زندہ، مردہ لوگوں کے بارے میں کچھ لکھنا ان موضوعات پر لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے جو غیر شخصی ہوتے ہیں۔ ایک انسان کی چال ڈھال، گفتار کردار اور روزمرہ زندگی کو اگر کوئی دوسرا بیس برس بھی مستقل دیکھتا رہے تو بھی اس کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتا، کیوں کہ ایک انسان دوسرے انسان سے بالکل مختلف ہوتا ہے، لہٰذا کسی شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ سنانا ایسا ہی ہے جیسے آپ آسمانی دنیا کی کہانی سنا رہے ہوں۔ انسانی مزاج میں بلا کا تلون پایا جاتا ہے۔ وہ کسی ایک خیال،ایک بات یا ایک عمل پہ ٹھہرتا نہیں، مستقل بدلتا رہتا ہے، ایسے میں کسی شخص کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مشاہدات پہ بھروسہ کرنا بیکار سی بات ہے۔ ایک شئے یا ذات پر لکھنے کے لئے اس شخص کو جو اس لکھنے کے عمل سے گزرنے کا خواہش مند ہو اس کو اپنے محرک کی ذات میں تحلیل ہونا پڑتا ہے، کیوں کہ کسی شئے یا ذات میں تحلیل ہوئے بنا اس سے جڑی ان باتوں کا اظہار کبھی نہیں ہو پائے گا جس تک ہمارے مشاہدات نہیں پہنچتے۔

اسلم پرویز کے خاکے اردو میں لکھے ہوئے خاکوں میں سے ان چند ایک میں شمار ہوتے ہیں جو کسی دوسرے کی ذات میں تحلیل ہو کر لکھے گئے ہیں اور ان میں تحلیل ہو کر انہوں نے اپنے سے غیر کو اپنی ذات میں ڈھال کر ان کو جیا ہے، اس کے بعد ان کی ذات کے نہاں خانوں کو اجاگر کر کے قرطاس پر بکھیر نے کی سعی کی ہے۔

اردو میں خاکہ نگاری کی روایت بہت زیادہ قدیم تو نہیں، لیکن پھر بھی اس زبان کے ذخیرے میں چند خاکے ایسے ہیں جن کو پڑھ کر دنیا کے بڑے ادیبوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، جس میں چچا کبابی دلی والے، تین گولے، دوزخی، پروفیسر،منٹو میرا دوست اور میرا دشمن اور منٹو صاحب وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سے خاکے ہیں جن کا یہاں نام نہیں لیا گیا، اسی طرح ایک خاکہ ان میں چچی بھی ایسا ہی ہے جس میں اسلم پرویز نے اپنی خاکہ نگاری کی ان صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے جس کی مثال اردو میں کم کم ہی ملتی ہے۔ اسلم پرویز اردو کے گم نام خاکہ نگار نہ ہونے کے باوجود بھی گم نام خاکہ نگار ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کے تعلق سے اردو کے بہت سے لوگ صرف واقف ہونے کی حد تک ہی واقف ہیں۔ کسی ادیب کے قلم کے ایک پہلو سے شناسا ہونا اور اس پہلو کی فنی باریکیوں سے کماحقہ واقف ہونا،دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔ اسلم پرویز کا المیہ یہ ہے کہ اردو کا ایک بڑا حلقہ ان کی خاکہ نگاری کی صلاحیت سے تو واقف ہے، مگر ان کے خاکوں میں پوشیدہ نگارخانوں تک ہر کسی کی رسائی نہیں۔ یوں توان کے زیادہ تر خاکے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں، مگر چچی، استاد رسا،میں اور شیطان،سرکے کی بوتل اور اوکتایو پاز ان کے ایسے خاکے ہیں جن میں ان کے فن کا گراف ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہوا ہے، کسی مصنف کی تحریروں کی درجہ بندی کا حق کسی شخص کو حاصل نہیں، لیکن ایک سنجیدہ قاری جب ان تحریروں سے مکمل وابستگی پیدا کر کے ان تحریروں کی داخلی فضا میں اترتا چلا جاتا ہے تو اس کو معیار کے ان میلانات کا ادراک ہونے لگتا ہے جو خود مصنف سے بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ میں نے اسلم صاحب کے خاکوں کے ساتھ جتنا بھی وقت گزارا ہے، ان خاکوں میں مجھے معیار کے انہیں دائروں سے شاناسائی حاصل ہوئی ہے جس ترتیب کو میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ اس الٹی ترتیب سے اگر کوئی شخص اسلم صاحب کے خاکوں کو بغورر پڑھے گا تو شاید اسے بھی میرے اس تجربے کا احساس ہو جائے کہ اسلم صاحب نے متذکرہ بالا خاکوں میں کس طرح اپنے معیار کی شمع کی لو کو بتدریج بلند کیا ہے۔

چچی ان کی خاکہ نگاری کی معراج ہے، میں جب اسلم صاحب کے ان خاکوں کو درجہ بہ درجہ عبور کرتا ہوا چچی تک پہنچا تو اس کے اختتام پر میرے بدن میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی، ایک بوڑھی عورت جس کو موت کا ڈر ستاتا ہے، جس کو زندگی کی نئی رنگینیوں نے کوئی سروکار نہیں، جس کو اپنا دائرہ حیات دنیا کے تمام آسائشوں سے زیادہ عزیز ہے، جس کی حقیقت فصیل بند شہر ہے اور جس کی بقا اس کی خاک میں مل جانا ہے، اس عام زندگی کے گہرے اور الجھے ہوئے رازوں سے اسلم پرویز نے جس طرح اپنی نظریں ملائی ہیں اور ان کی سفاک حقیقت کو اپنی سحر انگیز نثر کے ذریعے بیان کیا ہے اس سے ہر اس قاری کی روح کا لرز جانا ایک عام سی بات ہے جو اسلم پرویز کے فن سے جڑ کر ان کے فن کی باریکیوں سے کماحقہ واقف ہونے میں کوشاں ہو۔

میں نے اکثر لوگوں کو اسلم صاحب کے خاکے میں اور شیطان کو زیادہ اہم خاکہ قرار دیتے ہوئے سنا ہے، میں بالیقین یہ بات کہ سکتا ہوں کہ جن لوگوں کے حافظے میں اسلم صاحب کے یہ دونوں خاکے اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ روشن ہوں گے وہ کسی طور چچی پہ میں اور شیطان کو ترجیح نہیں دے پائیں گے۔ یہاں میں اور شیطان اور چچی کے چند جملے دیکھئے اس سے ایک عمومی رائے تو یوں ہی قائم ہو جائے گی۔

عشرت نے اس لڑکے کے داخل ہوتے ہی کہا، ابے یہ بھی یہاں آ گیا۔ میں نے پوچھا، کون ؟ وہ بولا، یہی جو ابھی آیا ہے۔ خلیق ہے اس کا نام، حرامی ہے سالا۔ اس وقت اس لفظ حرامی کا استعمال نہ تو عشرت ہی نے سوچ سمجھ کر کیا تھا اور نہ ہی میں اس کے دور رس امکانات کا اندازہ لگانے کا اہل تھا۔ آج باون برس بعد جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو میری سمجھ میں اس لفظ حرامی کے معنی یہ آرہے ہیں کہ خلیق انجم دنیا میں صرف اپنی شرطوں پر جینے کے لئے پیدا ہوا ہے اور اس انداز سے جینے کے عذاب و ثواب کا بھی وہ تنہا ہی حصے دار ہے۔
(ص:۲۱، میں اور شیطان، گھنے سائے، اسلم پرویز )

اس لفظ حرامی کی ادائیگی تو اسلم صاحب نے صاف طور پر کر دی، لیکن اس حرامی میں وہ حرام زدگی وہ پیدا نہ کر سکے جس حرام زدگی سے مشروط ہو کر اس لفظ کو ادا کیا جانا چاہئے تھا، اس میں اسلم صاحب کی کچھ خطا نہیں کہ یہ ان کا میدان ہی نہیں ہے، اسلم صاحب کی جگہ منٹو، عصمت چغتائی یا میراجی اس لفظ کا استعمال کرتے تو اس میں حرامی لفظ کی ترسیل کا رسیلا احساس پیدا ہو جاتا جس سے قاری کو آزردہ خاطر نہ ہونا پڑتا، یہ ہی میں اور شیطان کے کمزور پہلو ہیں جس نے اسے چچی کے بالمقابل کم درجے پر فائض کیا ہے۔ اس کے عکس چچی کایہ اقتباس دیکھیے کہ:

آخری عمر میں جب چچی کی آنکھیں حد سے زیادہ جواب دے گئیں اوران کی نظروں سے سوائے دھند کے دنیا کی ہر چیز اوجھل ہو گئی تو انھوں نے برقعے کو بھی کھونٹی پہ ٹانگ دیا۔ شاید وہ سمجھنے لگی تھیں کہ جس طرح ان کی آنکھوں سے دنیا اوجھل ہو گئی تھی، اسی طرح دنیا کی آنکھوں سے وہ خود بھی اوجھل ہوگئی ہیں۔ (ص،۷۱،چچی، گھنے سائے، اسلم پرویز)

ان جملوں میں ایک نوع کا کرب ہے، اضمحلال اور اضطراب ہے، ایک ایسی خلش ہے جس سے ایک زندہ ادیب ہی دو چار ہوتا ہے، اسلم صاحب نے یہ جملے ایک بوڑھی، نابینا اور ضعیف الحواس عورت کے متعلق لکھے ہیں جس کا یہ انجام کوئی واقعہ نہیں، اس کے باجود ان جملوں میں زندگی سے جھنجھلایا ہوا، بیزار اور اکتا دینے والا وہ زہر بھرا ہوا ہے جس کو چکھ کے گردش لیل و نہار سے نفرت سی ہو جاتی ہے۔ خدا کی سفاکی اور زندگی کی بیچارگی کا اظہار اس فنی باریکی کے ساتھ ان جملوں میں پیوست ہو گیا ہے کہ ایک حساس قاری ان کو پڑھ کر نئی روشنیوں سے بیزار معلوم ہونے لگتا ہے۔اردو کے مشہور نقاد صلاح الدین درویش نے اپنے ایک مضمون میں کہیں لکھا تھا کہ اچھی تخلیق ایک قسم کی انارکی کو جنم دیتی ہے اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو اضطراب کی حقیقتوں سے واقف کروائے اوراسے زندگی کی لذتوں کے اسفل رازوں کا ادراک عطا کرے۔ اسلم پرویز کے اس خاکے میں وہی کرب اور وہی جذبہ اضطرابیت بدرجہ اتم موجود ہے جو اردو کے چند ہی خاکہ نگاروں کے یہاں پیدا ہو پائی ہے۔

مجھے اسلم صاحب کی خاکہ نگاری کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی بار عظیم بیگ چغتائی، اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی، مولوی عبدالحق، راشد، میراجی، منٹو، عصمت اور بیدی یاد آئے لیکن کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہو اکہ اسلم صاحب کی زبان میں یہ سارے لوگ بول رہے ہیں، بلکہ ہر مقام پر ایسا لگا جیسے جو باتیں ان لوگوں سے ادا ہونے سے رہ گئیں تھیں اسلم صاحب نے اپنے خاکوں کے مختلف رنگوں میں اس کی تلافی کی ہے۔

Leave a Reply