Laaltain

پروقار برطانوی حسینہ؛ کیٹ ونسلیٹ

7 نومبر، 2017

‘بدن کی بینائی’ سلسلے کی مزید تحاریر پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

دُنیا میں دو ہی طرح کے لوگ جنم لیتے ہیں، ایک وہ جو دل میں اُتر جاتے ہیں اور دوسرے وہ جودل سے اُتر جاتے ہیں۔ اس وقت ہماری نگاہوں کا مرکز وہی چہرہ ہے، جس نے بہت تیزی سے دلوں پر حکمرانی قائم کی، دیکھتے ہی دیکھتے نصف سے زیادہ دنیا میں فلمی شائقین کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ حیرت انگیز طور پر گزرتے وقت کے ساتھ، اس کی مقبولیت میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔ وقت نے اس کو سب سے حسین تحفہ یہ دیا کہ مزید حسین کر دینے کے ساتھ ساتھ باوقار بھی بنا دیا، اب یہ متانت بھرا حسن اور پُروقار خوبصورتی دیکھنے والوں کے ذہن اور دل پر جادو طاری کر دیتی ہے، اس سحر زادی کا نام’’کیٹ ونسلیٹ‘‘ ہے۔

سحرزادی “کیٹ ونسلیٹ”

کیٹ ونسلیٹ نے جس طرح اپنا فنی کیرئیر آگے بڑھایا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے اداکاری کی جستجو میں، کرداروں کا تعاقب کیا، تو سب سے پہلے تھیٹر کے اسٹیج سے ہو کر گزری، نہ صرف اداکاری کی، بلکہ اپنی آواز سے کرداروں کی منظرکشی کی، کئی گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ لندن میں سجائے جانے والے عوامی مقابلے، جس میں نوآموز اداکار حصہ لیتے ہیں، وہاں تک پہنچی اور سخت مقابلے کے بعداپنے آپ کو نمایاں کیا، اس عرصے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں نے، خواہش کے راستے وضع کیے، یوں اس نے اپنے لیے سنگ میل منتخب کیا کہ اس کے فن کی منزل اور جنون کی معراج کیا ہوگی۔

کیٹ ونسلیٹ نے اپنے کرداروں کا تعاقب کیا

کیٹ ونسلیٹ کی پیدائش 5 اکتوبر، 1975 کی ہے۔ محض 42 برس کی عمر میں اس کے فنی سفر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے، ایک جہان فتح ہوچکا ہے۔ اس نے عزم وحوصلے کی ایک داستان رقم کی ہے، یہ سلسلہ ابھی تھمانہیں، متحرک ہے۔ غریب مگر فنکار خاندان میں آنکھ کھولی۔ اس کے دادا دادی نے ایک ریپٹری تھیٹر کمپنی بنا رکھی تھی، جس کے ذریعے وہ اپنے شوق اور ضرورتوں کی تکمیل کا سامان کیا کرتے، اس کے والد میں بھی یہ شوق منتقل ہوا، پھر یہ خود بھی اس وراثت کو آگے لے کر بڑھی اور لندن کے گلی کوچوں سے نکل کر عالمی اداکاری کے منظرنامے پر چھا گئی۔ کم عمری میں معاشی تنگی کے سائے اپنے گھر پر پڑتے دیکھے، مگر والدین کی انتھک محنت نے ان بچوں کی تربیت کو متاثرنہ ہونے دیا۔ آج بھی کیٹ ونسلیٹ گفتگو کرتے ہوئے ان کٹھن دنوں کو یادکرتی ہے۔

کیٹ ونسلیٹ کو آج بھی اپنے کٹھن دن یاد ہیں

اس خوبرو حسینہ نے اپنے شوق کی شروعات اسکول کے زمانے سے کیں، اپنی بہن کے ہمراہ اسکول اور علاقہ میں ہونے والے مقامی تھیٹرکی سرگرمیوں میں حصہ لیا، اس کم عمری میں، جن کرداروں کو ادا کرنے کامظاہرہ، تھیٹر کے اسٹیج پریہ کررہی تھی، وہ اس کے خواب تھے، جن کو حقیقت میں بدلنے کاعزم کیے یہ چھوٹی سی لڑکی، اپنی عمر سے بڑے بڑے کام کر رہی تھی۔ اس کی رہائش گاہ سے قریب’’Redroofs Theatre School‘‘ قائم تھا، یہ اس سے وابستہ ہوگئی، اسکول بچوں کو پیشہ ورانہ اداروں کے آڈیشنز میں بھیجا کرتا تھا، کیٹ کے کیرئیر کا ابتدائی راستہ یہی سے دریافت ہوا۔ اسے ایک معمولی سے اشتہار میں کام کرنے کا موقع ملا۔ کئی ایک فنی منصوبوں کی نگرانی کا کام بھی اس کے ذمے آیا، انہی دنوں موسیقی پر مبنی کھیل ’’Peter Pan‘‘ میں مرکزی کردارنبھانے کی ذمے داری بھی پوری کی۔ اس کے علاقے میں ہی ایک مقامی تھیٹر کمپنی، جس کا نام’’اسٹار میکر‘‘ تھا، اس کمپنی کے ساتھ کام کرکے کافی کچھ سیکھا۔ 20 سے زاید کھیلوں میں کام کیا، یہاں سے اس کی اداکارانہ بنیاد مضبوط ہوئی اور تھیٹر کے ان کھیلوں نے، اس کے اندر کی اداکارہ کو نکھار دیا۔
یہ پہلی مرتبہ 1991 میں بی بی سی کی ایک سائنس فکشن ٹیلی وژن سیریز’’Dark Season‘‘ میں کام کرکے چھوٹی اسکرین پر جلوہ گر ہوئی۔ تھیٹر اور ٹیلی وژن پر ملنے والی کامیابیوں کے باوجود، اس کے معاشی حالات بہترنہ ہوئے۔ اس کی زندگی میں وہ موڑ بھی آیا، جب اس کو رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنا اسکول بھی چھوڑنا پڑا۔ یہ باصلاحیت اور باہمت تھی، مگر وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے، ڈراموں میں اس کو مرکزی کردار دینے سے گریز کیا جاتا تھا۔ 1992 میں اسے ایک مختصر کردار، ٹیلی وژن فلم’’Anglo-Saxon Attitudes‘‘میں دیا گیا، اسی عرصے میں ایک ٹیلی وژن سٹ کوم’’Get Back‘‘میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ، برطانیہ کی معروف میڈیکل ڈراما سیریز’’Casualty‘‘کی ایک قسط میں بطورمہمان اداکارہ دکھائی دی۔

1994میں اس کو، نیوزی لینڈ کے معروف ہدایت کارکے نفسیاتی اور مجرمانہ کہانی کے تناظر میں فلمائے گئے ڈرامے’’Heavenly Creatures‘‘ میں، آڈیشن دینے کے بعد 175 لڑکیوں میں سے منتخب کیا گیا۔ یہ اس کے کیرئیر کی سنہری ابتدا تھی۔ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ اس کے اندر ایک باصلاحیت اداکارہ چھپی ہوئی ہے۔ یہاں سے قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہونے لگی، مگر اسی وقت میں، اس نے کڑی محنت بھی کی، اپنی آواز کو بہتر کیا، مطالعہ کی صلاحیت بڑھائی، جس نوعیت کے فنی منصوبوں سے وابستہ ہوئی، ان کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کیا، اپنے کرداروں کو نکھارنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کی اگلی فلم’’Sense and Sensibility‘‘میں بھی اس کی اداکاری کوبہت پسند کیا گیا۔ یہ فلم معروف برطانوی ناول نگار’’جین آسٹن‘‘کے ناول سے ماخوذ تھی، اس فلم نے باکس آفس پر بھی بے حد مثبت اثرات مرتب کیے۔ کیٹ ونسلیٹ نے پہلی مرتبہ’’اسکرین ایکٹرز گلڈ ایوارڈ‘‘ اور’’برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈ‘‘ حاصل کیے اور کئی ایک ایوارڈز کے لیے نامزد بھی ہوئی۔

1996میں کیٹ ونسلیٹ نے دو تاریخی ڈراموں’’جوڈی‘‘ اور’’ہیملٹ‘‘ میں منجھے ہوئے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ 20سال کی عمر میں شیکسپیئر کے لکھے ہوئے ان کرداروں کو نبھاتے وقت، اس کے دل پر ایک عجیب خوف طاری تھا، مگر اس نے خود پر قابو رکھا اور کامیاب رہی۔ 1997 میں شہر ہ آفاق فلم’’ٹائٹینک‘‘ میں کام کرنے کے بعد تو اس کی زندگی بدل گئی، گویااس نے نیاجنم لیا۔ اس فلم میں کام حاصل کرنے کے لیے اس نے بہت عجیب وغریب حرکات بھی کیں، فلم کی عکس بندی سے پہلے، کتنے ہی عرصے تک، یہ فلم کے ہدایت کار’’جیمز کیمرون‘‘ کو خط لکھا کرتی، جس کے ذریعے اس کو احساس دلاتی کہ تمہاری کہانی کی مرکزی کردار’’روز‘‘صرف میں ہی ہوں۔ اس کردار کو حاصل کرنے کے لیے اس کی اضطرابی کیفیت نے جلتی پر تیل کا کام کیا، دل کی دستک پر یہ دروازہ جب کھلا، تو پھر اس کے سامنے شہرت اور دولت کے دروازے بھی کھل گئے، یہ الگ بات ہے، اس فلم نے 11آسکر ایوارڈز اپنے نام کیے، مگر کیٹ ونسلیٹ نامزد ہونے کے باوجود ایوارڈ حاصل نہ کر پائی۔ اب عالم یہ ہے کہ سات مرتبہ نامزد ہونے کے بعد1مرتبہ آسکر ایوارڈزجیتنے کے ساتھ ساتھ، شوبز کی دنیا کے سارے بڑے ایوارڈز جیتنے کے علاوہ، برطانیہ اور فرانس کے شاہی ایوارڈز بھی اپنے نام کر چکی ہے۔ آسکر ایوارڈجیتنے کا باعث اس کی فلم’’دی ریڈر‘‘ تھی، جس کے ذریعے اس نے یادگار اداکاری کی۔

’’ٹائیٹنک‘‘ جیسی کامیاب فلم کے بعد2001 میں، اس نے’’Enigma‘‘ میں Dougray Scottجیسے اداکار کے ساتھ کام کیا، پھر 2004 میں اس نے ایک اور اہم فلم’’Eternal Sunshine of the Spotless Mind‘‘میں Jim Carreyکے ساتھ اداکاری کی۔ اسی برس اسے ایک اورمعروف اداکارJohnny Deppکے ہمراہ’’Finding Neverland‘‘جیسی رومانوی فلم میں اداکاری کاموقع ملا۔

آنے والے چند برسوں میں’’The Holiday‘‘ اور’’The Reader‘‘ جیسی اہم فلمیں اس کے کیرئیر کاحصہ بنیں۔ 2008 میں پھر ایک مرتبہ، اس کوLeonardo DiCaprioکے ساتھ ایک اہم فلم’’Revolutionary Road ‘‘ میں کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ 2011میں یہ اہم ترین فلم’’Contagion‘‘ اور’’Divergent ‘‘ میں ہالی ووڈ کے دیگر اہم اورمعروف اداکاراوں کے مدمقابل ہوئی۔2015میں دو مزید اہم فلموں’’Insurgent‘‘ اور’’The Dressmaker‘‘سے شائقین کے دل موہ لیے۔ ’’Steve Jobs‘‘نامی فلم، ایپل کمپنی کے بانی’’ اسٹیوجابز‘‘ کی سوانح عمری پر مبنی تھی، اس فلم کے ذریعے یہ ساتویں بار آسکرایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔

کیٹ ونسلیٹ کا فنی سفر جاری ہے، اب تک یہ تقریباً 50 فلموں میں کام کر چکی ہے، جس میں 2020 میں ریلیز ہونے والی جیمز کیمرون کی سائنس فکشن فلم’’Avatar 2‘‘ بھی شامل ہے۔ ٹیلی وژن کے 14 ڈراموں میں بھی اپنے فن کامظاہرہ کیا اور 5مختلف فنی منصوبوں میں اپنی آواز کا جادوبھی جگا چکی ہے۔ 4کتابوں کی پڑھت کاری، ایک میوزک ویڈیو اور ایک ویڈیو گیم بھی اس کے کریڈیٹس میں شامل ہے۔ تھیٹر کے شعبے میں 7منصوبے بھی اس کے کام کاحصہ رہے ہیں۔ 50مرتبہ اہم اعزازات کے لیے نامزدہونے کی وجہ سے، یہ منفرداعزاز بھی اس کے پاس ہے کہ یہ اتنی بار اہم ترین اعزاز ات کے لیے نامزدکی گئی۔ رواں برس 2017 میں ایک مسلمان اور سیاہ فام امریکی اداکار ’’ادریس ایلبا‘‘ کے ساتھ فلم’’The Mountain Between Us‘‘ میں متنازعہ مناظر کی وجہ سے تنقید کانشانہ بھی بنی، مگر یہ اپنے جھگڑوں اورتنازعات کو خوش اسلوبی سے نمٹا بھی لیتی ہے۔

اس کے حسن کو نظرانداز کرنا مشکل ہے

یہ ذاتی زندگی میں فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور پلاسٹک سرجری کے خلاف ہے۔ تین شادیاں کیں، کئی معاشقے چلائے، تین بچے ہیں، اب اس کی پوری توجہ کیرئیر اور بچوں پر ہے، یہ ایک اچھی اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ماں بھی ہے۔ ایک محبوبہ کے طور پر شاید ناکام رہی، مگر عمومی طور پر اس کی شخصیت فلم بینوں اور ناقدین کے لیے بھی متاثر کن ہے۔

اس کا حسن ظاہری چمک سے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں روح کے ساتھ جذبات بھی شامل ہو جاتے ہیں

کیٹ ونسلیٹ کا کیرئیر تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مزاج میں ٹھہراو اور حسن میں نکھار پیدا ہوا۔ مستقبل میں یہ اداکارہ اپنے فن کی بدولت اور دلوں میں مزید گھر کرے گی۔ اس کاحسن ظاہری چمک دمک سے آگے کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، جہاں روح بھی جذبات میں شامل ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے،اس کے کئی کردار ایسے ہیں، جن کودیکھتے ہوئے اداکاری کی بجائے حقیقت کا گمان ہوتا ہے’’دی ریڈر‘‘ میں کیا ہوا کردار اس کی روشن مثال ہے۔ یہی کیٹ ونسلیٹ کی صلاحیتوں کا کرشمہ ہے، اس کے حسن اور فن کو نظر انداز کرنابہت مشکل امر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *