فیض کی پنجابی نظم، ربا سچیا توں تے آکھیا سی (اے سچے رب، تو نے وعدہ کیا تھا) ٹینا ثانی کی آواز میں گاڑی کے سپیکر سے نمودار ہو رہی تھی اور میں خیالات کے گردباد میں ڈوبتا جا رہا تھا۔فیض خدا سے مکالمے کے دوران جب کہتا ہے کہ اے خدا اگر تو میری بات نہیں مان سکتا تو کیا پھر میں کوئی اور رب ڈھونڈ لوں، اس موقعے پر گویا دماغ کےاندر کوئی شےچٹخ گئ۔ کیا انسان کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ ایک نیا خدا ڈھونڈ لے، یا کم ازکم پرانے سے چھٹکارا حاصل کر لے؟ اس سوال کا جواب ہر ذی شعور انسان نے اپنی بساط کے مطابق دینا ہے۔ صدیوں پرانے خیالات، معاشرتی روایات اور گھریلو ذہن سازی جیسی طاقتوں سے ٹکر لینا سہل نہیں ہوتا۔ ایک ایسے نظریے سے نجات پانا جو آپ کی زندگی کا بڑا حصہ ہو، اذیت طلب کام ہے۔ انکار مشکل اور تقلید آسان ہوتی ہے۔ کبھی ایسے بھٹکے ہوئے اور بھٹکانے والے خیالات دماغ میں آئیں تو عربی زبان میں کچھ پڑھ کر پھونک دینے سے وقتی طور پر ایسے جھنجھٹ سے بچا جا سکتا ہے، لیکن یہ نسخہ ہمیشہ بارآور نہیں ہوتا۔ تشکیک کا مرض موزی ہے، انسان کو اعتقاد کی دنیا سے کوچ کرواتا ہے اور فکری تنہائی کے کنویں میں پھینک دیتا ہے۔ ناپختہ اذہان کے لئے اس کیفیت کو سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اچھے بچے اور بچیاں بغاوت نہیں کرتے، چپ چاپ روایت کے بلی چڑھ جاتے ہیں۔ مینڈک جب اپنے کنویں سے باہر نکلتا ہے تو باقی دنیا اجنبی دکھائی دیتی ہے۔ عقائد کے کھونٹوں سے بندھ کر جو اطمینان نصیب ہوتا ہے وہ انکار اور تشکیک کے بیابانوں میں بھٹکنے کی آزادی سے اجتناب کی بڑی وجہ ہے۔
بچپن پنجاب کے ایک چھوٹے شہر میں مذہبی ماحول میں گزرا۔والد صاحب حافظ تھے، تو برخوردار کو بھی اس راہ پر لگانے کی کوشش کی گئی۔ برخوردار نماز روزے کے معاملے میں سستی نہیں کرتا تھا لیکن روایتی تعلیم سے مدرسےتک کا سفر کٹھن تھا لہٰذا جلد ہی مزاہمت کا راستہ اپنایا اور روایتی تعلیم کا سلسلہ بحال ہوا۔ فجر کی نماز کے معاملے میں کوتاہی پر پہلی دفعہ مار پڑی اور مختصر دورانیے کے لئے گھر بدری برداشت کرنی پڑی۔ اس روز تہیہ کر لیا کہ زور زبردستی سے مذہب پر عمل نہیں کرنا۔ لڑکپن میں رضاکارانہ طور پر گھر چھوڑا تو مزید مذہبی ماحول میں پہنچ گیا۔ہاسٹل میں بھی نماز کی سختی تھی۔ وہاں مذہب سے فائدہ اٹھایا۔ موذن بننے کی کوشش کی اور کئ سال کچھ دوستوں سے مقابلہ رہا کہ کون نماز سے قبل مسجد پہنچ کر آذان دے گا اور پہلی صف کا حصہ بنے گا۔ اس مقابلے میں خاکسار کثرت سے اول آتا رہا۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی مذہب کی بدولت امتیاز حاصل کیا کیونکہ سینکڑوں کے ہجوم میں نمایاں ہونا آسان نہیں تھا۔ قریبی دوست تبلیغی جماعت میں تھے لہٰذا خاکسار بھی ان کے ساتھ “بیان” میں بیٹھنے لگا اور ایک آدھ مرتبہ “فضائل اعمال” سے پڑھنے کا موقعہ بھی ملا۔مخصوص دنوں میں مغرب کے بعد “گشت” منعقد ہوتا تو اس میں بھی شریک ہوتا۔ کالج پہنچا تو ہاسٹل میں باقاعدہ مسجد نہیں تھی لیکن ایک جگہ مختص تھی۔ وہاں مغرب کی نماز کی امامت خاکسار کے ذمے تھی۔ اس دوران ذہن میں بہت سے سوال تھے جن کے جوابات تلاش کرنے کی لگن عمر گزرنے کے ساتھ بڑھتی گئی۔
یہ بات سمجھ آئی کہ مذہب، عقل اور منطق کی بجائے جذبات اور اعتقاد سے سمجھ آتا ہے۔ سوال کا کیڑا عقیدت کی عمارت چاٹ جاتا ہے۔ سوال اٹھے تو پہلے ماخذات کا رخ کیا، بخاری شریف پڑھنی شروع کی، نام نہاد علماٴ سے سوالات کئے، اسرار احمد کے راستے غامدی تک آئے اور پھر مذہب اور سیاست کی ملاوٹ اور اس کے موذی اثرات کے باعث مذہبی عقائد کو خیر باد کہا۔ بیرون ملک جانے کا موقعہ ملا تو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ مذہب کے بغیر خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ مذہب کے بغیر سانس لینا بھی گوارا نہیں۔جس چیز پر مذہب یا عقیدت کا ملمع چڑھے، اس پر تنقید محال۔اور یہ حال ظاہری طور پر پڑھے لکھوں کا ہے، کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ بے چارے یوں ہی بدنام ہیں۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی شروع ہوئی تو اپنے نظریات پر نظر ثانی کی۔ سلمان تاثیر کی شہادت نے گویا اونٹ کی کمر پر آخری تنکے کا کردار ادا کیا۔ سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، ڈاکٹر علی حیدر، مفتی سرفراز نعیمی اور کئی ہزار بے گناہ ہم وطنوں کی ہلاکت نے جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ سوالات بڑھتے گئے۔ اگر اسلام امن کا مذہب ہے تو اسلام کے ماننے والے اپنے مذہب کا نام لینے والے دہشت گردوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ مرنے والے اور مارنے والے دونوں کلمہ گو ہیں تو قصوروار کون ہے؟ سلمان تاثیر واقعے کے بعد مقامی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرنے گیا اور فرض نماز کے بعد نمازیوں سے گزارش کی کہ اس واقعے کی مذمت کی جائے۔سنت ادا کر کے باہر نکل رہا تھا تو تین نمازیوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ میرا موقف کیا ہے۔ ان کے مطابق سلمان تاثیر کے ساتھ جو ہوا، بالکل ٹھیک تھا۔ کچھ دیر ان سے بحث کی لیکن ان کا موقف عقلیت کی بجائے عقیدت پر مبنی تھا لہٰذا بحث بے معنی تھی۔ اس رات ایک دوست کی طرف گیا تو اس کی وکیل والدہ کے خیال میں بھی سلمان تاثیر کے قتل کا قانونی جواز موجود تھا۔ اس دن مجھے اپنے بہت سے سوالات کا جواب مل گیا مگر کچھ سوالات کی پتنگیں تجربے اور مشاہدے کی بجائے تحقیق اور تخیل کے آسمان پر اڑانے کو تھیں۔
جون ایلیا کو پڑھا۔ کوئی رہتا ہے آسماں میں کیا؟ ہم تو وہ ہیں جو خدا کو بھول گئے، تو مری جاں کس گمان میں ہے؟ علی عباس جلالپوری کی تصنیف شدہ مذاہب کی تاریخ اور فکری مغالطے پڑھنے کا موقعہ ملا۔ خدا کی وحدانیت کا نظریہ یہودیوں نے پہلی بار کب اپنایا؟ کعبہ اور اللہ کو نام نہاد “دور جاہلیہ” میں کیا مقام حاصل تھا؟ تمام بڑے مذاہب میں خدا کا تصور ایک جیسا کیوں ہے؟ کیا مذاہب ایک دوسرے کا چربہ ہیں؟ پیٹریشیا کرون کو پڑھا۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کے متعلق صرف عرب، مسلمان تاریخ نویسوں پر ہی کیوں بھروسہ کیا جائے؟ رابرٹ ہوئلینڈ کو پڑھا۔ اسلام بطور مذہب اور عرب سامراج کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کیا اسلام نے عرب سامراج کے پھیلاوٴ میں کردار ادا کیا یا سامراج نے سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو جنم دیا؟ لسانیات کے موضوع سے استفادہ کیا۔ انگریزی میں جہنم کا لفظ سکینڈینیون زبانوں سے آیا ہے اور اس کا مطلب ہے برف سے بھرپور جگہ۔ عربی والوں کی جہنم آ گ سے بنی ہے۔ علم آثار قدیمہ پر نظر ڈالی۔ جدید تحقیق کے مطابق عربی زبان کی جس شکل میں قرآن موجود ہے ، مکہ اور مدینہ میں وہ زبان کبھی بولی ہی نہیں جاتی تھی۔ جس علاقے میں اس زبان کے آثار ملے ہیں وہ حجاز سے کئی سو میل شمال میں ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اگر مذہبی کتب میں سب سوالوں کے جواب موجود ہیں تو نت نئ ایجادات کے متعلق کیا کہا جائے؟ سائنس کی ترقی کے بعد “معجزے” ہونا بند کیوں ہو گئے؟ الہامی کتب میں جو تاریخی اور منطقی سقم ہیں، ان کا کیا جواز ہے؟ تاریخ کے ایک استاد کہتے تھے کہ مذاہب اپنے ادوار کے انقلابات تھے۔ مذاہب جس دور میں ظہورپذیر ہوئے اس دور میں بغاوت کہلائے۔ کیا زمانہٴ حال میں مذہب سے روگردانی ہی مذہب بن جائے گی یہ تو ابھی نہیں کہا جا سکتا مگر ایک بات طے ہے کہ اب زیادہ دیر تک لوگوں کو موت کے مذہبی کنووں میں عقیدت کے موٹر سائیکل چلانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، جلد یا بدیر یہ سرکس بھی لپیٹ لیا جائے گا اور یہ قصے بھی بھلا دئیے جائیں گے یا عجائب گھروں میں نمائش کو رکھ دیئے جا ئیں گے۔
خادم حسین
2 Responses
کسی انسان کی خرابی کو حقیقی مذہب کی طرف منسوب کرنا نا انصافی ہے، لوگوں نے مذہب کو نہیں سمجھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب غلط ہے۔ جمہوریت اچھی چیز ہے لیکن کرپٹ لوگوں کی وجہ سے اس میں بہت خرابیاں ہیں۔ تو کیا اس سے باغی ہو جاو گے، مذہب ایک خالق سے شروع ہوتا ہے، اگر تم سائنس کی روح سے کائینات کا جائزہ لے لو تو تمہیں یہ سائنس ایک خالق کی طرف ضرور لے کر جائے گی،اور تمھارا یہ کہنا کہ تمام مذہب ایک جیسے کیوں ہیں تو اس کی وجہ مذاہب کی سچائی ہے جب دنیا ایک دوسرے کو نہ ملی تھی پھر بھی لوگ امریکہ میں ایک خالق پر ایمان رکھتے تھے اور مذہب کو مانتے تھے اور دنیا کے ہر کونے میں پیغمبر بھیجے گئے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے نیک لوگ جن کی پہلی زندگی ایمانداری اور نیکی میں گزرتی تھی اچانک نبوت کا داعوی کر بیٹھتے تھے؟
یہ تمھاری بات مثبت ہے کہ تم نے دین کو بہت وقت دیا لیکن تم جن لوگوں میں رہے وہ رانگ نمبر والے لوگ تھے، اگر تمھیں ایک بھی اللہ کا ولی مل جاتا تو وہ ہر سوال کا جواب خود دے دیتا،
اگر تم کسی کرپٹ سکول میں کتنے بھی سال پڑھ لو پھر بھی میٹرک نہیں کر پاو گے، اس میں قصور سکول کرپٹ لوگوں کا ہے، ڈاکٹر بننے، انجینیر بننے یا زندگی کے کسی بھی شعبے میں جانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے، اگر تمھیں صیح استاد اور پھر ہنر آ جائے تو تم منزل تک پہنچ سکتے ہو، لیکن خدا تک پہنچنے کے لئے خالی نمازوں کی گنتی یا تعداد پوری کرنے سے کچھ نہیں ملنے والا، یا تو خدا تعالٰی خود کسی پر رحم کرتے ہوئے ظاہر ہو جاتا ہے یا پھر بہت محنت کر کے وہ مقام حاصل کرنا پڑتا ہے کہ خدا مل جائے،
میرا ایک سوال ہے کہ تم جب نماز بڑھتے تھے تو کیا تمھیں ایک خاص قسم کا مزا آتا تھا یا یوں ہی الفاظ اور گنتی تک تمھاری نمازیں محدود تھیں؟
کیا زندگی میں تم نے کبھی رو رو کر خدا کو ہر چیز پر قادر سمجھ کر کچھ مانگا ہو جا نہ ملا ہو؟
ایک بزرگ کاسچا واقعہ ہے کہ وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ ایک شخص ان کی داڑھی اور حلیہ دیکھ کر بہت غصے میں آ گیا اور منہ دوسری طرف کر لیا، لیکن سفر لمبا ہونے کی وجہ سے کسی طرح ان میں بات شروع ہو گئی تو اس شخص نے بزرگ کو بتایا کہ اسے ایک مولوی نے کافر بنا دیا تھا اور ایک پادری نے مسلمان بنا دیا۔ اس لئے وہ مولیوں سے دور رہتا ہے،
اس نے بتایا کہ وہ ابھی ینگ تھا کہ مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے کہ حدیث میں لکھا ہے کہ دریائے نیلم چاند سے بہتا ہے، یعنی اس چاند سے جو آسمان پر ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور برے مجمے میں سوال پوچھ لیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی دریا کا پانی چاند سے بہ کر زمین تک آتا ہو تو مولوی صاحب نے بڑے غصے سے چھڑی میری طرف پھینکی کہ گستاخ نبی کی حدیث پر سوال کرتا ہے۔ تو وہ اس دن مسجد سے بھاگ گیا اور اس کے والد نے بھی اسے گھر نہ جانے دیا تو وہ ایک پادری کے ہاتھ چڑ گیا اور پادری نےپھر اسلام کی جو تصویر اسے دیکھائی تو بس اس کے بعد وہ اسلام سے سخت نفرت کرنے لگا اور پادری کے ساتھ عیسائیت سیکھنے لگ گیا، بہت عرصہ عیسائی رہنے کے بعد جب ایک دن کچھ پادری بیٹھے تھے اور کچھ باتیں ہو رہی تھیں تو ایک پادری نے بتایا کہ دریائے نیل چاند کی پہاڑی سے نکلتا ہے، یعنی ایک پہاڑ کا نام چاند پہاڑ تھا جسے مولوی نے وہ چاند سمجھ لیا تھا جو آسمان پر ہے۔ تو وہ شخص بتاتا ہے کہ یہ سنتے ہیں میں وہاں سے نکلا اور مسلمان ہو گیا اور سوچ لیا کہ کسی مولوی سے نہ سوال پوچھنا ہے اور نہ ان سے ملنا ہے بلکہ ان سے دور رہنا ہے ورنہ میرا ایمان خراب ہو جائے گا، تو آپ کو جو لوگ ملے وہ اس جاہل مولوی جیسے تھے جنہوں نے اسلام کی غلط تصویر پیش کی۔ اور تم اسلام سے بھاگ گئے۔ حلانکہ اس میں غلطی تمھاری بھی ہے اگر خدا کے بندے بن کر اس کے در پر گر کر سوال پوچھتے تو وہ خود ان کے جواب دیتا، اس دور جہالت میں کسی مولوی نے تمھیں کیا جواب دینے ہیں۔