غربت کی لکیر
آمدنی اخراجات کو دعوتِ گناہ دیتی ہوٸی آتی ہے
"ہم مہذب نہیں مذہبی ہیں”
اس جملے کی روشنی میں
مالتھس کا نظریہ ضبط تولید کفر قرار دیا جا چکا ہے
ہمارے کسان
اپنی کھیتی میں
دن رات ہل جوتتے ہیں
میزاٸل نما بیج بوتے ہیں
ہم مقروض پیدا کرنے کی مشینیں ہیں
ڈالر اپنی مرضی سے مباشرت کرتا ہے
ہمارا تعلیمی بجٹ محبوبہ کے تل سے چھوٹا ہے
خجل داری نظامِ معیشت راٸج ہے
(خ سے خوف)
(ج سے جہالت)
(ل سے لالچ)
بجٹ کے گوشوارے کی جگالی کرنا منع ہے
ہمارا ماٸی باپ
آٸی ایم ایف
(آٸی ایم فادر)کے اشارے پر
غربت کی لکیر
مزید گہری اور بڑی کر دی گٸ
تاکہ
ہمارے مقعد تک پہنچ سکے
تعزیت نامہ
ایک شاعر مر رہا ہے
اس کی ادھوری نظمیں
جھاگ بن کے منہ سے نکل رہی ہیں
واہ واہ کرنے والے واہ واہ کر رہے ہیں
کچھ دیر میں
واہ واہ آہ آہ میں تبدیل ہو جائے گی
ایک ڈرامہ نگار مر رہا ہے
جسے رد کر دیا گیا
وہ اپنے لکھے ہوئے الفاظ کا کفن بنا لیتا ہے
لوگ سمجھتے ہیں
نیا ڈرامہ رچا رہا ہے
ایک افسانہ نگار مر رہا ہے
کچھ دیر میں افسانوی کردار میں ڈھل جائے گا
ایک ناول نگار مر رہا ہے
اس کے کردار رو رہے ہیں
کیوں کہ
وہ زندہ رہیں گے
ایک فنکار مر رہا ہے
تماش بین تالیاں ٹھونک رہے ہیں
تعزیت نامہ لکھنے والے
سنہرے قلم میں سرخ روشنائی بھر ریے ہیں
دیوار
میں چڑیا دیکھتے دیکھتے چڑیا بن جاتا
تمہاری چھت پر اڑتا
زمین کی کشش سے دور نکل جاتا
مگر ڈر گیا
تمہارے سونے کے پنجرے سے
میں درخت دیکھتے دیکھتے درخت بن جاتا
درخت تعصب پسند ہوتے ہیں
رات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں
اپنے سائے میں
کسی اور کو پنپنے نہیں دیتے
پیتل کی کلہاڑی سے ڈرا دیا
میں سمندر دیکھتے دیکھتے سمندر بن جاتا
مگرشارک مچھلیوں کی ہڑتال نے روک دیا
میں بادل دیکھتے دیکھتے بادل بن جاتا
تم پر برستا
مگر تمہیں برہنہ دیکھ کے ارادہ ترک کر دیا
میں کچھ نہیں بن سکا
دیوار دیکھتے دیکھتے دیوار بن گیا
Leave a Reply