیق ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے کائنات ایک جیسی ہی دکھتی ہے۔تاہم 1950 اور 1960 میں ہونے والے ریڈیائی موجوں کے مطالعے سے پتا چلا کہ کائنات در حقیقت پھیل رہی ہے۔ اس مطالعے میں موجود سائنسدانوں نے زمین پر موصول ہونے والی ریڈیائی لہروں کا مطالعہ کیا۔ اس میں دیکھا گیا کہ کچھ سگنل بہت قوی جب کہ دوسرے نحیف ہیں۔ اس کی تاویل یوں کی گئی کہ قوی سگنل قریب جب کہ نحیف دور کی کہکشاؤں سے موصول ہو رہے ہیں۔ لیکن پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ مشترکہ منبوں کے سپیس کے اکائی حجم میں قوی کی نسبت نحیف منبوں کے اشاروں کی شدت زیادہ ہے، اس کی تاویل یہ تھی کہ ماضی میں یہ نحیف اشاروں کے منبے بھی ہمارے قریب قریب تھے جو اب دور جا چکے ہیں۔ باالفاظِ دیگر کائنات پھیل رہی ہے۔ اس نے مستقل حالتی کائناتی نظریے کا خاتمہ کر دیا۔
اس سوال کا جواب کہ کیا عمومی اضافیت بگ بینگ اور وقت کے آغاز کی پیش گوئی کرتی ہے برطانوی سائنسدان راجر پین روز نے دیا۔ راجر پین روز نے 1965 میں یہ ثابت کیا کہ جب کوئی ستارہ اپنی ہی کشش کے تحت منہدم ہوتا ہے تو اس کاحجم صفر ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمان و مکان کا انحنا لامتناہی ہو جاتا ہے۔ باالفاظِ دیگر زمان و مکان میں واحدانیت موجود ہے جو بلیک ہول کہلاتا ہے۔
پہلے پہل یوں لگا کہ پین روز کا تھیورم صرف ستاروں پر لاگو ہوتا ہے اور اس کا بگ بینگ یا واحدانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں نے اس تھیورم کو 1965 میں پڑھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ تھیورم تب بھی اپنی حالت برقرار رکھتا ہے اگر آپ وقت کی سمت بدل دیں۔مطلب اگر انہدام پھیلاؤ بن جائے تب بھی۔ یعنی اگر آپ یہ سوچیں کہ کوئی ستارہ منہدم ہو کر وحدانیت کی طرف جانے کی بجائے وحدانیت سے شروع ہو کر باہر کی طرف پھیل رہا ہے۔یہ دلیل یہ ثابت کرتی ہے کہ فرائیڈ مین کی طرح کی کوئی بھی کائنات وحدانیت سے شروع ہوئی ہو گی۔1970 میں پین روز اور میں ریاضیاتی طور پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اگر عمومی اضافیت صحیح ہے تو کائنات کا آغاز درحقیقت بگ بینگ سے ہی ہونا چاہیے۔ شروع میں کچھ حلقوں سے اس کی مخالفت کی گئی لیکن ایک ریاضیاتی تھیورم کے سامنے یہ مخالفت زیادہ دیر نہ ٹھہر پائی۔ ا ب تقریباً تمام سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ بگ بینگ ہی کائنات کا نقطہِ آغاز ہے۔لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر میں نے اپنا ذہن بدل لیا ہے اور سائنسدانوں کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کائنات کے آغاز میں کوئی وحدانیت نہیں تھی۔ اس پر مزید بحث بعد میں آئے گی۔
چونکہ وحدانیت پر جا کر عمومی اضافیت بھی دم توڑ جاتی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک مکمل نظریہ نہیں ہے۔ اس پیمانے پر جا کر ہمیں بیسویں صدی کی دوسرے نظریے(کوانٹم میکانیات) کو بھی عمل میں لانا ہوگا۔ اور پھر عمومی اضافیت اور کوانٹم میکانات کے سنگم سے کوانٹم تجاذبی نظریے یا نظریہِ کل کی طرف جائیں گے۔