Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

نولکھی کوٹھی-پانچویں قسط

test-ghori

test-ghori

05 مارچ, 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(10)

جنوری کا جاڑا پنجاب میں خوشگوار قسم کی خوشبو لیے ہوتا ہے۔ ہر طرف دھند ہی دھند تھی مگر ولیم کو یہ کُہر لندن کے جاڑے سے کہیں زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔ آج اتوار تھا۔ اس موسم میں اتوارانگریز افسروں کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ دیر تک گرم بستر میں لیٹے رہنا، اُس کے بعد مچھلی کے ساتھ ہلکی شراب کا اہتمام اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے۔ مگر ولیم نے باورچی کو حکم دیا کہ اس کی کرسی بنگلے کے کھلے صحن میں لگا دے۔ باورچی کرسی اور میز دہلیز کے سامنے لگا چکا تو ولیم نے اُسے کہا کافی بنا لاؤ۔

ولیم کا بنگلہ کم از کم چار کنال کے رقبے میں تھا۔ انگریز نے برطانیہ کے تنگ رقبے اور لندن کے چھوٹے چھوٹے فلیٹس کا غصہ ہندوستان کی دور تک پھیلی ہوئی ہموار زمینوں پر نکالا تھا۔ تنگ گلیوں اور کوارٹروں سے نکلنے کے بعد جب اُس نے اتنی کھلی زمینیں اور رقبے بے مصرف پڑے دیکھے جس کا تصور بھی یورپ نہیں کر سکتا تھا، تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔اُنھوں نے وہ سارا احساس محرومی یہاں نکالا۔ کئی کئی ایکڑ پر بنگلے اور دسٹرکٹ کمپلیکس بنا دیے۔ جن کے تیار کرنے میں اُنھیں باہر سے کچھ بھی نہ خرچ کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح ولیم کو ملنے والا بنگلہ بھی اپنی نوعیت کا شاہکار تھا۔ پورے چار کنال رقبے کو گھیرے ہوئے سرخ اینٹوں کی آٹھ فٹ اونچی دیوار اور اس کے سروں پر لوہنے کی نوکدار سلاخیں مستزاد تھیں۔ دیوار کے سا تھ تین ا طراف سے پچاس فٹ چھوڑ کر درمیان میں بنگلے کی سرخ عمارت تھی۔ تمام عمارت میں سرخ اینٹیں اس صفائی اور مہارت سے استعمال کی گئیں کہ پلستر کی ضرورت نہیں رہی تھی۔عمارت کے سامنے بڑا وسیع صحن تھا۔ دیوار کے چاروں طرف اور صحن کے سامنے والی دیوار کے ساتھ پیپل کے دس پندرہ درخت تھے، جن کے زرد پتے بکھر رہے تھے۔ عمارت میں چھ سات کمرے لکڑی کے دروازوں کی جلالت کے ساتھ بنگلے اور بنگلے میں رہنے والے کے وقار کے ذمہ دار بھی تھے۔ اسی کی مناسبت سے لکڑی کا بڑا گیٹ تھا۔ جس میں سے برابر دو جیپیں اندرونی عمارت کی دہلیز تک چلی جاتیں۔ عمارت سے کچھ دور کمپلیکس کے دوسرے ٓافیسرز کے گھروں کی عمارتیں تھیں۔جو اتنی شاندار تو نہ تھیں جتنی ولیم کی کوٹھی تھی۔ پھر بھی ان میں مقامی عمارتوں کی نسبت ایک قسم کا دبدبہ ضرور تھا۔ ان سب عمارتوں کی دیواریں اٹھارہ انچ موٹائی میں بیس فٹ تک اونچی چلی گئیں تھیں۔ جن کے سامنے اور ارد گردبھاری درختوں کے سلسلے عمارتوں کی وجاہت کے مزید گواہ تھے۔

ولیم نے ایک دفعہ چاہا کہ نجیب شاہ کو بلا بھیجے مگر افسرانہ تمکنت زیب نہ دیتی تھی کہ اُسے دفتر کے علاوہ گھر پر بھی ملے۔ یہ بات انگریزی آدابِ افسری کے سراسر خلاف تھی۔ نجیب شاہ نے کل ہی بتا دیا تھا کہ رپورٹ تیار ہو چکی ہے جس میں غلام حیدر کی فائل اور سردار سودھا سنگھ کے متعلق تمام ضروری معلومات موجود تھیں۔ لیکن وہ اُسے دفتر میں دیکھ نہیں سکا تھا کیونکہ فوراً میٹنگ کے لیے فیروز پور نکلنا تھا۔البتہ اُس نے یہ فائل ساتھ لے لی تھی کہ اس کا مطالعہ کر لے۔ جیسے جیسے وہ فائل کا مطالعہ کرتا گیا غلام حیدر کے لیے فکر مند ہوتا گیا۔ دفتر میں غلام حیدر کے ساتھ پہلی ملاقات میں ولیم سے جو غلطی سرزد ہوئی تھی، اُس کے پیش نظر اُس نے سوچا کہ غلام حیدر کوئی بھی غلط فیصلہ کر سکتا ہے۔ جبکہ ولیم فائل کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ دوسری صورت میں غلام حیدر کے جوابی حملہ کرنے پر حالات اُسے مجرم بنا سکتے تھے۔ لیکن کل اُسے وقت ہی نہ مل سکا کہ نجیب شاہ کے ساتھ بات کر کے اس مسئلے پر سنجیدہ قدم اٹھا سکے۔ ہاں ڈپٹی کمشنر کو ولیم نے اس بارے تھوڑا سا بریف کر دیا تھا۔ میٹنگ میں یہ مسئلہ زیر بحث طے نہ تھا، پھر بھی ولیم نے ضروری سمجھا تھا کہ معاملہ ڈپٹی صاحب کے کانوں تک پہنچ جائے۔ رات وہ دیر سے جلال آباد لوٹا تھا اور آج اتوار کی وجہ سے چھٹی تھی مگر ولیم کو کسی وجہ سے چین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے بار بار رپورٹ کا مطالعہ کیا جو نجیب شاہ نے تین دن کے اندر سرکاری کارندوں کی معلومات سے تیار کی تھی۔اس فائل میں زیادہ تر شیرحیدر اور غلام حیدر کی زندگی کے کوائف جمع کیے گئے تھے۔ واردات کے متعلق رپورٹ تیار کرنا فی الحال نجیب شاہ کے بس کا کام نہیں تھا۔ اس طرح کی رپورٹ پولیس کا کام تھا۔پھر بھی اپنی حد تک واقعہ کے نشیب و فراز کا تھوڑا بہت جائزہ ضرور لیا گیا تھا اور اہم معلومات دے دی گئیں تھیں،جو انھوں نے مو قع واردات پر پہنچ کر حتیٰ کہ سودھا سنگھ اور غلام حیدر کی حویلیوں میں جا کر فراہم کی تھیں۔

ولیم ایک گھنٹہ تک وہیں بنگلے کے صحن میں بیٹھا کافی پینے کے ساتھ فائل کا مطالعہ کرتا رہا۔ آخر بے چینی سے اٹھ کھڑا ہوا اور ملازم کو آواز دی۔

گل دین بھاگتا ہوا کچھ فاصلے پرآ کر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

ڈرائیور کو بلاؤ ہم کہیں جانا چاہتے ہیں “ولیم نے کھردے لہجے میں گل دین کو بغیر نظریں اٹھائے حکم دیا” اور سنو ہمارا اوورکوٹ لے آؤ

گل دین حکم ملتے ہی اُلٹے قدموں بھاگا۔ اُس کے جانے کے چندثانیوں بعد ہی دلبیر سنگھ ڈرائیور پگڑی باندھے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ ولیم نے اُسے دیکھ کر کہا، دلبیر سنگھ، انسپکٹر متھرا سے کہو کہ ہم نے کہیں جانا ہے۔ وہ جلدی سے آ جائے اور تم بھی چلنے کی تیاری کرو،یہ کہہ کر ولیم اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تاکہ چلنے کے لیے ضروری سامان لے لیا جائے۔

ٹھیک بیس منٹ بعد ولیم اوروکوٹ پہنے باہر نکلا تو پورا عملہ انتظار میں کھڑا تھا۔ سی آئی ڈی مِتھرا صاحب، دس عدد سنتری او ر ان کے علاوہ بھی دس بارہ لوگ جو قریب ہی رہائش پذیر تھے۔دلبیر سنگھ باہر جیپ اسٹارٹ کیے کھڑا تھا۔ ولیم نے متھرا کے ساتھ ہاتھ ملایا اور باقی کو دور ہی سے سلام کا اشارہ کر دیا۔جیپ کے پاس آ کر ولیم نے متھراسے مخاطب ہوکر کہا، متھرا صاحب چھ سنتری لے کر جیپ میں بیٹھ جاؤ اور دوسرے سب اپنے گھروں میں چلے جاؤ۔
جیپ نے جلال آباد کو پیچھے چھوڑاتو ولیم نے ڈرائیور کو حکم دیا، دلبیر سنگھ ہمیں کچھ دیر جودھا پور رُک کر جھنڈو والا کی طرف چلنا ہے۔

دلبیر سنگھ نے سر جھکاتے ہوئے جیپ کواگلے گیئر میں ڈال دیا۔جیب کی رفتار کے ہموار ہوتے ہی ولیم نے انسپیکٹر متھرا کے ساتھ گفتگو شروع کردی

متھرا صاحب “کیا میں سمجھوں کہ سودھا سنگھ کا غلام حیدر کے گاؤں پر حملہ کرنا سکھ مسلمان لڑائی ہے یا چودھراہٹ کا معاملہ ہے‘ ولیم نے بغیر متھرا کی طرف دیکھے بغیر سوال کیا۔

سر پہلے تو لڑائی ذاتی عناد اور فرد کے مفاد سے شروع ہوتی ہے۔ مگر سکھ اور مسلمان دونوں عقل سے زیادہ جذبات میں پلتے ہیں۔ اس لیے یہ لڑائی فوراً کسی ایک نعرے کی بنیاد پر مذہبی روپ لے لیتی ہے۔

متھرا صاحب کو اپنا فلسفہ پیش کرنے کا موقع مل چکا تھا،اس لیے اُس نے بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا‘ سر یہ علاقہ جسے آپ فیروز پور کہتے ہیں، یہاں گیہوں سے زیادہ برچھیاں اُگتی ہیں اور معززپیشہ چوری ہے۔ بلاشبہ جالندھر کے بدمعاش پر فیروز پور کے مولوی کوفضیلت ہے۔

متھرا صاحب کیا بات ہے تم سکھوں کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہو،کیا اُن کے سَنت واقعی جالندھر کے بدمعاش کے مقابلے میں سنت ہی ہیں؟

ولیم کے اس بھرپور طنز پر انسپیکڑمتھرا ایک دم جھنیب گیا۔ اُسے اپنی لا گدار گفتگو کا احساس فوراً ہو گیا چنانچہ الفاظ کو احتیاط کی شکل دینے لگا اور بولا، سر ایسی بات نہیں ہے۔ سنت اور مولوی سے میری مراد ایک ہی ہے۔ دونوں ہی خون کی تیز گردش میں خدا اور گروجی کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔

میں نے سنا ہے، شیر حید ر کا یہاں کافی اثر ورسوخ تھا “ولیم نے بات فوراً اور اچانک اپنے مطلب کی طرف موڑی جس میں متھرا صاحب کو داخل ہونے میں کچھ وقت لگا، پھر بھی اُسے اس امر کی تصدیق کرنا پڑی۔

انسپکٹر متھرا نے جواب دیا “جی سر” شیر حیدر تو پورے علاقے کا جمعدار بنا ہوا تھا۔جب تک زندہ رہا،پتا نہیں کھڑکنے دیتا تھا۔

متھرا مَیں جتنی بات پوچھتا ہوں مجھے اتنا ہی جواب چاہیے۔ ولیم نے دانت پیستے ہوئے کہا، عہدے بانٹنا گورنمنٹ کا کام ہے۔ مقامیوں کو اس میں دخل نہیں۔

متھرا کو ولیم کے خاص کر اس جملے نے سنجیدہ رہنے اور فاصلے کا مطلب سمجھادیا تھا۔اس کے بعد کچھ دیر دونوں طرف سے خموشی رہی اور جیپ دوڑتی رہی لیکن انسپیکٹر متھرا نے گھبرا کر سہمے ہوئے انداز میں کہا، جی سر
ولیم کی اس تنبیہ پر اب یہ بات اُسے معلوم ہو چکی تھی کہ ولیم کے آگے جھوٹ بولنا اور جانب داری سے کام لینا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا۔ متھرا نے طرح طرح کے بڑے افسروں کو دیکھا تھا۔ اس لیے تجربے کی بنا پر اُسے فوراً محسوس ہو گیا کہ ولیم کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے کا فائدہ نہیں۔

شیر حیدر رسہ گیری اور قتل وغیرہ میں کبھی ملوث رہا ہے؟ ولیم نے دو ٹوک پوچھنا شروع کر دیا۔

بالکل نہیں سر، متھرا نے اب کے مختصر جواب میں ہی عافیت سمجھی۔

رعایا کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟ ولیم نے پوچھا

انسپکٹر متھرداس بولا،،سراس معاملے میں مَیں بے خبر ہوں۔ میرا واسطہ نہیں پڑالیکن سر ایک بات ایسی ہے کہ ارد گرد کے مسلمان چودھری بھی اُسکے خلاف تھے۔شاید وہ ان کی عزت نہیں کرتا تھا۔

اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ اپنی رعایا کی عزت بھی نہیں کرتا تھا۔ “ولیم نے متھرا کو دوبارہ پٹری پر لا نے کی کوشش کی”

جی سر، متھر داس نے گھبرا کر مختصر جواب پر اکتفا کیا۔

“ولیم نے فوراً اگلا سوال کر دیا”گورنمنٹ کے ساتھ تعلقات کیسے تھے؟

کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی،ا نسپکٹر متھرا نے بغیر وضاحت کے کہا،لیکن ولیم متھرا کے جواب میں چھپے نشتر کو مسلسل محسوس کر رہا تھا۔ متھرا بڑی چالاکی سے کام لے کر ولیم کو باور کرانا چاہتا تھا کہ شیر حیدر گورنمنٹ کے دربار میں گویا حاضر باشوں میں نہ تھا۔

سی آئی ڈی انسپکٹر متھرا کے ساتھ اس گفتگو میں ایک بات ولیم پر واضح ہو چکی تھی کہ غلا م حیدر کسی بھی وقت مشکل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔ اُس کے باپ کے خلاف بغض دیسی چودھریوں سے لے کر سرکاری افسروں تک بھرا ہوا تھا۔ اس کی واحد وجہ شاید یہ تھی کہ شیر حیدر نے اپنے معاملات اپنے ہی ہاتھ میں رکھے تھے اور وہ فیصلے بھی صحیح وقت میں کرتا رہا تھا۔ انسپکٹر متھرا داس کے ساتھ ولیم کی گفتگو بیس منٹ جاری رہی۔ اس عرصے میں جیپ جلال آباد سے شمال مشرق کی طرف کچی سڑک پر دوڑتی رہی، جس کے دائیں طرف نہر تھی اور بائیں ہاتھ کھیتوں کا سلسلہ۔ دُھند باقی تھی، اِس لیے دور کا منظر صاف دکھائی نہ دیتا تھا۔البتہ پاس کی نظر میں غیر واضح سے مناظر تھے۔ کھیت کچھ زیادہ نہیں تھے۔ کہیں چارے کی فصلیں، چری اور مکئی وغیرہ اور کہیں خالی زمین تھی۔ جس میں بھکھڑا، اِٹ سٹ، عک اور دوسری کانٹے دار جڑی بوٹیاں اُگی ہوئی تھیں۔ کیکر، جنڈ اور کریر کے درخت بھی کہیں کہیں نظر آ رہے تھے لیکن اِن کی تعداد ویرانی کے اعتبار سے بہت کم تھی۔ پوری سڑک سرکنڈوں کے بے پناہ جمگھٹوں کے درمیان میدے کی طرح پسی ہوئی گرد سے اٹی پڑی تھی جو بارش ہونے کی وجہ سے اب کیچڑ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اگر رات بارش نہ ہوئی ہوتی تو لازماًجیپ گزرنے کے بعدغبار اِس طرح اُٹھتا جیسے دھویں کے مرغولے چڑھتے ہیں۔ اِن زمینوں کی ویرانی سے صاف پتاچلتا تھا کہ لوگوں کو اپنی معاش کی پروا نہیں۔وہ کھیتی باڑی سے زیادہ چوری چکاری کو اولیت دیتے ہیں۔ دوسری طرف نہر کے کنارے پر مسلسل کیکر وں اور سرکنڈوں کے بے شمار جھنڈ تھے، جو ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ سرکنڈوں کے بیچ کہیں ٹاہلی یا اسی طرح کا مقامی پیڑ نظر آ جاتا مگر اُن کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اِکادُکّا لوگ بھی نظر آئے جو کچھ دیر تک کھڑے ہو کر حیرانی سے جیپ کو دیکھتے پھر اپنے رستے چل دیتے۔ ولیم کو یہ سب دیکھ کر شدید کوفت کا احساس ہو رہا تھا۔ اُسے دل ہی دل میں اُن سابقہ اسسٹنٹ کمشنروں پر غصہ آ رہا تھا،جنھوں نے علاقے میں ذرا بھی ترقی کا کام کرنے یا لوگوں کو کام پر اکسانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اُسے محسوس ہوا کہ وہ آفیسر محض یہاں افسری کرنے کے لیے آتے رہے تھے۔جیسے پورے جلال آباد کو شکار گاہ بنانا چاہتے ہوں۔جہاں اُن کے کُتے خرگوش اور سؤروں کے پیچھے لمبی دوڑیں بھاگ سکیں۔ اُس نے سوچا اگرچہ ِاس کوتاہی میں مقامی لوگوں کا بھی نقصان ہے مگر حقیقتاً گورنمنٹ کا نقصان بڑے پیمانے پر تھا۔ کیونکہ علاقہ جس قدر غیر آباد ہوتا،حکومت کو خراج اور مالیے کا نقصان اُتنا ہی زیادہ تھا۔ ولیم کا یہ علاقے کا پہلا بے قاعدہ دورہ تھا۔وہ سب کچھ ڈائری میں نوٹ کرتا جا رہا تھا۔ انہی خیالوں میں تھا کہ جیپ آہستہ سے ایک جگہ پر رُک گئی۔ولیم نے چونک کر پوچھا،کیا بات ہے رُک کیوں گئے؟۔

سر ہم جودھا پور پہنچ گئے ہیں، دلبیر سنگھ نے جیپ کو گیئر سے نکالتے ہوئے خبردار کیا۔

دلبیر کی آواز سن کر ولیم خیالوں سے باہر آیا۔ اس نے ایک طائرانہ سی نظر پورے گاؤں پر ڈالی جو بمشکل پچاس گھروں پر مشتمل تھااور آبادی زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی سو افراد ہوگی۔ جیپ سے تھوڑے فاصلے پر چھوٹی مسجد تھی۔جس کے دائیں پہلو بڑا پیپل کا درخت لہریں لے رہا تھا۔ مکان سب کچے تھے اور اُن میں سے اکثر کی مٹی سیم اور تھور کی وجہ سے مسلسل گررہی تھی۔ بعض مکانوں کی دیواریں پاتھیوں کے بیل بوٹوں سے بھر ی ہوئی تھیں۔جن میں سے کچھ سو کھ کر نیچے گر ی پڑی تھیں۔ رات کو غالباً بارش ہوئی تھی اس لیے گلیاں جو پہلے ہی تنگ اورنا ہموار تھیں، کیچڑ اور بارش کے پانی سے بھر گئیں۔اِکا دُکا بچے مسجد کے پاس کی قدرے بلند اور خشک زمین پر بانٹے کھیل رہے تھے۔ اُن کے پاس ہی دو بڈھے چار پائی بچھائے کھیل دیکھنے کے ساتھ اپنی باتیں کر رہے تھے،جو بچوں کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔دونوں نے ہاتھ سے بُنے ہوئے کھدر کے کھیس اوڑھ رکھے تھے، جن کے کناروں پر سُرخ اور سوت ہی کے دھاگے کی نیلی ڈوریاں بندھی تھیں۔اُن ڈوریوں کی وجہ سے کھیسوں کی شوکت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ جب کھیلتے کھیلتے بچوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا تو یہ بڈھے بہت آسانی سے اُن کے درمیان منصفی کا فریضہ بھی ادا کرتے جاتے۔

ولیم کی جیپ جیسے ہی وہاں رُکی، سب نے اپنے کام چھوڑ کر اُسی طرف دھیان کر لیا۔ مگر کچھ سہمے سہمے انداز میں۔ دونوں بڈھے بھی چادریں سمیٹتے ہوئے چار پائی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بوڑھے کی اسی جلدی میں سر سے پگڑی گِر گئی، جسے افراتفری کی حالت میں تیزی سے اُٹھا کر وہ سرپر باندھنے لگا۔

ولیم نیچے اُتر کر آہستہ روی سے چلتا ہوا بڈھوں کے قریب آ کر رک گیا جبکہ سنتری بندوقیں تھامیں وہیں الرٹ کھڑے رہے۔ اسی طرح انسپکٹر متھرا ولیم کے پیچھے تمیز سے کھڑا ہو گیا۔ اس گاؤں میں غالباً پہلی دفعہ کسی گورے کی آمد ہوئی تھی اس لیے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ حتیٰ کہ اُنھیں یہ تک پتہ نہیں تھا کہ فرنگی سے ڈرنے کا طریقہ کیا ہے۔ بس بِڑبِڑ اُسے دیکھنے لگے۔ کچھ بچے ڈر کر گھروں کو بھاگ گئے اور کچھ دور جا کھڑے ہوگئے۔ جیسے محفوظ جگہ پر بیٹھ کر تماشا دیکھنا چاہتے ہوں۔ولیم نے چند لمحوں ہی میں پورے گاؤں کا جائزہ لے لیا تھا۔ سامنے کے گھر میں ایک کیکر کا درخت بھی تھا۔جس پر زرد پھولوں کی اتنی بہتات تھی کہ وہ پیڑ ہی سونے کا لگتا تھا۔ اسی کیکر پر ایک کبوتر اُڑانے والی چھتری پر کبوتر بھی بیٹھا ہوا تھا۔یہ سب ولیم کو اتنا دلکش لگا کہ وہ چند لمحے ہر ایک چیز سے بے نیاز اُسی خوبصورت منظر میں کھو گیا۔

ولیم نے آگے بڑھ کر اسلام علیکم کہا اور کھڑے ہو کر گاؤں پر ایک بھرپور نظر ڈالنے لگا۔ اُس کے اس عمل کے دوران وہاں لوگ جمع ہونے لگے مگر اکثر دور ہی اپنے دروازوں سے جھانکا تانی میں لگ گئے کہ نہ جانے ابھی کونسی قیامت آ جائے۔ ولیم کچھ دیر کھڑا رہاپھر آگے بڑھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اپنی اسٹک اُس نے چارپائی کے سرہانے سے لگا دی۔اس دوران جودس بارہ لوگ وہاں آن کھڑے تھے، اُن میں سے ایک بڈھے سے مخاطب ہو کر بولا، بابا ہم نے سنا ہے اِس گاؤں کا آدمی قتل ہوا ہے؟

بڈھا نہایت تمیزسے آگے ہو کر کھڑا ہوا اور بولنے لگا، حضور چراغ دین بالکل بے گناہ مارا گیا۔(ہاتھ باندھ کر جو ہلکے رعشہ سے کانپ رہے تھے) سرکار سکھوں نے مار دیا۔ بے چارے کی ایک یتیم بیٹی ہے اور بیوی رحمت بی بی بیوہ ہو گئی۔

ہم اس کی بیوی سے ملنا چاہتے ہیں،ولیم نے سپاٹ انداز میں کہا۔

سرکار وہ چالیس دن تک گھر سے باہر نہیں نکل سکتی’بڈھے نے وضاحت کی” اب وہ چالیس دن تک پردے میں رہے گی۔ بچاری کا خاوند جو نہ رہا۔

تو کیا اُن کا کوئی اور رشتہ دار نہیں؟اگر کوئی رشتہ دار ہے تو اُسے بلا لو، ہم اُسی سے بات کر لیں گیِ، ولیم نے تحمل سے پوچھا۔

حضور کل ہی قصور سے اس کا بہنوئی مولوی کرامت اور چراغ دین کی بہن شریفاں آئی ہے۔ بچاری پیٹتے پیٹتے بیہوش ہوئی جاتی تھی۔ کرماں والی کا ایک ہی بھائی تھا۔سکھوں نے مار دیا۔ سرکار ظلم ہو گیا آپ کی سرکار میں۔ سودھا سنگھ نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔صاحب بہادر اُس نے سارے انگریزی قانون فیل کر دیے۔

ولیم نے دیکھا کہ بڈھا زیادہ ہی بولنے لگا ہے، دراصل اُس کے نرم رویے نے اِسے کچھ زیادہ ہی حوصلہ دے دیا تھا۔اس لیے وہ عرض و معروض سے بڑھ کر سرکار کی طنز پر اُتر آیا تھا۔ یہ بات حکومت کے وقار کے خلاف تھی۔اُسے اس طرح بولتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی آہستہ آہستہ مجمعے کی شکل میں اُن کے گِرد اکٹھے ہو گئے۔ ولیم کو یہ بات ناگوار گزری۔ وہ انصاف کا قائل تو تھا لیکن مقامی لوگوں کے ساتھ فاصلے کی کمی منظور نہ تھی۔چنانچہ سٹپٹا کر بولا،بڈھے زیادہ باتیں مت بناؤ جاؤ مولوی کرامت کو بلاؤ۔ سرکاراس قتل کا پورا انصاف کرے گی۔

ولیم کے اس سپاٹ اوردو ٹوک رویے نے بڈھے کو دوبارہ اپنی اوقات میں کر دیا۔ وہ اس اچانک سرد مہری پر بوکھلا گیا اور کھسیانا سا ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس صورت حال میں اس کا رعشہ مزید بڑھ گیا۔ بڈھے کو پیچھے ہٹتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی جلدی سے پیچھے سر ک گئے، جو چند لمحے پہلے ولیم پر سایہ کیے کھڑے تھے۔اِسی اثنا میں ایک لڑکا بھاگتا ہوا مولوی کرامت کوبُلا لایا۔ مولوی کرامت سہمے ہوئے انداز میں لوگوں کو نظر انداز کرکے ولیم کی طرف جانے لگا۔ مجمع اب چھٹ چُکا تھابلکہ اکثر لوگ اپنے گھروں کے دروازوں پر جا کر کھڑے ہو گئے۔ اس عرصے میں ولیم ایک تمکنت سے اپنی بیت کو چارپائی کے پائے سے آہستہ آہستہ مارتا رہا۔ مولوی کرامت نے دو قدم دُور ہی سے سلام کیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ غالباً اُسے لڑکے نے بڈھے کو صاحب کی طرف سے پلائی جانے والی ڈانٹ کی اطلاع بھی کر دی تھی۔ اِس لیے وہ کچھ زیادہ ہی محتاط نظر آ رہا تھا اور صاحب کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ ویسے بھی مولوی کرامت اس گاؤں کے لوگوں سے زیادہ معاملے کی اونچ نیچ سمجھنے والا تھاکیونکہ تھوڑے بہت کتابی علم نے اُسے معاملہ فہمی کا ادراک دے دیا تھا۔اسی لیے وہ پچھلی تین پشتوں سے قصورمیں اپنی امامت بچائے ہوئے تھا۔ جیسے ہی مولوی کرامت نزدیک پہنچا،ولیم نے اُسے مخاطب کیا۔

خوب آپ مولوی کرامت ہیں؟ ولیم نے اس کے انکسار سے متاثر ہو کر گفتگو کا آغاز کیا۔

آپ کا غلام اور انگریز سرکار کا نام لیوا کرامت ہی ہوں۔مولوی کرامت نے سارے جسم کی عاجزی چہرے پر سمیٹتے ہوئے جواب دیا

تم چراغ دین کے کیا لگتے ہو؟ ولیم نے اسی بے نیازی سے پوچھا۔

غلام اُس کا بہنوئی ہے۔ مولوی کرامت کے جواب دینے میں ایسی انکساری تھی جو اگرچہ ولیم کی نظر میں چاپلوسی تھی مگر اُسے پسند آئی لہذااُس نے مولوی میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا،تم کہاں رہتے ہو؟ ولیم کی تمکنت برقرار تھی البتہ لہجے میں ہلکی ملائمت درآئی۔

صاحب جی، بندہ تحصیل قصور کی باجگزاری میں ہے اور پیش امامت پیشہ ہے۔ کل شام ہی پہنچا ہوں،مولوی نے اُسی انکسار سے جواب دیا۔

آپ کو اطلاع کب ہوئی چراغ دین کے قتل کی، ولیم نے پوچھا۔

سرکار صبح فضل دین کو معلقہ کا سبق دے کے اور کریماں کا آخری دور ختم کراکے روٹیاں لینے بھیج دیا اورمَیں تھوڑی دیر چارپائی پر آرام کر نے کے لیے لیٹ گیا۔ سردیوں کے دن ہیں۔سر پر آفتاب چمکا توآنکھ کھلی۔ مسجد میں پہنچا تھا کہ ظہر کی اذان کی تیاری کروں،اُسی وقت راج محمد چراغ دین کی خبر لے کر پہنچ گیا۔یہ بدھ کادن تھا، کہنے لگا چراغ دین کو سودھا سنگھ کے بندوں نے برچھیوں سے مار دیا اور مونگی کی فصل جو لے جا سکے، لے گئے باقی کو آگ لگا دی۔ وہ بارہ بجے دن کے وقت پہنچا میرے پاس۔ ہم شام کی ریل سے بیٹھے۔ جلال آباد تو سرگی ہی پہنچ گئے تھے لیکن جودھا پورجمعرات دوپہر آئے اور آج جمعہ ہے۔ مولوی کرامت نے مختصر جوا ب میں پوری تفصیل بتا دی۔
ولیم نے دیکھا کہ مولوی کرامت نے کتنی ہشیاری سے پورا ملبہ سودھا سنگھ پر ڈال دیا ہے حالانکہ اُس نے ملزم کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔

تمہیں اتنی دیر کیوں لگی جودھا پور آنے میں؟ولیم نے سوال کا سلسلہ جاری رکھا۔

حضور راڑے سے قصور کا دس کوس اور پھر جلال پور سے جودھا پور کا بیس کوس پیدا کیا۔ اس میں دیر ہو گئی لیکن کل ساتے کے ختم پر پہنچ گیا تھا۔

چراغ دین کتنے عرصے سے شیر حیدر کا ملازم تھا؟ولیم نے پوچھا

سرکار پینتیس سال سے وہ انہی کا نمک خوار تھا، مولوی نے اب مختصر جواب دینے شروع کر دیے۔

غلام حیدر جودھا پور کب پہنچا؟ اب ولیم نے دوبارہ گاؤں کے لوگوں کو مخاطب کیالیکن لہجے کی سختی برقرار تھی۔
اب ایک اور بوڑھے کو حوصلہ ہوا کہ وہ آگے بڑھ کر جواب دے۔ یہ بوڑھا سر تا پا سفید لٹھے میں تھا۔مگر ہاتھ میں عصا نہیں تھا اور کمر بھی جھکی نہ تھی لیکن عمر کے اس حصے میں ضرور تھا جب جسم کی کمزوری طاقت میں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔

صاحب بہادرجی غلام حیدر منگل کے دن آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ وہ اس خون کو ضائع نہیں جانے دے گا۔ حضور غلام حیدر کو آپ پر بہت بھروسا ہے اور وہ آپ کے انصاف کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ کہتا تھا،وہ انگریزی سرکارکے پاس جا کر سودھا سنگھ سے چراغ دین کے قتل کا پورا حساب لے گا۔

ولیم کو بڈھے کی اِس بات پر کوفت ہوئی کیونکہ بڈھا یقیناً جھوٹ بول رہا تھاکہ غلام حیدر کو سرکار پر بھروسا ہے۔ وہ سمجھ گیا تھایہ محض اس کی چاپلوسی کی جا رہی ہے مگر اس کی یہ بات ضرور سچ تھی کہ غلام حیدر منگل سے پہلے جودھا پور نہیں آیا تھا بلکہ وہ پچھلے چار سال سے جودھا پورہی داخل نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ولیم نے گاؤں والوں سے اور بھی کئی سوال کیے جس سے اُسے صاف پتا چل گیا کہ چراغ دین کا قتل اور مونگی کی فصل کا اُجاڑا سودھا سنگھ کے خلاف کوئی سازش نہیں تھی جیسا کہ پہلے اُس کے ذہن کے ایک گوشے میں ہلکا سا اندیشہ تھا۔ اِن سوال و جواب سے فارغ ہو کر ولیم اُٹھ کھڑا ہوا اور جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ لوگ فوراً پچھلے قدموں ہٹ گئے جو دوبارہ مجمعے کی شکل میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ ولیم جب تک گاؤں والوں سے بات چیت میں مصروف رہا، انسپکٹر متھرا اور دیگر عملہ ماتحتی بھول کر گفتگو میں دوسرے سامعین کی طرح دلچسپی لے رہے تھے مگر ولیم کے اُٹھتے ہی انھیں اپنی اوقات کا احساس ہو گیا۔ وہ فوراً الرٹ ہو گئے اور ولیم کے احترام میں ایک طرف تعظیم سے کھڑے ہو گئے تا آنکہ ولیم آہستگی سے چلتا ہوا جیپ کی طرف بڑھا اور سوار ہو گیا۔ بعد ازاں سنتری اور متھرا بھی پھرتی سے جیپ میں سوار ہو گئے۔ دلبیر سنگھ نے جیپ اسٹارٹ کر دی۔قبل اِس کے کہ وہ اُسے گیئر میں ڈالتا، ولیم نے مولوی کرامت کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ مولوی کرامت بھاگ کر قریب آیا تو ولیم نے نرمی سے کہا،مولوی! کل تمہیں جلال آباد آنا ہے۔ تحصیل میں آ کر مجھ سے ملو۔

مولوی کرامت نے ہاتھ باندھ کر سر ہلایا پھر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کر دیا۔

اس کے بعد جیپ چل دی جس کا رخ جھنڈو والا کی طرف تھا۔ صبح کے دس بج چکے تھے اور جھنڈووالا محض پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ سودھا سنگھ کا گاؤں۔

جیسے ہی جیپ گاؤں سے نکلی،لوگ تین گنا بڑھ گئے۔ عورتیں بھی گھروں سے نکل آئیں اور ولیم کی آمد پر تبصرے ہونے لگے۔ ان کی زندگی کا پہلا موقع تھا کہ وہ کسی انگریز کو دیکھ سکے۔ اس لیے سب بہت پُرجوش اوربھرے بھرے لگ رہے تھے۔ ان کے خیال میں جودھا پور میں ایک انگریز بڑے افسر کا آنا غلام حیدر کے اثر و رسوخ کا نتیجہ تھا۔جس نے لاہور میں رہ کر اپنے تعلقات وائسرائے تک بڑے بڑے افسروں سے پیدا کر لیے تھے۔ ورنہ کہاں جودھا پور اور کہاں انگریز سرکار کا کلکٹر۔

ایک شخص نے کہا،بھائی میراں بخش دیکھا تم نے اپنے غلام حیدر کا زور؟کلکٹر صاحب جودھا پور میں ایسے ہی نہیں آیا۔ غلام حیدر کی مار تو لاہور میں بڑے گھر تک ہے۔

“رشید ماچھی جو گنّے کے چھلکے سے زمین پر لکیریں کھینچ رہا تھا، فوراً اٹھ کھڑا ہو اور بولا،،میاں رنگو‘ میں تو پہلے دن سے ہی سوچے بیٹھا تھا کہ اب سکھڑوں کی خیر نہیں۔ اپنا غلام حیدر شیر ہے شیر۔ انگریز سرکارکا عدل تو اب جودھا پور پہنچے ہی پہنچے۔ سنا ہے تھانیدار کو حکم مل گیاہے کہ سودھا سنگھ کو ہتھ کڑی لگا کے گھسیٹتا ہوا تھانے لے کے آئے۔

’میراں بخش جو چارپائی پر بیٹھ کر حقے کے کئی کش لگا چکا تھا،بڑی سوچ بچار کے بعد مخاطب ہوا‘ بیلیو تم خود ہی سوچو، غلام حیدر کس باپ کا سپوت ہے۔ کیا تم بھول گئے ہو جب اُس نے کہا تھا کہ سودھا سنگھ کو اس ناحق خون کا حساب دینا پڑے گا۔

اس کے بعد ایک دو چار پائیاں اور بھی نکل آئیں۔سردی کی دھوپ سینکنے کے لیے اُن کے پاس یہ ایک ایسا موضوع ہاتھ آگیا جس کا ایک سرا وائسرائے اور دوسرا جودھا پور سے ملتا تھا۔ اُن کے لیے چوری چکاری اور دیسی قصے کہانیاں اچانک دقیانوسی ہو گئیں۔ چراغ دین کا قتل اور مونگی کی فصل ایسا عظیم واقعہ تھا جس نے انگریز سرکار اور غلام حیدر کی طاقت کے درمیان حدِ فاصل کو ختم کر دیا تھا۔یہ تو سب کو پہلے سے ہی پتا تھا کہ غلام حیدر بڑے شہروں میں بڑے بڑے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے جہاں اور بھی بڑے راج والے اور پُلس والے کپتان جمع ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا تھا، غلام حیدر جب تمھیں کوئی مصیبت پڑے تو ہمیں خبر کر دینا۔ تیرے دشمنوں کو باندھ کر تیرے آگے پھینک دیں گے۔ ایک فوج کے سب سے بڑے افسر کو تو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔جب وہ غلام حیدر کے ساتھ شکار کھیلتے جودھا پور کچھ دیر رُکے تھے۔

ایک بوڑھی خاتون جس کا گھگھرا ایک مرلے کے گھیر میں پھیلا ہوا تھا، آگے بڑھ کر بولی، وے میراں، ہُن تے جودھا پور نُوں ستے خیراں نے۔ ہُن تے غلام حیدر دا سکھ دی سری تے پیر آ گیا اِے۔

جودھا پور والوں کی نظر میں اب غلام حیدر کے ساتھ سودھا سنگھ کا نام لینا بھی غلام حیدر کی توہین تھی۔اُن کی نظر میں اب سودھا سنگھ محض ایک دیسی بدمعاش اور دو ٹکے کا غنڈہ تھا۔ جبکہ غلام حیدر کے تعلقات نئی دلی سے لے کر ملکہ تک پھیلے ہوئے تھے۔ مولوی کرامت بڑی خاموشی سے اُن کی باتیں سنتا رہا۔ اُس نے نہ تو پہلے کبھی غلام حیدر کو دیکھا تھا اور نہ ہی جودھاپور والوں سے کچھ زیادہ واقف تھا۔البتہ اس بات پر دل ہی دل میں خوش تھا کہ اُسے کمشنر صاحب نے تحصیل حاضر ہونے کو کہا ہے۔ اُس نے سوچا، گاؤں والوں کی نسبت وہ اُس سے زیادہ متأثر ہوا تھا۔لوگ اُسے رشک کی نظر سے دیکھ رہے تھے لیکن کسی قسم کا تاثر نہیں دے رہے تھے کہ مولوی کرامت جو دوسرے ضلع کا ہے، کہیں اپنی برتری نہ سمجھ لے اور جو دھا پور والوں کی توہین نہ ہو۔ بہر طور ہر ایک نے آج اپنے کام کو التو ا میں ڈال دیا اور وہاں آکر جم گیا۔ جو صبح سویرے چارہ وغیرہ لینے گئے تھے،وہ بھی لوٹ آئے۔ سردیوں کی اس دھوپ میں بیٹھ کر ولیم کی آمد پر طرح طرح سے خیالات کا اظہار کرنے لگے اور جب انھیں یہ پتا چلا کہ ولیم جودھا پور سے سیدھا جھنڈو والا کی طرف گیا ہے تو ان میں مزید گرم جوشی پیدا ہوئی۔ میراں بخش نے فوراً ایک آدمی کا انتخاب کیا کہ وہ پتہ چلائے، ولیم جھنڈو والا میں سودھا سنگھ سے کیا پوچھ گچھ کرتا ہے۔ اس کام کے لیے رحمت علی چھینبے کا قرعہ نکلا، جسے گھوڑی کے ذریعے جھنڈو والا کی حدود میں چھوڑ کر آنے کا کام الہٰ بخش کو سونپا گیا تاکہ وہ جلدی جھنڈو والا پہنچ جائے۔ اگر حدود میں پہنچ گیا تو آگے گاؤں تک پیدل ایک ہی کلو میٹر طے کرنا پڑتا ہے۔گاؤں تک گھوڑی پر جانے کا مطلب مشکوک ہونے کے سواکچھ نہیں تھا۔ یوں بھی اب یہ کام خطرے سے خالی نہیں تھا کہ دونوں گاؤں کی اب باقاعدہ دشمنی ہو چکی تھی۔

رحمت علی رخصت ہوا تو میراں بخش نے داڑھی کو انگلیوں سے خلال کیا پھر حقے کے دوچار گہرے کش لیے اور سب لوگوں پر بھرپور نظر ڈالی گویا یہ ثابت کر رہا ہو کہ اس کی یہ کارروائی اس قتل میں اہم کام ہو گی اور یہ کام اسی کو سُوجھا ہے۔ اس کے ِاس عمل سے ایک گُونہ مولوی کرامت کی اہمیت میں کمی بھی واقع ہو گئی جو چند لمحے پہلے گاؤں کو احساس کمتری میں مبتلا کیے ہوئے تھی۔

(جاری ہے)